اعترافِ گناہ سے گناہ مٹ جاتے ہیں

موضوع الخطبة  :الاعتراف يهدم الاقتراف

الخطيب                    : فضيلة الشيخ حسام بن عبد العزيز الجبرين/ حفظه الله

لغة الترجمة       : الأردو

موضوع:

اعترافِ گناہ سے گناہ مٹ جاتے ہیں

پہلا خطبہ:

الحمد للهِ الَّذِي شرعَ الشرائعَ رحمةً وحِكْمةً ليبلونا أينا أحسن عملا، أمرناَ بطاعتِه لا لحَاجتِهِ بلْ لنفعنا، يغفرُ الذنوبَ لكلِّ مَنْ تاب إلى ربه ودنا، وأشهد ألا إله إلا الله وحده لا شريك له يجزل العطايَا لمنْ كان مُحسنًا، وأشهدُ أنَّ محمدًا عبدُهُ ورسولهُ رفَعَه فوقَ السموات فدَنَا، صَلَّى الله وسلم عليه وعلى آلِهِ وأصحابه الكرام الأمَنَاء.

حمد وثنا کے بعد!

میں آپ کو اور اپنے آپ کو تقوی الہی کی وصیت کرتا ہوں، مجھپر  اور آپ پر اللہ رحم فرمائے، آپ بلال بن سعد رحمہ اللہ کا یہ قول سماعت کریں: "جان رکھو کہ تم چھوٹے  دنوں میں لمبے دنوں کے لئے عمل کر رہے ہو، دار ِفانی میں دارِ بقا کے لئے عمل کر رہے ہو، حزن وملال اور تکلیف وتھکان کی دنیا میں نعمت اور ہمیشگی کی دنیا کے لئے عمل کررہے ہو”۔

ایمانی بھائیو! یہ ایک عظیم سوال ہے جسے امت کے سب سے افضل شخص نے  سب سے افضل رسول کے سامنے پیش کیا! ایسا سوال جس کا تعلق عبادت کی مغز سے ہے، وہ چاہتے تھے کہ  سب سے افضل عملی عبادت  میں یہ دعا پڑھا کریں! آئیے ہم یہ حدیث سنتے ہیں…بخاری ومسلم نے عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے:ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: مجھے کوئی ایسی دعا سکھا دیجئے  جسے میں نماز میں پڑھا کروں، آپ نے فرمایا: ”تم یہ دعا پڑھا کرو:  « اللَّهُمَّ إنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيرًا، ولَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إلَّا أنْتَ، فَاغْفِرْ لي مَغْفِرَةً مِن عِندِكَ، وارْحَمْنِي، إنَّكَ أنْتَ الغَفُورُ الرَّحِيمُ » ”اے اللہ! میں نے اپنے نفس پر بہت ظلم کیا ہے اور گناہوں کا بخشنے والا صرف تو ہیہے، تو اپنی عنایت سے میرے گناہ بخش دے، اور مجھ پر رحم فرما، تو غفور و رحیم (بخشنے والا مہربان) ہے“۔مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں: مجھے کوئی ایسی دعا سکھا دیجئے  جسے میں نماز میں اور اپنے گھر میں  پڑھا کروں..

اللہ اکبر…امت کے صدیق اور جنت کی  بشارت سے سرفراز شخص کو  رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عظیم دعا کی رہنمائی فرمائی، تو آئیے ہم اس دعا میں وارد جملوں پر غور وفکر کرتے ہیں..

" مجھے کوئی ایسی دعا سکھا دیجئے  جسے میں نماز میں پڑھا کروں”: کیوں کہ نماز تمام تر عملی عبادتوں میں سب سے عظیم عبادت ہے، اور بندہ اپنے رب سے سب سے زیادہ سجدے کی حالت میں قریب ہوتا ہے!

"تم یہ دعا پڑھا کرو :   الل اللَّهُمَّ إنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيرًا":کیوں کہ صدّیق اپنے بلند مقام ومرتبہ پر فائز ہونے کے باوجود معصوم عن الخطا نہیں تھے، مخلوق او رخالق سبحانہ کے درمیان کوئی نسب نامہ  نہیں ہے، بلکہ بندہ  صرف اپنی محتاجگی اور بندگی کااظہار کرتا ہے اورعزیز وبرتر اپنے جود وسخا اور فضل واحسان کا مظاہرہ کرتا ہے۔

اس اعتراف سے اللہ کے سامنے اپنی محتاجگی اور انکساری کا اظہار ہوتا ہے جوکہ بندگی کی مغز ہے!  نیز اس سے عظیم پروردگار کے تئیں نفس کی پستی   بھی ظاہر ہوتی ہے! جس کی نعمتوں کے درمیان وہ کروٹیں لیتا ہے، اگر بندہ اپنی پوری زندگی اطاعت میں گزار دے تب بھی اپنے اس سانس کی نعمت  کا بدلا نہیں چکا سکتا جو وہ سوتے جاگتے مسلسل لیتا رہتا ہے! اور نہ ہی اس دل کی نعمت کا بدلا ادا کرسکتا ہے جو اس کی ولادت سے قبل سے ہی دھڑک رہا ہے، کبھی رکا نہیں! دوسری بیش بہا نعمتوں  کا کیا کہنا!

 اللہ پاک کا حق بہت بڑا ہے، بندہ اللہ کو (اس کے انعامات کا ادنی ترین) بدلا بھی نہیں پہنچا سکتا، اس کے باوجود ہماری اطاعتیں بہت معمولی اور گناہ بہت زیادہ ہیں!

کمی اور کوتاہی کا یہ اعتراف بندہ کو فائدہ پہنچاتا اور  عزیز وبرتر پررودگار کے سامنے اس کی رفعتِ منزلت کا سبب ہوتا ہے۔

اس عظیم دعا میں یہ بھی آیا ہے: "ولَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إلَّا أنْتَ":یہ وحدانیت کا اقرار اور مغفرت کی دعا ہے،  اسلام میں بندہ اور اس کے رب کے درمیان جو تعلق ہے، وہ واسطے اور ثالثی کا محتا ج نہیں،بلکہ وہ بغیر کسی واسطہ کے پاک پروردگار سے دعا کرنے، اس کے سامنے عاجزی اور انکسار ی اختیار کرنے سے عبارت ہے، برخلاف دوسرے ادیان کے، جن کے پیروکاراپنے گناہوں کی معافی وتلافی کے لئے  مخلوقوں کے سامنے  جھکتے اور عاجزی اختیار کرتے ہیں، تمام تعریفات اللہ کے لئے ہیں جس نے ہمیں اسلام کی ہدیت سے سرفراز فرمایا۔

«ولَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إلَّا أنْتَ، فَاغْفِرْ لي مَغْفِرَةً مِن عِندِكَ »:  یہ ایسا جملہ ہے جس میں توحید  اور استغفار دونوں شامل ہیں، اور دین کا قیام بھی ان دو  ستونوں پر  ہی ہے، چنانچہ اللہ تعالی نے توحید اور استغفار کو مختلف مقامات پر ایک ساتھ ذکر فرمایا ہے، اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ﴾ [سورۃ محمد:19]

ترجمہ: (اے نبی!) آپ یقین کرلیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش مانگا کریں اور مومن مردوں او رمومن عورتوں کے حق میں بھی۔

ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا:

﴿ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ اللّهَ إِنَّنِي لَكُم مِّنْهُ نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ وَأَنِ اسْتَغْفِرُواْ رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُواْ إِلَيْهِ ﴾ [سورۃ هود:2،3]

ترجمہ: یہ کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو، میں تم کو اللہ کی طرف سے ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں۔اور یہ کہ تم لوگ اپنے گناہ اپنے رب سے معاف کراؤ پھر اسی کی طرف متوجہ رہو۔

آپ کے فرمان: ” فَاغْفِرْ لي مَغْفِرَةً مِن عِندِكَ "میں  مغفر ت کو نکرہ استعمال کیا گیا ہے جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس سے مراد بڑی عظیم مغفرت ہے، جس کے ذریعہ اللہ پاک،  کوتاہ اور اپنے اوپر ظلم کرنے والے بندے پر نوازش کرتا ہے۔

"بندہ کے اندر جس قدر اللہ کے تئیں تواضع اور بندگی پیدا ہوگی اسی قدر وہ اللہ سے قریب ہوتا جائے گا اور س کے درجات بلند ہوتے جائیں گے، اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ  (وہ کثرت سے) توبہ واستغفار کرے”۔

فَاغْفِرْ لي مَغْفِرَةً مِن عِندِكَ، وارْحَمْنِي، إنَّكَ أنْتَ الغَفُورُ الرَّحِيمُ  :اس کے  اندر اللہ پاک کے اسمائے حسنی کاوسیلہ اختیار کیا گیا ہے، اللہ عزیز وبرتر کا فرمان ہے: ﴿ وَلِلّهِ الأَسْمَاء الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا ﴾ [الأعراف:180]

ترجمہ: اچھے اچھے نام اللہ ہی کے لیے ہیں، سو ان ناموں سے اللہ ہی کو موسوم کیا کرو۔

قرآن کریم میں ستر سے زائد مقامات پر (الغفور) کا ذکر  (الرحیم) کے ساتھ  ہوا  ہے! شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ پاک  اپنے بندوں کے لئے (غفور) معاف کرنے والا اس لئے ہے کہ وہ (رحیم) ان پر رحم کرنے والا ہے۔

ابن حجر فرماتے ہیں: "یہ جامع دعاؤں میں سے ہے، کیوں کہ اس میں حد درجہ کوتاہی کا اعتراف کیا گیا ہے اور سب سے عظیم انعام کی دعا کی گئی ہے، چنانچہ مغفرت کے معنی ہیں گناہوں کو چھپانا اور انہیں مٹا دینا، اور رحمت کے معنی ہیں خیر وبھلائی سے ہمکنار کرنا”۔

ایمانی بھائیو!

ہم دیکھتے ہیں کہ یہ دعا سید الاستغفار (ایک دعا ہے) سے تین امور میں ہم آہنگ ہے: توحید میں، اللہ کے سامنے گناہ کا اعتراف کرنے میں اور مغفرت کی دعا میں۔

اللَّهُمَّ إنِّا ظَلَمْنا أنفسنا ظُلْمًا كَثِيرًا، ولَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إلَّا أنْتَ، فَاغْفِرْ لنا مَغْفِرَةً مِن عِندِكَ، وارْحَمْنِا، إنَّكَ أنْتَ الغَفُورُ الرَّحِيمُ

دوسرا خطبہ:

الحمد للهِ العفوِ الغفّار، وأشهد إلا إله إلا الله الواحدُ القهّار، وأشهد أن محمدًا عبده ورسوله المصطفى المختار، صلى الله وسلم عليه وعلى آله وصحبه الأخيار والتابعين ومن تبعهم بإحسان.

حمد وصلاۃ کے بعد:

ایمانی بھائیو! توبہ کرنا کوئی کمی نہیں ہے، بلکہ وہ افضل ترین اوصاف میں سے ہے، وہ تمام مخلوقات پر واجب ہے، وہی مقصود ومطلوب ہے، اسی کے ذریعہ اللہ عزیز وبرتر کی کامل قربت ملتی ہے، اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿ لَقَد تَّابَ الله عَلَى النَّبِيِّ وَالْمُهَاجِرِينَ وَالأَنصَارِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ فِي سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِن بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيغُ قُلُوبُ فَرِيقٍ مِّنْهُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ إِنَّهُ بِهِمْ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ ﴾ [التوبة:117]

ترجمہ:اللہ تعالی نے پیغمبر کے حال پر توجہ فرمائی او ر مہاجرین اور انصار کے حال پر بھی جنہوں نے ایسی تنگی کے وقت پیغمبر کا ساتھ دیا ، اس کے بعد کہ ان میں سے ایک گروہ کے دلوں میں کچھ تزلزل ہو چلا تھا، پھر اللہ نے ان کے حال پر توجہ فرمائی، بلا شبہ اللہ تعالی ان سب پر بہت ہی شفیق ومہربان ہے۔

نیز عزیز وبرتر پروردگار کا فرمان ہے: ﴿ لِيُعَذِّبَ اللَّهُ الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْمُشْرِكِينَ وَالْمُشْرِكَاتِ وَيَتُوبَ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا ﴾ [الأحزاب: 73]

ترجمہ: (یہ اس لئے ) کہ اللہ تعالی منافق مردوں   عورتوں اور مشرک مردوں عورتوں کو سزادے او رمومن مردوں عورتوں کی توبہ قبول فرمائے، اور اللہ تعالی بڑا ہی بخشنے والا اور مہربان ہے۔

مغفرت  کی وجہ سے  ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت کے دن شفاعت کا حق حاصل ہوگا، صحیحین میں شفاعت والی حدیث کے اندر  آیا ہے کہ: "تم سب محمد کے پاس جاؤ، وہ اللہ کے ایسے بندے ہیں جن کی اگلی پچھلی سب خطائیں اللہ تعالی نے معاف کردی ہیں”۔

رحمن کے بندو! اللہ پاک نے ہمیں ایسی  دعاؤں کی خبر دی ہے جن   کے مانگنے  والوں کو اللہ نے معاف کردیا،  ان کے اندر گناہوں کا اعتراف کیا گیا ہے ، یہ انسانوں کے سرداروں کی دعائیں ہیں!

ہمارے باپ آدم علیہ السلام اور ہماری ماں  حوا  نے یہ دعا کی: ﴿ قَالاَ رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ ﴾ [الأعراف: 23]

ترجمہ: دونوں نے کہا: اے ہمارے رب! ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا او ر اگر تو ہماری مغفرت نہ کرے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو واقعی ہم نقصان پانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔

نیز یونس بن متی نے بھی دعا کی: ﴿ فَنَادَى فِي الظُّلُمَاتِ أَن لَّا إِلَهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ * فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْغَمِّ وَكَذَلِكَ نُنجِي الْمُؤْمِنِينَ ﴾ [الأنبياء: 87، 88]

ترجمہ: بالآخر وہ اندھیروں کے اندر سے پکار اٹھا کہ الہی تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو پاک ہے ، بے شک میں ظالموں میں ہوگیا۔تو ہم نے اس کی پکار سن لی اور اسے غم سے نجات دے دی اور ہم ایمان والوں کو اسی طرح بچا لیا کرتے ہیں۔

یہ خبر موسی علیہ السلام کے تعلق سےہے جب نبوت سے قبل انہوں نے  غلطی سے کسی کو قتل کردیا: ﴿ قَالَ رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي فَغَفَرَ لَهُ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ﴾ [القصص: 16]

ترجمہ: پھر دعا کرنے لگے کہ اے پروردگار! میں نے خود اپنے اوپر ظلم کیا ، تو مجھے معاف فرمادے، اللہ تعالی نے اسے بخش دیا، وہ بخشش اور بہت مہربانی کرنے والاہے۔

آپ اگر  افضل الانبیاء علیہ الصلاۃ والسلام کی دعاؤں پر غور کریں گے تو پتہ چلے گا کہ آپ کثرت سے استغفار کرتے ، عمومی اور خصوصی مغفرت کی  بہت سی   مختلف دعاؤں کا اہتما م کرتے ، جن میں کہیں اجمال ہوتا تو کہیں تفصیل ہوتی۔

اسحاق الموصلی فرماتے ہیں: اعتراف -گناہوں کو-  مٹادیتا ہے” ، یہ قرآن مجید کی اس آیت کے مصداق ہے: ﴿ وَآخَرُونَ اعْتَرَفُواْ بِذُنُوبِهِمْ خَلَطُواْ عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَيِّئًا عَسَى اللّهُ أَن يَتُوبَ عَلَيْهِمْ إِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴾ [التوبة: 102]

ترجمہ: کچھ اور لوگ ہیں جو اپنی خطا کے اقراری ہیں ، جنہوں نے ملے جلے عمل کیے تھے، کچھ بھلے اور کچھ برے، اللہ سے امید ہے کہ ان کی توبہ قبول فرمائے۔بلا شبہ اللہ تعالی بڑی مغفرت والا بڑی رحمت والا ہے۔

آخر ی بات: آپ اپنی نمازوں اور دعاؤں میں اس دعا کا خاص اہتمام کریں جو نبی   صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکر کو سکھائی ..

 

از قلم:

حسام بن عبد العزیز الجبرین

 

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں