بسم اللہ الرحمن الرحیم
افتراق وانتشارکی ممانعت
{ ناشر: مکتب الدعوہ الغاط، www.islamdawah.com/urdu }
دینِ اسلام اتحادواتفاق اورحق پرجمع ہونےکادین ہے،اسی وجہ سےاللہ اوراس کےرسول صلی اللہ علیہ و سلم نےامت کوفرقہ بندی اوراختلاف سےڈرایاہےاسلئےکہ اس سےوحدتِ صف میں کمزوری آتی ہے،فتنےپیداہوتےہیں اوردشمنوں کوتمکنت حاصل ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کاارشادہے:
)وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعاً وَلاَ تَفَرَّقُواْ(
(آل عمران:103)
ترجمہ:اللہ تعالیٰ کی رسی کوسب مل کرمضبوط تھام لواور پھوٹ نہ ڈالو۔
اور صحیح مسلم میں حضرت عرفجہ t کابیان ہےکہ میں نےاللہ کےرسول صلی اللہ علیہ و سلم کوفرماتےہوئےسناکہ قریب ہیکہ شروفساد ہوں گےپس جواس امت کےاتفاق کوبگاڑناچاہےتواس کوتلوارسےماروچاہےجوکوئی بھی ہو۔
(حدیث نمبر:1852)
ایک دوسری جگہ صحابیِ رسول حضرت ابوہریرہ y فرماتےہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نےفرمایا:اللہ تمھاری تین باتوں سے خوش ہوتاہےاورتین باتوں سےناخوش،اس بات سےخوش ہوتاہے کہ اس کی عبادت کرو اوراس کےساتھ کسی کوشریک نہ کرو، اور اس کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے پکڑے رہو اور پھوٹ مت ڈالو،اور امیر کی اطاعت کرتے رہو۔اور ناپسندکرتاہےقیل وقال(بےفائدہ کی گفتگو)کو،اورزیادہ پوچھنے کو(یعنی ان مسائل کا پوچھناجن کی ضرورت نہ ہو،یاان باتوں کا جن کی حاجت نہ ہو) اورمال کےتباہ کرنےکو(یعنی بےفائدہ چیزوں میں ضائع کرنےکو)
(صحیح مسلم:ح 1715)
ایک اور حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے اختلاف کے وقت خوف الٰہی اور امیر کی اطاعت کی وصیت کرتے ہوئے سنتِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم اور خلفاءراشدین کی سنت کو لازم پکڑنے کا حکم دیاہے۔چنانچہ حضرت عرباض بن ساریہ yفرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں ایسا بلیغ خطبہ فرمایا کہ ہمارے دل ڈرگئے اور آنسؤوں سےآنکھیں بہنے لگیں،ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم یہ تو گویا الوداعی وعظ معلوم ہوراہےپس آپ ہمیں وصیت کیجئے۔آپصلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:میں اللہ سے ڈرنے اوراپنے امیروں کی سمع وطاعت کی وصیت کرتاہوں گرچہ تم پر حبشی غلام امیر مقررکردیاجائے،اورتم میں سےجوشخص(میرے بعد)زندہ رہےگاوہ عنقریب بہت زیادہ اختلافات دیکھےگا،پس اس وقت میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑو،اور اسے مضبوطی سے تھامے رہو،اور (دین کے) کاموں میں نئی بات ایجاد کرنےسےبچوکیونکہ ہربدعت گمراہی ہے۔
(ابوداؤدح:4607،ترمذی ح:2676)
مذکورہ ان باتوں میں جن اصولوں کے ذریعےفرقہ بندی سےروک دیاگیاہےاس کامطلب یہ ہیکہ اگر ان اصولوں سے انحراف کروگےتوتمھارےدرمیان پھوٹ پرجائےگی، اور تم الگ الگ فرقوں میں بٹ جاؤگے،چنانچہ فرقہ بندی کی تاریخ دیکھ لیجئے، یہی چیزنمایاں ہوکرسامنےآئےگی،قرآن وحدیث کےفہم اوراس کی توضیح وتعبیر میں کچھ باہم اختلاف یہ فرقہ بندی کا سبب نہیں ہے،یہ اختلاف صحابہ اور تابعین کے عہد میں بھی تھالیکن مسلما ن فرقوں اورگروہوں میں تقسیم نہیں ہوئے،کیونکہ اس اختلاف کےباوجودسب کامرکزایک ہی تھاقرآن وحدیث،لیکن جب شخصیات کے نام اقوال وافکار کےطریقےبنائےجانےلگےتواطاعت وعقیدت کایہ مرکز بھی تبدیل ہوگیا، ان کےافکارونظریات اولین حیثیت کےاوراللہ اوراس کےرسول صلی اللہ علیہ و سلم کےفرمودات ثانوی حیثیت کےحامل قرار پائےاور یہیں سےامتِ مسلمہ کےافتراق کےالمئےکاآغازہواجودن بدن بڑھتے ہی چلاگیااور نہایت مضبوط ہوگیا۔
مذکورہ باتوں سےہمیں کئی فائدے ملتے ہیں:
(1)اللہ کی رسی یعنی اس کی کتاب تھامےرہنے کاحکم۔
(2)تفرقہ بازی اور اختلاف کی سخت ممانعت۔
(3)وقتِ اختلاف سنتِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کےساتھ چمٹے رہنےکاحکم۔
ختم شدہ