بسم اللہ الرحمن الرحیم
اعتکاف کیا ہے ؟ از قلم : شیخ مقصود الحسن فیضی حفظہ اللہ {ناشر شعبہ توعیۃ الجالیات الغاط www.islamidawah.com } رمضان المبارک اور بالخصوص اس کے آخری عشرہ کے اعمال میں سے ایک اہم عمل اعتکاف بھی ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کرتے تھے ۔ اعتکاف کا معنی : اعتکاف کا معنی لغت میں ٹھہرنا ، جمے رہنا اور کسی مقام پر اپنے آپ کو روکے رکھنا ہے ، شرعی اعتکاف بھی اسی معنی میں ہے کہ اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنے کےلئے مخصوص طریقے پر مسجد میں ٹھہرنا ۔ اعتکاف کی حکمت : اعتکاف کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ ہر طرف سے یکسو ہو کر اور سب سے منقطع ہوکر بس اللہ تعالی سے لو لگاکے اس کے درپے یعنی مسجد کے کسی کونے میں پڑجائے ، سب سے الگ تنہائی میں اس کی عبادت اور اس کے ذکر و فکر میں مشغول رہے ، اس کو دھیان میں رکھے ، اس کی تسبیح و تہلیل و تقدیس میں مشغول رہے ، اس کے حضور توبہ و استغفار کرے ، اپنے گناہوں اور کوتاہیوں پر روئے ، اس کی رضا اور قرب چاہے اور اسی حال میں اس کے دن گزریں اور اس کی راتیں بسر ہوں ، ظاہر ہے اس کا م کےلئے رمضان المبارک اور خاص کر اس کے آخری عشرہ سے بہتر اور کون سا وقت ہوسکتا ہے ، اسی لئے اعتکاف کے لئے اس کا انتخاب کیا گیا ۔ اعتکاف کا حکم : اعتکاف کی مشروعیت قرآن و حدیث اور اجماع امت سے ثابت ہے ، چنانچہ اللہ تعالی فرماتا ہے : [وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ] {البقرة:125} ” اور ہم ابراہیم و اسماعیل [علیہما السلام ] کو تاکیدکی کہ وہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں ، اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لئے صاف ستھرا رکھیں ” ۔ نیزروزے کے احکام کے ضمن میں فرمایا : [وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي المَسَاجِدِ] {البقرة:187} ” اور اگر تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو تو پھر اپنی بیویوں سے مباشرت نہ کرو ” ۔ متعدد حدیثیں اس سلسلے میں وارد ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمرمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کرتے تھے ، چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات تک رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کرتے رہے اور آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات نے اعتکاف کیا ۔ { صحیح البخاری :2026 ، الاعتکاف- صحیح مسلم : 1172 ، الصیام } ۔ حتی کہ امام زہری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ بڑا عجیب معاملہ ہے کہ مسلمانوں نے اعتکاف کی سنت کو چھوڑ دیا ہے حالانکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب سے مدینہ منورہ تشریف لائے آپ نے اعتکاف کبھی نہیں چھوڑا ۔ حتی کہ اپنی عمر عزیز کے آخری سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک کے دو عشروں کا اعتکاف کیا ، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہر رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کرتے تھے ، البتہ جس سال آپ کا انتقال ہو اس سال آپ نے بیس دن کا اعتکاف کیا ۔ { صحیح بخاری : 2044، الاعتکاف – صحیح ابن خزیمہ : 2221 – سنن ابو داود :2466 ، الاعتکاف } ۔ ان آیتوں اور حدیثوں اور اسی طرح کے دیگر نصوص کی روشنی میں اہل سنت و جماعت کے نزدیک مرد و زن ہر ایک کے لئے اعتکاف سنت ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ رمضان کے آخری عشرہ کی یہ ایک تاکیدی سنت ہے تو شاید بے جا نہ ہوگا کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے برابر اعتکاف کیا ہے حتی کہ اگر کبھی کسی وجہ سے یہ اعتکاف چھوٹ گیا تو آپ نے اس کی قضا کی ہے ، چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اعتکاف کا ارادہ فرمایا تو ہم نے بھی آپ کے ساتھ اعتکاف کی اجازت چاہی ، آپ نے مجھے اجازت دے دی تو میں نے اپنے لئے گنبد نما ایک خیمہ مسجد میں نصب کرلیا ، پھر جب حضرت حفصہ نے سنا تو انہوں نے بھی اپنے لئے ایک خیمہ نصب کرلیا ، اور حضرت زینب سے سنا تو انہوں نے بھی اپنے لئے ایک خیمہ نصب کرلیا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب چار خیموں کو دیکھا تو پوچھا یہ کیا ہے ؟ آپ کو حقیقت حال سے آگاہ کردیا گیا تو آپ نے فرمایا انہیں اس امر پر کس چیز نے ابھارا ہے ؟ کیا نیکی نے ؟ [ ہرگز نہیں ، اس کا سبب تو محض غیرت ہے ] لہذا انہیں اکھاڑ پھینکو ، میں انہیں نہ دیکھو ، چنانچہ خیمے اکھاڑ دئے گئے [ جن میں آپ کا خیمہ بھی تھا ] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رمضان میں تواعتکاف نہیں کیا البتہ شوال کے آخری عشرے اس اعتکاف کی قضا کی ۔ { صحیح بخاری : 2040، الاعتکاف – صحیح مسلم : 1183، الاعتکاف } ۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کرتے تھے لیکن ایک سال کسی سفر کی وجہ سے اعتکاف نہ کرسکے تو آئندہ رمضان کے بیس دن کا اعتکاف کیا ۔ { سنن ترمذی :803، الصوم – صحیح ابن خزیمہ : 2226، الصوم } ۔ غیر رمضان میں اعتکاف : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف رمضان کا اعتکاف ثابت ہے، بغیر کسی عذر کے آپ نے غیر رمضان میں اعتکاف نہیں کیاہے ، لیکن ایک بار حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول میں نے جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ مسجد حرام میں ایک رات کا اعتکاف کروں گا ، اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اپنی نذر پوری کرو ۔ { صحیح بخاری : 2032،ا لاعتکاف – صحیح مسلم :1656، الایمان ، بروایت ابن عمر } ۔ اس لئے غیر رمضان میں بھی اعتکاف مستحب اور سنت ہے، البتہ رمضان اور خصوصا رمضان کے آخری عشرہ میں اس کی تاکید ہے ۔ اعتکاف کی مدت : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں کم از کم ایک عشرے کا اعتکاف کیا ، اس لئے افضل و بہتر یہی ہے کہ رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کیا جائے لیکن اگر کسی کے حالات ساتھ نہ دیتے ہوں تو وہ سات دن ، پانچ دن یا صرف طاق راتوں کا اعتکاف کرے چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں صحابہ نے رمضان کی سات درمیانی راتوں کا اعتکاف کیا تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا : من کا منکم منحر یا فلینحر ما فی السبع الاواخر ” ۔ جو شخص شب قدر کو تلاش کرنا چاہتا ہے وہ آخری سات راتوں میں تلاش کرے ” ۔ { صحیح ابن خزیمہ :2222 ، الصوم } ۔ نیز عبد اللہ بن انیس الجہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا : اے اللہ کے رسول میں صحرا میں رہائش پذیر ہوں اور الحمد للہ وہاں نماز [تراویح ] کا اہتمام کرتا ہوں [البتہ میں یہ چاہتا ہوں کہ شب قدر کے حصول کے لئے اعتکاف کروں تو ] آپ مجھے کسی ایسی رات کے بارے میں بتلائیے جس رات اس مسجد میں آکر عبادت کروں [ اعتکاف کروں ] تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تیئس کی شب کو آجانا ۔ راوی حدیث محمد بن ابراہیم کہتے ہیں میں نے عبد اللہ بن انیس کے بیٹے سے سوال کیا کہ تمہارے والد کس طرح کرتے تھے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ عصر کی نماز کے بعد مسجد نبوی میں داخل ہوجاتے اور کسی بھی غیر ضروری کام کے لئے مسجد سے باہر نہ نکلتے ، یہاں تک کہ جب صبح کی نماز پڑھ لتیے تو اپنی سواری مسجد کے دروازے پر موجود پاتے اور اس پر سوار ہوکر پھر صحرا میں چلے جاتے ۔ { سنن ابو داود : 1380، الصلاۃ – صحیح ابن خزیمہ : 2200، الصیام } ۔ اعتکاف کی شرطیں : 1) مسلمان ہو : کافر و مشرک کا اعتکاف صحیح نہیں ہے ۔ 2) عاقل ہو : مجنون و پاگل کا اعتکاف صحیح نہیں ہے ۔ 3) تمیز ہو : غیر ممیز بچوں کا اعتکاف صحیح نہیں ہے ۔ 4) مسجد میں ہو : مسجد کے علاوہ کسی اور جگہ اعتکاف صحیح نہ ہوگا ، یہ حکم مرد و عورت دونوں کیلئے ہے ۔ 5) طہارت : حیض و نفاس اور جنابت کی حالت میں اعتکاف صحیح نہ ہوگا ۔ 6) شوہر کی اجازت : بغیر شوہر کی اجازت کے اعتکاف صحیح نہ ہوگا ۔ 7) روزہ : بہت سے علماء کے نزدیک بغیر روزہ کے اعتکاف صحیح نہ ہوگا ۔ اعتکاف کا وقت : اعتکاف کے لئے ضروری ہے جس دن کا اعتکاف کرنا چاہتا ہے اس دن کی رات آنے سے قبل مسجد میں داخل ہوجائے مثلا اگر رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کرنا چاہتا ہے تو بیسویں رمضان کا سورج غروب ہونے سے قبل مسجد میں داخل ہوجائے ، البتہ اپنے معتکف یعنی جائے اقامت میں اکیسویں کی صبح کو داخل ہو ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی معمول رہا ہے ، چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کرتے ، میں آپ کے لئے ایک خیمہ نصب کردیتی جس میں آپ صبح کی نماز کے بعد داخل ہوتے ۔ { صحیح بخاری :2033، الاعتکاف – سنن ابو داود : 2464، الصوم } ۔ اعتکاف سے نکلنے کا وقت : اعتکاف سے باہر آنے کا ایک وقت جواز کا ہے اور دوسرا استحباب کا ، جواز کا وقت یہ ہے کہ اگر رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کیا ہے تو شوال کا چاند نکلتے ہی اپنا اعتکاف ختم دے اور گھر واپس آجائے کیونکہ شوال کا چاند دکھائی دیتے ہیں رمضان کا مہینہ ختم ہوجاتا ہے ، اور مستحب وقت یہ ہے کہ عید کی صبح کو اپنی جائے اعتکاف سے باہر آئے اور سیدھے عیدگاہ جائے ، بعض صحابہ و تابعین کا عمل یہی رہا ہے چنانچہ امام مالک رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے بعض اہل علم کو دیکھا ہے کہ جب وہ رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کرتے تو اپنے گھر عید کی نماز پڑھ لینے کے بعد آتے ۔ { موطا :1/315، کتاب الاعتکاف } ۔ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے اسی مسلک کو اختیار کیا ہے اور بطور دلیل یہ حدیث پیش کی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے درمیانی عشرے کا اعتکاف کیا اور جب اکیسویں کی صبح ہوئی جس صبح کو اپنے اعتکاف سے باہر آتے تھے فرمایا : "من اعتکف معنا فلعتکف فی العشر الاوخر ” جس نے ہمارے ساتھ اعتکاف کیا ہے وہ آخری عشرے کا بھی اعتکاف کرے ۔ { صحیح ابن خزیمہ : 3/352، 354 – نیز دیکھئے صحیح بخاری : 2027 ، الاعتکاف ، بروایت ابو سعید الخدری } ۔ اعتکاف کس مسجد میں : اعتکاف ہر مسجد میں کیا جاسکتا ہے بشرطیکہ اس میں جماعت کا اہتمام ہوتا ہو ، ارشاد باری تعالی ہے : [وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي المَسَاجِدِ]{البقرة:187} ” اور اگر تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو تو پھر اپنی بیویوں سے مباشرت نہ کرو ” ۔ آیت مذکورہ میں اللہ تعالی نے مسجد کو عام رکھا ہے ، کسی خاص قسم کی مسجد سے مقید نہیں کیا ہے ، نیز حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ اعتکاف کرنے والے کے لئے سنت کا طریقہ یہ ہے کہ وہ مریض کی زیارت کو جائے نہ جنازے میں شریک ہو ، نہ عورت سے صحبت کرے اور نہ ہی اس سے مباشرت کرے اور نہ ہی کسی غیر ضروری کام کے لئے باہر نکلے ، اور اعتکاف بغیر روزہ کے نہیں ہے اور اعتکاف اسی مسجد میں کیا جائے گا جس میں جماعت کا اہتما ہو ۔ { سنن ابو داود : 2473، الصیام } ۔ اس لئے اعتکاف کے لئے تین مسجدوں کو خاص کرنا جیسا کہ عصر حاضر کے بعض اہل علم کا خیال ہے صحیح نہیں ہے ، کیونکہ اس سلسلے میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی جو حدیث نقل کی جاتی ہے وہ ضعیف اور شاذ ہے ، نیز یہ ایسا مسئلہ ہے جس پر امت کے کسی امام یا عالم نے عمل نہیں کیا ہے ، اس موضوع پر ایک مختصر اور جامع بحث مختصر قیام رمضان از علامہ البانی رحمہ اللہ کے ترجمےمطبوعہ میں دیکھی جاسکتی ہے ، یا مندرجہ ذیل ویب سائٹ سے بھی مطالعہ کیا جاسکتا ہے : https://www.islamidawah.com/Bennar.php?ads=go&BennarID=1501 اعتکاف کے منافی کام : 1) ضرورت کے بغیر مسجد سے باہر نکلنا ۔ 2) عورت سے صحبت کرنا ۔ 3) عورت سے بشہوت مباشرت کرنا ۔ 4) قصدا منی خارج کرنا ۔ [[ ان تمام امور سے اعتکاف باطل ہوجائے گا ، اسی طرح عورت کو حیض و نفاس کا خون آجائے تو اعتکاف باطل ہوجائے گا ، نیز اسلام سے ارتداد سے بھی اعتکاف باطل ہوجاتا ہے ، اور اگر کوئی شخص اعتکاف کی نیت توڑ دے تو یہ بھی اعتکاف کے بطلان کا موجب ہے]] ۔ 5) ہر وہ کام جو شرع کی نظر میں منع ہے وہ اعتکاف کے بھی منافی ہے ، جیسے جھوٹ ، غیبت وغیرہ ۔ 6) ہر وہ کام جو عبادت کے منافی ہے ، جیسے خرید و فروخت میں مشغولیت ، بلاوجہ کی گپ شپ ، یہ بھی حالت اعتکاف کے منافی ہے ، ان امور سے اعتکاف باطل تو نہیں ہوتا البتہ اعتکاف کا مقصد فوت ہوجاتا ہے ۔ 7) بعض وہ عبادتیں جو فرض عین نہیں ہیں جیسے مریض کی زیارت ، نماز جنازہ اور دفن وغیرہ کے لئے بھی نکلنا جائز نہیں ہے ، البتہ راستہ چلتے کسی مریض کی خیریت پوچھ لینا جائے ہے ۔ [[ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم چلتے ہوئے بیمار پرسی کرلیتے تھے اس کے لئے ٹھہرتے نہیں تھے ۔ { سنن ابو داود :2472 ، الصوم } ۔ 8) ہر وہ کام جو انسان کی فطری ضرورت ہے جیسے قضائے حاجت ، کھانا پینا ، نہانا ، اگر کوئی مددگار نہیں ہے تو کھانے کی چیزیں باہر سے خریدنا وغیرہ کے لئے مسجد سے باہر نکلنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ اعتکاف کی حالت میں جائز کام : 1) مسجد میں کھانا پینا ۔ 2) اچھے کپڑے پہننا اور خوشبو لگانا ۔ 3) ناخن تراشنا اور حجامت بنوانا ۔ 4) جمعہ کے لئے جانا، بلکہ جمعہ کے لئے جانا واجب ہے ۔ 5) اگر جنازہ کی نماز مسجد میں پڑھی جارہی ہے تو اس میں شریک ہونا ۔ 6) کسی مریض کا گھر مسجد سے لگ کر ہے تو مسجد میں رہ کر بیمار پرسی کرنا ۔ 7) بالوں میں تیل کنگھی کرنا ، بلکہ عورت بھی اپنے شوہر کے بالوں میں کنگھی کرسکتی ہے خواہ اس کے لئے اعتکاف کرنے والے کو اپنا سر باہر کرنا پڑے ۔ { صحیح بخاری :2029 ، الاعتکاف – صحیح مسلم : 297 } ۔ 8) اپنے اہل خانہ سے بات کرنا اور بعض گھریلو مسائل پر گفتگو کرنا ۔ { صحیح بخاری : 2038 ، الاعتکاف } ۔ 9) بغیر شہوت کے اپنی بیوی کو چھونا ۔ 10) خرید و فروخت سے متعلق بعض ضروری ہدایات دینا ۔ 11) زیارت کرنے والوں سے خیر خیریت پوچھنا ، البتہ دیر تک گپ شپ میں مشغول ہونا مناسب نہیں ہے ۔ ختم شدہ جو حضرات اس فائل کو پی ڈی ایف [PDF] میں پڑھنا یا پرنٹ کرکے تقسیم کرنا چاہتے ہوں وہ مندرجہ ذیل لنک سے مستفید ہوسکتے ہیں : Click here for PDF file : |