بسم اللہ الرحمن الرحیم
آپ حج کیسے کریں
قسط نمبر :2/2
از قلم : شیخ مقصود الحسن فیضی حفظہ اللہ
{ناشر:مکتب توعیۃ الجالیات الغاط: www.islamidawah.com }
پچھلی قسط کے آخری سطور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اور حدیث میں ہے طواف کرتے وقت بندہ جو قدم بھی اٹھا تا اور رکھتا ہے تو ہر قدم پردس نیکاں ملتی ہیں ،دس گناہ معاف ہوتے ہیں اور دس درجے بلند ہوتے ہیں ۔
{مسند احمد }
صفا ومروہ کی سعی :
صفا خانہ کعبہ سے جنوب شرق میں ہے اور مروہ شمال میں ۔
1 :جب صفا پہاڑی دیکھائی دےتو یہ آیت پڑھے : (إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ ) اور کہے « أَبْدَأُ بِمَا بَدَأَ اللَّهُ بِهِ » ۔{مسلم} یعنی میں بھی اپنی سعی کی ابتدا اس سے کرتا ہو ں جسکا ذکر اللہ تعالی نے پہلے کیا ہے ۔
2 : صفا پرچڑھ جائے اور کعبہ کی طرف رخ کرے
3 : ہاتھوں کو اٹھاکر :اللہ اکبر کہے اور یہ ذکر پڑھے ۔
« لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كَلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ أَنْجَزَ وَعْدَهُ وَنَصَرَ عَبْدَهُ وَهَزَمَ الأَحْزَابَ وَحْدَهُ ».
{مسلم}
4 : پھر دعا کرے اسکے بعد پھر وہی ذکر پڑھے اور دعا کرے اس طرح تین بار کرے ۔
5 : دعا سے فارغ ہوکر دائیں جانب سے مروہ کی طرف چلے ۔
6 : جب راستے میں سبزنشان نظر آجائے تو ہلکی سی دوڑلگائے یہاں تک کہ دوسرے سبز نشان تک پہنچ جائے ۔
7 : اسکے بعد ہلکی چال چلتا ہوا مروہ تک پہنچ جائے {سعی کے دوران کوئی خاص ذکر و دعا اللہ کے رسول سے ثابت نہیں ہے البتہ عبد اللہ بن مسعودسے ثابت ہے کہ وہ یہ دعا کثرت سے پڑھتے}:” رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وتجاوز عما تعلم انك َأَنْتَ الْأَعَزُّ الْأَكْرَمُ ”
{اخبار مکہ للفاکہی}
8 : مروہ پرچڑھنے کے بعد وہی ذکر ودعا کرے جو صفا پر کیا تھا البتہ آیت کا ٹکڑا نہ پڑھے گا۔
9 : اسطرح ایک شوط {چکر} پورا ہوگیا۔
10 : اسی طرح جب صفا پر دوبارہ واپس آئے تو دوسرا چکر پورا ہو گیا ۔
11 : اسطرح آتے جاتے مروہ پر سات چکر پورے ہوجائیں گے ۔
12 : اب عمرہ کرنے والا اور حج تمتع کرنے والا اپنا بال کٹا کر یا چھلا کر حلال ہو جائے ۔ اگر حج میں کم ہی وقت ہے جیسے آج کل تو قصر ہی افضل ہے ۔
13 : اب اسکے لئے ہر وہ چیز حلال ہو گئی جو حالت احرام میں حرام تھی ۔
اس سعی کی بڑی فضیلت وارد ہے ارشاد نبوی ہے :وأما طوافك بالصفا والمروة بعد ذلك كعتق سبعين رقبة ۔۔۔۔۔ اور حج میں تمھارا صفا و مروہ کی سعی کرنا ستر غلام آزاد کرنے کے برابر ہے ۔
{ الطبرانی الکبیر والبزار عن ابن عمر }
حج کیلئے احرام و اعمال حج :
آٹھویں ذی الحجہ کے کام اور نویں ذی الحجہ کے کام
1 : جہاں ٹھرے ہوئے ہیں وہیں سے احرام باندھنا اور تلبیہ پکارنا ۔{اس احرام کے وقت بھی وہی کام مسنون ہیں جو میقات پر احرام باندھتے وقت مسنون ہیں جیسے غسل کرنا خوشبو لگا نا وغیرہ} ۔
2 : احرام باندھ کر سیدھے منی جائے ،
3 : منی میں پانچ وقت نماز پڑھنا اور اس مدت میں منی ہی ٹھہرے رہنامسنون ہے ، یعنی ظہر ، عصر ، مغرب ، عشا اور نویں تاریخ کی فجر ۔
4 : یہ نمازیں اپنے اپنے وقت پر پڑھی جائیں گی اور رچار رکعت والی نمازیںقصر کر کے پڑھی جائیں گی ، یہ حکم باہر سے آنے والوں اور مکہ مکرمہ میںمقیم سبھی کیلئے ہے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اہل مکہ نے بھی حج کیا تھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو پوری نماز پڑھنے کا حکم نہیں دیا ۔
نوٹ : واضح رہے کہ منی میں نویں ذی الحجہ کی رات کا قیام واجب نہیں ہےالبتہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے لہذا اسے چھوڑنا نہیں چاہئے ۔
5 : نویں تا ریخ کی صبح طلوع شمس کے بعد عرفہ کیلئے روانہ ہو ۔
{بعض علماء نے اس دن غسل کر نا مستحب لکھا ہے کیونکہ حضرت علی سےایسا ہیثابت ہے }
6 : بہتر یہ ہے کہ اگر گنجائش ہو تو میدان عرفات میں جانے سےقبل مسجد عرفہ میں جائے :ان تمام اوقات میں برابر تلبیہ پڑھتا رہے ۔
7 : مسجد میں امام کا خطبہ سنے اور ظہر وعصر کی نماز قصر وجمع کے ساتھ ظہر کے وقت میں پڑھے ۔
8 : اگر مسجد میں جانا مشکل ہو تو اپنے خیمے میں جماعت کے ساتھ ظہر و عصر کی نماز قصر وجمع کے ساتھ پڑھے ، اگر ہو سگے تو وہ تمام لوگ جو مسجد میں نہ جاسکیں اور خطیب کی آواز خیمے تک نہ پہنچ رہی ہو تو ریڈیووغیرہ کے ذریعہ اسکا خطبہ سنیں ۔
9 : نماز ظہر وعصر سے فارغ ہو جانے کے بعد کچھ کھا پی لے ۔
10 : ضروریات سے فارغ ہوکر ذکر و اذکار اور دعا میں مشغول ہوجائے ۔
11 : یہ دن بہت ہی مبارک اور سال کا سب سے افضل دن ہے اسلئے اسے غفلت اور لہو ولعب میں نہیں گزار نا چاہئے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد ہے : خیر الدعا ء یوم عرفہ وخیر ماقلت انا والنبیون من قبلی : لاالہ الااللہ وحدہ لاشریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شیئ قدیر ۔
{ الترمذی 3585عن عبد اللہ بن عمرو }
سب سے بہتر ین دعا عرفہ کے دن کی دعا ہے اور سب سے بہتر کلام جو ہم نے اور ہم سے قبل نبیوں نے کہا ہے وہ لاالہ الااللہ وحدہ لاشریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شیئ قدیر ہے ۔
12 : عرفہ کے میدان میں کہیں بھی ٹھہرا جا سکتا ہے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جبل رحمت کے پاس ٹھرے تھے اور فرمایا : وقفت ھھنا وعرفۃ کلہا موقف ۔
{مسلم 1218 ، ابوداود ،النسائی عن جابر }
میں یہاں ٹھہرا ہو ں اور پورا عرفہ ٹھہرنے کی جگہ ہے ۔
13 : مسجد عرفات کا قبلے کی طرف کا بہت بڑا حصہ میدان عرفات سے خارج ہے اسلئے اگر کوئی شخص مسجد میں ٹھہر تا ہے یا مسجد کے مغربی اور شمالی علاقے میں ٹھہر تا ہے تو اسکا حج صحیح نہیں ہے ۔
14 : جبل عرفات جسے جبل رحمت کہتے ہیں اس پر چڑھنا ، وہاں نماز پڑھنا وغیرہ بدعت ہے ۔
15 : جب سورج ڈوب جائے تو مغرب کی نماز پڑھے بغیر عرفہ سے واپس ہو ۔
16 : عرفات سے رخصت ہو کر مزدلفہ میں ٹھہرے ۔
17 : واضح رہے کہ مزدلفہ میں ٹھہرنا واجب ہے حتی کہ بعض علماء نے اسے حج کا رکن کہا ہے ،لہذ اسے دھیان میں رکھنا چاہئے ۔
18 : مزدلفہ پہنچ کر سب سے پہلا کام مغرب اور عشاکی نماز ، جمع وقصر سے پڑھنا ہے {بطن محسر کے علاوہ پورا مزدلفہ ٹھہرنے کی جگہ ہے }
19 : ضرورت کے مطابق کچھ کھا پی کر اسی میدان میں آرام کریں اس رات اللہ کے رسوال صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی عبادت ثابت نہیں ہے ۔
دسویں ذی الحجہ کے کام :
1 : فجر کی نماز بھور میں پڑھی جائے ، اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلمنے اس دن نماز فجر عام دنوں کے مقابلہ میں پہلے پڑھی تھی ،
{بخاری 1682 }
2 : نماز کے بعد قبلہ رخ ہو کر تسبیح و تہلیل اور دعامیں دیر تک مشغول رہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مشعر حرام کے پاس جہاں آج مسجد ہے دیر تک کھڑے دعا وغیرہ میں مشغول رہے ۔
{مسلم 218 }
3 : حتی کہ بالکل اجالا ہو جائے ۔
4 : جب سورج نکلنے کے قریب ہو تو سورج نکلنے سے قبل منی کیلئے روانہ ہو {جنکے ساتھ عورتیں اور بچے ہوں وہ آدھی رات کے بعد تقریبا ڈیڑھ یا دو بجے مزدلفہ سے منی کیلئے رخصت ہو سکتے ہیں }
5 : رخصتی میں جلد بازی ، تیز رفتاری اور بھیڑ بھاڑ قطعا مناسب نہیں ہے بلکہ تلبیہ اور ذکر الہی میں مشغو رہے ، فدفع قبل ان تطلع الشمس وعلیہم السکینہ
{احمد ،ابوداود عن جابر ،}
6 : منی پہنچ کر اس دن حاجی کو بہت سے کام کرنے ہوتے ہیں اس لئے اس دن کا نام” یوم الحج الاکبر” رکھا گیا ہے
ا : جمرہٴ عقبی کو کنکری مار نا یہ منی کی طرف سب سے آخری جمرہ اور مکہ کی طرف سے سب سے پہلا جمرہ ہے ،
ب : قربانی کرنا [اگر بینک میں پیسہ جمع کردیا ہے تو اس کام سے حاجی کو فرصت ہے ]۔
ج : سر منڈانا یا بال کو چھوٹے کرانا ۔ بشرطیکہ پورے سر کے بال چھوٹے کرائے جائیں ، منڈانا افضل ہے کیونکہ اولا اللہ تعالی نے قرآن مجید میں چھلانے کا ذکر پہلے کیا ہے ، ثانیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل حلق رہا ہے ، ثالثا آپ نے منڈانے والوں کیلئے تین بار دعا کی ہے ۔
د : طواف افاضہ کرنا ، اور متمتع کےلئے صفا اورمروہ کی سعی کرنا ۔
7 : یہ کام جس ترتیب سے لکھے گئے ہیں اس ترتیب سے سنت ہیں البتہ ضرورت وحاجت کے پیش نظر ان اعمال کو آگے پیچھے کرلینے میں کوئی حرج نہیں ہے ،
{حجۃ النبی للالبانی 86،85 ومثلہ عن ابن عمرو فی المتفق علیہ و عند ابی داود من حدیث اسامۃ بن شریک : ابو داود 2015 }
8 : کنکڑی مارنے کیلئے کنکڑیاں منی اور مزدلفہ میں کہیں سے بھی لی جاسکتیں ہیں ۔
9 : ان اعمال میں صرف کنکڑیاں مارنا ایک ایسا عمل ہے جسے یوم النحر کوشام ہونے سے قبل یا بدرجہ مجبوری رات کو بھی مارسکتے ہیں ، باقی دوسرے اعمال ایام تشریق میں سے کسی بھی دن کئے جا سکتے ہیں ۔
10 : دسویں ذ ی الحجہ کو جمرۃ عقبہ کے پاس پہنچے تو تلبیہ کہنا بند کردے ، اب اسکے بعد سے تلبیہ کہنا سنت نہیں ہے بلکہ تکبیر وتہلیل کہنا مشروع ہے ۔
11 : کنکڑی کا دھونا اور یہ سمجھنا کہ کنکڑیاں مزدلفہ سے ہی لینا سنت ہے ، صحیح نہیں ہے بلکہ ایسا عقیدہ بدعت ہے ۔
12 : ہر کنکڑی الگ الگ ماری جائے اور مارتے وقت اللہ اکبر کہاجا تا ہے {بہتر یہ ہے کہ کنکڑی مارنے کیلئے اسطرح کھڑا ہو کہ خانہ کعبہ بائیں طرف ہو اور منی دائیں طرف }۔
13 : ضروری ہے کہ کنکڑی حوض میں پڑے ، اگر ستون سے لگ باہر آگئی تو وہ کا فی نہیں ہے ۔
14 : دسویں ذی الحجہ کو کنکڑی مارنے ، سرچھلانے اور طواف افاضہ میں کوئی دوکام کرلینے کے بعد تحلل اول حاصل ہو جائیگا اور تینوں کام کرلینے کے بعد حاجی مکمل طور پر حلال ہو جائیگا ۔
15 : حاجی کیلئے سنت ہے کہ ایام تشریق میں دن ورات منی میں گزارے ۔
16 : اگر یہ کام مشکل ہو تو کم ازکم ایام تشریق کی راتیں یا ان کا اکثر حصہ منی میں گزارنا واجب ہے ۔
ایام تشریق کے کام :
1 : منی میں رات گزار نا یا رات کا اکثر حصہ گزار نا ، اگر کہیں جگہ نہ مل سکے تو منی سے قریب تر جگہ میں رات گزار ے ۔
2 : ایام منی میں کنکڑی مارنا ، واضح رہے کہ ایام تشریق میں تینوں جمرات کو کنکڑیاں ماری جائیں گی ۔
3 : ایام تشریق میں کنکڑی مارنے کا وقت زوال کےبعد سے شرع ہوتا ہے اور غروب آفتاب بلکہ دوسرے دن فجر تک رہتا ہے ۔
4 : سب سے پہلئے جمرۃ صغری { جو مسجد خیف کے قریب ہے } کو سات کنکڑی ایک ایک کر کے مارے اسطرح کہ شمال کی طرف سے آئے منی بائیں طرف ہو بیت اللہ شریف دائیں طرف اور کنکڑی مارتے ہوئے کہے "اللہ اکبر ”
5 : کو شش ہو کہ کنکڑی حوض میں گرے ۔
6 : پھر دائیں طرف ہٹ کر قبلہ رخ ہو کر دیر تک دعا میں مشغول رہے ۔
7 : پھر جمرۃ وسطی کے پاس جائے اور اسے بھی ایک ایک کر کے سات کنکریاں مارے ، اسطرح کہ جنوب کی طرف سے آئے ، منی دائیں جانب ہو اور بیت اللہ بائیں جانب اور کنکڑی مارتے ہوئے "اللہ اکبر ” کہے ۔
8 : پھر کچھ آگے بڑھ کر جمرۃ وسطی کو اپنے دائیں کرکے قبلہ رخ ہوکر دیرتک دعا میں مشغول رہے ۔
9 :پھر جمرۃ کبری کے پاس آئے اور جنوب کی جانب سے اسے بھی ایک ایک کر کے سات کنکریاں مارے ۔
10 : جمرۃ عقبہ کو کنکریاں مارنے کے بعد وہاں دعا وغیرہ کیلئے ٹھرنا نہیں ہے بلکہ واپس ہو جائے ۔
11 : کنکڑیا مارتے ہوئے یہ احساس رہنا چاہئے کہ ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اداکر رہے ہیں نہ تو شیطان کو کنکریاں مارر ہے ہیں اور نہ ہی شیطان وہاں موجود ہوتا ہے بلکہ خشوع وخضوع اور سکینت وقارکو مدنظر رکھے ۔
12 : یہی طریقہ بارہویں دن یعنی ایام تشریق کے دوسرے دن بھی ہونا چاہئے ۔
13 : ضروری ہے کنکڑی مارنے میں ترتیب کو مدنظر رکھا جائے ۔
14 : کسی اور کی طرف سے {بشرطیکہ وہ شخص خود کنکری مارنے سے عاجز ہو تو} کنکری ماری جاسکتی ہیں لیکن دوشرطوں کے ساتھ {1} کنکڑی مارنے والا یعنی وکیل اس سال حج کررہا ہو ۔
{2} پہلے اپنی طرف سی کنکریاں مارے پھر اپنے موکل کی طرف سےاسطرح کہ پہلے اپنی طرف سے جمرۃ اولی کوسات عدد کنکڑی مارے یعنی سات عدد مارے پھر اسی جگہ سے اپنے موکل کی طرف سے مارے ،یہ ضروری نہیں کہ اپنی طرف سے مکمل کرے پھر نئے سرےسے موکل کی طرف سے کنکڑی مارنا شروع کرے
{اللجنۃ الدائمۃ ص3592} ۔
حاجی کا آخری کا م :
1 : بارہویں تاریخ کو کنکڑی مار کر اگر سورج ڈوبنے سے قبل منی سے نکل جائے تو تیسرے یا تیرہویں رات منی میں گزار نا ضروری نہیں ہے ۔
2 : اگر بارہویں ذی الحجہ کو سورج غروب ہو گیا اور منی سے نہیں نکلا تو تیسری رات گزارنا اور تیسرے دن کنکریاں مارنا واجب ہے ۔
3 : اگر نکلنے کیلئے تیار تھا لیکن بھیڑ کی وجہ سے یا ساتھیوں کے انتظا ر میں یا انکے بچھڑجانے کی وجہ سے سورج غروب ہونے سے قبل نہیں نکل سکا تو سورج ڈوبنے کے بعد نکل سکتا ہے ، ایسی صورت میں تیرہویں رات گزارنا واجب نہیں ہے ۔
4 : مکہ چھوڑنے سے قبل آخری طواف اور اسکے بعد دورکعت نماز جسے طواف وداع کہتے ہیں کرنا واجب ہے ۔
5 : ضروری ہے کہ یہ طواف سب سے آخری کام ہو ، اس طواف کے بعد کسی اور کام میں مشغول ہونا جائز نہیں ہے ۔
اللہ تعالی مسلمانوں کو سنت کے مطابق حج وعمرہ کی توفیق بخشے اور اسکے حج و عمرہ کو شرف قبولیت بخشے [آمین ]
{ناشر:مکتب توعیۃ الجالیات الغاط: www.islamidawah.com }
ختم شدہ