اصول خرید وفروخت/حديث نمبر :244

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حديث نمبر :244

خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط

بتاریخ :15 / جمادی الآخرہ 1435 ھ، م 15،اپریل 2014م

اصول خرید وفروخت

عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْبَيِّعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا أَوْ قَالَ حَتَّى يَتَفَرَّقَا فَإِنْ صَدَقَا وَبَيَّنَا بُورِكَ لَهُمَا فِي بَيْعِهِمَا وَإِنْ كَتَمَا وَكَذَبَا مُحِقَتْ بَرَكَةُ بَيْعِهِمَا.

)صحيح البخاري:2079 البيوع، صحيح مسلم:1531 البيوع.(

ترجمہ : حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : دونوں سودا کرنے والوں کو اس وقت تک اختیار ہے جب تک کہ وہ جدا نہ ہوں ، پس اگر وہ دونوں سچ بولیں اور چیز کی حقیقت صحیح صحیح بیان کردیں تو ان کے سود ے میں برکت ڈال دی جاتی ہے اوراگر جھوٹ بولیں اور چھپائیں تو ان کے سودے کی برکت مٹا دی جاتی ہے ۔

{ صحیح بخاری و صحیح مسلم } ۔

تشریح : کسی بھی چیز کے لین دین میں نرمی کا برتاو، دل کی سچائی اور اپنے بھائی کی خیر خواہی ایسے جوہر ہیں جو رب کریم کی طرف سے برکت کا سبب اور آخرت میں اس کی رحمت کے حصول کا بہترین ذریعہ ہیں : فَلَوْ صَدَقُوا اللَّهَ لَكَانَ خَيْراً لَهُمْ (21) محمد۔ اللہ تعالی کے ساتھ سچ کا معاملہ رکھتے تو یہ ان کے لئے بہتر ہوتا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : رَحِمَ اللَّهُ رَجُلًا سَمْحًا إِذَا بَاعَ وَإِذَا اشْتَرَى وَإِذَا اقْتَضَى ۔

{ بخاری و مسلم } ۔

اللہ تعالی اس شخص پر رحم فرماتا ہے جو بیچے تو نرمی سے کام لے ، خریدے تو نرمی سے کام لے اور اگر کسی سے وصولی کا مطالبہ کرے تو نرم رویہ اختیار کرے ، برخلاف اسکے اگر درشت مزاجی ہو ، ضرورت سے زیادہ اصول کی پابندی کی جائے ، لین دین میں سچائی اور امانت داری کو ملحوظ نہ رکھا جائے تو نہ اسے دنیا میں آرام کی زندگی نصیب ہوتی ہے ، نہ ہی کمائی میں برکت ہوتی ہے اور نہ ہی ایسا شخص قیامت کے دن رحمت الہی کا مستحق ٹھہریگا ، ارشاد نبوی ہے : قسم کھانے سے مال تو بک جاتا ہے البتہ اس کی برکت جاتی رہتی ہے ۔

{ بخاری و مسلم } ۔

زیر بحث حدیث میں خرید و فروخت سے متعلق یہی باتیں بیان ہوئی ہیں ، اس حدیث کے تین جملے ہیں :

[۱] دونوں سودا کرنے والوں کو اس وقت تک اختیار ہے جب تک وہ جدا نہ ہوں :

یعنی جس مجلس میں کسی چیز کے خرید و فروخت کی بات چل رہی ہو اور خریدنے والا اور بیچنے والا دونوں کسی بات پر متفق ہوجائیں تو جب تک وہ مجلس برخواست نہیں ہوتی دونوں میں ہر کسی کو سودا فسخ کرنے کا اختیار حاصل رہے گا ، چنانچہ اگر کوئی خریدار کسی دکان پر جاتا ہے اور کسی چیز کا سودا کرتا ہے ، دونوں طرف سے لین دین بھی ہوجاتا ہے ،لیکن ابھی وہ دکان میں موجود ہے تو دونوں فریق میں سے کسی کو بھی اس سودے کے فسخ کرنے کا اختیار حاصل ہے ، دونوں میں کسی کو یہ کہنے کا اختیار نہ ہوگا کہ بات مکمل ہوچکی ہے ، سودے کا لین دین ہوچکا ہے ، بیچی ہوئی چیز واپس نہیں لی جاتی ، البتہ چند صورتیں اسسے مستثنی ہیں :

[الف] سودا یا قیمت میں کوئی عیب ہو تو دونوں کو فسخ کا اختیار حاصل رہے گا ، خواہ مجلس بدل جائے، اس کو علماء خیار عیب کہتے ہیں ۔

[ب] دونوں اسی مجلس میں اس بات پر متفق ہوجائیں کہ سودا مکمل ہوجانے کے بعد کسی کو فسخ کا اختیار نہیں رہے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : خریدنے والے اور بیچنے والے کو مجلس سے جدا ہونے تک اختیار حاصل ہے الا یہ کہ دونوں خیار کا سودا کریں ۔ { ابو داود ، الترمذی} ۔ یعنی دونوں ایک دوسرے سے کہہ دیں کہ یا تو سودا مکمل کرو یا پھر یہیں ختم کردو ۔ [ج ] مجلس سے جدا ہونے سے پہلے دونوں ایک دوسرے کو یا کوئی ایک فریق دوسرے کو سودا کو باقی رکھنے یا فسخ کرنے کا اختیار دے ، اسی کو علماء خیار شرط کہتے ہیں ۔ اگر یہ تینوںصورتیں نہ ہوں گی تو مجلس عقد سے جدا ہونے سے پہلے تک اختیار باقی رہے گا ،خواہ مدت لمبی ہو یا مختصر ، البتہ مجلس برخواست ہونے کے بعد یا دونوں کو ایک دوسرے سے جدا ہونے کے بعد اختیار باقی نہیں رہےگا ۔

[۲] اگر دونوں سچ بولیں اور چیزکی حقیقت کو صحیح صحیح بیان کردیں تو ،الخ۔: سچ بولنے سے مراد یہ ہے کہ پونجی یا قیمت میں جو خوبی ہے اسے سچ سچ بیان کردیا جائے ،اس میں مبالغہ سے کام نہ لیا جائے اور حقیقت کے بیان کردینے سے مراد یہ ہے کہ سودا میں جو عیب ہے خواہ وہ عیب قیمت میں ہو یا پونجی میں ، ہر دونوں کے عیب کو دونوں فریقکھول کھول کر بیان کردیں ، پھر اگر ایسا ہوا تو اللہ تبارک وتعالی دنیا میں ان کے مال میں برکت عطا فرمائے گا اور آخرت میں انہیں اجر و ثواب سے نوازے گا ، ارشاد نبوی ہے : سچا اور امانت دار تاجر قیامت کے دن نبیوں ، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا ۔

{ سنن الترمذی ، ابن ماجہ } ۔

واضح رہے کہ وہ تمام معاملات جو بندوں کے درمیان لین دین اور تبادل سے متعلق ہیں اسی حکم میں داخل ہیں ۔

[۳] اور اگر جھوٹ بولیں تو اور چھپائیں تو، الخ : یعنی اگر قیمت یا پونجیکی حالت وکیفیت کےبارے میں کذب بیانی سے کام لیں ،اس کی اصل نوعیت کو نہ بتلا کر اس سے عمدہ اور بہتر ظاہر کریں اور اس میں جو عیب ہے اس چھپائیں اور بیان نہ کریں تو دنیا میں اطاعت الہی اور اس سودے کی برکت سے محروم رہیں گے اور آخرت میں عذاب الہی کے مستحق ٹھہریں گے ۔ سچ فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ تیں قسم کے لوگ ایسےہیں جو قیامت کے دن رب رحیم کی نظر رحمت سے محروم رہیں گے ، مزید یہ کہ اللہ تعالی انہیں پاک نہ کرے گا بلکہ انہیں دردناک عذاب کا سامنا کرنا ہوگا ، یہی بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار دہرائی ، پھر صحابہ کے پوچھنے پر بتایا :1- اسبال کرنے والا ،2- احسان جتلانے والا، 3- اور جھوٹی قسم کھا کر اپنا سامان بیچنے والا ۔

{ صحیح مسلم اور سنن اربعہ } ۔

فوائد :

1) بسا اوقات کوئی شخص جلد بازی میں کسی چیز کے بیچنے یا خریدنے کا سودا کرتا ہے لیکن جلد ہی اس پر پشیمان ہوتا ہے ، ایسے موقعہ کے لئے خیار مجلس مشروع ہے ۔

2) خرید و فروخت میں سچائی و حق بیانی واجب اور اس میں جھوٹ بولنا اور عیب چھپانا حرام ہے ۔

3) لین دین کے معاملہ میں ایک مسلمان کو چاہئے کہ دوسرے کے لئے وہی کچھ پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے ۔

ختم شدہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں