بسم اللہ الرحمن الرحیم
326:حديث نمبر
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
امت میں شرک
بتاریخ : 13/ محرم 1439 ھ، م 04/، اکتوبر 2017 م
عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمًا، فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلاَتَهُ عَلَى المَيِّتِ، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى المِنْبَرِ، فَقَالَ: «إِنِّي فَرَطٌ لَكُمْ، وَأَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ، وَإِنِّي وَاللَّهِ لَأَنْظُرُ إِلَى حَوْضِي الآنَ، وَإِنِّي أُعْطِيتُ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِ الأَرْضِ – أَوْ مَفَاتِيحَ الأَرْضِ – وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا بَعْدِي، وَلَكِنْ أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تَنَافَسُوا فِيهَا»صحيح البخاري:1343 الجنائز، صحيح مسلم:2296 الفضائل
ترجمہ : حضرت عقبہ بن عامررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن نکلے اور شہداء احد کے لئے ویسے ہی دعا کی جیسے میت کے لئے دعا کرتے تھے ، پھر منبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا : میں تمہارا میرساماں ہوں اور تم پر گواہ رہوں گا ، اور اللہ کی قسم میں اپنے حوض کو اس وقت دیکھ رہا ہوں [ جس پر تمہارا انتظار کروں گا ] مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں عطا کی گئی ہیں ، خبردار رہنا مجھے تم پر اس بات کا خوف نہیں ہے کہ میرے بعد تم شرک کروگے ، لیکن یہ اندیشہ ضرور ہے کہ دنیا حاصل کرنے پر ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں مشغول ہوجاو گے ۔ {صحیح بخاری و صحیح مسلم }
یہ واقعہ نبی ﷺ کی زندگی کے بالکل آخری ایام کا ہے جیسا کہ اس حدیث کے بعض روایت میں حضرت عقبہ کا یہ قول ہے کہ” یہ آخری نظر تھی جو میں نے نبی ﷺ پر ڈالی ” یعنی اس کے بعد دوبارہ میں نے نبی ﷺ کو منبر نہیں دیکھا ۔ اس موقعہ پر نبی ﷺ مسجد میں تشریف لائے اور شہداء احد کی نماز جنازہ پڑھی یا ان کے لئے وہی دعا کی جو کسی میت کے لئے آپ کرتے تھے ، شہداء احد کو دوسرے شہداء سے اس لئے خاص کیا کہ اولا تو وہ اول اول مسلمان ہونے والے اور بڑے افضل صحابہ میں سے تھے ، ثانیا یہ کہ شہادت کے موقعہ پر انہیں ویسے ہی دفنا دیا گیا تھا اور ان کی نماز جنازہ نہیں پڑھی گئی تھی ، جب نبی ﷺ ان پر دعا سے فارغ ہوئے تو منبر پر تشریف لے گئے اور صحابہ کے سامنے ایک الوداعی خطبہ دیا جس میں چند اہم امور پر توجہ دلائی ۔
[۱] صحابہ کے سامنے یہ بات ارشارۃ رکھی کہ اب میری وفات کا وقت قریب ہے اور میں تم سے پہلے رخصت ہونے والا ہوں ، تم لوگ پریشان نہ ہونا بلکہ اطمینان رکھنا، کیونکہ میری مثال یہ ہے کہ جیسے ایک شخص قافلہ سے آگے بڑھ کر قافلہ کے ٹھہرنے ، پانی اور دیگر ضروریات کا انتظام کرتا ہے ، ویسے ہی میں بھی تمہارے لئےمیر سامان کی حیثیت رکھتا ہوں ۔ [۲] صحابہ کو یہ خوشخبری دی اور ساتھ ساتھ تنبیہ بھی کی کہ "میں تمہارے اوپر گواہ ہوں گا” کہ تم نے میری رسالت کی تصدیق کی اور اللہ تعالی کا جو پیغام میں نے تم لوگوں تک پہنچایا اسے تم نے قبول کرلیا ، لہذا اس پر ثابت قدم رہنا ، میرے بعد اس شہادت کو توڑ نہ دینا ۔
[۳] نبی ﷺکو اللہ تعالی نے حشر کے میدان میں ایک بڑے عظیم حوض سے نوازے گا جس کی وسعت ہزاروں مربع میل پر پھیلی ہوگی اور اس کے آب خورے اور پیارلے تاروں کی طرح تعداد میں بہت زیادہ ہوں گے ، نبی ﷺ اس حوض پر اینی امت کا انتظار کریں گے اوراپنے دست مبارک سے انہیں کوثر بھر بھر کر دیں گے ، لہذا صحابہ کو متنبہ کیا کہ وہ کوئی ایسا کام نہ کریں جو حوض پر پہنچنے میں رکاوٹ بنے ۔ [۳] پھر آپ ﷺ نے دو ایسی چیزوں پر خصوصی طور پر متنبہ فرمایا جو انسان کے دین و اخلاق کے خطرناک ہیں اور حوض تک پہنچنے میں رکاوٹ بن سکتی ہیں ، ایک تو شرک ہے اور دوسرا دنیا کے کے حصول اور اس سے لطف اندوز ہونے میں انہماک ۔
جہاں تک شرک کا تعلق ہے اس سے متعلق نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مجھے تمہارے اوپر شرک کا خوف تو نہیں ہے اور اگر ہے تو بہت معمولی ہے کیونکہ تم لوگوں نے دین کو سمجھ لیا ہے ، توحید و شرک کے فرق کو اچھی طرح سے جان لیا ہے اور شرک کے اڈے تمہارے درمیان سے مٹا دئے گئے ہیں ، لیکن چونکہ وہ وقت قریب ہے کہ دنیا تمہارے سامنے پھیلا دی جائے ، کسری وقیصر کا خزانہ تمہارے پاس کھنچ کر آجائے گا اور تمہاری حکومت مشرق و مغرب اور شمال و جنوب میں دور دور تک پھیل جائےگی ، نتیجۃ یہ ہوگا کہ تم مال و دولت اور ریاست و حکومت کے حصول میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانا چاہو گے، جس کی وجہ سے تمہارے اندر حسد پیدا ہوگا جو آگے بڑھ کر بغض و عداوت کی شکل اختیار کر لے گا نتیجۃ آپس میں خونریزی شروع ہوجائے گی ۔ لہذا ایساکرنے سے بچنا اور پرہیز کرنا ورنہ حوض تک پہنچنے کا مسئلہ دشوار ہوگا ۔ ۔۔۔ یہ ہے کہ اس حدیث کا مطلب ،لیکن کچھ لوگوں نے عوام کو گمراہ کرنے کے لئے یہ سیدھا سادا مطلب چھوڑ کر حدیث کا وہ مفہوم بیان کیا ہے جو بالکل نیا ہے ان کا کہنا ہے کہ اس حدیث میں نبی ﷺ نے فرمایا کہ آپ کی امت شرک نہیں کرسکتی، لہذا اگر کوئی ولیوں کو پکارتا ہے ، قبر کو سجدہ کرتا ، یا علی اور یا غوث کے نعرے بھی لگاتا تو وہ مشرک نہیں ہوسکتا ۔ حالانکہ حدیث کا یہ ایسا خود ساختہ مفہوم ہے کہ دنیا کے کسی عالم اور محدث کے ذہن میں نہیں کھٹکا ،بلکہ نبی ﷺ کی بہت سی حدیثوں سے یہ بات واضح ہے کہ اس امت کے بعض افراد شرک میں مبتلا ہوں گے ، ارشاد نبوی ہے :
[۱] قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ ذو الخلفیہ کے مقام پر قبیلہ دوس کی عورتوں کے سرین [ طواف کرتے ہوئے ] ایک دوسرے سے ٹکرانے لگیں گے ۔ حضرت ابو ہریرہ راوی حدیث کہتے ہیں کہ ذو الخلصہ قبیلہ دوس کا بت تھا جس کی زمانہ جاہلیت پر عبادت کیا کرتے تھے ۔ {صحیح بخاری :7116 / صحیح مسلم : 1906}۔ گویا خود عرب کے بہت سے لوگ شرک میں مبتلا ہو جائیں گے۔[۲] قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ میری امت کے قبیلے مشرکین سے مل جائیں اور میری امت کی ایک بڑی جماعت بت پوجنے لگے ۔ {سنن ابو داود :4252 – سنن ترمذی : 2219 – سنن ابن ماجہ 3952} [۳] اے لوگو ! شرک تمہارے بیچ ایسے ہی پوشیدہ طور پر سرایت کرے گا جیسے چیونٹی چلتی ہے ۔ {مسند احمد :4/402} ۔
یہ صرف تین حدیثیں ذکر کیں گئیں حالانکہ اس بارے میں بہت سی حدیثیں وارد ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس امت کے بہت سے لوگ شرک میں مبتلا ہوں گے ، یہی وجہ ہے کہ نبی ﷺ نے اپنی امت کو شرک اور وسائل شرک سے سختی سے منع فرمایا ہے ، حتی کہ آپ نے صحابہ کے بارے میں فرمایا :
تمہارے اوپر مجھے سب سے زیادہ خوف شرک اصغر کا ہے ۔ الحدیث {مسند احمد :5/428 } ۔ البتہ جہاں تک زیر حدیث کاتعلق ہے تواس سے متعلق علماء کہتے ہیں کہ آپ ﷺ کے فرمان کا تعلق یا تو صحابہ کی جماعت سے ہے کہ وہ لوگ شرک میں مبتلا نہ ہوں گے ، جیسا کہ حقیقت بھی ہے ، یا پھر اس کا معنی یہ ہے کہ یہ امت دوسری امتوں کی طرح مجموعی طور پر شرک میں مبتلا نہ ہوگی، بلکہ اگر امت کے کچھ افراد جہالت ، لالچ اور غیر قوم کی مشابہت میں شرک میں پڑ بھی جائیں تو اس امت کے دیگر افراد توحید پر قائم رہیں گے ۔ عموما محدثین نے حدیث کا یہی مفہوم لیا ہے ۔ دیکھئے فتح الباری :3/213 ، عمدۃ القاری :8/157۔
فوائد :
- اس امت کے لوگ دنیا کے حصول اور اس میں مشغول ہو کر جس طرح گمراہ ہوں گے ، اتنا کسی اور چیز میں انہماک انہیں نقصان نہیں پہنچائے گا ۔
- نبی ﷺ کی بشارت کہ اس امت کے سامنے دنیا کے خزانے کھول دئے جائیں گے ۔
- قبر میں مدفون لوگوں کا ہمارے اوپر حق ہے کہ ان کے لئے دعا کریں ۔