*آ ٹھواں پارہ(و لو اننا)*

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سلسلہ خلاصہ معانی قرآن مجید
از قلم : شیخ مقصود الحسن فیضی حفظہ اللہ

*آ ٹھواں پارہ(و لو اننا)*

آٹھویں  پارے کے دو حصے ہیں؛پہلا حصہ سورہ  انعام   کی آیت111تا165   پر مشتمل ہے،اور دوسرا حصہ سورہ اعراف  کی آیت1 تا 87پر مشتمل ہے۔

اس پارے کی ابتدائی آیات میں اسی مضمون کی تکمیل ہے جو پچھلے پارے میں بیان ہورہا تھا۔ جس میں اللہ تعالی نے کائناتی حقائق  سے اپنی توحید پر استدلال فرمایا تھا  اور نبی ﷺ کی رسالت کی حقانیت کی بھی وضاحت فرمائی تھی ۔ان حقائق کے باوجود مشرکین مزید معجزات او ر نشانیوں کا مطالبہ کیا کرتے تھے اور قسمیں کھا کھا کر وعدے کرتے تھے  کہ ہم ایمان لے آئیں گے۔اس پارے کی ابتدائی آیات میں اللہ تعالی نے مسلمانوں اور خصوصا نبی کریم ﷺ کو کئی اعتبار سے تسلی دلائی ہے۔

اولا—اللہ تعالی نے فرمایا:مشرکین مکہ  کا یہ سارے مطالبات کرنے کا مقصد چونکہ  صرف ہٹ دھرمی ہے، حق کی تلاش نہیں ہے۔ لہذا اگر ہم بطور دلیل فرشتے نازل کردیں، جو آکر آپ کی تصدیق کریں ،مُردوں کو زندہ کردیں تاکہ وہ ان سے باتیں کریں، حتی کہ ساری کائنات  آکر ان کے سامنے آپ کی صداقت کی گواہی دے، تب بھی کافرآپ  پر ایمان نہیں لائیں گے۔ اس لئے ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیں۔111

نیز نبیِ کریمﷺ کو تسلی کہ  اللہ تبارک وتعالی کی یہ سنت رہی ہے کہ جب بھی کوئی حق کی آواز اٹھی ہے تو  اسے انسانی وجناتی شیطانوں ککی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ تعالی ان شیطانی مخالفت کو باطل کر دینے پر قادر نہیں ہے ، بلکہ اس سے اہلِ حق کی آزامائش اور اہلِ باطل کو ڈھیل ہے۔

ثانیا–  کیااللہ تعالی سے بڑھ کر فیصلہ کرنے والا بھی کوئی ہوگا، جس نے ایسی کتاب نازل فرمائی  جس کتاب میں بہت سی ایسی خصوصیات ہیں جو دنیا کی کسی اور کتاب میں نہیں پائی جاتیں، جیسے:

یہ کتاب اللہ تعالی کی طرف سے نازل کردہ   ہے، جو علم وحکمت کا مخزن ہے، اور اس بات کو یہود و نصاری جیسے مخالفین بھی تسلیم کرتے ہیں۔          آیت: 114
قرآن کی ہر بات مفصل اور واضح ہے۔
اس کے احکام عدل پر او راس کے فرامین حق پر مبنی ہیں۔ اور اس میں کسی قسم کی تبدیلی کی ضرورت  نہیں ہے۔ آیت:115
لہذا آپ ﷺ حق پر جمے رہیں اور دل برداشتہ نہ ہوں ،خواہ یہ لوگ ایمان قبول کریں یا نہ کریں۔117          گویا اب فیصلہ اللہ کی عدالت میں ہے۔
اہل ایمان کی  علامت یہ ہے کہ ان کا سینہ کشادہ ہوتا ہے او رانہیں شرح صدر حاصل ہوتا ہے جس سے انہیں دین پر چلنے کا حوصلہ ملتا ہے اور کافر کو اللہ تعالی اس چیز سے محروم کر دیتا ہے۔آیت:125
آیت 118تا 121میں      بعض ایسے فقہی مسائل بیان ہوئے ہیں جن کا تعلق عقیدے سے بھی ہے۔
مسلمانوں کا ذبیحہ حلال ہے ، بشرطیکہ اللہ کا نام لے کر ذبح کیا گیا ہو۔
ذبح کرتے اور کھاتے  پیتے وقت اللہ کا نام لینا۔
اللہ کے احکام پر ایمان لانے کا تقاضا ہے کہ اللہ کی اطاعت کی جائے۔
جس جانور پر اللہ کا نام نہ لیا جائے ، یا اسے استھانوں پر ذبح کیا گیا ہو،وہ حرام ہے۔ کیونکہ یہ فسق اور کھلی نافرمانی ہے۔
سخت ضرورت کے تحت بعض حرام چیزوں کا استعمال حلال ہو تا ہے۔
مُردار اور غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا ہوا جانور حرام ہے، لہذا اس سے متعلق مشرکین کی حجتوں اور کٹ حجتی کی طرف توجہ نہ دی جائے۔
معصیت کا ارتکاب اللہ کی سزا کا مستحق ٹھہراتا ہے۔
جو شخص اللہ تعالی کی حرام کردہ چیز لو حلال کرے ، یا اللہ کی حلال کردہ چیز کو حرام ٹھہرائے، وہ کافر ومشرک ہے۔ التفسیر المنیر
اسی ضمن میں مسلمانوں کو کچھ اہم نصیحتیں  کرنے کے ساتھ ساتھ  بہت سی اہم باتوں پر تنبیہ کی گئی ہیں، جیسے:

1)   دین پر اعتراض کرنے والوں  کی وجہ سے دین کے بارے میں  شبہہ پڑنا، یا ان کے خوف سے عمل چھوڑ دینا قطعا جائز نہیں ہے۔بلکہ یہ شرک ہے۔آیت :121

2)  ظاہر و پوشیدہ ہر قسم کی نافرمانی کو ترک کردو ۔کیونکہ حلال و حرام صرف کھانے پینے تک محدود نہیں ہے۔آیت : 120

3)  اللہ تعالی پر ایمان لانے والوں اور اس کے ساتھ کفر کرنے والوں کے مابین فرق واضح کیا ہے ۔ ایمان گویا ایک روشنی اور زندگی ہے ، جبکہ کفر کی مثال تاریکی اور موت کی ہے۔122

4)  -ہر زمانے میں رسول کے مخالفین رہے ہیں اور شیطان کی پیروی میں پڑ کر رسولوں کی مخالفت اور ان پر اعتراض کرتے رہے ہیں۔آیت:123، 124

آیت 126تا135میں اللہ تعالی نے رسولوں کی تعلیم قبول کرنے والوں او راس سے منہ موڑنے والوں کا انجام بیان ہوا ہے، قبول کرنے والوں کے لئے دار السلام یعنی جنت ہے  ، جبکہ  اعراض کرنے والوں کو سخت حساب کا سامنا ہے۔ آیت: 127
نیز یہ بھی واضح کیاگیا ہے کہ جنوں اور انسانوں میں سے  جو لوگ گمراہی کے راستے پر چل رہے ہیں ان کا انجام بہت برا ہونے والا ہے،حتی کہ وہ قیامت کے دن خود ایک دوسرے کے خلاف ہو جائیں  گے اور ایک دوسرے پر دعوے  دائر کریں گے۔آیت:128
اس کےساتھ ساتھ یہ بھی ذکر ہوا کہ  جن ہوں یا انسان، اللہ نے ہر ایک کی ہدایت کے لئے  اور ان پر اتمام حجت کے لئے ان  کے پاس اپنے رسول بھیجے ۔آیت:130
اور اللہ تعالی کی یہ سنت ثابتہ رہی ہے کہ پہلے وہ لوگوں کو متنبہ کرتا ہے،ان پرحجت قائم کرتا ہے اور خواب غفلت سے بیدار کرنے لے لئے رسولوں اور مصلحین کو بھیجتاہے۔ پھر اگر عبرت نہیں لیتے توآخر میں  ان پر عذاب نازل کرتا ہے۔آیت:131
آیت 133تا135 کا انداز  بہت ہی زور دار اور دھمکانے والا ہے  کہ اےمکہ کے لوگو!  اگرتم  ایمان نہیں لاتے  تو کچھ بعید نہیں کہ اللہ تمہیں ہلاک کردے اور کسی دوسری کسی قوم کو لے آئے ۔   یاد رکھو! جب اللہ کا عذاب آپڑے گا تو اسے دور کرنے کی طاقت تمہارے پاس نہ ہوگی    ۔
آیت 136تا140میں عرب جاہلیت کی احمقانہ رواج اور ان کی گمراہی کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما    کا بیان ہے کہ جب تم  عرب کی جہالتوں او ر حماقتوں کو دیکھنا چاہو  تو سورۃ الانعام کی آیت 135 کے بعد (والی آیات )پڑھو [1]۔
ان آیات میں ان کی جن بعض جہالتوں کا ذکر ہوا ہے وہ یہ ہیں:

1)    وہ زمین کی پیداوار اور چوپائیوں میں سے ایک حصہ اللہ کے لئے رکھتے  اور دوسرا حصہ اپنے باطل معبودوں کے لئے ۔ پھراگر اللہ کے حصے میں کمی ہو جاتی تو بتوں کے حصے میں سے اللہ کے لئےنہیں لیتے تھے،اور اگر بتوں کا حصہ کم پڑ جاتا تو بتوں کے حصے کی کمی  کواللہ کے حصے میں سے لے کر پورا کیا کرتے تھے۔ آیت، 136

2)   دوسری جہالت یہ تھی کہ وہ اپنی اولاد کو اپنے بتوں کی بھینٹ چڑھاتے تھے۔ آیت:138

3)  تیسری جہالت یہ تھی کہ وہ بعض جانوروں اور کھیتوں کی پیداوارکا استعمال لوگوں کے لئے ممنوع قرار دیتے تھے ، صرف بتوں کے مجاوروں اور خادموں کو اس  کے استعمال کی اجازت ہوتی تھی۔

4)  ایک چوتھی جہالت یہ بھی تھی کہ بعض جانوروں کو بتوں کے نام چھوڑ دیتے اور ان سے باربرداری وغیرہ کا کام نہ لیتے۔

5)  ایک پانچوی حماقت یہ تھی کہ بعض جانوروں کو ذبح کرتے وقت صرف اپنے بتوں کا نام لیتے اور اللہ کا نام لے کے ذبح نہ کرتے۔ آیت: 138

6)     ایک چھٹی جہالت یہ تھی کہ وہ اپنے بتوں کے نام چھوڑے ہوئے بعض جانوروں سے پیدا ہونے والے بچے اور اس جانور کے دودھ سے  اپنے مَردوں کو فائدہ اٹھانے کا حق دیتے، مگر عورتوں  کواس سے محروم رکھتے تھے ۔لیکن اگر  جانور کے پیٹ سے مردہ بچہ پیدا ہو تو اس سے فائدہ اٹھانے میں عورتوں کو بھی شریک کر لیتے۔

اس  موضوع  کی خاتمے پر    اس حرکت کو  احمقانہ اور جاہلانہ عمل کہکرمشرکین کی  مذمت  کی  گئی ہے ۔ جو قابلِ تدبر ہے[2]۔

٭ اللہ تعالی نے ان کی یہ جہالتیں بیان کرنے کے بعد یہ وضاحت فرما دی کہ  مختلف قسم کے پھلوں،کھیتیوں کو پیدا کرنے والا صرف اللہ تعالی ہی ہے ۔آیت:141

٭ اسی طرح  مختلف قسم کے جانوروں کو پیدا کرنے والا بھی صرف اللہ تعالی ہی ہے۔ آیت:142

٭ لہذا    انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ  اس کی توحید بجا لائی جائے اور ان جانوروں کو  صرف اللہ ہی کے لئے ذبح کیا جائے اور اس  بارے میں شیطان کی چالوں سے بجا  جائے۔

آیت 143، 144 میں بہیمۃ الانعام یعنی پالے ہوئے جانور کی تفصیل وارد جو قرآن مجید میں کسی اور جگہ نہیں ہے ، اور وہ آٹھ ہیں، بکری سے نر اور مادہ، بھیڑ سے نر اور مادہ، اونٹ سے نر اور مادہ اور گائے سے نر اور مادہ۔
اس ذکر کا مقصد کشرکین سے ایک ایسا سوال کرنا ہے ، جس کا کوئی جواب ان کے پاس نہیں تھا، وہ یہ ہے کہ انہیں آٹھ قسم کے جانوروں میں سے مخصوص جانوروں کو تم لوگ  عورتوں کے لئے یا اپنے لئے حرام ٹھہراتے ہو تو کیا اس کی کوئی عقلی یا نقلی دلی تمہارے پاس ہے؟ کیا جب اللہ تعالی یہ چیزیں حرام کی تھیں تو تم کو اس وقت اس پر گواہ بنایا تھا؟ ظاہر ہے کہ  ان میں سے کوئی صورت نہیں ہے تو پھر یہ عمل ضلالت کے علاوہ اور کیا ہوگا؟
آیت ۱۴۵ میں ان مطعومات کا ذکر ہے جو شریعت میں حرام ہیں اور مشرکین ان میں مبتلا ہیں، اور وہ چار ہیں۔
مُردار۔ خواہ طبعی موت مرا ہو یا کسی حادثے میں مر جائے ، یا غیر شرعی طریقے سے ذبح کیا گیا ہو۔
دمِ مسفوح۔ یعنی بہا ہوا خون۔ اس سے مراد وہ خون ہے جو ذبح کے وقت بہتا ہے۔
سور کا گوشت۔
وہ جانور جو غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا جائے۔ اسی میں وہ جانور بھی داخل ہے جو غیر اللہ کے نام پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔
آیت 146میں بعض ان چیزوں کا ذکر  ہے جنہیں یہود پران کی بد کرداریوں کی وجہ سے  حرام کیا گیا تھا۔ حالانکہ دراصل وہ چیزیں  ان پر حرام نہ تھیں؛جیسے وہ جانور جو ناخن والا ہو ، یعنی اونٹ اور شتر مرغ جیسے جانور ،اور گائیوں اور بکریوں کی چربیاں وغیرہ ۔آیت:146
پھر اس کے بعد کی چند آیتوں میں قدیم وجدید مشرکین کے اس نظریے کی تردید کی گئی ہے کہ یہ چیزیں جنہیں ہم حرام کرتے ہیں یا حلال کرتے ہیں، یہ سب اللہ کے حکم اور مرضی سے ہے۔اگر اللہ نہ چاہتا تو ہم ایسا نہ کرپاتے ۔

اس کا جواب اللہ تعالی نے یہ دیا ہے کہ حجت بالغہ یعنی ناقابل تردید دلیل  تو صرف اللہ ہی کے اختیار میں ہے،  تو کیا تمہارے پاس  بھی کوئی دلیل ہے کہ اللہ نے تمہارے لئے اس کو حلال یا حرام کیا ہے؟(اگر سچے ہو تو واضح دلیل پیش کرو)۔آیت:148، 149

آیت 150 میں جہاں ایک طرف نص اور صریح دلیل کے مقابلے میں قیاس کی تردید ہے وہیں مسلمانوں کو ایک اہم نصیحت کی گئی ہے کہ اگر لوگ باطل کے ساتھی بن جائیں اور ان کی صف میں جا کر کھڑے ہوجائیں تو بھی تمہیں اپنا موقف نہیں بدلنا چاہئے۔ بلکہ لوگوں کی پرواہ کئے بغیر حق پر ڈٹے رہنا چاہئے۔
آیت 151تا153میں        ان دس قیمتی نصیحتوں کا ذکر  ہے جو مشرکین کی اپنی طرف سے متعین کردہ حرام چیزوں کا بدل ہیں ،  کہ اصل حرام چیزیں یہ ہیں، نہ کہ تمہاری اپنی طرف سے حرام کی گئی چیزیں:

1) شرک۔

2) والدین کی نافرمانی۔

3)  بچوں کو قتل کرنا۔

4) ناحق خون بہانا۔

5) ظاہر و پوشیدہ کسی فحش کام کا ارتکاب کرنا۔

6)    یتیم کا مال کھانا۔

7)     ناپ تول میں کمی کرنا۔

8) قول و عمل میں عدل سے گریز کرنا۔

9 )    اللہ کے عہد کی پابندی نہ کرنا۔

10)  صراط مستقیم سے دوری [3]۔
اس سورت کی آخری آیات میں اللہ تعالی نے خصوصی طور پر اہل مکہ کو مخاطب کیا گیا ہے،اور ان کو کچھ اہم  باتوں کی دعوت دی ہے:
1)انہیں اس کتاب  قرآنِ مجیدپر ایمان لانے اور شرک سے توبہ کرنےکی دعوت دی گئی ہے۔آیت:155
2) اس بات پر خبر دار کیا گیا ہےکہ یہ کتاب اور رسول تمہارے پاس حجت ہیں، تاکہ تمہیں قیامت کے دن یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ ہم تو غافل اور جاہل رہے ،ہمیں تو کوئی ڈرانے والا آیا ہی نہیں تھا۔آیت :156 ، 157
3) ان واضح دلائل کے بعد تمہارے پاس (ایمان نہ لانے کی)کیا دلیل باقی رہ جاتی ہے؟کیا اب تم صرف  اسی بات کا انتظار کر رہے ہو  کہ موت کے فرشتے آ جائیں ، یا بروز قیامت اللہ تمہارا حساب لینے کے لئےآ جائے،یاقیامت  کی ان بعض نشانیوں کا تمہیں انتظار ہے جن نشانیوں کے آ جانے کے بعد ایمان اور توبہ کا دروازہ بند کر دیا جائے گا [4]۔آیت: 158
پھر سورت کے اختتام میں نبی ﷺ   اور آپ کے ذریعے اہل ایمان  کو یہ تعلیم دی جا رہی  ہےکہ بے دین اور گمراہ لوگوں کی طرف توجہ نہ کریں، بلکہ اپنی اصلاح کی طرف توجہ دیں اور اس کی فکر کریں۔آیت:159، 160
توحید کا اعلان کریں اور ملت ابراہیمی کی تابعداری  کریں۔آیت:آیات:161، 163
اس مقام پر توحید کی حقیقت کے ساتھ ساتھ ایک انسان کا منہج حیات یعنی زندگی گزارنے کا طریقہ بھی واضح کردیا ۔
وہ یہ کہ اس دنیا میں ایک مومن  کی ساری تگ ودو اللہ کی رضا پانے کے لئے ہونی چاہئے ، اس کا مرنا ، اس کا جینا  اللہ ہی کیلئے  ہونا چاہئے۔

یہی بات سورہ توبہ آیت:111 میں تفصیل سے بیان ہوئی ہے [5]۔

آخر کی دو آیتوں میں پوری سورت کا مقصد نزول بیان کر دیا گیا ہے ۔ یہاں پربظاہر  نبیﷺ کو لیکن حقیقت میں اہل مکہ کو خطاب اور خبر دار کیا گیا ہے کہ ملت ابراہیمی پر ہونے کی دعویداری کے باوجود یہ کون سی عقل مندی ہے کہ وہ رب جو صرف تمہارا ہی  رب نہیں بلکہ ہر چیز کا  رب ہے، اس کی عبادت کوچھوڑ کر کسی اور کو پوج رہے ہو۔یاد رکھو! اگر تم ایمان نہیں  لاتے تو اس کا جواب دہ ہمارا نبی نہیں بلکہ تم خود وہوگے۔، پھر تمہیں معلوم ہوگا کہ تم کس بڑی بھول میں تھے۔
یاد رکھو ! اس دنیا میں تم سے پہلے بھی لوگ تھے ، اب تم بس رہے ہو،یہ تمہارے اوپر اللہ کا دگنا احسان ہے کہ ان کو ہٹا یا اور تم کو ان کی جگہ دےدی ۔ لہذا اس کا شکر کرو اور اس کےنبی پر ایمان لاؤ، اور اس بات کو دھیان میں رکھو کہ اللہ تعالی جہاں غفور ورحیم ہے وہیں  بہت جلد گرفت میں بھی لینے والا ہے، اور وہی مالکِ یوم الدین ہے۔

سورت الأعراف

یہ سورت مکی ہے اور مکہ مکرمہ میں نازل ہونی والی طویل ترین سورتوں میں سے ایک ہے۔

اس سورت کا موضوع رسالت او ر آخرت پر ایمان لاناہے۔ اس مقصد کو اجا گر کرنے کے لئے بہت سے انبیاء کے واقعات مذکور ہیں۔

چونکہ اس سورت میں اہل اعراف کا بھی ذکر آیا ہے، اس لئے یہ سورۃ الأعراف کے نام سے جانی جاتی ہے۔

اس سورت کی ابتدا قرآن کی عظمت کے بیان سے ہے کہ یہ   ایک  ایسی کتاب ہے جس کی اتباع واجب  ہے۔
چنانچہ پہلی ہی آیت میں نبی کریم ﷺ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ یہ کتاب   آپ پر نازل کی جا رہی ہے، یہ مومنین کیلئے سراپا نصیحت ہے ،آپ  اس کی تبلیغ کیجئے، اور آپ کو یہ خوف نہیں ہونا چاہئے کہ لوگ اسے قبول نہیں کریں گے اور نہ مانیں گے، بلکہ  آپ اس چیز سے بے خوف ہو جائیں، کیونکہ اللہ آپ کا ناصر و مددگار ہے۔
مسلمانوں کو اس کتاب کی پیروی کی دعوت دینے کے ساتھ ساتھ  یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ اس کتاب کو قبول نہ کرنے کا ا نجام ہلاکت اور اللہ کے عذاب  سے دوچار ہوناہے۔ جیسا کہ اس سے قبل بہت سی قوموں کو ہلاک کیا گیا ہے۔آیت: 3، 4، 5
یاد رکھو قیامت کے دن اعمال کا وزن بر حق ہے،اس دن رسولوں اور جن امتوں کی طرف انہیں بھیجا گیا تھا ان دونوں سے سوال کیا جانا بر حق ہے۔اور یہ بھی حق ہے کہ جن لوگوں کے نیک اعمال کا وزن زیادہ ہو گا انہیں کامیابی حاصل ہوگی اور جن لوگوں کا نیکیوں کا وزن کم ہوگا وہ ناکام ہوں گے۔آیت:6 تا 9
آیت نمبر ۱۰تا ۲۵ میں انسان کی تخلیق،ان کے بابا آدم علیہ السلام   کی تخلیق ، ان کی تکریم اور شیطان کی مخالفت کا ذکر  ہے۔[6]
اس سے تین اہم باتوں کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے:
انسان سب سے بہتر مخلوق ہے اور اللہ کے نزدیک اس کا ایک خاص مقام ہے۔
حق وباطل کی لڑائی ہمیشہ سے ہے اور قیامت تک باقی رہے گی ۔
لہذا انسان کو اس سے آگاہ رہنا چاہئے اور اس معاملے میں ہمیشہ ہوشیار و چوکنا رہنا  چاہئے۔
اس موقع پر شیطان کا یہ کہنا کہ میں اولاد آدم کے پاس دائیں بائیں اور آگے پیچھے ہر طرف سے آؤں گا(یعنی حملہ کروں گا)  اور ان کی اکثریت شکر گزار نہیں رہے گی۔

اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیں شیطان کی چالوں سے ہر طرح اور ہمیشہ آگاہ رہنا چاہئے اور ان سے کیسے بچنا ہے اس پر خوب غور وفکر کرتے رہنا چاہئے۔

حضرت آدم علیہ السلام کا واقعہ بیان کرنے اور اس بارے میں شیطان کی مخالفت کا ذکر کرنے کےبعد  اللہ تعالی نے چار جگہ اولاد آدم کو "یا بنی آدم ” کہہ کر خطاب کیا ہے جو بڑے اہم خطابات ہیں:
1 )           پہلا خطاب لباس کے تعلق سے ہے۔  اس میں لباس کی تین قسمیں بیان ہوئی ہیں۔ ایک وہ لباس   جس سے ستر وشرمگاہ کو چھپایا جائے، یا وہ لباس جسے بطور ضرورت استعمال کیا جائے۔ دوسرا وہ لباس جسے حسن و رعنائی کے لئے پہن اجائے۔ تیسرا وہ لباس تقوی کا لباس ہو[7]۔  آیت:26

جس کا مقصد لباس  کی اہمیت اجاگر کرنا اور یہ بتانا ہےکہ یہ کتنی بڑی اور اہم نعمت ہے،البتہ تقوی کا کے لباس کا اہتمام زیادہ اہم ہے۔

2 )  دوسرے خطاب میں شیطان  اور اس کے قبیلے یعنی چیلے چانٹوں سے آگاہ کیا گیا ہے، کہ خیال رکھنا کہیں وہ تمہاری غفلت اور سستی سے فائدہ اٹھا کر تمہیں اس طر فتنے اور گمراہی میں ڈال دے جس طرح  تمہارے ماں باپ (آدم و حوا علیہما السلام ) کو اس نے جنت سے نکلوا دیا اور لباسِ جنت بھی اتروا دیا۔ بالخصوص جب کہ وہ نظر بھی نہیں آتے تو ا سے بچنے کا اہتمام اور فکر بھی زیادہ ہونی چاہئے۔آیت:27
3 ) تیسرے خطاب میں زیب و زینت کو اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ خصوصا عبادت کے وقت یا عبادت کے مقام کی طرف آنے کے وقت۔ اور کھانے پینے میں اسراف  یعنی غیر ضروری خرچ سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔آیت :31
4 ) اور چوتھے خطاب میں رسولوں کی اتباع اور تقوی کو اختیار کرنے اور اصلاح کا ذکر ہے۔آیت:35[8]
آیت ۲۸ تا ۳۰ میں  مشرکین کی ایک رسم کی اصلاح پر زور ہے جو وہ شیطان کی پیروی میں کرتے تھے۔ یعنی برہنگی کی حالت میں بیت اللہ کا  طواف۔اوراس کی دو دلیلیں   دیتے تھے۔ ایک تو یہ کہ  ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی راہ پر پایا ہے اور دوسری یہ کہ ہمارے باپ دادا نے یہ ایسا اللہ تعالی کے حکم ہی سے کرتے تھے۔
اس کا جواب قرآن نے یہ دیا کہ اللہ تعالی پر یہ سراسر بہتان ہے، کیونکہ برہنہ طواف ایک فحش کام اور شیطان کی وحی سے ہے، جب کہ اللہ تعالی کسی فحش بات کا حکم نہیں دیتا، اللہ تعالی کا حکم ہمیشہ انصاف واعتدال کا ہوتا ہے۔ پھر عام حالات میں اللہ تعالی کا دیا ہوا لباس پہننا اور اس کے گھر حاضری کے وقت اس لباس سے عاری ہوجانا  یہ کون سا انصاف ہے؟
لہذا یاد رکھو! اللہ تعالی تو تمہیں عدل وانصاف کی دو باتوں کا حکم دیاتاہے۔ ایک یہ کہ  تم اللہ کے احکام کی پابندی کرو اور اس کے رسول کی لائی ہوئی تعلیمات پر عمل کرو۔  اور دوم یہ کہ اخلاص کے ساتھ اسی کی عبادت کرو، یعنی توحید کا بجا لاو۔
اس سورت کی آیت نمبر 33  وہ جامع آیت ہے جسے علماء حلال وحرام کے بارے میں سب سے زیادہ جامع آیت قرار دیتے ہیں۔اس آیت میں اللہ تعالی نے پانچ حرام کاموں  کا ذکر کیا ہے:                                                                     1 )  ظاہری و باطنی تمام قسم کی بے حیائیاں۔                                                                                            2 )  ہر قسم کے چھوٹے بڑےگناہ۔                                                                                                   3        )  ظلم و بغاوت۔                                                                                                                   4 )  اللہ کے ساتھ شرک کرنا۔                                                                                                5 )  اللہ  کے بارے میں  وہ کچھ کہنا جس کا علم نہ ہو، یعنی اللہ پر جھوٹ بولنا ہے ۔
آیت نمبر 36سے قیامت کی بعض ہولناکیوں کا ذکر ہے،اس ضمن کچھ باتوں  پر خصوصی توجہ دلائی گئی ہے:

1 )   جن لوگوں نے رسولوں کی دعوت کو قبول نہیں کیا اور گمراہی کا راستہ اختیار کیا ،فرشتے جب انہیں جہنم میں گروہ در گروہ ڈالیں گے تو وہ ایک دوسرے حق لعن و ملامت کریں گے[9]۔  آیت:38، 39

2 )  کافروں اور منکروں کیلئے اولا: تو آسمان کے دروازے نہیں کھلیں گے اور نہ وہ جنت میں داخل ہوں گے۔  ثانیا: جہنم میں ان کا بچھونا اور لحاف (اوپر نیچے)صرف آگ ہی ہوگی۔آیت 40، 41
3)آیت :41، 42/میں جنتیوں اور ان پر اللہ تعالی کی نعمتوں کا ذکر بھی بڑی تفصیل سے ہوا ہے۔
ان کو ملنے والی نعمتوں سب سے بڑی نعمت دل کی صفائی اور دل سے کینہ وکپٹ کو دور کرنے کی نعمت کا ذکر خصوصی طور پر کیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے جنتی لوگ  جنت میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے خوش وخرم بیٹھے ہوئے دنیا میں ملنے والی نعمٹ ہدایت پر اللہ کی حمد و شکر کے گن گا رہے ہوں گے۔
جس سے ایک طرف صاف دلی کی اہمیت پر توجہ دینے کی دعوت ہے ، تو دوسری طرف کینہ اور کپٹ، بغض وحسد جیسی  دل کی برائیوں کی قباحت کو واضح کرنا ہے کہ ان برائیں کو اپنے دل میں جگہ دینے والا شخص جنت کا وارث بنے کاحقدار نہیں ہے۔
آیت 46تا51میں اہل اعراف [10]کے جنتیوں اور جہنمیوں کے ساتھ ہونے والے مکالمے کا ذکر ہے، جو بڑا ہی باعث عبرت ہے۔ہمیں اسے غور سے پڑھ کر اس سے عبرت لینی چاہئے۔ خصوصا آیت : الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِينَهُمْ لَهْوًا وَلَعِبًا وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا فَالْيَوْمَ نَنْسَاهُمْ كَمَا نَسُوا لِقَاءَ يَوْمِهِمْ هَذَا وَمَا كَانُوا بِآيَاتِنَا يَجْحَدُونَ (51)” جنہوں نے دنیا میں اپنے دین کو لہو ولعب بنا رکھا تھا اور جن کو دنیاوی زندگی نے دھوکہ میں ڈال رکھا تھا۔ سو ہم (بھی) آج کے روز ان کا نام بھول جائیں گے جیسا کہ وه اس دن کو بھول گئے اور جیسا یہ ہماری آیتوں کا انکار کرتے تھے۔ [11]
ان آیات میں جنتیوں اور جہنمیوں میں مکالمے میں سب سے زیادہ باعثِ عبرت یہ ہے کہ   جہنمی جنتیوں سے تھوڑے پانی یا اس میں سے کچھ جو اللہ تعالی نے تمہیں دیا ہے، کا مطالبہ کریں گے تو جنتی بلا تردد یہ جواب دیں گے کہ اللہ تعالی نے ان دونوں چیزوں کو تم پر حرام کر دیا ہے[12]۔ گویا وہاں تمام رشتے منقطع ہوں گے اور کسی جنتی کو کسی جہنمی پر کوئی ترس نہیں آئے گا۔  چنانچہ مشہور تابعی سعید بن جبیر سے مروی ہے کہ جہنمی اپنے نزدیک کے رشتے اور کنبے والوں جیسے باپ، بیٹے، بھائی، بہن وغیرہ سے کہیں گے کہ ہم جل بھن رہے ہیں، بھوکے پیاسے ہیں، ہمیں ایک گھونٹ پانی یا ایک لقمہ کھانا دے دو۔تووہ لوگ  بحکم الٰہی انہیں جواب دیں گے کہ یہ سب کچھ کفار پر حرام ہے۔تفسیر ابن کثیر
آیت نمبر 54کے بعد کلام کا رخ توحید  کے اثبات کی طرف پھیر دیا گیا ہے۔
چنانچہ اللہ تعالی نے کائنات میں پائے جانے والے متعددحقائق  کے ذکر بعد توحید الوہیت کا حکم دیا ہے [13]۔
نیز زمین میں فساد پھیلانے سے منع کیا ہے اور اپنے بندوں کو حکم دیا ہے کہ مجھے خوف اور امید کے ساتھ پکارو۔آیت:56
یہاں تین باتیں قابل غور ہیں
: 1 ) زمین کی اصلاح کا بنیادی سبب توحید ہے اور شرک زمین میں فساد پھیلانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
2 ) اس روئے زمین پر اصل توحید ہے ،یعنی ابتدا میں سارے لوگ ہی توحید پر قائم تھے،لیکن شیطان کے وسوسوں کی وجہ سے شرک بعد میں پھیلا۔
3) دعاتوحید کی وہ قسم ہے جو بندوں کواللہ کی خصوصی رحمت کا مستحق ٹھہراتی ہے۔ اسی لئے اللہ تعالی نے اس کے فورا بعد فرمایا:  وَادْعُوهُ خَوْفًا وَطَمَعًا إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ (56)"اور تم اللہ کی عبادت کرو اس سے ڈرتے ہوئے اور امیدوار رہتے ہوئے۔ بے شک اللہ تعالیٰ کی رحمت نیک کام کرنے والوں کے نزدیک ہے”۔
آیت 57، 58 میں دو حقیقتوں کو اجاگر کیا گیا ہے ۔ پہلی چیز یہ کہ تمہارے مشاہدے میں ہے کہ اللہ تعالی جب  بھی کسی سوکھی اور مردہ زمین پر بارش نازل کرتا ہے تو وہ لہلہا اٹھتی ہے ۔ اسی طرح جب وہ چاہے گا مردہ ہوجانے کے بعد تمہیں بھی زندہ کرکے کھڑا کردے گا۔
دوسری حقیقت یہ  ہےکہ تم یہ مشاہدہ کرتے ہو کہ آسمان سے بارش  کا پانی ایک ہی  طرح نازل ہوتا ہے لیکن اسی بارش سے زمین کا ایک حصہ جو زرخیز ہوتا ہے لہلہا اٹھتا ہے اور دوسرا حصہ جو بنجر اور شور ہوتا ہے  وہ اپنی حالت پر بنجر ہی رہتا ہے ۔

اسی طرح جو وحی ہم نازل کرتے ہیں اسے وہی دل قبول کرتے ہیں جن میں خیر  کا عنصرموجود ہوتا ہے۔ البتہ وہ دل  جن میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی وہ نبی کے گھر میں رہ کر بھی ہدایت نہیں پاتے۔

آیت نمبر 59 سے( اس پارے کے تقریبا آخر سے) متعددانبیاء علیہم السلام کے واقعات  شروع ہوتے ہیں۔ اور یہ پہلی سورت ہے جس میں نبیوں کے واقعات  بڑی تفصیل کے ساتھ بیان ہوئے ہیں ۔
سب سے پہلے حضرت نوح علیہ السلام کا قصہ(آیت 59 تا 64)،پھر حضرت ہود علیہ السلام کا قصہ( آیت 65 تا72)  ،پھر حضرت صالح  علیہ السلام کا قصہ (آیت 73 تا 79) ، حضرت لوط علیہ السلام کا قصہ ( آیت   80 تا 84) اور پھر آیت :85 سے حضرت شعیب علیہم السلام  کا قصہ شروع ہو کر پارے کے آخر تک جاتا ہے۔
بلکہ اس پارے  کے اختتام پر حضرت شعیب علیہ السلام کا واقعہ ختم نہیں  ہوا،  بلکہ  ان کا قصہ نوویں پارے کی ابتداء میں بھی( آیت 93 تک) مذکور ہے۔
مذکورہ انبیاء علیہم السلام کے ان قصوں میں تین باتیں زیادہ قابل غور ہیں:

1 )  نبیوں کے مخالفین میں یہ بات قدر مشترک رہی ہے کہ وہ نبیوں  کو جھوٹا، بے وقوف اور گمراہ کہتے رہے ہیں۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ گمراہ قوموں کا یہی شیوہ رہاہے کہ وہ اپنے مخالفین پر ناحق تہمتیں  لگاتے رہتے ہیں۔

2 )  قوموں کی ہلاکت کا اہم سبب رسولوں کو جھٹلانا اور ان پر ایمان نہ لانا ہے۔اور ان واقعات کے ذریعے یہی سبق اہل مکہ کو دیا جا رہا ہے کہ اگر تم بھی اپنے رویے سے باز نہ آئے تو گزشتہ قوموں کی طرح تمہیں  بھی تباہ وبرباد کر دیا جائے گا۔

3 )   ایک داعی کیلئے نبیوں کے واقعات  کو پڑھنا اور ان پر غور وفکر کرنا بہت ہی ضروری ہے ۔تاکہ اسے دعوت کا اسلوب معلوم ہو۔

مثلا حضرت نوح  علیہ السلام   کی قوم نے جب  انہیں گمراہ کہا تو ان کا جواب بڑا ہی باعث عبرت ہے۔حضرت نوح  نے جوابا کہا کہ اے میری قوم کے لوگو! مجھ میں گمراہی نہیں ہے،میں تو اللہ کا رسول ہوں اور تمہاری صرف خیر خواہی  کرتے ہوئے تم تک اللہ کا پیغام پہنچانا چاہتا ہوں۔

اور حضرت ہود علیہ السلام کی قوم کا  انداز تو اور بھی عجیب و غریب تھا کہ انہوں نے اپنے پیغمبر کو بے وقوف  اور جھوٹا  تک کہا۔آیت:،  66، 67

لیکن حضرت ہود علیہ السلام کے جواب میں بڑی ہی عبرت و نصیحت موجود ہے۔ چنانچہ انہوں جواب میں فرمایا: اے میری قوم کے لوگو!میں بے وقوف  نہیں ، بلکہ میں تو تمہاری طرف  تمہارے رب کا رسول ہوں، میرا کام تم لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچانا ہے ، یاد رکھو! میں  تمہارے لئے  ایک امانتدار اور سچا خیر خواہ ہوں۔

[1] — صحیح بخاری میں سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اگر تیری خواہش ہو کہ عربوں کی نادانی معلوم کرے تو سورہ انعام میں  130 سے اوپر والی آتیں پڑھو، قَدْ خَسِرَ الَّذِينَ قَتَلُوا أَوْلاَدَهُمْ سَفَهًا بِغَيْرِ عِلْم، ( جن لوگوں نے جہالت اور حماقت کی بنا پر اپنی اولاد کو مارڈالا   )  سے     قَدْ ضَلُّوا وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ.(ایسے لوگ یقینا گمراہ ہوئے اور راہ ہدایت نہ پاسکے) تک۔ صحیح بخاری:3524

[2] — قَدۡ خَسِرَ ٱلَّذِينَ قَتَلُوٓاْ أَوۡلَٰدَهُمۡ سَفَهَۢا بِغَيۡرِ عِلۡمٍ وَحَرَّمُواْ مَا رَزَقَهُمُ ٱللَّهُ ٱفۡتِرَآءً عَلَى ٱللَّهِۚ قَدۡ ضَلُّواْ وَمَا كَانُواْ مُهۡتَدِينَ (١٤٠)” واقعی خسارے  میں پڑ گئے وه لوگ جنہوں نے اپنی اوﻻد کو محض براه حماقت بلا کسی سند کے قتل کر ڈاﻻ اور جو چیزیں ان کو اللہ نے کھانے پینے کو دی تھیں ان کو حرام کرلیا محض اللہ پر افترا باندھنے کے طور پر۔ بے شک یہ لوگ گمراہی میں پڑگئے اور کبھی راه راست پر چلنے والے نہیں ہوئے”۔

اس آیت میں  مشرکین کی سات اعتبار سے مذمت کی گئی ہے۔                                  ۱- وہ خسارے میں ہیں۔      ۲- وہ احمق ہیں۔     ۳- انہیں علم نہیں ہے۔         ۴- اللہ کے دئے ہوئے رزق کو حرام کرتے ہیں ۔  ۵- اللہ پر  افترا پردازی سے کام لیتے ہیں۔       ۶- گمراہی میں  پڑے ہیں۔       ۷- راہِ ہدایت سے ہٹے ہوئے ہیں۔ المجالس القرآنیہ ص:۱۴۹

[3] — حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جو شخص رسول اللہ ﷺ کے اس صحیفے کو پڑھنا چاہے جس پر آپ کی مہر ہے تو وہ ان آیات کو پڑھے[تفسیر ابن کثیر]۔

[4] — هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمُ الْمَلَائِكَةُ أَوْ يَأْتِيَ رَبُّكَ أَوْ يَأْتِيَ بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ لَا يَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمَانِهَا خَيْرًا قُلِ انْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ (158) "کیا یہ لوگ صرف اس امر کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں یا ان کے پاس آپ کا رب آئے یا آپ کے رب کی کوئی (بڑی) نشانی آئے؟ جس روز آپ کے رب کی کوئی بڑی نشانی آپہنچے گی، کسی ایسے شخص کا ایمان اس کے کام نہ آئے گا جو پہلے سے ایمان نہیں رکھتا۔ یا اس نے اپنے ایمان میں کوئی نیک عمل نہ کیا ہو۔ آپ فرما دیجئے کہ تم منتظر رہو، ہم بھی منتظر ہیں”۔قرآن مجید کی یہی وہ آیت ہے جس میں قیامت کی بڑی نشانیوں خصوصا سورج کے مغرب سے طلوع ہونے اوراہل دنیا لے لئے توبہ کا دروازہ بند ہونے کی طرف اشارہ ہے، چنانچہ ارشاد نبی  ﷺ ہے:قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک کہ  سورج مغرب سے طلوع نہیں ہوگا، پھر جب سورج مغرب سے طلوع ہوجائے گا اور لوگ اسے دیکھ لیں گے تو سب ایمان لے آئیں گے ، حالانکہ اس وقت ایمان سود مند نہ ہوگا ۔پھر آپﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ صحیح بخاری:6436 بروایت ابو ہریرہ۔

[5] — إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ وَالْقُرْآنِ وَمَنْ أَوْفَى بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّهِ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُمْ بِهِ وَذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (111)  التوبة

[6] — اس سورت میں مذکور آدم علیہ السلام کے واقعے کاخلاصہ یہ ہے: آدم علیہ السلام کی پیدائش کے بعد اللہ تعالی نے بشمول ابلیس تمام فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم علیہ السلام کو سجدہ کریں۔  اس حکم الہی پر تمام فرشتے آدم علیہ السلام کے لئے سر بسجود ہو گئے، البتہ ابلیس  ملعون نے یہ عذر پیش کرتے ہوئے سجدہ سے انکار کردیا کہ میں آدم سے افضل ہوں، اور افضل اپنے سے کمتر درجے کو سجدہ نہیں کرتا۔ ابلیس نے اپنی افضلیت کا سبب یہ بیان کیا کہ وہ آگ سے بنا اور آدم کی تخلیق مٹی سے ، اور اس کے نزدیک آگ مٹی سے افضل ہے۔  ابلیس ملعون نے تکبر سے کام لیا اور قیاس آرائی کی اور اس نے یہ نہ دیکھا کہ یہ کس کا حکم ہے۔

لہذا اللہ تعالی نے اس کے اس جرم میں  اسے پھٹکار لگائی اور یہ کہتےہوئے راندہ دربار کر دیا کہ میرے حکم کے مقابلے میں تکبر سے کام لینے والا تکریم  کا مستحق نہیں  ہے لہذا ذلیل و خوار ہوکر یہاں سے نکل جا۔

اس موقع پر ابلیس نے اللہ تعالی سے قیامت تک زندہ رہنے کی مہلت مانگی، کسی بڑی حکمت کے تحت قیامت تک کے لئے تو نہیں البتہ ایک متعینہ مدت تک کے لئے اللہ تعالی نے اسے مہلت دے دی۔ اس مدت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نے اللہ تعالی کے سامنے یہ عہد کیا کہ چونکہ مجھے اس آدم کی وجہ سے دھتکارا گیا ہے ، لہذآ اس کی اور اس کی تمام ذریت کے لئے ہر خیر وشر کے راستے میں میں بیٹھوں گا، شر کو مزین کروں گا اور اس پر ا ابھاروں گا اور خیر کے کام سے ہر ممکن روکوں گا۔نتیجہ یہ ہوگا کہ آدمیوں میں سے اکثر کو آپ شکر گزار نہ پائیں گے۔

اس کے بعد اللہ تعالی نے آدم و حوا علیہما السلام کو جنت میں رہنے  کو کہا اور صرف ایک درخت کو چھوڑ کرپوری جنت میں جہاں سے چاہیں اور جو چاہیں کھانے کی آزادی دے دی ۔ ایک درخت کا پھل کھانے کی پابندی آزمائش کے طور پر عائد کر دی۔ ﵟفَكُلَا مِنۡ حَيۡثُ شِئۡتُمَا وَلَا تَقۡرَبَا هَٰذِهِ ٱلشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ ٱلظَّٰلِمِينَ (١٩)”پس جس جگہ سے چاہو کھاو  پیو  اور اس درخت کے قریب مت جاو، ورنہ ظالم میں سے ہو جاو گے”۔

لیکن شیطان نے حضرت آدم و حوا علیہما السلام کو اکسایا، ورغلایا، جنت میں ہمیشہ رہنے کا   وعدہ دلایا اور قسمیں کھا کھا کر اپنے خیر خواہ ہونے کا یقین دلایا۔ حتی کہ اس ممنوعہ درخت سے کھانے پر آمادہ کر دیا ۔

پھر ان دونوں کا اس درخت سے کھانا تھا کہ معصیت کے آثار ان پر ظاہر ہونا شروع ہو گئے اور سب سے پہلے ان کے جسم سے جنتی لباس چھن گئے جس سے وہ برہنہ ہوگئے۔ انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا، کچھ دیر ادھر ادھر بھاگنے کے بعد  جب کہیں جائَ پناپ نظر نہ آئی تو  ان الفاظ میں اللہ تعالی  دعا کی”   ﵟرَبَّنَا ظَلَمۡنَآ أَنفُسَنَا وَإِن لَّمۡ تَغۡفِرۡ لَنَا وَتَرۡحَمۡنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ ٱلۡخَٰسِرِينَ (٢٣)”اے ہمارے رب!  واقعہ یہ ہے کہ ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا،اور اگر آپ ہماری مغفرت نہ کریں گے تو نقصان پانے والوں میںسے ہو جائیں گے”۔ اس پر اللہ تعالی نے ان کی توبہ قبول تر کرلی لیکن زندگی کے باقی ایام جنت سے نکل کر دنیا میں بسنے کا حکم دیا۔ فرمایا:ﵟقَالَ ٱهۡبِطُواْ بَعۡضُكُمۡ لِبَعۡضٍ عَدُوٌّۖ وَلَكُمۡ فِي ٱلۡأَرۡضِ مُسۡتَقَرٌّ وَمَتَٰعٌ إِلَىٰ حِينٍ (٢٤) قَالَ فِيهَا تَحۡيَوۡنَ وَفِيهَا تَمُوتُونَ وَمِنۡهَا تُخۡرَجُونَ (٢٥)حق تعالی نے فرمایا کہ نیچے اس حالت میں جاو کہ تم باہم ایک دوسرے کے دشمن ہوگے اور تمہارے  واسطے زمین میں  رہنے کی جگہ ہے اور ایک وقت تک نفع حاصل کرنا ہے۔ فرمایا: تم کو وہاں ہی زندگی بسر کرنا ہے، وہاں ہی مرنا ہے اور اسی میں سے پھر نکالے جاو گے۔

[7] —  اس سے مراد بعض کے نزدیک وہ لباس ہے جو متقین  قیامت کے دن پہنیں گے۔ بعض کے نزدیک ایمان ، بعض کے نزدیک عملِ صالح اور خشیتِ الہی وغیرہ ہیں۔ مفہوم سب کا تقریبا ایک ہے کہ ایسا لباس جسے پہن کر انسان تکبر کرنے کے بجائے اللہ سے ڈرےاور ایمان و عملِ صالح کے تقاضوں کا اہتمام کرے۔ تفسیر احسن البیان ص:۳۹۵

[8] — ﵟيَٰبَنِيٓ ءَادَمَ إِمَّا يَأۡتِيَنَّكُمۡ رُسُلٌ مِّنكُمۡ يَقُصُّونَ عَلَيۡكُمۡ ءَايَٰتِي فَمَنِ ٱتَّقَىٰ وَأَصۡلَحَ فَلَا خَوۡفٌ عَلَيۡهِمۡ وَلَا هُمۡ يَحۡزَنُونَ (٣٥)” اے اوﻻد آدم! اگر تمہارے پاس پیغمبر آئیں جو تم ہی میں سے ہوں جو میرے احکام تم سے بیان کریں تو جو شخص تقویٰ اختیار کرے اور درستی کرے سو ان لوگوں پر نہ کچھ اندیشہ ہے اور نہ وه غمگین ہوں گے”۔

اس آیت میں شاید عہد میثاق والی آیت کی طرف اشارہ ہے، جو اسی سورت میں آگے  آگے آرہی ہے۔

[9] — ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کسی بھی گمراہ فرقے،قوم اور جماعت کے دو قسم کے لوگوں کو سب سے پہلے جہنم میں ڈالا جائے گا۔      ایک وہ لوگ جنہوں نے اس قوم و جماعت  میں برائی کی بنیاد رکھی۔اور دوسرے وہ  لوگ جو سردار و پیشوا تھے۔ پھر جب بعد میں آنے والے اور ان کےپیروکار لوگوں کو آگ میں ڈالا جائے گا تو اولا فرشتوں کی طرف سے انہیں سرزنش کی جائے گی کہ جاؤ اپنے پیشواؤں اور پیش رؤں جیسا عذاب تم بھی چکھو۔ ثانیا وہ خود بھی آگ میں اپنے پیشواؤں اور پیش رؤں سے جھگڑیں گے۔

[10] –اہل اعراف کون سے لوگ ہیں ؟ یہ مسئلہ مفسرین  کے درمیان  خاصا مختلف فیہ رہا ہے، اکثر مفسرین کے نزدیک یہ وہ لوگ ہوں گے جن کی نیکیاں اور برائیاں برابر ہوں گی، ان کی نیکیاں جہنم میں جانے اور برائیاں جنت میں جانے مانع ہوں گی، اور یوں اللہ تعالی کی طرف سے قطعی فیصلہ ہونے  تک وہ درمیان میں معلق رہیں گے۔ تفسیر احسن البیان،

[11] —            نیز اس  آیت کی تفسیر میں صحیح مسلم کی حدیث نمبر:2968 بروایت ابو ہریرہ ضرور پڑھنا چاہئے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،  ——- رسول اللہﷺ نے فرمایا: پھر حق تعالیٰ حساب کے لئے اپنے ایک   بندے سےکہے گا: اے فلاں بندے! بھلا میں نے تجھ کو عزت نہیں دی اور تجھ کو سردار نہیں بنایا اور تجھ کو تیرا جوڑا نہیں دیا اور گھوڑوں اور اونٹوں کو تیرے تابع نہیں کیا اور تجھ کو چھوڑا کہ تو اپنی قوم کی ریاست کرتا تھا اور چوتھائی حصہ لیتا تھا؟ تو بندہ کہے گا: سچ ہے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حق تعالیٰ فرمائے گا: بھلا تجھ کو معلوم تھا کہ تو مجھ سے ملے گا؟  بندہ کہے گا کہ نہیں۔  حق تعالیٰ فرمائے گا کہ اب ہم بھی تجھ کو بھولتے ہیں (یعنی تیری خبر نہ لیں گے اور تجھ کو عذاب سے نہ بچایئں گے) جیسے توتونے دنیا میں  ہم کو بھولا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ ایک دوسرے بندے سے حساب لے گا  اور کہے گا: اے فلاں! بھلا میں نے تجھ کو عزت نہیں دی اور تجھ کو سردار نہیں بنایا اور تجھ کو تیرا جوڑا نہیں دیا اور گھوڑوں اور اونٹوں کو تیرےتابع نہیں کیا اور تجھ کو چھوڑا کہ تو اپنی قوم کی ریاست کرتا تھا اور چوتھائی حصہ لیتا تھا؟ تو بندہ کہے گا: سچ ہے اے میرے رب! پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: بھلا تجھ کو معلوم تھا کہ تو مجھ سے ملے گا؟  بندہ کہے گا کہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا:  تو پھرمیں بھی اب تجھے بھلا دیتا ہوں جیسے تو مجھ کو دنیا میں بھولا تھا۔        صحيح مسلم:2968

نوٹ۔ یہ ایک طویل حدیث ہے جس کا کچھ ضروری حصہ  یہاں میں نے نقل کیا ہے۔

[12] — ﵟوَنَادَىٰٓ أَصۡحَٰبُ ٱلنَّارِ أَصۡحَٰبَ ٱلۡجَنَّةِ أَنۡ أَفِيضُواْ عَلَيۡنَا مِنَ ٱلۡمَآءِ أَوۡ مِمَّا رَزَقَكُمُ ٱللَّهُۚ قَالُوٓاْ إِنَّ ٱللَّهَ حَرَّمَهُمَا عَلَى ٱلۡكَٰفِرِينَ (٥٠)” اور دوزخ والے جنت والوں کو پکاریں گے، کہ ہمارےاوپر تھوڑا پانی ہی ڈال دو یا اور ہی کچھ دے دو، جو اللہ نے تم کو دے رکھا ہے۔ جنت والے کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے دونوں چیزوں کی کافروں کے لئے بندش کردی ہے”۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے سوال کیا گیا کہ کس چیز کا صدقہ افضل ہے؟ فرمایا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ سب سے افضل خیرات پانی ہے۔ دیکھو جہنمی اہل جنت سے اسی کا سوال کریں گے.ابنِ کثیر

[13] — إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِهِ أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ تَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ (54) ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ (55)” بے شک تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے سب آسمانوں اور زمین کو چھ روز میں پیدا کیا ہے، پھر عرش پر قائم ہوا۔ وه شب سے دن کو ایسے طور پر چھپا دیتا ہے کہ وه شب اس دن کو جلدی سے آ لیتی ہے اور سورج اور چاند اور دوسرے ستاروں کو پیدا کیا ایسے طور پر کہ سب اس کے حکم کے تابع ہیں۔ یاد رکھو اللہ ہی کے لئے خاص ہے خالق ہونا اور حاکم ہونا، بڑی خوبیوں سے بھرا ہوا ہے اللہ جو تمام عالم کا پروردگار ہے”۔

آیت نمبر54 قرآن مجید کی پہلی آیت ہے جس سے اللہ کے عرش مستوی ہونے کا ثبوت ملتا ہے جیسا کہ اہل سنت وجماعت کا عقیدہ ہے۔

دوسری آیت  اور اس کے بعد کی آیت یعنی :۵۶ سے دعا کے پانچ آداب  کی طرف رہنمائی ہوتی ہے۔ ۱- دعا کرتے وقت بندے کی کیفیت  عاجزی اور گڑ گڑانے کی ہونی چاہئے۔ ۲- دعا کرتے وقت بندے کو اپنی آواز پست رکھنا چاہئے۔ ۳- دعا میں حد سے تجاوز کرنا  اللہ کو پسند نہیں ہے۔ ۴- دعا سے صرف اللہ سے مانگنی چاہئے۔ بلکہ غیر اللہ کو دعا میں پکارنا زمین میں فساد ہے۔ ۵- دعا کرتے وقت خوف ورجا کی کیفیت ہونی چاہئے۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

[1] — صحیح بخاری میں سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اگر تیری خواہش ہو کہ عربوں کی نادانی معلوم کرے تو سورہ انعام میں  130 سے اوپر والی آتیں پڑھو، قَدْ خَسِرَ الَّذِينَ قَتَلُوا أَوْلاَدَهُمْ سَفَهًا بِغَيْرِ عِلْم، ( جن لوگوں نے جہالت اور حماقت کی بنا پر اپنی اولاد کو مارڈالا   )  سے     قَدْ ضَلُّوا وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ.(ایسے لوگ یقینا گمراہ ہوئے اور راہ ہدایت نہ پاسکے) تک۔ صحیح بخاری:3524

[1] –ﵟقَدۡ خَسِرَ ٱلَّذِينَ قَتَلُوٓاْ أَوۡلَٰدَهُمۡ سَفَهَۢا بِغَيۡرِ عِلۡمٍ وَحَرَّمُواْ مَا رَزَقَهُمُ ٱللَّهُ ٱفۡتِرَآءً عَلَى ٱللَّهِۚ قَدۡ ضَلُّواْ وَمَا كَانُواْ مُهۡتَدِينَ (١٤٠)” واقعی خسارے  میں پڑ گئے وه لوگ جنہوں نے اپنی اوﻻد کو محض براه حماقت بلا کسی سند کے قتل کر ڈاﻻ اور جو چیزیں ان کو اللہ نے کھانے پینے کو دی تھیں ان کو حرام کرلیا محض اللہ پر افترا باندھنے کے طور پر۔ بے شک یہ لوگ گمراہی میں پڑگئے اور کبھی راه راست پر چلنے والے نہیں ہوئے”۔

اس آیت میں  مشرکین کی سات اعتبار سے مذمت کی گئی ہے۔                                  ۱- وہ خسارے میں ہیں۔      ۲- وہ احمق ہیں۔     ۳- انہیں علم نہیں ہے۔         ۴- اللہ کے دئے ہوئے رزق کو حرام کرتے ہیں ۔  ۵- اللہ پر  افترا پردازی سے کام لیتے ہیں۔       ۶- گمراہی میں  پڑے ہیں۔       ۷- راہِ ہدایت سے ہٹے ہوئے ہیں۔ المجالس القرآنیہ ص:۱۴۹

[1] — حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جو شخص رسول اللہ ﷺ کے اس صحیفے کو پڑھنا چاہے جس پر آپ کی مہر ہے تو وہ ان آیات کو پڑھے[تفسیر ابن کثیر]۔

[1] — هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمُ الْمَلَائِكَةُ أَوْ يَأْتِيَ رَبُّكَ أَوْ يَأْتِيَ بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ لَا يَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمَانِهَا خَيْرًا قُلِ انْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ (158) "کیا یہ لوگ صرف اس امر کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں یا ان کے پاس آپ کا رب آئے یا آپ کے رب کی کوئی (بڑی) نشانی آئے؟ جس روز آپ کے رب کی کوئی بڑی نشانی آپہنچے گی، کسی ایسے شخص کا ایمان اس کے کام نہ آئے گا جو پہلے سے ایمان نہیں رکھتا۔ یا اس نے اپنے ایمان میں کوئی نیک عمل نہ کیا ہو۔ آپ فرما دیجئے کہ تم منتظر رہو، ہم بھی منتظر ہیں”۔قرآن مجید کی یہی وہ آیت ہے جس میں قیامت کی بڑی نشانیوں خصوصا سورج کے مغرب سے طلوع ہونے اوراہل دنیا لے لئے توبہ کا دروازہ بند ہونے کی طرف اشارہ ہے، چنانچہ ارشاد نبی  ﷺ ہے:قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک کہ  سورج مغرب سے طلوع نہیں ہوگا، پھر جب سورج مغرب سے طلوع ہوجائے گا اور لوگ اسے دیکھ لیں گے تو سب ایمان لے آئیں گے ، حالانکہ اس وقت ایمان سود مند نہ ہوگا ۔پھر آپﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ صحیح بخاری:6436 بروایت ابو ہریرہ۔

[1] — إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ وَالْقُرْآنِ وَمَنْ أَوْفَى بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّهِ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُمْ بِهِ وَذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (111)  التوبة

[1] — اس سورت میں مذکور آدم علیہ السلام کے واقعے کاخلاصہ یہ ہے: آدم علیہ السلام کی پیدائش کے بعد اللہ تعالی نے بشمول ابلیس تمام فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم علیہ السلام کو سجدہ کریں۔  اس حکم الہی پر تمام فرشتے آدم علیہ السلام کے لئے سر بسجود ہو گئے، البتہ ابلیس  ملعون نے یہ عذر پیش کرتے ہوئے سجدہ سے انکار کردیا کہ میں آدم سے افضل ہوں، اور افضل اپنے سے کمتر درجے کو سجدہ نہیں کرتا۔ ابلیس نے اپنی افضلیت کا سبب یہ بیان کیا کہ وہ آگ سے بنا اور آدم کی تخلیق مٹی سے ، اور اس کے نزدیک آگ مٹی سے افضل ہے۔  ابلیس ملعون نے تکبر سے کام لیا اور قیاس آرائی کی اور اس نے یہ نہ دیکھا کہ یہ کس کا حکم ہے۔

لہذا اللہ تعالی نے اس کے اس جرم میں  اسے پھٹکار لگائی اور یہ کہتےہوئے راندہ دربار کر دیا کہ میرے حکم کے مقابلے میں تکبر سے کام لینے والا تکریم  کا مستحق نہیں  ہے لہذا ذلیل و خوار ہوکر یہاں سے نکل جا۔

اس موقع پر ابلیس نے اللہ تعالی سے قیامت تک زندہ رہنے کی مہلت مانگی، کسی بڑی حکمت کے تحت قیامت تک کے لئے تو نہیں البتہ ایک متعینہ مدت تک کے لئے اللہ تعالی نے اسے مہلت دے دی۔ اس مدت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نے اللہ تعالی کے سامنے یہ عہد کیا کہ چونکہ مجھے اس آدم کی وجہ سے دھتکارا گیا ہے ، لہذآ اس کی اور اس کی تمام ذریت کے لئے ہر خیر وشر کے راستے میں میں بیٹھوں گا، شر کو مزین کروں گا اور اس پر ا ابھاروں گا اور خیر کے کام سے ہر ممکن روکوں گا۔نتیجہ یہ ہوگا کہ آدمیوں میں سے اکثر کو آپ شکر گزار نہ پائیں گے۔

اس کے بعد اللہ تعالی نے آدم و حوا علیہما السلام کو جنت میں رہنے  کو کہا اور صرف ایک درخت کو چھوڑ کرپوری جنت میں جہاں سے چاہیں اور جو چاہیں کھانے کی آزادی دے دی ۔ ایک درخت کا پھل کھانے کی پابندی آزمائش کے طور پر عائد کر دی۔ ﵟفَكُلَا مِنۡ حَيۡثُ شِئۡتُمَا وَلَا تَقۡرَبَا هَٰذِهِ ٱلشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ ٱلظَّٰلِمِينَ (١٩)”پس جس جگہ سے چاہو کھاو  پیو  اور اس درخت کے قریب مت جاو، ورنہ ظالم میں سے ہو جاو گے”۔

لیکن شیطان نے حضرت آدم و حوا علیہما السلام کو اکسایا، ورغلایا، جنت میں ہمیشہ رہنے کا   وعدہ دلایا اور قسمیں کھا کھا کر اپنے خیر خواہ ہونے کا یقین دلایا۔ حتی کہ اس ممنوعہ درخت سے کھانے پر آمادہ کر دیا ۔

پھر ان دونوں کا اس درخت سے کھانا تھا کہ معصیت کے آثار ان پر ظاہر ہونا شروع ہو گئے اور سب سے پہلے ان کے جسم سے جنتی لباس چھن گئے جس سے وہ برہنہ ہوگئے۔ انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا، کچھ دیر ادھر ادھر بھاگنے کے بعد  جب کہیں جائَ پناپ نظر نہ آئی تو  ان الفاظ میں اللہ تعالی  دعا کی”   ﵟرَبَّنَا ظَلَمۡنَآ أَنفُسَنَا وَإِن لَّمۡ تَغۡفِرۡ لَنَا وَتَرۡحَمۡنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ ٱلۡخَٰسِرِينَ (٢٣)”اے ہمارے رب!  واقعہ یہ ہے کہ ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا،اور اگر آپ ہماری مغفرت نہ کریں گے تو نقصان پانے والوں میںسے ہو جائیں گے”۔ اس پر اللہ تعالی نے ان کی توبہ قبول تر کرلی لیکن زندگی کے باقی ایام جنت سے نکل کر دنیا میں بسنے کا حکم دیا۔ فرمایا:ﵟقَالَ ٱهۡبِطُواْ بَعۡضُكُمۡ لِبَعۡضٍ عَدُوٌّۖ وَلَكُمۡ فِي ٱلۡأَرۡضِ مُسۡتَقَرٌّ وَمَتَٰعٌ إِلَىٰ حِينٍ (٢٤) قَالَ فِيهَا تَحۡيَوۡنَ وَفِيهَا تَمُوتُونَ وَمِنۡهَا تُخۡرَجُونَ (٢٥)حق تعالی نے فرمایا کہ نیچے اس حالت میں جاو کہ تم باہم ایک دوسرے کے دشمن ہوگے اور تمہارے  واسطے زمین میں  رہنے کی جگہ ہے اور ایک وقت تک نفع حاصل کرنا ہے۔ فرمایا: تم کو وہاں ہی زندگی بسر کرنا ہے، وہاں ہی مرنا ہے اور اسی میں سے پھر نکالے جاو گے۔

[1] —  اس سے مراد بعض کے نزدیک وہ لباس ہے جو متقین  قیامت کے دن پہنیں گے۔ بعض کے نزدیک ایمان ، بعض کے نزدیک عملِ صالح اور خشیتِ الہی وغیرہ ہیں۔ مفہوم سب کا تقریبا ایک ہے کہ ایسا لباس جسے پہن کر انسان تکبر کرنے کے بجائے اللہ سے ڈرےاور ایمان و عملِ صالح کے تقاضوں کا اہتمام کرے۔ تفسیر احسن البیان ص:۳۹۵

[1] — ﵟيَٰبَنِيٓ ءَادَمَ إِمَّا يَأۡتِيَنَّكُمۡ رُسُلٌ مِّنكُمۡ يَقُصُّونَ عَلَيۡكُمۡ ءَايَٰتِي فَمَنِ ٱتَّقَىٰ وَأَصۡلَحَ فَلَا خَوۡفٌ عَلَيۡهِمۡ وَلَا هُمۡ يَحۡزَنُونَ (٣٥)” اے اوﻻد آدم! اگر تمہارے پاس پیغمبر آئیں جو تم ہی میں سے ہوں جو میرے احکام تم سے بیان کریں تو جو شخص تقویٰ اختیار کرے اور درستی کرے سو ان لوگوں پر نہ کچھ اندیشہ ہے اور نہ وه غمگین ہوں گے”۔

اس آیت میں شاید عہد میثاق والی آیت کی طرف اشارہ ہے، جو اسی سورت میں آگے  آگے آرہی ہے۔

[1] — ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کسی بھی گمراہ فرقے،قوم اور جماعت کے دو قسم کے لوگوں کو سب سے پہلے جہنم میں ڈالا جائے گا۔      ایک وہ لوگ جنہوں نے اس قوم و جماعت  میں برائی کی بنیاد رکھی۔اور دوسرے وہ  لوگ جو سردار و پیشوا تھے۔ پھر جب بعد میں آنے والے اور ان کےپیروکار لوگوں کو آگ میں ڈالا جائے گا تو اولا فرشتوں کی طرف سے انہیں سرزنش کی جائے گی کہ جاؤ اپنے پیشواؤں اور پیش رؤں جیسا عذاب تم بھی چکھو۔ ثانیا وہ خود بھی آگ میں اپنے پیشواؤں اور پیش رؤں سے جھگڑیں گے۔

[1] –اہل اعراف کون سے لوگ ہیں ؟ یہ مسئلہ مفسرین  کے درمیان  خاصا مختلف فیہ رہا ہے، اکثر مفسرین کے نزدیک یہ وہ لوگ ہوں گے جن کی نیکیاں اور برائیاں برابر ہوں گی، ان کی نیکیاں جہنم میں جانے اور برائیاں جنت میں جانے مانع ہوں گی، اور یوں اللہ تعالی کی طرف سے قطعی فیصلہ ہونے  تک وہ درمیان میں معلق رہیں گے۔ تفسیر احسن البیان،

[1] —            نیز اس  آیت کی تفسیر میں صحیح مسلم کی حدیث نمبر:2968 بروایت ابو ہریرہ ضرور پڑھنا چاہئے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،  ——- رسول اللہﷺ نے فرمایا: پھر حق تعالیٰ حساب کے لئے اپنے ایک   بندے سےکہے گا: اے فلاں بندے! بھلا میں نے تجھ کو عزت نہیں دی اور تجھ کو سردار نہیں بنایا اور تجھ کو تیرا جوڑا نہیں دیا اور گھوڑوں اور اونٹوں کو تیرے تابع نہیں کیا اور تجھ کو چھوڑا کہ تو اپنی قوم کی ریاست کرتا تھا اور چوتھائی حصہ لیتا تھا؟ تو بندہ کہے گا: سچ ہے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حق تعالیٰ فرمائے گا: بھلا تجھ کو معلوم تھا کہ تو مجھ سے ملے گا؟  بندہ کہے گا کہ نہیں۔  حق تعالیٰ فرمائے گا کہ اب ہم بھی تجھ کو بھولتے ہیں (یعنی تیری خبر نہ لیں گے اور تجھ کو عذاب سے نہ بچایئں گے) جیسے توتونے دنیا میں  ہم کو بھولا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ ایک دوسرے بندے سے حساب لے گا  اور کہے گا: اے فلاں! بھلا میں نے تجھ کو عزت نہیں دی اور تجھ کو سردار نہیں بنایا اور تجھ کو تیرا جوڑا نہیں دیا اور گھوڑوں اور اونٹوں کو تیرےتابع نہیں کیا اور تجھ کو چھوڑا کہ تو اپنی قوم کی ریاست کرتا تھا اور چوتھائی حصہ لیتا تھا؟ تو بندہ کہے گا: سچ ہے اے میرے رب! پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: بھلا تجھ کو معلوم تھا کہ تو مجھ سے ملے گا؟  بندہ کہے گا کہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا:  تو پھرمیں بھی اب تجھے بھلا دیتا ہوں جیسے تو مجھ کو دنیا میں بھولا تھا۔        صحيح مسلم:2968

نوٹ۔ یہ ایک طویل حدیث ہے جس کا کچھ ضروری حصہ  یہاں میں نے نقل کیا ہے۔

[1] — ﵟوَنَادَىٰٓ أَصۡحَٰبُ ٱلنَّارِ أَصۡحَٰبَ ٱلۡجَنَّةِ أَنۡ أَفِيضُواْ عَلَيۡنَا مِنَ ٱلۡمَآءِ أَوۡ مِمَّا رَزَقَكُمُ ٱللَّهُۚ قَالُوٓاْ إِنَّ ٱللَّهَ حَرَّمَهُمَا عَلَى ٱلۡكَٰفِرِينَ (٥٠)” اور دوزخ والے جنت والوں کو پکاریں گے، کہ ہمارےاوپر تھوڑا پانی ہی ڈال دو یا اور ہی کچھ دے دو، جو اللہ نے تم کو دے رکھا ہے۔ جنت والے کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے دونوں چیزوں کی کافروں کے لئے بندش کردی ہے”۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے سوال کیا گیا کہ کس چیز کا صدقہ افضل ہے؟ فرمایا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ سب سے افضل خیرات پانی ہے۔ دیکھو جہنمی اہل جنت سے اسی کا سوال کریں گے.ابنِ کثیر

[1] — إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِهِ أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ تَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ (54) ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ (55)” بے شک تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے سب آسمانوں اور زمین کو چھ روز میں پیدا کیا ہے، پھر عرش پر قائم ہوا۔ وه شب سے دن کو ایسے طور پر چھپا دیتا ہے کہ وه شب اس دن کو جلدی سے آ لیتی ہے اور سورج اور چاند اور دوسرے ستاروں کو پیدا کیا ایسے طور پر کہ سب اس کے حکم کے تابع ہیں۔ یاد رکھو اللہ ہی کے لئے خاص ہے خالق ہونا اور حاکم ہونا، بڑی خوبیوں سے بھرا ہوا ہے اللہ جو تمام عالم کا پروردگار ہے”۔

آیت نمبر54 قرآن مجید کی پہلی آیت ہے جس سے اللہ کے عرش مستوی ہونے کا ثبوت ملتا ہے جیسا کہ اہل سنت وجماعت کا عقیدہ ہے۔

دوسری آیت  اور اس کے بعد کی آیت یعنی :۵۶ سے دعا کے پانچ آداب  کی طرف رہنمائی ہوتی ہے۔ ۱- دعا کرتے وقت بندے کی کیفیت  عاجزی اور گڑ گڑانے کی ہونی چاہئے۔ ۲- دعا کرتے وقت بندے کو اپنی آواز پست رکھنا چاہئے۔ ۳- دعا میں حد سے تجاوز کرنا  اللہ کو پسند نہیں ہے۔ ۴- دعا سے صرف اللہ سے مانگنی چاہئے۔ بلکہ غیر اللہ کو دعا میں پکارنا زمین میں فساد ہے۔ ۵- دعا کرتے وقت خوف ورجا کی کیفیت ہونی چاہئے۔