بسم اللہ الرحمن الرحیم
حديث نمبر :28
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی حفظہ اللہ
بتاریخ :16/17/ذو القعدہ 1428 ھ، م 27/26، نومبر 2007م
احترام کعبۃ اللہ
عن عبداللہ بن عمرقال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : استممتعوا من ھذا البیت فنہ قد ھدم مرتین ویرفع فی الثالث ۔
( صحیح ابن خزیمہ : ٢٥٠٦ ، صحیح ابن حبان : ٩٦٦ ، الموارد )
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اس گھر سے فائدہ اٹھالو ،کیونکہ دوبار ڈھا یاگیا تیسری بار میں اٹھا لیا جائے گا ۔
تشریح : اللہ تبارک وتعالی نے خانہ کعبہ کو بڑی اہمیت دی ہے ، اسے بہت سے فضائل سے نوازا ہے ،جس شہر میں وہ واقع ہے اسے بلد حرام اور اسکے ارد گرد کے علاقے کو لائق حرمت قرار دیا ہے ،اس گھر کی زیارت کیلئے آنے والے کو اپنا مہمان اور اپنی زیارت کرنے والا ٹہرایا ہے ، صاحب استطاعت پر اس گھر کی زیارت حج وعمرہ کی شکل میں واجب کیا ہے ، صرف یہی ایک گھر ہے جسکے گرد طواف کو مشروع قراردیا ہے ، اور صرف یہی ایک گھر ہے جسکے ایک کونے پر نصب حجر اسود کو بوسہ دینے کو عبادت قرار دیا ہے اس گھر کے بقا کو دنیا کے بقا کی ضمانت بتلایا ہے ، جعل اللہ الکعبة البیت الحرام قیاما للناس ( المائدہ : ٩٧ ) اللہ تعالی نے کعبہ کو جو ادب کا مکان ہے لوگوں کے قائم رہنے کا سبب قرار دیا ہے ،ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جب تک امت اس گھر کی حقیقی تعظیم کرتی رہے گی بخیر وعافیت رہے گی لیکن جب اسکی حرمت پامال کردیں گے توہلاک وبرباد ہوجائیں گے
( سنن ابن ماجہ : ٣١١٠ ، مسند أحمد ، ج: ٤ ، ص: ٣٤٧ ، بروایت عیاش بن ابی ربیعہ )
اللہ تعالی نے اس گھر پر یا اسکے اردگرد کسی برائی وفساد کا ارادہ کرنے والے کو دردناک عذاب کی دھمکی دی ہے ومن یرد فیہ بالحاد بظلم نذقہ من عذاب ألیم ( الحج : ٢٥ ) جو بھی ظلم کے ساتھ وہاں الحاد ( فساد ، کفر ، شرک ، اور گناہ ) کا ارادہ کرے ہے اسے دردناک عذاب چکھائیں گے ۔
اس مبارک گھر کو اللہ تعالی نے اس قسم کے گوناگوں فوائد سے نوازا ہے لیکن چونکہ یہ دنیا فانی ہے ، اس پرکی ہر چیز فنا ہونے والی ہے، لہذا یہ گھر بھی ایک دن اس دنیا میں نہ رہا جائے ، اسلئے اس گھر کے وجود کو غنیمت سمجھتے ہوئے زیر بحث حدیث میں اسکی خیرات وبرکات سے مستفید ہونے کی دعوت ہے کہ وہ وقت آنے سے پہلے کہ جب یہ گھر اس زمین پر نہ رہ جائے اس سے جس قدر فائدہ اٹھانا چاہتے ہوں اٹھالو ، اس حدیث سے متعلق یہاں دو باتیں قابل ذکر ہیں :
٭٭(١) اس گھر سے فائدہ اٹھانے میں کیا کیا اہم چیزیں داخل ہیں ؟
(أ) اس گھر کا طواف : اس گھر کا طواف بڑی اہم نیکی اور قربت الہی کا ذریعہ ہے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : جو شخص شمار کرکے اس گھر کا سات چکر لگائے اور اسکے بعد دو رکعت نماز پڑھ لے تو اسے ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب ملے گااور اس کا گھر کا طواف کرنے والا جب ایک قدم اٹھاکر اسے رکھتا ہے تواس پر اسے دس نیکیاں ملتی ہیں ، دس گناہ مٹا دئے جاتے ہیں اور دس درجات بلند کئے جاتے ہیں
( أحمد ، الترمذی ، بروایت ابن عمر )
(ب) حج وعمرہ کرنا : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرما یا :
ایک عمرہ دوسرے عمرہ کے درمیان کے گناہوں کا کفارہ ہے اور حج مبرور کا بدلہ جنت کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے ،
( متفق علیہ بروایت أبو ہریرہ )
(ج) وہاں نماز پڑھنا : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میری اس مسجد میں نماز پڑھنا دوسری مسجد کے مقابلہ میں ہزار گناہ زیادہ ہے سوائے مسجد حرام کے کیونکہ مسجد حرام میں نماز پڑھنا دوسری مسجدوں کے مقابلہ میں ایک لاکھ گناہ زیادہ ہے ۔
( مسند أحمد ، سنن ابن ماجہ بروایت جابر بن عبداللہ )
(د) اس گھر اور اسکے ارد گرد کی چیزوں کی تعظیم : اللہ تعالی فرماتا ہے : ومن یعظم شعائر اللہ فنھا من تقوی القلوب ( الحج : ٣٢ )
اور جو شخص اللہ کی نشانیوں کی عزت وحرمت کرے تویہ اسکے دل کی پرہیز گاری کی وجہ سے ہے ۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن فرمایا : یہ وہ شہر ہے جسکی حرمت اللہ تعالی نے اس دن متعین کردی تھی جس دن آسمان وزمین کو پیدا فرمایا ، اس لئے اب یہ اللہ تعالی کے حرام قرار دینے کی وجہ سے قیامت تک کیلئے حرام ہے ،اور اس شہر میں مجھ سے پہلے کسی کیلئے قتال کو حلال نہیں کیاگیا اور میرے لئے بھی دن کے ایک حصے میں قتال کو جائز کیا گیا اس لئے وہ اللہ تعالی کے حرام قراردینے کی وجہ سے قیامت تک کیلئے حرام ہے ، اس شہر کا کانٹا نہ کاٹا جائے ، نہ اس میں موجود شکار کو بھگایا جائے گا ، نہ اس میں پڑی ہوئی چیز کو اٹھایا جائے لا یہ کہ مقصد اسکا اعلان کرنااور مالک تک پہنچانا ہو ، اور نہ ہی وہاں کی گھاس کاٹی جائے گی ۔
( متفق علیہ ، بروایت : عبداللہ بن عباس )
٭٭(٢) اس گھر کو اللہ تبارک وتعالی کے حکم سے حضرت آدم علیہ السلام یافرشتوں نے تعمیر کیا تھا جو طوفان نوح میں منہدم ہوگیا تھا ، جسکی تعمیر نو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کی پھر جب یہ گھر بہت بوسیدہ ہوگیا اور سیلاب سے منہدم ہوگیا تو قریش مکہ نے اسکی تعمیر کی جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پھر شریک تھے اس طرح باربار اسکی تعمیر نو ہوتی رہی اور اسکی برکت سے لوگ مستفید ہوتے رہے پھر جب قیامت قریب ہوگی تو حبشہ سے ایک ٹیڑھی پنڈلیوں والا حبشی اپنی فوج لیکر آئے گا اور اس گھر کو اس قدر بری طرح ڈھا دیگا کہ اسکی بنیادکی اینٹوں تک کو اکھاڑ دیگا ، پھر اسکے بعد اس گھر کی تعمیر نہ کی جائے گی ، …………. زیربحث حدیث میں اسی طرف اشارہ ہے ۔
فوائد :
١) خانہء کعبہ کی اہمیت کہ اسکا وجوداس امت کیلئے امان کی حیثیت رکھتاہے ۔
٢) اس گھر کی زیارت وہاں نماز اور اسکے طواف کی اہمیت ۔
٣) حج وعمرہ اور طواف وغیرہ ایسی عبادتیں ہیں جوصرف اسی گھر کے ساتھ خاص ہیں ۔
ختم شدہ