بسم اللہ الرحمن الرحیم
حديث نمبر :20
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی حفظہ اللہ
بتاریخ :09/10/ذو القعدہ 1428 ھ، م 20/19، نومبر 2007م
آداب نماز
عن أبی ھریرة رضی اللہ عنہ قال : سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمیقول : ذا أقیمت الصلاة فلا تأتوھا وأنتم تسعون وأتوھا وأنتم تمشون وعلیکم السکینة فما أدرکتم فصلوا وما فاتکم فأتموا ۔
( صحیح البخاری : ٩٠٨ ، الجمعة ٭ صحیح مسلم : ٦٠٢ ، المساجد)
ترجمہ: حضرت أبوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : جب نماز کی اقامت ہوجائے تو تم لوگ اسکے لئے دوڑتے ہوئے نہ آو، بلکہ عام چال چلتے ہوئے آؤ اور سکینت اختیار کرو ، پھر جو نماز مل جائے اسے پڑھ لو اور تم سے فوت ہوجائے اسے ( بعد میں ) پورا کرلو ۔
تشریح : نماز اسلام کا ایک عظیم رکن ہے جسکی مشروعیت میں بڑی عظیم حکمتیں پوشیدہ ہیں اور یہ حکمتیں اسی وقت پوری ہوسکتی ہیں جبکہ انہیں خشوع وخضوع اور حضور قلب سے ادا کیا جائے ، اس لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اسباب کے استعمال کا حکم دیا ہے جو خشوع وخضوع میں معاون ثابت ہوں اور ایسے تمام اسباب سے منع کیا ہے جو خشوع وخضوع میں رکاوٹ بنتے ہوں ، نمازی کے خشوع وخضوع میں جو چیزیں خلل انداز ہونے والی ہیں انہیں میں سے ایک چیز اوپر ذکر کی گئی حدیث میں بیان ہوئی ہے ، یعنی جب بھی کوئی نمازی نماز کیلئے مسجد کا رخ کرےتو سکینت ووقار کو اختیار کرنا چاہئے ، نمازی کی کیفیت یہ ہونی چاہئے کہ جیسے وہ کسی بڑی اہم مجلس میں حاضر ہونے جارہا ہے ،ایسا محسوس ہو کہ وہ کسی بڑی ہی عظیم شخصیت سے ملاقات کیلئے جارہا ہے ، لیکن بہت سے لوگ جب نماز کیلئے مسجد کی طرف نکلتے ہیں تو انکے بازار کی طرف نکلنے ، کسی کھیل تماشےکی مجلس کی طرف نکلنے اور نماز جیسی عظیم عبادت کی طرف نکلنے، مسجد جیسی مبارک ولائق احترام جگہ کی طرف نکلنے میں کوئی فرق نہیں ہوتا، خاص کر جب دورہی سے اقامت کی آواز سن لیتے ہیں یا مسجد کے قریب پہنچنے کے بعد یہ محسوس کرتے ہیں کہ امام صاحب رکوع کے قریب ہیں یا رکوع کیلئے تکبیر کہہ دئے ہیں تو انکی حرکت میں مزید تیزی آجاتی ہے، بلکہ بہت سے لوگ مکمل دوڑ لگادیتے ہیں، جس سے جہاں ایک طرف نماز جیسی عبادت اور مسجد جیسی مبارک جگہ کی بے حرمتی ہوتی ہے وہیں دوسری طرف انکی سانس اوپر نیچے ہوتی رہتی ہے جس سے انکا خشوع وخضوع جاتا رہتا ہے ، اور تیسری طرف نمازیوں کی نماز میں خلل واقع ہوتا ہے ،جس سے اللہ کی عبادت کرنے والوں کو تکلیف پہنچتی ہے ۔
نیز دوڑ کر آنے والا یہ بھی سوچے کہ دوڑ کر جہاں وہ مذکورہ خرابیوں سے دوچار ہورہا ہے وہیں آثار قدم پر ملنے والے اجر سے بھی محروم ہورہا ہے کہ وہ جس قدر تیز چلے گا مسجد تک پہنچنے میں اتنے ہی قدم کم ہونگے اور جس قدر آہستہ چلے گا مسجد تک پہنچنے میں اتنےہی قدم زیادہ لگیں گے اور یہ بات مسلّم ہے کہ نماز کیلئے جو بندہ نکلتا ہے تو جب وہ اپنا قدم اٹھاتا ہے تو اس پر اسے ایک نیکی ملتی ہے اور جب وہی قدم نیچے رکھتا ہے تو اس پر اسکا ایک گناہ مٹادیا جاتا ہے ، چنانچہ سنن أبوداؤد میں ایک انصاری صحابی سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
جب کوئی شخص وضو کرتاہے او راچھی طرح سے وضو کرتا ہے پھر نماز کیلئے نکلتاہے تو اسکے دائیں قدم اٹھا نے پر اللہ تعالی ایک نیکی لکھ دیتا ہے ، اور بائیں قدم رکھنے پر اسکا ایک گناہ مٹا دیتا ہے اسلئے تم میں سے جو چاہے اپنے قدموں کو نزدیک نزدیک رکھے اور جو چاہے دوردور رکھے پھر جب مسجد میں آکر جماعت سے نماز پڑھتا ہے تو اسے معاف کردیا جاتا ہے او راگر مسجد میں پہنچا اور نماز کا بعض حصہ لوگوں نے پڑھ لیا ہے اور کچھ حصہ باقی ہے تو اسے جو نماز ملی وہ پڑھ لیا او رجو فوت ہوگئی اسے پورا کرلیا تو اسے بھی یہی اجر ملنے والا ہے ، اوراگر ( مسجد میں پہنچا لوگ نماز سے فارغ ہوچکے ہیں تو اس نے اپنی نماز ( اکیلے ہی ) پڑھ لی تواسے بھی یہی اجر ملنے والا ہے ۔ یعنی مسجد کی طرف آنے والا کسی بھی صورت میں خسارے میں نہیں ہے بلکہ اگر اسکی نیت درست ہے اور اس نے آنے میں کوتاہی سے کام نہیں لیا تواسے جماعت میں حاضری کا پورا اجر ملنے والا ہے ،خواہ اسے پوری نماز ملے ، آدھی ملے یا کچھ بھی نہ ملے ، اللہ تعالی اسے اپنی رحمت سے نا امید نہیں کرتا ۔
فوائد :
(١) نماز کی اقامت سن لینے کے بعد دوڑنا یا ایسا تیز چلنا جس سے سانس اوپر نیچے ہونے لگے شریعت کی نظر میں نا پسندیدہ فعل ہے ۔
(٢) اگر کوئی رکعت امام کے ساتھ چھوٹ جائے تو امام کے سلام پھیرنے کے بعد اسے پورا کرنا چاہئے ۔
(٣) امام کے ساتھ ملنے والی رکعت نمازی کی پہلی رکعت ہوگی ، یعنی اگر ظہر کی نماز میں کسی کو امام کے ساتھ تین رکعت ملتی ہے توامام کے سلام پھیرنے کے بعد وہ اپنی ایک رکعت پوری کریگا جو اسکی چوتھی رکعت ہوگی ،یعنی اس میں صرف سورئہ فاتحہ پڑھے گا۔
(٤) اگر کسی شخض کو مغرب کی ایک رکعت امام کے ساتھ ملتی ہے تواسکی پہلی رکعت وہی ہے جو اس نے امام کے ساتھ پڑھی ہے ،لہذا امام کے سلام پھیرنے کے بعد وہ شخص اٹھ کر ایک رکعت پڑھ کر بیٹھ جائے گاجس میں وہ سورئہ فاتحہ کے ساتھ کوئی اور سورت بھی پڑھےگا پھر تشہد کے بعد اٹھکر ایک رکعت اور پڑھے گا ،جس میں صرف سورئہ فاتحہ پر اکتفا کریگا ۔
ختم شدہ