بسم اللہ الرحمن الرحیم
1:درس نمبر
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
ابتدائی تین سال
نبوت کے 23 سال23درس
سلسلہ مختصر سیرت النبی ﷺ / رمضان 2013
نبوت کے ابتدائی تین سال :
نبوت کے آثار:جن دنوں نبی ﷺ غار حراء میں قیام پذیر تھے ان دنوں آپ کے سامنے عجیب و غریب امور ظاہر ہونے شروع ہوئے ، جیسے :
[۱] شجر وحجر آپ سے سلام کرتے اور کہتے : "السلام علیک یا رسول اللہ ” { صحیح مسلم ، سنن الترمذی } ۔
[۲] عجیب آوازیں سنائی دیتیں اور کچھ روشنی دکھائی دیتی حتی کہ اس سے نبی ﷺ کو خوف لاحق ہونے لگا ۔ { مسند احمد }
[۳] آپ کو سچے خواب دکھائی دینے لگے ، جو چیز آپ خواب میں دیکھتے وہ صبح کو ظاہر ہوجاتی ۔{ صحیح بخاری } ۔
[۴] آپ کی طبیعت گوشہ نشینی کی طرف مائل ہوتی گئی ، اور لوگوں کے اجتماع سے نفرت ہونے لگی ۔
نبوت کا ملنا : نبی ﷺ کی عمر چالیس سال ، چھ مہینے بارہ یا چودہ دن تھی رمضان المبارک کی 21 یا 24 تاریخ تھی ، دوشنبہ کا دن تھا ، اور آپ غار حرا ء میں مشغول عبادت تھے کہ آپ کو نبوت سے سرفراز کیا گیا ، سب سے پہلے سورہ علق کی ابتدائی پانچ آیتیں نازل ہوئیں ۔
ابتداء خواب میں پھر حالت بیداری میں نبی ﷺ کے پاس ایک فرشتہ آیا اور ایک تختی دکھا کر کہنے لگا ، اس میں کیا لکھا ہے پڑھو ، آپ نے فرمایا میں پڑھنا نہیں جانتا ، فرشتے نے آپ کو زور سے دبوچ کر چھوڑا اور فرمایا ” پڑھو ” آپ نے پھر فرمایا میں پڑھنا نہیں جانتا ایسا ہی اس نے تین بار کیا اور ہر بار پچھلی بار سے زیادہ زور سے دبوچتا ، تیسری بار دبوچنے کے بعد چھوڑا تو کہا : [اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ(1) خَلَقَ الإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ(2) اقْرَأْ وَرَبُّكَ الأَكْرَمُ(3) الَّذِي عَلَّمَ بِالقَلَمِ(4) عَلَّمَ الإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ(5) ]. {العلق}.
آپ گھر تشریف لائے ، اپنی بیوی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا : مجھے چادر اڑھاو ، حضرت خدیجہ نے آپ کو تسلی دی ، اور فرمایا خطرے کی کوئی بات نہیں ، اللہ تعالی آپ کو تنہا نہ چھوڑے گا ، کیونکہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں ، درماندوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں ، مسکینوں کی مدد کرتے ہیں وغیرہ ۔
اسی حالت میں آپ پر سورۃ المدثر کا نزول ہوا اور آپ کو تبلیغ کا حکم دیا گیا ۔
سب سے پہلے حضرت خدیجہ اور نبی ﷺ باقی اہل خانہ مسلمان ہوئے ، حضرت علی اور حضرت ابو بکر اور ان کے اہل خانہ مسلمان ہوئے نبی ﷺ کے مولی حضرت زید بن حارثہ نے بھی اسلام قبول کرلیا ۔
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی دعوت پر بہت سے لوگ مسلمان ہوئے جیسے حضرت عثمان ، عبد الرحمن بن عوف ، زبیر بن العوام اور طلحہ بن عبد اللہ وغیرہ ۔
بلکہ نبی ﷺ اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جس کے اند خیر کا پہلو دیکھا اسے اسلام کی دعوت دی اور اس نے اسلام قبول کرلیا ۔ یہ سلسلہ تقریبا تین سال تک چلتا رہا ، اس مدت میں ساٹھ سے زائد لوگ مسلمان ہوئے جس میں زیادہ تر قریش اور شریف زادے تھے ، بعض غلاموں اور کمزور لوگوں نے بھی اسلام قبول کیا ، جیسے : حضرت بلال ، حضرت عمار بن یاسر ، اور ان کا گھر ، صہیب رومی ، اور عبد اللہ بن مسعود وغیرہ رضی اللہ عنہم ۔
== اس مرحلہ میں نبی ﷺ دعوت کا کام تو سری طور پر کیا کرتے تھے البتہ عملی طور پر آپ ﷺ اپنے دین کا اظہار کرتے تھے ۔
== اس مرحلہ میں جسمانی تکلیف تو کم البتہ مسلمانوں پر نفسیاتی دباو بہت زیادہ ڈالا گیا ، جیسا کہ حضرت سعد بن ابی وقاص کے ساتھ ہوا کہ جب ان کی والدہ نے دیکھا کہ یہ کسی نئے دین کا پیروکار بن گیا ہے تو ان پر دباو ڈالنے لگیں حتی کہ بھوک ہڑتال کردیا ، لیکن حضرت سعد اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور اپنے دین سے نہیں پھرے ۔
== انہیں دنوں میں نبی ﷺ ایک بار کوہ صفا پر بیٹھے ہوئے تھے اور حضرت جبریل آپ کے پاس تھے کہ اللہ تعالی کی طرف سے ایک فرشتہ نازل ہوتا ہے اور سوال کرتا ہے ، اے محمد : آپ کے رب نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے اور یہ پوچھ رہا ہے کہ آپ نبوت کے ساتھ بادشاہت بھی چاہتے ہیں کہ صرف اللہ کے ایک بندے اور رسول ہی رہنا پسند کریں گے ؟ حضرت جبریل علیہ السلام نے اشارے سے بتلایا کہ آپ بندہ اور رسول ہونا ہی قبول کریں ۔ { مسند احمد :2/231 – صحیح ابن حبان ، بروایت ابو ہریرہ } ۔
علانیہ دعوت : نبوت کے تیسرے سال نبی ﷺ کو علی الاعلان دعوت کا حکم دیا گیا ، چنانچہ یہ آیت نازل ہوتی ہے : [فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ المُشْرِكِينَ] {الحجر:94} ” جس بات کا آپ کو حکم دیا گیا ہے اس کا اعلان کریئے اور جاہلوں سے اعراض کیجئے ”
یہ حکم ملتے ہی نبی ﷺ دعوت کےلئے سرگرم ہوگئے اور دعوت کا کام مستعدی سے شروع کردیا آپ نے اولا اپنے اہل خاندان کو ایک گھر میں جمع کیا اور انہیں دعوت اسلام دی ، پھر آگے بڑھ کر تمام قریش کو دعوت دی اور صفا پہاڑی پر کھڑے ہوکر اعلان فرمایا کہ اے قریش کے لوگو ! اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچاو ۔
پھر آپ ﷺ ایک قدم اور آگے بڑھے اور مکہ کے رہنے والوں ، مکہ کے اطراف بسنے والوں اور مکہ مکرمہ میں آنے والوں کے سامنے اپنی دعوت پیش کی ، ہر ایک کو آخرت کی فکر دلائی اور توحید باری تعالی کو اپنانے کی دعوت دی ، آپ کی عام دعوت یہ تھی :
یا ایھا النا س قولوا لا الہ الا اللہ تفلحوا "اے لوگو ! لا الہ الا اللہ کہو کامیاب ہوجاو گے "
اس مرحلہ میں اسلام کی آواز مکہ مکرمہ سے باہر بھی پہنچی اور بہت سے لوگ جو مکہ مکرمہ سے باہر کے رہنے والے تھے وہ بھی مسلمان ہوئے جیسے حضرت ابو ذر اور عمر و بن السلمی رضی اللہ عنہما ۔