اللہ تعالی پر بھروسہ/حديث نمبر :04

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حديث نمبر :04

خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی حفظہ اللہ

بتاریخ :07/08/ ربیع الاول 1428 ھ، م 27/26،مارچ 2007م

اللہ تعالی پر بھروسہ

عَنْ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قُلْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا فِي الْغَارِ لَوْ أَنَّ أَحَدَهُمْ نَظَرَ تَحْتَ قَدَمَيْهِ لَأَبْصَرَنَا فَقَالَ مَا ظَنُّكَ يَا أَبَا بَكْرٍ بِاثْنَيْنِ اللَّهُ ثَالِثُهُمَا

(صحيح البخاري:3653 فضائل الصحابة، صحيح مسلم:2381 فضائل الصحابة.)

ترجمہ : حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب ہم غار میں تھے [ اور مشرکین ہماری تلاش میں غار کے دہانے تک پہنچ کر کھڑے ہوگئے ] تو میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا : اگر ان میں سے کوئی اپنے قدموں کی طرف دیکھ لے تو ہمیں دیکھ لے گا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ان دو شخصوں کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جن کا تیسرا اللہ تعالی ہے ۔ { صحیح بخاری ومسلم } ۔

تشریح : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سے مکہ مکرمہ میں توحید کا نقارہ بجایا اس وقت سے لوگ آپ اور آپ پر ایمان لانے والوں کے جانی دشمن بن گئے ، جسمانی ، نفسانی ، ہرقسم کی ایذاء آپ اور آپ کےساتھیوں کے لئے روا رکھی گئی ، کئی سال تک نامناسب حالات سے گذرنے کے بعد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو کسی دوسرے ملک منتقل ہونے کی اجازت دے دی اور بہت سے صحابہ وصحابیات حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر قسم کی ایذاء و تکلیف برداشت کرتے ہوئے مکہ مکرمہ ہی میں رہے ، ساتھ ہی ساتھ قریب کے علاقے میں کسی پر امن جگہ کی تلاش میں رہے جہاں سے تبلیغ دین کے کام کو آگے بڑھایا جاسکے ۔

چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حج کے دنوں میں باہر سے آئے ہوئے قبائل کے سامنے اپنی دعوت پیش کرتے اور اسلام قبول کرنے ، رسول اسلام کی حفاظت اور اس کی طرف سےد فاع کا مطالبہ کرتے ، ایک حدیث میں حضرت جابر بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم منی میں لوگوں سےکہتے: کیا کوئی ہے جو مجھے اپنے ساتھ لے چلے کیونکہ یہاں قریش نے مجھے اللہ کا کلام لوگوں تک پہنچانے سے روک دیا ہے ۔

{ سنن ابو داود :4737 ، ابن ماجہ :21}۔

اسی درمیان آپ کے چچا اورآپ کی شریک حیات حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا بھی اس دنیا سے رخصت ہوگئے ، یہ دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل مکہ کے شرپسندوں کے درمیان مضبوط دیوار تھے ، جب یہ دونوں اس دنیا سے رخصت ہوگئے تو مکہ کے شر پسند آپ کو اور کھل کر تکلیفیں دینے لگے ، اس ماحول میں آپ ایک طرف ان تمام معنوی اور مادی تکلیفوں کو برداشت کرتے اور صبر کرتے رہے اور دوسری طرف کسی پر امن جگہ کی تلاش میں رہے کہ جہاں آپ منتقل ہوجائیں ، اس مقصد کی تکمیل کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کا سفر کیا ، لیکن اہل طائف نے آپ کے ساتھ جو سلوک کیا وہ اہل مکہ کے سلوک سے کہیں برا تھا ، چنانچہ آپ کو وہاں سے ناکام واپس ہونا پڑا طائف سے واپس آنے پر اہل مکہ کی بدسلوکی آپ کے ساتھ اور بڑھ گئی اور آپ فداہ ابی و امی کو اس قدر تکلیفیں اٹھانی پڑیں کہ اس کی مثال تاریخ انسانی میں ملنا مشکل ہے ، ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس قدر مجھے اللہ تعالی کے راستے میں تکلیف دی گئی کسی اور کو نہیں دی گئی ۔

{ الصحیحہ للالبانی : 2222 } ۔

یہی حالات تھے کہ نبوت کے گیارہویں سال کچھ لوگ یثرب { مدینہ منور } سے حج کی غرض سے آئے، حسب عادت آپ نے ان پر اسلام پیش کیا انہوں نے قبول کرلیا اور اپنے یہاں دین کی تبلیغ کا عزم کرکے واپس ہوئے ، آئندہ سال یعنی سن 12 نبوی میں حج کے موقعہ پر بارہ آدمی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کی اور دین کی تبلیغ کا جذبہ لے کر واپس ہوئے ، سن 13 نبوی میں مدینہ منورہ سے ستر سے زائد افراد حج کے ارادے سے آئے اورآپ کو مدینہ منتقل ہونے کی دعوت دی اور عہد دیا کہ ہم اپنے جان و مال اور اولاد سے بھی بڑھ کر آپ کی حفاظت کریں گے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ عرض پسند آئی ، آپ نے صحابہ کو مدینہ منورہ منتقل ہونے کی اجازت دی اور اپنے لئے حکم الہی کے منتظر رہے ، حتی کہ نبوت کے چودھویں سال 27 صفر کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بحکم الہی آدھی رات کو اپنے گھر سے نکلے ، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو اپنے ساتھ لیا اور یثرب کا عام راستہ اختیار کرنے کے بجائے ایک غیر معروف راستہ سے گذرتے ہوئے مکہ مکرمہ سے پانچ چھ کیلو میڑ کی دوری پر سوئے جنوب واقع ثور نامی پہاڑ کی ایک دشوار گزار راستے میں واقع غار میں چھپ گئے ، اہل مکہ کو آپ کے نکلنے کی اطلاع ملی تو آپ کی تلاش میں اس غار تک بھی پہنچ گئے اور بالکل غار کے دہانے پر کھڑے ہوکر ادھر ادھر تاکنے لگے، اس صورت حال کی خطرناکی کو دیکھ کر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے آپ سے فرمایا کہ اے اللہ کے رسول اگر ان میں سے کوئی شخص محض اپنی نگاہ نیچی کردے تو ہمیں دیکھ لے گا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ پر کامل بھروسہ اور بھرپور اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا : ابو بکر تم گھبراو نہیں ، خاموش رہو اور یقین جانو کہ یہاں صرف ہم دونوں ہی نہیں بلکہ ہماری حفاظت اور مدد کے لئے ایک تیسری ذات اللہ تعالی بھی موجود ہے ، چنانچہ ہوا بھی یہی کہ اللہ تعالی نے کافروں کی عقل و نظر پر پردہ ڈال دیا اور وہ خالی ہاتھ واپس چلے گئے، جب کہ آپ کے اور ان کے درمیان صرف چند قدم کا فاصلہ رہ گیا تھا ۔

فوائد :

۱- اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا عظیم معجزہ کی آپ کافروں سے چند قدم کی دوری پر ہیں لیکن وہ آپ کو دیکھ نہ سکے ۔

۲- اپنے رسولوں اور نیک بندوں کے ساتھ اللہ تعالی کی عظیم عنایت کہ انہیں مشکل سے مشکل وقت میں بھی کسی طرح دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھتا ہے ۔ ؟

۳- اللہ تعالی پر توکل کا فائدہ اور یہ توکل کے لئے ضروری ہے کہ حتی الامکان اسباب کا استعمال کیا جائے ۔

ختم شدہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں