بسم اللہ الرحمن الرحیم
330:حديث نمبر
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
احسان کا آخری درجہ
بتاریخ : 25/ محرم 1439 ھ، م 14/، نومبر 2017 م
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنِ اسْتَعَاذَ بِاللَّهِ فَأَعِيذُوهُ، وَمَنْ سَأَلَ بِاللَّهِ فَأَعْطُوهُ، وَمَنْ دَعَاكُمْ فَأَجِيبُوهُ، وَمَنْ صَنَعَ إِلَيْكُمْ مَعْرُوفًا فَكَافِئُوهُ، فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا مَا تُكَافِئُونَهُ، فَادْعُوا لَهُ حَتَّى تَرَوْا أَنَّكُمْ قَدْ كَافَأْتُمُوهُ»
سنن ابو داود:1672، سنن النسائي:2568
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو شخص اللہ کے واسطے سے پناہ مانگے اسے پناہ دو ، جو تم سے اللہ تعالی کے نام کے واسطے سے سوال کرلے اسے دو، اور جو تمہیں دعوت دے اسکی دعوت قبول کرلو اور جو تمہارے ساتھ کوئی احسان کرے تو اس کا بدلہ دو ، اگر اس کا بدلہ دینے کے لئے تمہارے پاس کوئی چیز نہ ہو تو اس کے لئے دعا کرو اور یہاں تک دعا کرتے رہو کہ تم سمجھ لو کہ اس کے احسان کا بدلہ چکا دیا ہے ۔ {سنن ابو داود ، سنن النسائی ، صحیح ابن حبان }۔
نبی ﷺ کی اس مبارک حدیث میں ہمیں چند آداب سکھلائے گئے ہیں جن کا تعلق عقائد سے بھی ہے ، عبادات سے بھی ہے اور اخلاقیات سے بھی ، چنانچہ اس حدیث میں لوگوں کے ساتھ تعامل کے چار ادب بیان ہوئے ہیں ۔
[۱] اللہ کے نام پر پناہ مانگی جائے تو پناہ دی جائے : "پناہ ” کا معنی ہے کہ کسی دشمن یا ضرر رساں چیز سے اپنے آپ کو بچانے کے لئے کسی کی حفاظت میں دے دینا ،یا کسی چیز کی آڑ لینا ، اس سے لپٹ جانا ۔ ارشاد نبوی ہے کہ” اگر کوئِی اللہ کا واسطہ دیکر تم سے پناہ طلب کرے تو اسے پناہ دے دو” یعنی اگر کوئی شخص آپ سے کہتا ہے کہ میں اللہ کے واسطے آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ مجھے نہ ماریئے ،یا میرا حق نہ لیجئے ، یا فلاں شخص نے ظلم کی انتہا کردی ہے اس سے مجھے بچالی جئے ۔ اس صورت میں اس کی مدد واجب ہوگی کیونکہ اللہ تعالی کے نام کی تعظیم کا تقاضا ہے کہ پناہ چاہنے والے کی مدد کی جائے ۔البتہ اس کے لئے شرط یہ ہے کہ :
۱– یہ پناہ دینا اس کے مقدور میں ہو اور اس کے عوض ا سے کوئی ضرر لاحق نہ ہورہا ہو ، اگر مقدور میں نہ ہو یا ضرر پہنچ رہا ہو تو واجب نہ ہوگی ۔
۲– پناہ طلب کرنا کسی مشروع اور جائز چیز سے متعلق ہو ، اگر یہ پناہ طلبی کسی حرام اور غیر شرعی امر سے متعلق ہوگی تو پناہ دینا جائز نہ ہوگا ، جیسے آپ نے کسی بے نمازی پرنماز پڑھنے کے لئے زور دیا تو وہ کہتا ہے کہ اللہ کے لئے مجھے چھوڑ دیجئے تو یہ چھوڑنا جائز نہ ہوگا ، کیونکہ یہ گناہ کے کام پر تعاون ہے ۔
[۲] جوا للہ کا واسطہ دے کر مانگے اسے دو : "جو اللہ تعالی کے نام کے واسطے سوال کرے اسےدے دو” ، یعنی اگر کوئی یہ کہتا کہ آپ کو اللہ تعالی کا واسطہ ہے کہ مجھے یہ چیز دے دیجئے ، اگر اس کا مانگنا حق ہے تو اسے ضرور دینا چاہئے، کیونکہ اسے واپس کردینا گویا اللہ تعالی کے نام کی ایک گونہ توہین ہے اور اس کا معنی ہے کہ جس کے سامنے اللہ کا نام لیا جارہا ہے اس کے دل میں اللہ تعالی کی حقیقی تعظیم نہیں ہے ۔
لیکن اس کے لئے یہ شرط ہے کہ اس کاسوال جائز چیز سے متعلق ہو اور جس سے مانگا جارہا ہے اسے اس کے عوض کوئی ضرر لاحق نہ ہورہا ہو ۔
چنانچہ اگر ایک شخص اللہ تعالی کا واسطہ دیکر کوئی ایسی چیز مانگتا ہے جو حرام ہے، جیسے شراب پینے کے لئے پیسے مانگنا ، توایسی صورت میں اس کے سوال کو پورا کرنا جائز نہ ہوگا۔ اسی طرح اگر ایک شخص آپ سے اللہ کا واسطہ دیکر کوئی ایسی چیز مانگ رہا ہے جو آپ کی اپنی ملکیت نہیں ہے ، یا آپ کے پاس صرف آپ کے اہل خانہ کے خرچ کے برابر پیسہ ہے تو ایسی صورت میں بھی سوال پورا کرنا ضروری نہ ہوگا ، یہ بات یہاں واضح رہے کہ یہ پورا کرنا اسی شکل میں واجب ہوگا جب کہ سوال کرنے والا سچا ہو اور کسی شخص معین سے کوئی خاص چیز مانگ رہا ہو ، اگر یہ دونوں شرطیں نہ مانگی تو پورا کرنا واجب نہ ہوگا ۔
[۳] دعوت قبول کرنا واجب ہے : "جو تمہاری دعوت کرے اس کی دعوت قبول کرو "، یعنی اگر کوئی شخص کسی کو دعوت دیتا ہے تو اس کی دعوت قبول کرنا واجب ہے خواہ شادی کی دعوت ہو یا کوئی عام دعوت ، کیونکہ یہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حق ہے جس کی ادائیگی ضروری ہے، نبی ﷺ نے فرمایا : جب تمہیں دعوت دے تو قبول کرنی چاہئے ، شادی کا ولیمہ ہو یا اس کی مانند کسی اور چیز ۔ سنن ابو داود
۱– مقام دعوت میں کوئی منکر عمل نہ ہو ۔ ۲– دعوت دینے والا مسلمان ہو ۔ ۳– داعی میں کوئی ایسی برائی نہ ہوکہ اسی سے کنارہ کشی واجب ہے ۔ ۴– دعوت میں جانے سے کسی بڑے واجب کا ترک نہ لازم آتا ہو ۔ ۵—دعوت میں جانے سے کوئی ضرر لاحق ہونے کا خطرہ نہ ہو ۔ {القول المفید :351، 352، ج 2 } ۔ ۔ ارشاد نبوی ہے کہ جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ کسی ایسے دستر خوان پر نہ بیٹھے جس پر شراب کا دور چل رہاہو ۔ {مسند ابو یعلی
[۴] احسان کا بدلہ دو : یعنی اگر کوئی تمہارے ساتھ احسان کرے خواہ مالی طور پر ہو جیسے ہدیہ و تحفہ وغیرہ یا جسمانی طور پر ہو جیسے کوئی خدمت کردی تو اس کا بدلہ دو ،کوشش یہ رہے کہ کسی کا کوئی حق اپنے اوپر نہ رہنے پائے، مسلمان کا یہ بھی ایک حق ہے جس کا ادا کرنا واجب ہے ، الا یہ کہ اگر وہ احسان کسی ایسے شخص کا ہو کہ اس کا بدلہ دینا مشکل ہے ،یا یہ کہ وہ بدلہ لینے سے خوش نہیں ہوتا تو اس کے لئے بکثرت دعا کی جائے تا کہ اس کا حق ادا ہوجائے ، اس کا یک فائدہ تو یہ ہوگا کہ اس طرح لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ احسان کرنے پر رغبت ہوگی ، دوسرے یہ کہ کسی کا احسان مند ہوجانے سے انسان کو جو کمتری کا احساس رہتا ہے وہ جاتا رہے گا ، واللہ اعلم ۔ اچھے بدلے کی دعا کا سب بہتر طریقہ اس حدیث میں بیان ہوا ہے: جس کے ساتھ کوئی نیک برتاو کیا گیا اور اس نے کہا : "جزاک اللہ خیرا ” تو اس نے محسن کی خوب تعریف کی ۔ {سنن ترمذی بروایت اسامہ بن زید }
فوائد :
- اللہ کے واسطے سے کوئی چیز طلب کی جائے تو اس کا پورا کرنا اللہ تعالی کی تعظیم میں داخل ہے ۔
- اللہ کے نام کا واسطہ دے کر مانگنے والے سائل کو واپس نہیں کرنا چاہئے ۔
- مسلمان بھائی کی دعوت قبول کرنا اسلامی حق ہے ۔
ہر احسان کرنے والے کا بدلہ دینا مشروع ہے اور سب سے ہلکے درجے کا بدلہ یہ ہے کہ اس کے لئے دعا کی جائے ۔