بسم اللہ الرحمن الرحیم
292:حديث نمبر
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
اختتام عمل – 1
بتاریخ : 05/ رجب 1437 ھ، م 12، اپریل2016 م
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ” بَادِرُوا بِالْأَعْمَالِ سِتًّا: الدَّجَّالَ، وَالدُّخَانَ، وَدَابَّةَ الْأَرْضِ، وَطُلُوعَ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا، وَأَمْرَ الْعَامَّةِ، وَخُوَيْصَّةَ أَحَدِكُمْ ". ( صحيح مسلم:2947الفتن، مسند أحمد 2/337 )
ترجمہ :حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : چھ صورت حال پیدا ہونے سے قبل نیک عمل میں جلدی کرلو ، دجال کا خروج ، دھواں کا ظہور ، دابۃ الارض کا خروج ، مغرب کی جانب سے سورج کا طلوع ، عام لوگوں کا معاملہ اور تم میں سے کسی کے ساتھ خاص معاملہ ۔ {صحیح مسلم ، مسند احمد ، مستدرک الحاکم } ۔
تشریح : یہ ایام جن میں ہم زندگی بسر کررہے ہیں قیامت کے بالکل قریب ہونے کا زمانہ ہے ، قیامت کی آمد کی نشانیاں ایک ایک کرکے ظاہر ہوتی جارہی ہیں ،حتی کہ قیامت کی چھوٹی نشانیوں میں سے اکثر نزانیاں ظہور میں آچکی ہیں ، البتہ بڑی نشانیوں کا سلسلہ ابھی تک شروع نہیں ہو ا ، لیکن حالات وآثار کچھ ایسے بتلا رہے ہیں کہ اب ان کا ظہور بالکل قریب ہے ،۔ یاد رہے کہ قیامت کی بڑی نشانیاں چھوٹی نشانیوں کے مقابلے میں چند خصوصیات کی حامل ہیں :
[۱] ایک تو یہ کہ قیامت کی ایک بڑی نشانی جب ظاہر ہوگئی تو باقی نشانیاں اسکے کے فورا بعد ظاہر ہونا شروع ہوجائیں گی ، ارشاد نبوی ہے : قیامت کی [بڑی ] نشانیاں ایک دھاگے پر پروئی ہوئی موتیاں ہیں ،جب دھاگہ ٹوٹ جائے تو موتیاں ایک دوسرے کے فورا بعد گرنا شروع ہوجاتی ہیں ۔ {مسند احمد ، مستدرک الحاکم برویت عبد اللہ بن عمر }[۲] دوم یہ کہ قیامت کی بڑی نشانیوں کا ظہور ایسے فتن و مصائب کے دور میں ہوگا کہ لوگوں کو عمل صالح کا موقعہ کم اوربہت کم ملے گا ۔ [۳] سوم یہ کہ قیامت کی بعض بڑی نشانیاں ایسی ہیں کہ ان کے ظاہر ہوتے ہی تو بہ کا دروازہ بند ہوجائے گا اور کسی انسان کی توبہ قبول نہ کی جائے گی اور نہ ہی کسی بے ایمان کا ایمان اللہ تعالی کے نزدیک مقبول ہوگا ، ارشاد نبوی ہے تین علامتیں جب ظاہر ہوجائیں گی تو جو شخص پہلے سے ایمان نہ لا چکا ہوگا یا اپنے ایمان کے ساتھ عمل صالح نہ کرلیا ہوگا تو اس کا ایمان قبول نہ کیا جائے گا ، ۱—مغرب سے سورج کا طلوع ہونا ۔ ۲—دجال ۔ ۳—اور دابۃ الارض کا خروج ۔ {صحیح مسلم ، سنن الترمذی }۔ لہذا مسلمان کو چاہئے کہ عمل صالح میں نہ کوتاہی کرے اور نہ ہی لیت و لعل سے کام لے ، کیونکہ عمل صالح ہی ایک ایسی چیز ہے جو مشکل سے مشکل ترین وقت میں بندے کے کام آتی ہے اور جو شخص آسانی و راحت کے وقت میں نیک عمل کا اہتمام کرتا ہے اللہ تعالی مشکل وقت میں اس کا ساتھ دیتا ہے، ارشاد نبوی ہے فراخی کے وقت میں اللہ تعالی کو پہچانو ، اللہ تعالی مشکل وقت میں نہیں بھولے گا ۔ {مسند احمد ، سنن ترمذی } نیز اللہ تعالی کا ایک بہت بڑا فضل بندوں پر یہ ہے کہ جو بندہ حالت صحت و اقامت میں نیک عمل کرتا رہتا ہے ، سفر و بیماری کی حالت میں جب نیک کام کرنے سے مجبور ہوجاتا ہے تو اس کا اجر جاری رہتا ہے ۔ {صحیح بخاری } ۔ زیر بحث حدیث میں اسی نکتے کی طرف ہماری توجہ دلائی گئی ہے چنانچہ نبی ﷺ نے قیامت کی آمد اور اس کی عظیم نشانیوں کے ظہور سے قبل عمل صالح پر ابھارتے ہوئے فرمایا کہ چھ چیزیں ظاہر ہونے سے قبل جلدی جلدی نیک عمل کرلو ،کیونکہ یہ چھ چیزیں جب ظاہر ہوجائیں گی تو اس وقت اولا تو نیک عمل میں بڑی رکاوٹیں پیدا ہوں گی ، ثانیا ان میں سے بعض کے ظاہر ہوجانے کے بعد نیک عمل کا کوئی فائد نہ ہوگا ، وہ چھ چیزیں یہ ہیں :
[۱] دجال : دجال اس روئے زمین کا سب سے عظیم فتنہ ہے ،بلکہ اس دنیا میں جتنے فتنے ظاہر ہورہے ہیں وہ تمام فتنے دجال کے فتنوں کا پیش خیمہ ہیں ، دجال کا ظہور ایسے وقت میں ہوگا کہ لوگوں میں دینداری کم از کم ہوگی ، دنیا کی طرف رغبت بہت زیادہ ہوگی ، لوگ باہمی اختلاف کا شکار ہوں گے اور سخت پریشانی اور محتاجگی کا عالم ہوگا ، نیز دجال کے پاس بہت زیادہ خارق عادت امور ہوں گے، جیسے بڑی تیز رفتاری سے ساری دنیا کی سیر کرلے گا ، شیطان کی مدد اسے مکمل طور پر حاصل ہوگی ، اس کے حکم سے آسمان بارش برسائے گا اور زمین اس کے حکم سے اپنے خزانے باہر پھینکے گی، حتی کہ وہ بعض لوگوں کو مار کر دوبارہ زندہ کردے گا ۔ اس مشکل وقت میں کسی بھی انسان کا اس عظیم فتنے سے بچنا بغیر اللہ تعالی کی مدد کے ممکن نہیں ہے اور اللہ تعالی کی مدد دنیک و صالح لوگوں کے ہی ساتھ ہوتی ہے ۔
اس فتنے کی خطرناکی اور ساتھ ہی ساتھ امت کو اس سے متنبہ کرتے ہوئے نبی ﷺ نے فرمایا : آدم علیہ السلام کی پیدائش سے لے کر قیامت آنے تک دجال سے بڑی چیز کوئی نہیں پیدا کی ۔ {صحیح مسلم بروایت عمر ان بن حصین }یعنی اس کے فتنہ سے بڑا فتنہ اور اس کے شر سے بڑا شر پیدا نہیں کیا گیا۔
ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا : لوگو! اللہ تعالی نے جب سے آدم علیہ السلام اور ان کی ذریت کو پیدا فرمایا ہے زمین میں دجال سے بڑا فتنہ ظاہر نہیں ہوا ، اللہ تعالی نے جس نبی کو بھی مبعوث فرمایا اس نے اپنی امت کو دجال سے ڈرایا، میں آخری نبی ہوں اور تم آخری امت ہو ، وہ یقینا تمہارے اندر ہی ظاہر ہوگا ، اگر وہ اس وقت ظاہر ہوا تو جب کہ میں تمہارے اندر موجود ہوں تو تم سے پہلے اس سے مقابلہ کرلوں گا اور اگر میرے بعد ظاہر ہوا تو ہر شخص اپنا دفاع خود کرے گا،ا ور اللہ تعالی میری عدم موجودگی میں ہر مسلمان کا مددگار ہوگا ، یاد رکھو وہ شام و عراق کے درمیان ایک جگہ سے ظاہر ہوگا اور دائیں بائیں خوب فساد پھیلائے گا ۔ لہذا اے اللہ کے بندو ثابت قدم رہنا ۔۔۔ الحدیث ۔ {سنن ابن ماجہ ، مستدرک الحاکم ، بروایت ابی امامہ } ۔
[۲] دھواں : یہ بھی قیامت کی ایک بڑی نشانی ہے ، اس نشانی کے ظاہر ہونے سے عالم علوی میں تغیر و تبدل شروع ہوجائے گا ، اس بارے میں احادیث کا خلاصہ یہ کہ ایک ایسا وقت آئے گا کہ ساری دنیا پر ایک دھواں چھا جائے گا ،جس سے دنیا کے سارے لوگ دوچار ہوں گے ، مومن پر تو صرف اتنا ہی اثر ہوگا جیسا کہ زکام یا الرجی کا ہوتا ہے ، البتہ کافر کے جسم میں داخل ہوکر اس کے ہر ہر رونگٹے سے باہر آنا چاہے گا جس سے اسے غیر معمولی تکلیف ہوگی ، ارشاد باری تعالی ہے : فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ (10) يَغْشَى النَّاسَ هَذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ (11) رَبَّنَا اكْشِفْ عَنَّا الْعَذَابَ إِنَّا مُؤْمِنُونَ (12) أَنَّى لَهُمُ الذِّكْرَى وَقَدْ جَاءَهُمْ رَسُولٌ مُبِينٌ (13- سورة الدخان )
[اگر یہ آپ پر ایمان نہیں لاتے تو ] اس دن کے منتظر رہیں جب کہ آسمان ظاہر دھواں لے کر آئے گا ، جو لوگوں کو گھر لے گا ، یہ دردناک عذاب ہے ، لوگ کہیں کے کہ اے ہمارے رب یہ آفت ہم سے دور کر ، ہم ایمان قبول کرتے ہیں ، ان کے لئے اب نصیحت کہاں ہے ؟ جب کہ کھول کھول کر بیان کرنے والے پیغمبر ان کے پاس آچکے ۔