اعتصام باللہ / حديث نمبر :250

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حديث نمبر :250

خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی  الغاط

بتاریخ :05/ شعبان 1435 ھ، م  03،جون 2014م

اعتصام باللہ

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ وابي هريرة رضي الله عنهماعَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا اسْتُخْلِفَ خَلِيفَةٌ إِلَّا لَهُ بِطَانَتَانِ بِطَانَةٌ تَأْمُرُهُ بِالْخَيْرِ وَتَحُضُّهُ عَلَيْهِ وَبِطَانَةٌ تَأْمُرُهُ بِالشَّرِّ وَتَحُضُّهُ عَلَيْهِ وَالْمَعْصُومُ مَنْ عَصَمَ اللَّهُ.

صحيح البخاري:6611 القدر، سنن النسائي:4202 البيعة، مسند احمد3/39

 ترجمہ : حضرت ابو سعید الخدری اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما سےروایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالی نے جو نبی بھی بھیجا اور جس کو بھی  خلیفہ بنایا تو اس کے دو راز دار ساتھی ہوتے ہیں، ایک  محرم راز اسے  نیکی کا حکم  دیتا اور اس پر ابھارتا ہے اور دوسرا محرم راز اسے برائی کا حکم دیتا اور اس پر ابھارتا  ہے، اور محفوظ وہ ہے جسے اللہ تعالی بچالے ۔ { صحیح بخاری ، سنن النسائی ، مسند احمد } ۔

تشریح : یہ ایک حقیقت ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کی آزمائش کے طور پر اس کے اندر خیر و شر دونوں قوتیں ودیعت کی ہیں ، اور ان طاقتوں کو بروئے کار لانے کے لئے  بھی دو قوتیں  ہیں ایک قوت  خیر پر ابھارتی ہے اور  اس کی طرف دعوت دیتی ہے ، دوسری شر پر ابھارتی ہے اور اس کی خوبیان بیان کرتی ہے ، یہ طاقت  کبھی تو انسان  کا  خود اپنا نفس ہوتا ہے  جو کبھی اسے  برائیوں  پر ابھارتا اور اسے مزین کرکے پیش کرتا ہےجسے قرآن میں نفس امارہ  کہا گیا ہے اور کبھی  اسے خیر کے عمل  پر ابھارتا اور اس میں تقصیر پر ملامت کرتا ہے، جسے قرآن میں نفس لوامہ کہاگیا ہے ، اور کبھی  یہ طاقت شیطان  و فرشتوں کی شکل میں ہوتی ہے  کہ شیطان تو اسے برائی  پر ابھارتا ہے ، اور کبھی  یہی طاقت  انسانی  ساتھیوں  کی شکل میں ہوتی ہے ، اس طرح  کہ انسان  کا جو  اچھا اور خیر خواہ ساتھی ہوتا ہے وہ ہمیشہ خیر کے کام کی  دعوت دیتا اور نیکی  کے کام  پر ابھارتا ہے اور جو برا ساتھی  ہوتا ہے  وہ برائی کے کام پر ابھارتا اور اسے مزین کرکے پیش کرتا ہے ، چونکہ انسان نفسی طور پر کمزور اور عزم و ارادہ کے طورپر  ضعیف  واقع ہوا ہے ، اس لئے  وہ نفس لوامہ سے زیادہ نفس امارہ ، فرشتوں سے زیادہ  شیطان  اور مخلص و خیر خواہ  سے زیادہ برے ساتھیوں کی اطاعت قبول کرتا ہے، لہذا معصوم وہی ہے جس کی حفاظت  اس کا مالک حقیقی اور قادر مطلق کرے ۔

یہی حقیقت اس مبارک کلمے میں  مذکور ہے جسے اللہ کے رسول ﷺ نے عرش کے نیچے کا خزانہ  قرار دیا ہے : "لا حول ولا قوہ الا باللہ ”  یعنی اللہ کی معصیت و نافرمانی  سے بچنا صرف اللہ ہی کی مدد سے ہے اور اس کی اطاعت  بجا لینا اس کی دی ہوئی قوت سے ہی ممکن ہے ۔

زیر بحث حدیث میں بھی اسی حقیقت کو واضح کیا گیا ہے ، لہذا اپنی عافیت  پر حریص  اور اپنے انجام سے فکر مند  انسان کے لئے  ضروری ہے کہ اس حدیث سے ماخوذ  دو سبق کو اچھی طرح یاد کرلے :

[۱]  رب کائنات  قادر مطلق اور مدبر حقیقی اللہ ذو الجلال کے ساتھ اپنے تعلقات کو استوار رکھے ، اس لئے کہ  : [وَمَنْ يَعْتَصِمْ بِاللهِ فَقَدْ هُدِيَ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ] {آل عمران:101} جس نے  اللہ تعالی [ کے دین ] کو  مضبوطی سے تھام لیا اسے  صحیح راستے کی طرف ہدایت مل گئی ۔ [وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ فَهُوَ حَسْبُهُ ] {الطَّلاق:3} جس نے اللہ تعالی پر توکل کیا  اللہ تعالی اس کے لئے  کافی ہے ۔

 اللہ تعالی  کے تعلقات کی استواری یا اللہ  تعالی کے ساتھ چمٹے رہنے  میں دو چیزیں  داخل ہیں اول یہ ہے کہ کتاب الہی اور سنت  رسول  کو مضبوطی  سے تھامے  رہے  چنانچہ  انسان جب تک  ان دو چیزوں کو اپنے سامنے رکھے گا وہ  کبھی  بھی گمراہ نہ ہوگا ، یہی وہ پیغام  ہے جو اللہ تعالی نے دنیائے انسانیت کو  روز ازل سے دیا ہے : [قَالَ اهْبِطَا مِنْهَا جَمِيعًا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ مِنِّي هُدًى فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَى] {طه:123}

فرمایا تم دونوں یہاں  سے اتر جاو تم آپس  میں  ایک دوسرے  کے دشمن  ہو ا ب تمہارے پاس  جب کبھی  میری طرف سے ہدایت  پہنچے تو جو میری ہدایت کی پیروی  کرے نہ وہ بہکے گا اور نہ بد نصیت ٹھہرے گا ۔

دوم اللہ تعالی کی ذات و صفات سے چمٹا رہے یعنی اس کا اعتماد  ، اس کا توکل ، اس کی امید ، اس کی  محبت  اس کا خوف صرف اور صرف  اللہ تعالی سے رہے ، کسی بھی خوشی کے موقعہ پر یا کسی بھی غمی  کے اور مشکل گھڑی میں اللہ تعالی کو نہ بھولے نتیجۃ اللہ تعالی  بھی اس کو نہ بھولے گا ، یہی پیغام  اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے  چچے زاد بھائی حضرت  ابن عباس  کو دیا تھا : احفظ اللہ یحفظک ، احفظ اللہ تجدہ تجاہ ” { سنن ترمذی و مسند احمد } تو اللہ کی حفاظت  کر ، اللہ تعالی تیری حفاظت کرے گا ، تو اللہ تعالی کی حفاظت کر  اللہ تعالی کو اپنے سامنے پائے گا ۔

[۲] اچھے اور نیک لوگوں کا ساتھ اختیار کرے : جو خیر کے کام  میں اس کے معین  ومددگار ہوں اور شر کے کام سے اسے روکیں ، سچ فرمایا  نبی ﷺ نے کہ :” المرء علی دین خلیلہ  فلینظر  احدکم من یخالل ”  { سنن ابو داود }  آدمی اپنے ساتھی کے دین پر ہوتا ہے ، لہذا  تمہیں یہ دیکھنا چاہئے کہ کس کا ساتھ کررہے ہو ۔

فوائد :

نفس کی برائی اور انس و جن کے شیاطین کے  حفاظت  بغیر توفیق الہی ممکن نہیں ہے ۔

حاکم  ، امام  اور صاحب امر کو چاہئے کہ اپنے قریب نیک صاحب فہم اور  خیر خواہ لوگوں کو کرے ۔

اللہ تعالی کے احکام  کو ظاہر ا و باطنا  اپنانا ہی نجات کا ذریعہ ہے ۔