*انتیسواں پارہ(تبارك الذى)*

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سلسلہ خلاصہ معانی قرآن مجید
از قلم : شیخ مقصود الحسن فیضی حفظہ اللہ
*انتیسواں پارہ(تبارك الذى)*

انتیسویں پارے میں کل گیارہ سورتیں ہیں؛ پہلی سورت الملک او ر آخری سورت المرسلات ہے۔
سورت الملك
یہ سورت مکی ہے ۔
اس سورت کا بنیادی موضوع عقیدہ ہے۔خصوصا اللہ کی وحدانیت اور مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانےکا عقیدہ ۔
o ابتدائی دو آیتوں میں اللہ تعالی کی عظمت ،عالم پر اس کے تصرف اور ملک وتدبیر میں اس کےتنہا ہونے کے حوالے سے انسان کی پیدائش کا مقصد بیان ہوا ہے کہ تمہیں آزمایا جائے کہ تم میں سے کون اچھے عمل کرنے والا ہے ۔
o آیت3تا5میں اس کی عظمت و قدرت کو مزید واضح کیا گیا ہے کہ اس قدر مستحکم انداز میں طبق در طبق سات آسمان پیدا کئے ہیں کہ ڈھونڈنے اور تلاش کرنے والوں کو بھی اس میں کوئی خلل نظر نہیں آئے گا۔
o نیز انسان کو اس طرف توجہ دلائی کہ ساتوں آسمانوں کا مشاہدہ تو تمہارے بس میں نہیں ہے،البتہ اس ایک آسمان جسے آسمانِ دنیا کہا جاتا ہے اس کے صرف ایک پہلو کو دیکھو کہ ہم نے اس میں کس قدر تارے جڑ دئیے ہیں، جن کے تین فائدوں کا مشاہدہ کر سکتے ہو۔
1) آسمانِ دنیا کی زینت۔
2) چراغ اور روشنی۔
3) شیطانوں سے حفاظت۔
o آیت6تا11میں اللہ تعالی کے بعض مظاہرِ قدرت کے اظہار کے طور پرجہنمیوں کی بد حالی اور اس منظر کی ہولناکی کا ذکر ہے۔ وہاں ان کی ذلت و رسوائی کا جو منظر پیش کیا گیا ہے وہ باعث عبرت ہے۔
o جہنم کی ہولناکی کایہ منظر ہوگاکہ جیسے ہی جہنمی اس کے قریب پہنچیں گے، وہ اس قدر غضبناک انداز میں ان کا استقبال کرےگی کہ گویا وہ غصے کے مارے پھٹ جا رہی ہو۔ اور ایسے بری اور قبیح ترین آواز نکالے گی کہ گویا گدہے کا رینکنا ہو۔ اور ایسے ابل رہی ہوگی کہ گویا آگ پر ہانڈی جوش مار رہی ہو۔
o سب سے بڑی عبرت یہ ہےکہ جہنمی اپنی بربادی کا سب سے پہلا سبب یہ بیان کریں گے کہ دنیا میں ہم علم حاصل کرنے سے بھاگتے رہے اور عمل سے دوری اختیار کی۔
o آیت12تا14میں اہل جنت کا ذکر ہے اور ان کے لئے مغفرت و اجر عظیم کا وعدہ ہے۔
یہاں ان کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ بیان ہوئی ہے کہ وہ غائبانہ طور پر اپنے رب سے ڈرتے ہیں ۔
o نیز کافروں ، بلکہ تمام لوگوں کو یہ تنبیہ وڈانٹ ڈپٹ ہے کہ اللہِ علیم وقدیر سے تمہاری کوئی حرکت خواہ وہ ظاہری یا پوشیدہ ہو ،اللہ سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔ اور چھپی بھی کیسے رہ سکتی ہے جب کہ وہ لطیف وخبیر یعنی ہر باریک سی باریک چیز کی خبر رکھنے والا ہے۔
o آیت نمبر14سے 2۰تک قدرت کے مختلف ایسےمظاہر کا بیان ہے جو انسان کے مشاہدے میں ہیں۔ ان کی طرف توجہ دلا کر انسان کو سوچنے اور غور کرنے کی دعوت دی گئی ہے کہ اللہ واحد پر ایمان لائیں اور اس کی توحید کا اقرار کریں۔ جیسے
1- یہ زمین جس پر آسانی سے چل پھر کر انسان روزی حاصل کرتا ہےاور اپنی ضروریات زندگی کو پورا کرتا ہے۔
2- انسان سوچے کہ یہ زمین جس پر تم آسانی سے چل پھر رہےہو، اگر اللہ چاہے تو تمہیں اس میں دھنسا دے۔لہذا اس کی قہاریت (زبر دست طاقت)کا اعتراف کرو اور اس کا شکر بجا لاو۔
3- یہ آسمان جس کے نیچے تم امن سے چل پھر رہے ہو، اگر اللہ چاہے تو قوم لوط واصحابِ فیل کی طر ح تمہارے اوپر سے پتھروں کی بارش کرکے تمہیں ہلاک کر دے۔ تو کیا وہ ذات اس لائق نہیں ہے کہ اس سے ڈرا جائے۔
4- ایسی کتنی ہی قوموں کو تم جانتے ہو جو تم سے پہلے اسی زمین پر چلتے پھرتے تھے ،ان لوگوں نے رسولوں اور آخرت کی تکذیب کی تو پھر اللہ کا کیسا عذاب آیا؟ ان لوگوں سے عبرت حاصل کرو۔
5- اپنے اوپر فضا میں اڑتے ہوئے پرندوں کو تم دیکھتے ہو کہ کبھی وہ اپنے پروں کو پھیلائے اور کبھی سْکیڑے ہوئے کس طرح اڑتے ہیں،کیا اللہ کے علاوہ کوئی اور ہے جو ان کی حفاظت کر رہا ہے؟ یہ اللہ تعالی جو علیم وخبیر کی نگرانی میں ہو رہا ہے۔
o آیت ۲۱، ۲۲میں مشرکین پر نکیر و تنبیہ ہے کہ تمہارے اس بارے میں بڑے ڈھوکے میں ہوکہ اللہ تعالی کےعلاوہ ضرر کو دور کرنے اور نفع پہنچانے کی کوئی اوربھی طاقت رکھتا ہے؟۔ چنانچہ یہ بتلاو کہ اگر اللہ تعالی تمہیں عذاب دینے پر آ جائے توکیاتمہارے پاس کوئی قوت و لشکر ہے جو اللہ سے تمہاری حفاظت کر سکے؟ یا بارش اور اس سے اگنے والی غذاوں کی شکل میں جو روزی ہوتی ہے، اگر اللہ تعالی روک لے تو کوئی اور ہے جو تمہیں روزی پہنچا سکے؟ کیا یہ تمام چیزیں اس بات کا مطالبہ نہیں کرتی ہیں کہ تم لوگ ایک اللہ پر ایمان لاو اور اس کی وحدانیت کا قرار کرو؟۔
o آیت نمبر23سے 27تک اللہ تعالی نے اپنی متعدد نعمتوں کا ذکر فرمایا ہے جو انسان میں پائی جاتی ہیں،جیسے انسان کو پیدا کرکے اسے سننے اور دیکھنے کی نعمت سے نوازنا، سوچ اور فکر کے لئے عقل عنایت کرنا۔ وہی ہے جس نے تمہیں زمین میں بسایا اور وہی تمہیں دوبارہ اپنی طرف بلا لے گا۔ لہذا جلدی نہ مچاؤ، قیامت کی آمد یقینی ہے،اس کا علم اللہ کے علاوہ کسی اور کے پاس نہیں ہے۔
o یاد رکھو!جس دن وہ عذاب آجائے گا تو تمہاری ذلت و رسوائی کا کیا پوچھنا۔
o آیت نمبر 28اور 29میں کلام کا رخ کافروں کی اس تمنا اور خواہش کی طرف ہے کہ جب وہ نبی ﷺ سے حجت و بیان میں عاجز آجاتے تو تمنائیں جتلاتے اور دعائیں کرتے کہ کب ان کا خاتمہ ہوگا کہ ہمیں ان سے نجات مل جائے۔
o اس موقع پر رسول اللہ ﷺ کو حکم ہو رہا ہے کہ آپ کھل کر کہہ دیجئے کہ اللہ تعالی ہمیں اور ہمارے ساتھیوں کو ہلاک کردے تو اس سے کافروں کو تو اللہ کے عذاب سے تونجات نہیں مل سکتی ؟
o لہذا آپ صرف یہی کہتے رہیں کہ "ﵟهُوَ ٱلرَّحۡمَٰنُ ءَامَنَّا بِهِۦ وَعَلَيۡهِ تَوَكَّلۡنَاۖ ﵞ” وہ رحمن ہے جس پر ہم ایمان لائے اور اسی پر ہم نے توکل کیا،اور ہماری امیدیں بہرحال اسی سے وابستہ ہیں۔ اگر تم کسی اور سے امیدیں باندھے ہو ،یامدد کے طلبگار ہو تو وہ وقت دور نہیں کہ تم اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے کہ کھلی گمراہی میں کون ہے؟
o آخری آیت میں اللہ تعالی کی قدرت کے ایک عظیم مظہر کا بیان ہے کہ یہ پانی جسے لوگ پیتے ہیں اگر یہ بالکل زمین کی تہہ میں چلا جائے تو کیاکوئی طاقت ہے جو اسے اوپر کی طرف لادے ؟ہر گز نہیں۔
اس طرح یہ سورت جیسےقدرت الہی کے مظاہر کے بیان سے شروع ہوئی تھی اسی پر اس کا خاتمہ بھی ہوا ہے۔

سورت القلم
یہ سورت مکی ہے۔
اس سورت کا موضوع عقیدہ ہے۔خاص کر رسالت اور موت کے بعد دوبارہ اٹھایا جانا اور میدانں حشر میں حاضری کاعقیدہ ۔
نیزاس سورت میں خصوصی طور پر ان الزامات کا جواب دیا گیا ہے جو کفار کی طرف سےنبی کریم ﷺ پر لگائے جاتے تھے۔
o سورت کی ابتداء میں نبیِ کریم ﷺ کی عظمتِ شان کا تذکرہ ہے کہ اللہ تعالی قلم اور قلم سے لکھی ہوئی چیز کی قسم کھا کر یہ شہادت دے رہا ہے کہ بفضل الہی آپ مجنون و شاعر نہیں ہیں،بلکہ اللہ کے نزدیک آپ کے لئے بے انتہا اجر ہے۔ اس کا بڑا فضل ہے کہ اس نے آپ کو عمدہ اخلاق والا بنایا ہے،اورجلد ہی تاریخ بتلا دے گی کہ کون حق پر تھا؟آپ یا آپ کے مخالفین۔
o آیت8تا16میں نبی ﷺ کو یہ تعلیم ہے کہ جھٹلانے والے اور دھمکانے والے کی دھمکی سے خوف کھا کر آپ اپنی دعوت میں کمی اور کوتاہی نہ کیجئے،اللہ تعالی آپ کا حامی و مددگار ہے۔
o اس کے بعد دین کی مخالفت کرنے والوں کی متعدد بری صفات کو ذکر کیا گیا ہے۔ جیسے جھوٹ بولنا،بار بار قسمیں کھانا،لعن طعن کرنا،چغلی کھانا،خیر کے کام میں رکاوٹ ڈالنا او بڑے گناہوں کا ارتکاب کرنا وغیرہ۔
o نبی ﷺکوحکم ہوا ہے کہ ایسی بری عادتوں کے حامل شخص کی آپ بات نہ مانیں۔
o آیت17تا33میں اہل مکہ کو دھمکی کے انداز میں ایک باغ والوں کا قصہ بیان کیا گیا ہے۔
o ان آیات اور بعض تفسیری روایات کے مطابق یہ باغ یمن کے ایک نیک شخص کا تھا۔اس نےاپنے باغ میں سے غریبوں اور مسکینوں کا حصہ متعین کررکھا تھا۔ اس کی وفات کے بعداس باغ کے وارث اس کے بیٹے بنے تو انہوں نےاس باغ سے مسکینوں کا حق ختم کر دینا چاہا۔لہذا ایک پلان بنایا کہ رات ہی رات صبح ہونے سے قبل سارا پھل توڑ کر گھر پر رکھ لیں اور کسی مسکین کو اس کی اطلاع تک نہ ملے،تاکہ حسبِ عادت اپنا حصہ لینے نہ آئیں۔ ان بھائیوں میں ایک شریف النفس شخص بھی تھا جس نے انہیں اس حرکت سے روکنا چاہا، لیکن اس کی بات نہ سنی گئی۔ پھر طے شدہ پروگرام کے مطابق جب وہ لوگ وقت مقررہ پر اپنے باغ میں پہنچے تو قبل اس کے کہ وہ وہاں پہنچیں، اللہ تعالی نے اسے جلا کر راکھ کر دیا تھا۔ ان لوگوں نے اولا تو یہ سمجھا کہ اندھیرے کی وجہ سے ہم راستہ بھول گئے ہیں۔ لیکن جب غور کیا اور دائیں بائیں کے آثار دیکھے تو انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور سمجھ گئے کہ ہماری بد نیتی اور اللہ کی نعمت کی ناشکری کی وجہ سےاللہ تعالی نے ہمیں اس سے محروم کر دیاہے۔
o گویا اس سے اہل مکہ کو یہ درس دینا تھا کہ محمد ﷺ کی شکل میں جو نعمت تمہیں ملی ہےاس کی قدر کرو، ورنہ جس طرح باغ والوں سے باغ کی نعمت چھین لی گئی تھی اسی طرح یہ نعمت جو رسالت کی شکل میں تمہارے پاس آئی ہے وہ تم سے بھی چھین لی جائے گی ۔ اسی لئے اس قصے کے آخر میں اللہ تعالی نے فرمایا: ﵟكَذَٰلِكَ ٱلۡعَذَابُۖ وَلَعَذَابُ ٱلۡأٓخِرَةِ أَكۡبَرُۚ لَوۡ كَانُواْ يَعۡلَمُونَ (٣٣) "یوں ہی آفت آتی ہے اور آخرت کی آفت بہت بڑی ہے۔ کاش انہیں سمجھ ہوتی”۔
o آیت34تا41میں کفار کو خطاب کرکے یہ واضح کیا گیا ہے کہ اللہ کے رسول کی دعوت کو قبول کرکے اللہ کا شکر گزار بننے والے اور نبی کی مخالفت کرکے ناشکروں میں اپنا نام لکھوانے والے، اللہ کے نزدیک برابر نہیں ہو سکتے۔ یاد رہے کہ اللہ تعالی نے جنت اپنے متقی اور شکر گزار بندوں کے لئے بنائی ہے۔
o اے اہل مکہ کے اس دعوی کی تردید کہ وہ اللہ کے چہیتے ہیں۔ سوچو!تم لوگ جو اللہ کے محبوب ہونے کے دعویدار ہو، کیا اس کی کوئی دلیل تمہارے پاس ہے؟کیا اللہ نے کسی کتاب میں یہ بات لکھ دی ہے؟ یا تمہارے پاس اللہ کی طرف سے کوئی عہد نامہ ہے جو قیامت تک قابل قبول ہے؟ یا تمہارے باطل معبودوں میں سے کوئی ایساہے جو تمہیں یہ مقام دلا سکے؟ہر گز نہیں تو اس وقت سے ڈرو جب مشکل گھڑی آ پڑے گی۔
o آیت نمبر 42اور 43میں قیامت کے دن کی وہ ہولناکی بیان ہوئی ہے، جس میں ایمان و کفر کا فیصلہ ہوگا اور وہ فیصلہ سجدے کے ذریعے ہوگا ۔
o اس آیت اور اس کی تفسیر میں مذکورہ حدیث سے نماز کی اہمیت کا اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے ذریعے قیامت کے دن مسلمان اور غیر مسلم میں فرق کیا جائے گا۔
o آیت نمبر44—47 نبیﷺ کو تسلی دینے کے لئے آپ کے مخالفین کودھمکی دی گئی ہے کہ اس وضاحت کے باوجود اگر یہ لوگ ایمان نہیں لاتے تو آپ اطمینان رکھیں ہم ایسے انداز سے ان سے نپٹیں کہ ان کو خبر بھی نہیں ہوگی، کیونکہ انہیں سمجھنا چاہئے کہ میری پکڑ بڑی زبردست ہوتی ہے۔
o آیت ۴۸سے سورت کے آخر تک نبی ﷺ کو دو اہم ہدایات دی گئی ہیں۔
1- دعوت کے کام پر جمے رہنے کی تلقین اور بے صبری سے روکا گیا ہے۔ اور حضرت یونس علیہ السلام کی مثال دی گئی ہے کہ کہیں ان کی طرح بے صبری کا مظاہرہ نہ ہونے پائے۔ جس طرح کہ جب ان کی قوم نے انہیں جھٹلایا تو انہوں نے عجلت سے کام لیا اور اپنےرب کے فیصلے کا انتظار کئے بغیر ہی از خود اپنی قوم کو چھوڑ کر نکل پڑے، جس کے نتیجے میں انہیں مچھلی کے پیٹ میں جانا پڑا ، وہ غم واندوہ سے بھرے گئے تھے۔ لہذا اپنے رب کو مدد کے لئے پکارا۔ احسن البیان ص:۱۶۱۷
2- کافروں کے مکر سے ہوشیاری کی دعوت ہے اور آپ کو یہ تسلی دی گئی ہے کہ اللہ تعالی آپ کا حامی و مددگار ہے، وہ آپ کے مخالفین سے اس طرح نپٹے گا کہ ان کو اس کا علم بھی نہ ہوگا۔
o سورت کا خاتمہ۔ آخرمیں قرآن کو تمام جہانوں کے لئے نصیحت کہا گیا ہے،اور جس طرح سورت کا آغاز آپ کی نبوت سے ہوا تھا اسی طرح اس کا اختتام بھی آپ کی رسالت اور قرآن کی حقانیت پر ہوا ہے۔

سورت الحاقہ:
سورت :الحاقہ” مکی ہے۔
اس سورت کا موضوع آخرت و رسالت ہے۔ سورت کےآخرمیں قرآن مجید کی حقانیت پر بھی زور دیا گیا ہے۔
o سورت کی ابتداء قیامت کی ہولناکی کی شدت کے بیان سے ہوئی ہے۔ جس کے لئے قیامت کا ایک نام "الحاقة” استعمال ہوا ہے۔ یعنی وہ چیز جس کا پیش آنا ایک لازمی امر ہے۔
o آیت 4سے 12تک ان بعض قوموں کی ہلاکت کا تذکرہ ہے جو اس دن کو جھٹلاتی رہی ہیں،جیسے قوم عاد جن پر سات راتیں اور آٹھ دن مسلسل حد درجے کی تیز و تند ہوا ةسمر کرکے انہیں ایسا ہلاک کر دیا گیا کہ آج ان کا نام و نشان باقی نہیں ہے۔
o اسی طرح قوم ثمود جنہیں اللہ تعالی نے ایک خوفناک چیخ سے ہلاک کیا۔
o نیز فرعون ،قوم لوط اور ان سے پہلے کی بہت سی بستیوں کو اللہ تعالی نے رسولوں کو جھٹلانے کے پاداش میں سخت گرفت میں لیا۔
o اور ان سب سے پہلے قوم نوح بھی پانی کے سیلاب سےہلاک کی گئی ۔
o یہ سب کچھ اس لئے کیا تاکہ ہم اسے تمہارے لئے نصیحت بنا دیں اور یاد رکھنے والے کان انہیں یاد رکھ سکیں۔
o آیت 13سے 18تک صور کے پھونکے جانے اور اس کے سبب آسمان و زمین کی تباہی کی کیفیت اور پھر حاکمِ اعلی کے حضور پیشی کا ذکر ہے ۔
o اس دن کی ہیبت ناکی کا یہ عالم ہوگا کہ اللہ کے حضوراس دن سب کی پیشی ہوگی اور کسی کاکوئی بھی بھید اس سے پوشیدہ نہیں رہے گا۔
o آیت 19سے 37تک ان آیات میں اللہ تعالی نے میدان حشر اور اہل ایمان و اہل کفر کے انجام کا ذکرکیا ہے، اور ایسے انداز میں قدرے تفصیل سے کیا ہے کہ دل دہل کر رہ جائیں ۔
o اہل جنت کا اعمال نامہ ان کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا، جس سے وہ خوش ہو جائیں گے اور کافروں کو ان کا نامہ اعمال ان کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا جس سے وہ واویلا مچائیں گے اور موت کی تمنا کریں گے۔ کہیں گے کہ کاش میرا نامہ اعمال مجھے دیا ہی نہ جاتا، کاش موت میرا کام تمام کر دیتی، میرا مال ومیری سلطنت وریاست میرے کسی کام نہ آئی۔ پھر اسی پر بس نہیں ، بلکہ فرشتوں کو حکم ہوگا کہ ستر ہاٹح کی زنجیر میں جکڑ کر اسے جہنم کے حوالے کردیا جائے ۔
o ان دونوں فریقوں کے ذکر میں یہ بھی وضاحت ہے کہ دنیا میں ان کی کیفیت کیا رہی ہے؟ اہل جنت کا اس دن پر ایمان و یقین تھا ، اسی لئے دنیا میں اس دن کو یاد کرکے اس کی تیاری کرتے تھے ۔ ان کے برخلاف جہنمیوں کی کیفیت یہ تھی کہ وہ اللہ پر ایمان نہیں رکھتے تھے اور نہ ہی مسکینوں کو کھانا کھلانے پر ابھارتے تھے۔جس کی وجہ سے آج انہیں کہیں سے سہارا ملنے کی امید نہ تھی۔
گویا وہ حقوق اللہ او ر حقوق العباد دونوں میں لا پرواہی کا شکار تھے۔
o آیت نمبر38سے سورت کے آخر تک قرآن کی حقانیت او ر رسول ﷺ کی صداقت وامانت پر بڑے زوردار انداز میں گفتگو کی ہے۔
o سب سے پہلے تو اللہ تعالی نے لوگوں کی ہر دیکھی اور ان دیکھی چیز کی قسم کھائی ہے، جیسے دنیا او رآخرت۔ یا اللہ تعالی کی ذات اعلی و صفات علیا ۔ اور اس دنیا میں مشاہدے میں آنے والی چیزیں۔
ہر چیز کی قسم اس بات پر کھائی گئی ہے کہ یہ قرآن نہ کسی مجنون کی بڑ ہے اور نہ کسی ماہر شاعر کا خیال۔ بلکہ یہ تو رب العالمین کی طرف سے نازل شدہ کلام ہے۔
o آگےاللہ تعالی نے قرآن کی حقانیت پر زور دیا اور فرمایاکہ دل دہل جانا چاہئے، اور جسم پراللہ کا خوف طاری ہوجانا چاہئے، کیونکہ یہ قرآن بڑی عظیم چیز ہے،اگر (محمد ﷺ) میری طرف سے کوئی معمولی بات بھی اپنی طرف سےبنا لیتے تو ہم ان کی سخت گرفت کرتے اور ان کی شہ رگ کو کاٹ دیتے، اور کوئی ان کی مدد کیلئے نہ دوڑتا ۔
o سورت کے آخر میں یہ واضح کیا گیا کہ آپ کے مخالفین اس قرآن کی حقانیت کو بھلے نہ مانیں، لیکن حقیقت ہے کہ یہ قرآن متقین کے لئے رحمت و عبرت ہے اور کافروں کے لئے قیامت کے دن حسرت و افسوس کا سبب ہے۔پس یہ لوگ آپ کی بات مانیں یا نہ مانیں آپ اپنے رب کی تسبیح کرتے رہیں، یہ تسبیح آپ کے لئے اطمینانِ قلب کا سبب بنے گی۔
o اس سورت کی ابتدا قیامت کی حقانیت سے شروع ہوئی اور رسالت کی حقانیت پر ختم ہوئی۔ﵟوَإِنَّهُۥ لَحَقُّ ٱلۡيَقِينِ (٥١) "اور بیشک (و شبہ) یہ یقینی حق ہے”۔

سورت المعارج:
یہ سورت مکی ہے۔
اس کا موضوع عقیدہ ہے۔ خصوصا آخرت کو ثابت کرنا ، آخرت کے انکار کرنے والوں کی بد حالی اور آخرت کے لئے عمل کرنے والوں کی صفات کا ذکر ہے۔
o ابتدائی آیات کا نزول اللہ کے عذاب کا مطالبہ کرنے والےایک سائل کے جواب میں ہے ۔ کہ جس عذاب کا تم لوگ مطالبہ کر رہے ہو وہ آ کر رہے گا، اور جب آجائے گا تواس کو ٹالنے کی کسی کے پاس طاقت نہ ہوگی ۔ کیونکہ وہ عذاب بلندیوں والے اللہ کی طرف سے ہوگا۔ جس کی شان اس قدر بلند ہے کہ اس تک پہنچنے کے لئے پچاس ہزار سال کی مسافت درکار ہے۔
o آیت نمبر۷ میں نبی ﷺ کو صبر کی تلقین کی گئی ہے کہ یہ لوگ آپ سے جس عذاب کا مطالبہ کرکے آپ کا جو مذاق اڑا رہے ہیں، اس پر صبر سے کام لیں اور تنگ دلی وگھبراہٹ کے شکار نہ ہوں۔
o آیت7تا18میں کافروں کے لئے اس دن کی ہولناکی کا ذکر ہے،یہ وہ دن ہوگا جب آسمان و پہاڑ بھی اس کی تاب نہ لا سکیں گے،پہاڑ روئی کی طرح اڑنا اور آسمان پھٹ کر تیل کے تلچھٹ کے مانند سرخ ہوجائیگا،اس دن کوئی ہمدرد اپنے ساتھی کے بارے میں سوال تک نہ کرے گا حالانکہ وہ دیکھ رہا ہو گا کہ اس کاعزیز ومحبوب عذاب کا شکار ہو رہا ہے ۔
بلکہ اس دن کی ہولناکی اس درجے شدید ہو گی کہ ہرمجرم چاہے گا کہ اس دن کے عذاب سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے اپنے عزیز ترین افراد کو بھی قربان کر دے۔ لیکن حقیقت یہ ہےکہ اس دن کسی سے کوئی فدیہ قبول نہ کیا جائے گا ۔
o آیت15تا21میں جہنم کی آگ کی بعض صفات اور اس میں لے جانے والے اعمال کا ذکر ہے۔
o جہنم کی صفت ہےکہ وہ بھڑک اور دہک رہی ہوگی، چمڑی خصوصا کافروں کی چمڑی کو ادھیڑ کر رکھ دےگی ، اور کافروں کو آواز دے کردھمکی بھی دے رہی ہوگی۔
o اور جہنمیوں کی صفات جیسے: حق سے اعراض کرنا، مال جمع کرنا اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرنا، بے صبری کا مظاہرہ کرنا،اس طرح کہ تکلیف پر گھبرا جانا اور آسائش حاصل ہونے پر اترانا ہے۔
o آیت22تا35میں جہنم سے نجات پانے والے اور جنت کے وارثین کی نو صفات کا ذکر صرف اس لئے ہوا ہے کہ جنت کے خواہش مند حضرات ان صفات کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کریں۔وہ صفات یہ ہیں۔
1- نماز پر ہمیشگی۔
2- صدقہ وخیرات کا اہتمام۔
3- قیامت اور اس کی ہولناکی پر ایمان۔
4- اللہ کے عذاب کا خوف۔
5- شرمگاہ کی حفاظت۔
6- امانت کی ادائیگی۔
7- عہد کی پابندی۔
8- شہادت وگواہی کی پابندی۔
9- نماز کی حفاظت۔ یعنی وقت اور آداب کی پابندی۔ ۔
o آیت36تا39میں ان لوگوں کو دھمکی دی گئی ہے اور سرزنش کی گئی ہے جو رسول اللہ ﷺ سے قیامت وعذاب کی بات سن کر مذاق اڑاتے اور طنز کے انداز میں کہتے ہیں کہ اگر بالفرض کہیں جنت نام کی کوئی چیز ہے بھی تو ہم اس کے زیادہ حقدار ہیں۔
o اللہ تعالی نے دھمکی کے طور پر فرمایا:ہر گز نہیں،وہ جانتے ہیں کہ ہم نے انہیں کس چیز سے پیدا کیا؟انہیں چاہئے کہ اپنی اس حقیقت کو یاد کریں کہ ہم نےانہیں پانی کے ایک حقیر قطرے سے پیدا کیا ہے ۔
o لہذا جو اللہِ قدیر انہیں پہلی بار پیدا کر چکا ہے کیا وہ انہیں دوبارہ پیدا کرنے پر قادر نہ ہو گا؟
o آیت نمبر40سے سورت کے آخر تک مشرقوں و مغربوں کے رب کی قسم کھا کر اللہ تعالی فرما رہا ہے کہ ہم بلاشبہ اس پر قادر ہیں کہ ان کو ختم کرکے ان سے بہتر لوگ پیدا کر دیں۔لیکن ہمارے یہاں ہر چیز کا ایک وقت متعین ہے۔
o آخر میں دھمکی دی گئی ہے کہ انہیں فضول بحثوں میں الجھنے دیں اور کھیل کود کر لینے دیں، وہ وقت دور نہیں جب وہ اپنی قبروں سے اٹھ کر محشر کی طرف بھاگ رہے ہوں گے،ان کی نظریں جھکی ہوئی ہوں گی اور ان کے چہروں پر ذلت و رسوائی چھائی ہوگی۔ تب انہیں احساس ہوگا کہ رسولوں کی زبانی جو ہم نے وعدہ کیا جاتا تھا وہ برحق تھا۔

سورت نوح
یہ سورت مکی ہے۔
اس کا موضوع ” عبد الشکور” کے لقب سے پہچانےجانے والے نبی حضرت نوح علیہ السلام کی دعوت کا تذکرہ ہے۔ اس سورت میں حضرت نوح علیہ السلام کی زندگی کے تمام مراحل بیان ہوئے ہیں۔
o پہلی چار آیتوں میں حضرت نوح علیہ السلام کی بعثت اور دعوت کے آغاز کا بیان ہے۔
حضرت نوح علیہ السلام نے فرمایا :اے میری قوم کے لوگو! میں تمہارے لئے نذیر بن کر آیا ہوں ،لہذا صرف اللہ کی عبادت کرو، اسی سے ڈرو اور میری اطاعت کر لو۔
اس کے عوض اللہ تعالی تمہارے گناہوں کو معاف کر کے اس دنیا میں تمہیں زندگی گزارنے کا موقعہ عنایت فرمائے گا۔
o آیت5تا9میں حضرت نوح علیہ السلام کا دعوت کے میدان میں جہدِ پیہم کا ذکر ہے کہ انہوں نے دن و رات،اعلانیہ او رخفیہ طور پر اور فردا فردا او رجماعت در جماعت ہر اعتبار سے اپنی قوم کو دعوت دی۔ لیکن قوم کا رویہ تکبر و اعراض کے علاوہ اور کچھ نہ رہا۔
o آیت10تا12میں دعوت میں ترغیب کا اسلوب استعمال کرتے ہوئےحضرت نوح علیہم السلام نے کہا کہ اگر تم لوگ میری دعوت قبول کر کے گناہوں سے توبہ کر لو تو اولااللہ تعالی تمہارے گناہوں کو معاف فرما دے گا۔ ثانیا تمہارے لئے بارش کو نازل فرمائے گا،ثالثاً اولاد کی کثرت ہوگی ،اور رابعا مال و اسباب کی فراوانی عطا فرمائے گا۔
o آیت13تا20میں اللہ تعالی کی نعمتوں او ر قدرتوں کا ذکر کرکے قوم کو ایمان لانے کی دعوت دینے کا ذکر ہے۔
o مزید یہ کہ حضرت نوح علیہ السلام نے آسمان و زمین کی پیدائش، سورج وچاند کی نعمت اور بارش کے نزول، اور اللہ تعالی کی اس قسم کی متعدد قدرتوں او ر نعمتوں کا حوالہ دے کر انہیں توحید کی طرف بلایا ۔
o آیت21تا24میں اس بات کا ذکر ہے کہ ان تمام کوششوں اور اس لمبی مدت تک دعوت کے باوجود بھی جب قوم حضرت نوح علیہ السلام کی بات ماننے کیےلئے تیار نہ ہوئی تو حضرت نوح نے اللہ تعالی کے حضور اپنی قوم کی حالت شکایت بھرے انداز میں عرض کی: اے میرے رب! یہ لوگ میری مخالفت پر ہی اڑے ہوئےہیں اور ایسے لوگوں کے پیچھے پڑے ہیں جن کی تابعداری میں ان کے مال و اولاد ہر چیز کا نقصان ہے۔اور اس پر مزید یہ کہ وہ بہت بڑے مکر و چال سے کام لے رہے ہیں اور قسمیں کھا کھا کر کہہ رہے ہیں کہ ہم اپنے معبودوں (ود،سواع،یغوث،یعوق اور نصر)کا دامن چھوڑنے والے نہیں ہیں ۔اس پر مزید یہ کہ اس قوم کے سرداروں نے تیری بہت ساری مخلوق کو گمراہی میں ڈال دیا ہے۔
o آیت نمبر25سے سورت کے آخر تک حضرت نوح علیہ السلام کے اس موقف کا ذکر ہے کہ ساڑھے نو سو سال کی دعوت کے بعد جب قوم سے بالکل مایوس ہو گئے تو قوم کی ہلاکت کی دعا کی۔نوح علیہ السلام نے دعا میں عرض کیا کہ اے اللہ! اس روئے زمین پر کسی چلنے پھرنے والے کو نہ چھوڑ، کیونکہ یہ اولا تو ایمان لانا تو دور کی بات کسی کو ایمان لانے بھی نہیں دیں گے، اور یہ بھی امید نہیں ہے کہ ان کی نسل سے کوئی مومن پیدا ہوگا۔ لہذا ان میں سے کسی کو بھی بباقی نہ رکھ۔
o کیونکہ اللہ تعالی نے انہیں یہ بتلادیا تھا کہ اب آپ کی قوم میں سے کوئی بھی ایمان لانے والا نہیں ہے ۔
o پھر اس گناہگارقوم کا وہی انجام ہوا جو نبیوں کی مخالف قوموں کا ہوتا رہاہے کہ انہیں ان کے گناہوں کے سبب غرق کر دیا گیا اور ان میں سے کوئی ایک بھی شخص زندہ باقی نہ بچا، اور نہ ہی کوئی ان کی مدد کو پہنچ سکا۔ اور صرف غرق ہی پر اکتفا نہ ہوا بلکہ فورا ہی انہیں جہنم کی آگ کے حوالے کر دیا گیا۔
o آخری آیت حضرت نوح علیہ السلام کی ایک عظیم دعا پر مشتمل ہے۔ اس طرح یہ سورت حضرت نوح علیہ السلام کی دعوت پر شروع ہوئی اور انہیں کی دعا پر ختم ہوئی ۔

سورت الجن
یہ سورت مکی ہے۔
اس سورت کا نام سورۃ الجن ہے، جس میں جنوں سے متعلق گفتگو اور ان کے شرعی طور پر ذمہ دار ہونے کا ذکر ہے ۔
مکی سورتوں کی طرح اس سورت کا موضوع بھی عقیدہ ہے۔خصوصا عقیدہ توحید اور رسالت۔
o اس سورت کے دو حصے ہیں۔ پہلے حصے کی گفتگو جنوں سے متعلق ہے اور دوسرےحصہ میں دعوت سے متعلق کچھ توہدایات ہیں، جواللہ تعالی کی طرف سےنبیﷺ کو دی گئی ہیں۔
o پہلی دو آیتوں میں نبی ﷺ کی قراءت سن کرجنوں کی ایک جماعت کے اس سے متاثر ہو نے اور ایمان لانے اور شرک سے توبہ کر نے کا ذکر ہے ۔
o آیت3تا7میں ایمان لانے کے بعد جنوں کا اللہ کی تمجید و بزرگی بیان کرنے اور اس کا اولاد و بیوی سے پاک ہونے کا بیان ہے ۔
o اور یہ کہ اللہ کے ساتھ شرک بے وقوفی ہے۔ نیز جنوں نے اس بات پرتعجب کا اظہار کیا کہ یہ انسانوں کی کتنی بڑی جہالت ہے کہ وہ اللہ تعالی کو چھوڑ کربعض جنوں کی پناہ میں آتے ہیں۔نیز جنوں کی اس بد عقیدگی کا بھی بیان ہے کہ انسانوں کی طرح وہ بھی اس بدعقیدگی کا شکار تھے کہ اب کسی نبی کی بعثت ہونے والی نہیں ہے۔
o جنوں نے یہ بھی دعوی کیا کہ ہم یہ سمجھتے تھے کہ جنوں اور انسانوں میں سے کوئی بھی اللہ پر جھوٹ نہیں بول سکتا۔
جیسا کہ آج بہت سے سادہ لوح مسلمانوں کا حال ہے کہ باطل پرستوں کی بیان کردہ ہر بات کو اللہ کا حکم سمجھ لیتے ہیں۔
o آیت8تا10میں جنوں کی زبانی اس حقیقت کا بیان ہوا ہے کہ وہ عالم علوی کی خبروں پر کان لگاتے تھے لیکن نبی ﷺ کی نبوت کے قریب آسمان کی نگرانی سخت کر دی گئی اور اب اگر کوئی جن کان لگاکر سننےکی کوشش کرتا ہے تو اسے شعلوں سے بھون دیا جاتا ہے۔جب کہ اس سے قبل ہمیں عالمِ علوی میں بیٹھنے کے لئے کوئی نہ کوئی جگہ مل جاتی تھی۔
o اس سخت پہرے سے جنوں نے یہ محسوس کر لیا کہ یا تو کسی قوم پرکوئی بڑا عذاب آنے والا ہے، یا پھر دنیا کے لئےیہ کسی خیر کا پیش خیمہ ہے۔ یعنی کسی نبی کی بعثت ہونے والی ہے۔
o آیت نمبر11سے 15تک جنوں کا دو حصوں میں تقسیم ہونے کا ذکر ہے۔ چنانچہ ان جنوں نے اقرار کیا کہ ہم میں سے بعض لوگ اچھے ہیں او ربعض غلط راستے پر چل رہے ہیں،کچھ لوگ مسلمان ہیں اور کچھ لوگ راہ سےبھٹکے ہوئے ہیں۔ پس جو مسلمان ہیں انہوں نے تو رشد و ہدایت کا راستہ پا لیا ہے، البتہ جو ظالم ہیں وہ جہنم کا ایندھن بننے والے ہیں۔
o آیت نمبر16اور اس کے بعد کی آیات میں لوگوں کو توحید کی دعوت دی،اس پر عمل کی برکت و فضیلت اور ان پر رحمتوں کی بارش کا ذکر ہے اور اس سے منہ موڑنے والے کو سخت گیر عذاب کی دھمکی دی ہے۔نیز یہ واضح کیا گیا ہے کہ مسجدیں(سجدے اور سجدے والی جگہیں)اللہ تعالی کے لئے خاص ہیں،لہذا کسی اور کو پکارنا جائز نہ ہو گا۔
o آیت نمبر20سے سورت کےدوسرے حصے کی ابتدا ہے۔
o ان آیات میں نبی ﷺ کو دعوت توحید کے اعلان اور اپنی دعوت کی حقیقت کی وضاحت کا حکم ہے ، اور اسے چند نقاط میں بیان کیا گیا ہے۔
1) تم لوگ میری دعوت قبول کرو یا نہ کرو، میں صرف اللہ کی عبادت کرتا ہوں ، اسی کی طرف میری دعوت ہےاور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا ۔
2) میں ایک بشر ہوں ،میں تمہارے لئے کسی نفع و نقصان کا ، اور رشد وہدایت کامالک نہیں ہوں۔
3) نیز اللہِ عظیم کے سامنے خود میری بے چارگی کایہ عالم ہے کہ اگر میں اس کی نافرمانی کروں تو کوئی ایسی ذات نہیں ہے جو مجھے اس کی پکڑ سے بچا لے۔ میرا کام صرف اس کا پیغام پہنچادینا ہے۔
4) پس جو اس کی نافرمانی کرے گا اللہ اسے دائمی و ابدی جہنم میں ڈالے گا۔
o آخری دوآیتوں میں اللہ تعالی کے وسعتِ علم کا ذکر ہے کہ وہی غیب کا علم رکھتا ہے اور اپنے غیب کے علم میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔ لیکن اس غیب کی کسی بات کو اگر کسی رسول کو بتانا چاہتا ہے تو اسے غیب کی بعض باتوں پر مطلع کر دیتا ہے ۔ تاکہ یہ اس کی صداقت کی دلیل اور ان کے لئے معجزہ ثابت ہو۔ اسی لئے جب وہ کسی رسول کو غیب کی کوئی خبر دیتا تو اس کی ایسی حفاظت کرتا ہے تاکہ اس میں کسی خارجی مداخلت کی گنجائش باقی نہ رہے۔
o بالکل آخر میں اپنے علم کی وسعت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اس نےکائنات کی ہر چیز کو اپنے احاطہ علم میں لے رکھا ہے، حتی کہ کائنات کی کوئی چھوٹی بڑی چیز اس کے احاطے سے باہر نہیں ہے۔

سورت المزمل
یہ سورت مکی ہے۔
اس سورت کا موضوع رسالت اور موت کے بعد دوبارہ زندگی ہے۔
اس سورت کا نام "المزمل” ہے ، المزمل کا معنی ہے چادر اوڑھ کر لیٹنے والا۔
چونکہ جس وقت یہ سوت نازل ہوئی اس وقت نبی ﷺ کی یہی کیفیت تھی کہ آپﷺ چادر اوڑھ کر لیٹے ہوئے تھے ۔
o ابتدائی چار آیتوں میں نبی ﷺ کو مشفقانہ انداز میں خصوصی خطاب کر کے قیام اللیل اور قرآن کی تلاوت کرنے کا حکم ہے۔قیامِ لیل بھی پوری رات،آدھی رات یا ا س سے کچھ کم یا زیادہ ہونا چاہئے، اور قرآن کی تلاوت ترتیل سے کی جانی چاہئے۔
یہ سورت بالکل ابتدائی دور نبوت کی ہے جس کا معنی یہ ہے کہ دعوت کا کام کرنے سے پہلے علمی او ر اللہ تعالی سے اپنا تعلق مضبوط کرکےعملی طور پر اپنے آپ کو تیار کرنا چاہئے۔
o آیت نمبر ۴-۸ میں نبی کریمﷺ کو یہ یاد دلایا جارہاہےکہ وحی اور دعوت کا کام بہت بھاری چیز ہے جس کے لئے تیاری کی ضرورت ہے۔ لیکن چونکہ دن میں آپ کو بڑی مشغولیت کا سامنا ہے ، جس کی وجہ سے آپ ذکر عبادت کے لئے اور اپنے رب سے یکسوئی کے لئے وقت نہ نکال پائیں گے اس لئے رات کےقیام کا آپ کو حکم دیا جارہا ہے ، کیونکہ جو بوجھ آپ پر ڈالا جا رہا ہے اس کے لئے رات کا قیام بہت اہم چیز ہے۔نیز اس سے دلجمعی او رثابت قدمی کی دولت ملتی ہے۔
o آیت9تا11میں نبی ﷺ کو تلقین کی گئی ہے کہ توحید پر جمے رہیں،مشرکین کی تکلیف دہ باتوں پر صبر کریں اور لوگوں سے اور ان کی مجلسوں سے دوری اختیار کریں ، اور اطمینان رکھیں کہ آپ کو جھٹلانے والوں سے ہم نپٹ لیں گے۔
o آیت12تا14میں آپ کی مخالفت کرنے والوں اور آپ کو تکلیف دینے والوں کو عذاب الیم کی دھمکی ہے،لیکن یہ عذاب کب ملے گا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جس دن زمین او ر پہاڑ کانپ اٹھیں گے اور پہاڑ ریت کے ٹیلے کی طرح ذرہ ذرہ ہو جائیں۔
o آیت15تا19میں اہل مکہ کو خبر دار کیا جا رہا ہے کہ محمد ﷺ کوئی پہلے رسول نہیں ہیں ۔جس طرح فرعون اور اس کی قوم کی طرف حضرت موسی علیہ السلام کو رسول بنا کر بھیجا گیا تھا، ویسے ہی تمہاری طرف یہ رسول آئے ہیں۔
o لہذا اس دن سے خوف کھاتے ہوئے ایمان لے آؤ جس دن کی ہولناکی سے بچے بوڑھے ہو جائیں گے اور اس دن کے خوف سے آسمان پھٹ پڑے گا ۔
o آخری آیت جو قرآن مجید کی طویل آیتوں میں سے ایک ہے اور جس کا نزول پوری سورت کے بہت بعد ہوا ہے،اس آیت میں تہجد کی نماز میں آسانی کا حکم ہے ،جس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کے لئے دن میں دوسرے بھی بہت سے مشاغل ہوتے ہیں۔ جیسے روزی کے لئے تگ و دو اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنا اور بیمارہ وغیرہ۔ لیکن یہ دھیان رہے کہ فرض نمازوں اور زکاۃ میں کوئی کمی نہ ہونے پائے۔ اور مزید یہ کہ اپنی آسانی کو سامنے رکھ کر جو کچھ بھی میسر آئے وہ خرچ کرتے رہیں۔ اور اس کے علاوہ جو بھی خیر میسر آئے اسے انجام دینا چاہئے، کیونکہ بندہ جو کام کرے گا اس کا اجر اللہ کے پاس موجود پائے گا ۔
o آخری آیت کا خاتمہ اس طرح ہے: ﵟوَٱسۡتَغۡفِرُواْ ٱللَّهَۖ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمُۢ (٢٠)”اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے رہو۔ یقیناً اللہ تعالیٰ بخشنے واﻻ مہربان ہے”۔
اس کا راز یہ ہے کہ اعمالِ خیر پر ابھارنے کے بعد استغفار کے حکم کا معنی یہ ہے کہ یہ امر بندے کی فطرت میں ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری میں کوتاہی سے کام لیتا ہے،اس طرح کہ کبھی سرے سے وہ کام کرتا ہی نہیں، اور کرتا ہے تو اس میں کچھ نہ کچھ کمی رہ ہی جاتی ہے۔ لہذا استغفار سے اس کمی کے پورا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

سورت المدثر
یہ مکی سورت ہے۔بلکہ بعض روایات کے مطابق نزول کے لحاظ سے یہ دوسری سورت ہے۔
اس سورت کا موضوع نبی ﷺ اور آپ کی دعوت سے متعلق گفتگو کرناہے۔
o ابتدائی چار آیتوں میں نبی ﷺ کو یہ حکم ہو رہا ہے کہ دعوت کے کام کے لئے مستعدی او ر پورے جوش و خروش سے کھڑے ہو جائیں ۔
o پھر حکم ہوا کہ اپنے رب کی بڑائی بیان کریں،اپنے ظاہر و باطن کو پاک کریں اور اس میدان میں جو اذیتیں اور رکاوٹیں پہنچیں ان پر صبر کریں۔اس ضمن میں نبی ﷺ کو چھ بڑی اہم نصیحتیں کی گئی ہیں جو ایک داعی کیلئے بہت ہی اہم ہیں۔
o آیت8تا10میں قیامت کی ہولناکی کا بیان ہے کہ وہ دن کافروں پر بہت بھاری اور سخت ہو گا۔اس کا دوسرا مفہوم یہ ہےکہ مومنوں پر بھاری نہ ہوگا۔
o بقو ل اکثر مفسرین آیت11تا26ولید بن مغیرہ کے بارے میں نازل ہوئی ہیں ،جسے اللہ تعالی نے آل و اولاد ،مال و دولت اور جاہ و منصب سے نوازا تھا ،اس نے قرآن کی حقیقت کو پہچانا بھی ، لیکن ریاست کے لالچ میں اسے قبول نہیں کیا ، اور الٹےیہ الزام لگایا کہ یہ تو جادو ہے۔
o لہذا اسے دھمکی دی گئی ہےکہ کیا وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس کفر و معصیت کے عوض اسے ہم اور بھی نوازیں گے؟ ایسا نہیں بلکہ ہم اسے سخت عذاب دیں گے اور وہ وقت دور نہیں کہ ہم اسے جہنم کے حوالے کر دیں ۔
o مزید اس آگ کی یہ صفت بیان کی گئی کہ "ﵟلَا تُبۡقِي وَلَا تَذَرُ (٢٨) لَوَّاحَةٌ لِّلۡبَشَرِ (٢٩)”نہ وه باقی رکھتی ہے نہ چھوڑتی ہے۔ﵞ کھال کو جھلسا دیتی ہے”۔ یعنی جو اس میں ڈالا جائے گا،اسے جلا کر خاک کر دے گی، مگر پھر بھی پیچھا نہ چھوڑے گی، بلکہ زندہ کیا جائے گا اور اسے دوبارہ جلائے گی۔
o آیت27تا31میں قیامت کی ہولناکی کا بیان ہے اور اس کے اس پہلو کی طرف اشارہ ہے، جو اہل کتاب و اہلِ ایمان کے لئے تو ایمان کی پختگی کا سبب ہے اور مریض دلوں اور کافروں کے لئے فتنے اور آزمائش کا باعث ہے۔ کہ ہم نے جہنم کی نگرانی کے لئے ۱۹ فرشتے مقرر کر رکھے ہیں ۔
o یہ بات کافروں کے لئے فتنے کا سبب بنی کہ اتنے زیادہ لوگوں کی نگرانی کے لئے جہنم کے صرف انیس داروغے کیسے کافی ہو سکتے ہیں؟ اللہ تعالی نے فرمایا کہ یہ تعداد ہم نے صرف اس لئے رکھی ہے کہ کافروں کو اس کا مذاق اڑانے اور فتنے میں پڑنے کا موقع ملے۔ ورنہ میرے پاس لشکروں کی کمی نہیں۔
o آیت32تا37میں لگاتار تین چیزوں(چاند،رات اور صبح) کی قسمیں کھا کر اللہ تعالی نے جہنم کا برحق ہونا واضح فرمایا ہے ،تاکہ جو شخص اس سے بچنا چاہتا ہے وہ آگے بڑھے،ایمان لائے اور عمل صالح کرے، اور جو اس سے نہیں بچنا چاہتا وہ اپنے انجام کے بارے میں سوچ لے۔
o آیت38تا47میں قیامت اور جہنم کے بارے میں لوگوں کو خبر دار کیا گیا ہے کہ اس جہنم سے نجات کا ذریعہ ایمان اور عملِ صالح ہے۔
o پھر اہلِ جنت واہلِ جہنم کے ایک مکالمہ کی شکل میں ان اہم اعمال کی طرف توجہ دلائی گئی جو اس آگ سے نجات دلانے والے ہیں۔
o وہ اس طرح کہ جنتی جب جہنمیوں سے سوال کریں گے کہ تم لوگ اپنی کن بد اعمالیوں کی وجہ سے جہنم میں آئے؟ اس وقت جہنمی اپنی چار غلطیوں کا ذکر کریں گے۔
1) نماز نہیں پڑھتے تھے۔
2) مسکینوں کو کھانا نہیں کھلاتے تھے(زکاۃ نہیں دیتے تھے)۔
3) کج بحثی کرتے او ر گمراہی کی حمایت میں لگے رہتے تھے۔
4) آخرت کو جھٹلاتے تھے ۔
o آیت نمبر49سے سورت کے آخر تک ان اسباب کی طرف رہنمائی کی گئی ہے جن کی وجہ سے کفار آخرت پر ایمان نہیں لاتے تھے۔
1) یہ لوگ جو نبی ﷺ کی دعوت کا قبول نہیں کر رہے ہیں اور ایسا دور بھاگتے ہیں جیسے ہرن شیر کی آہٹ پا کر بھاگتا ہے۔
2) اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ آخرت پر ان کا ایمان نہیں ہے،اللہ کے سامنے حاضر ہو کر اپنی جوابدہی کا احساس نہیں ہے اور دنیا کی زندگی کو سب کچھ سمجھ بیٹھے ہیں۔
3) اور اس پر مزید یہ کبر وغرور کے شکار ہیں کہ آخر ہمیں کوئی کتاب کیوں نہ دی گئی کہ ہم اس کو آسانی سے پڑھ کر ایمان لاتے۔
o آخر میں انہیں خبر دار کرتے ہوئے کہا گیا کہ یہ قرآن جادو نہیں، بلکہ نصیحت سے بھر پور ایک کتاب ہے،جو چاہے اس سے نصیحت حاصل کرکے اپنے آپ کو جہنم سے بچا لے اور اللہ کی مغفرت و بخشش کا حقدار بن جائے۔ کیونکہ اللہ کی ذات وہ ہے کہ اس کی نافرمانی سے ڈرا جائے اور اس سے اپنے گناہوں کی معافی مانگی جائے۔
o آخری آیت(وَمَا يَذْكُرُونَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ) سے اللہ تعالی کی مشیئت اور ہر چیز میں اس کے دخل دینے کا ثبوت ہے۔
یہی اہلِ سنت وجماعت کا عقیدہ ہے کہ اس دنیا میں کوئی چیز اللہ کی مشیت کے بغیر ظہور پذیر نہیں ہوتی۔

سورت القیامہ
یہ سورت مکی ہے۔
اس سورت کا موضوع موت کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے اور جزا وسزا کےعقید کوثابت کرنا ہے۔ اور کفار کے ان شبہات کا جواب ہے کہ جو وہ قیامت کے بارے میں اٹھاتے تھے۔
o ابتدائی چھ آیتوں میں قیامت کی آمد کا اثبات ہے۔ کہ اللہ تعالی خود قیامت اور اس کے ساتھ انسانی نفس کی "نفس لوامہ” کی قسم کھائی ہے تا کہ یہ واضح ہوجائے کہ انسان کا یہ سمجھنا کہ مر کر سڑگل جائیں گے تو ہم اس کودوبارہ زندہ نہیں کر سکتے،یہ اس کی خام خیالی ہے، ہم تو اس کی پوروں پوروں تک کو بالکل ٹھیک اور درست انداز میں بنا سکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان قیامت کے دن کا انکار اس لئے کرتا ہے کہ اس کی ناجائز خواہشات پر لگام نہ لگے۔
o آیت7تا15میں قیامت کی بعض ہولناکیاں بیان ہوئی ہیں کہ اے انسان! آج تو قیامت کے آنےکو ناممکن سمجھ رہا ہے ، تواس دن کو یاد کر جب آنکھیں پتھرا جائیں گی،چان کی روشنی چھین لی جائے گی،سورج اور چاند کو بے نور کردیا جائے گا اور انسان کے سامنے اس کا سارا کردار رکھ دیا جائے گا ۔ اس وقت اللہ کے علاوہ کہیں اور جائے فرار نہ ہوگی۔ لہذا اس سے پہلے کہ وہ دن آئے ، اس کے لئے تیاری کر لو۔
o آیت16تا19میں جملہ معترضہ کے طور پر نبی ﷺ کو قرآن کی تلقی(حاصل کرنے،سیکھنے )کے آداب بتلائے گئے ہیں۔
o ہوتا یہ تھا کہ جب حضرت جبریل وحی لے کر آتے تو نبی ﷺ اس خوف سے کہ کہیں کوئی لفظ و حرف چھوٹ نہ جائے، جلدی جلدی اسے دہرا لینا چاہتے تھے۔ اس پر آپ کو تلقین کی گئی کہ آپ اس کے لئے پریشان نہ ہوں،صبر و اطمینان سنیں،جب جبریل پڑھ چکیں تب آپ پڑھیں،اس کتاب کو جمع کرنا،یاد کرانا،پڑھانا او رپھر اس کی تفسیر بیان کرنا، یہ سب ہمارے ذمہ ہے ۔
o آیت20تا25میں کلام کا رخ پھر قیامت کے بیان کی طرف ہے کہ لوگوں کی طرف سے آخرت کے انکار کی اصل وجہ ان کا دنیا کو آخرت پر ترجیح دینا ہے۔
o پھر قیامت کے دن خسارہ میں رہنے والوں اور کامیاب ہونے والوں کا ذکر ہے کہ کچھ چہرے تروتازہ ہوں گے جنہیں اللہ کا دیدار نصیب ہو گا اور کچھ چہرے مرجھائے ہوئے اور کمر توڑ دینے والی مصیبت کا شکار ہوں گے۔
o آیت26تا35میں موت کے وقت قیامت کے منکرین کی بد حالی کا ذکر ہے، کہ اس سے پہلے کہ جب تمہاری روح حلق تک پہنچے اور کوئی بچانے والا نہ ہو ، عقل کے ناخن لو اور قیامت کی تیاری کر لو،نماز و زکاۃ کا اہتمام کر لو،صرف یہی چیز تمہارے کام آنے والی ہے۔
o آیت36تا40میں حشر اور موت کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کو عقلی دلیلوں سے ثابت کیا گیا ہے۔
یہاں بعث کے امکان پر دو واضح دلیلیں پیش کی گئی ہیں۔
1- اللہِ حکیم وعادل کا عدل یہ چاہتا ہے کہ اللہ کے فرمانبردار اور اس کے نافرمان بندے دونوں انجام کے لحاظ سے برابر نہ ہوں۔ اس لئے کوئی ایک دن ایسا ضرور ہونا چاہئے چہاں دونوں کا حساب ہو اور ہر ایک کو اس کا حق ملے۔
2- جس قادر مطلق نے انسان کو پانی جیسی حقیر چیز سے پیدا کیا وہ اسے دوبارہ پیدا کرنے پر بھی قادر ہے۔
آخری آیت(أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يُحْيِيَ الْمَوْتَى) اسی تاکید او ر زور بیان پر ختم ہوتی ہے جس سے سورت کی ابتدا ہوئی تھی ۔

سورت الانسان
اس کا دوسرا نام ” سورۃ الدھر” بھی ہے۔
اکثر علماء کے نزدیک یہ سورت مدنی ہے، اور ہمارے ہند وپاک کے مصاحف میں یہی چیز زیادہ معتبر مانی گئی ہے۔ حالانکہ موضوع کے لحاظ سے اس سورت کا مکی ہونا ظاہر ہوتا ہے۔واللہ اعلم
اس سورت کا موضوع آخرت اور اس سے متعلقہ بعض عقائد ہیں۔
o ابتدائی تین آیتوں میں اللہ تعالی کی اس عظیم قدرت کا بیان ہے کہ اس نے انسان کو عدم سے وجود بخشا ۔ پانی کے ایک حقیر قطرے کو دوسرے قطرے سے ملا کر مختلف مراحل سے گزارتے ہوئے ایک خوبصورت،سننے اور دیکھنے والا ذمہ دار انسان بنا دیا۔پھر اسے خیر و شر کی تمیز عطا فرمائی، تاکہ اس کی آزمائش کرے کہ وہ شاکر بنتا ہے یا کافر۔
o آیت4تا22 ان آیتوں میں ان لوگوں کے بدلے کے جزا وسزا کا بیان ہے جو مذکورہ امتحان میں ناکام یا کامیاب ہوتے ہیں۔
o ناکام ہونے والوں کا ذکر صرف ایک آیت میں کہ ہم نے ان کے لئے زنجیریں،طوق اور آگ تیار کر رکھی ہے۔
o البتہ کامیاب ہونے والوں کو ملنے والی نعمتوں ،ان نعمتوں کے سبب کا اور ان کی صفات کا کسی حد تک تفصیل سے بیان ہے۔
o اللہ کے شاکر بندوں کی صفات درجِ ذیل ہیں
1- اللہ کے بندے بن کر رہتے ہیں۔
2- نذریں پوری کرتے ہیں۔ اسی میں قسم کو پورا کرنا بھی داخل ہے۔
3- حاجت مند ہونے کے باوجود محض اللہ کی رضا کے لئے مسکینوں او ر حاجت مندوں کو کھانا کھلاتے ہیں۔
4- اس دنیا میں صبر سے کام لیتے ہیں۔
5- اللہ سے ڈرتے اور قیامت کے دن کی تیاری کرتے ہیں۔
ان صفات کو اپنانے کے عوض آخرت میں انہیں جنت و ریشم کی نعمت کے ساتھ ساتھ تازگی و سرور کی دولت نصیب ہوئی۔ یعنی وہ اندر سے خوش ہوں گے اور ظاہر سے تر وتازہ ہوں گے ۔
اس کے بعد جنت میں انہیں ملنے والی نعمتوں کا ذکر قدرِ تفصیل سے ہے۔ جیسے:
1- ان کی رہائش گاہیں ایسی ہوں گی کہ بالا خانوں میں مسہریاں لگی ہوئی ہوں گی ،جہاں ٹیک لگا کر آرام سے بیٹھے ہوں گے۔
2- موسم ایسا کہ موسمِ بہار، نہ کڑکدارسردی اور نہ ہی گرمی کے لپٹ ۔ بلکہ حسبِ خواہش سایہ دار درختوں کے نیچے بیٹھنے کا لطف ہوگا۔
3- پہننے کے لئے ریشم او ر سندس و حریر کے لباس ۔
4- کھانے کے لئے مختلف قسم کے پھلوں کی دستیابی۔
5- چاندی اور شیشے کے برتن اور آبخورے جس میں جاموں کا دور چل رہا ہوگا۔
6- پینے کی لئے وہ شراب جو سلسبیل نامی چشمے سے لی گئی ہوگی اور اس میں زنجبیل کا ذائقہ ۔
7- خدمت کے لئے موتیوں جیسے معصوم وخوبصورت بچے۔
8- اس پر مزید یہ کہ ہر طرف سے نعمتوں کا منظر اور بہٹ بڑی بادشاہت۔
o آیت24تا26میں نبی ﷺ کو تسلی دی ہے کہ کافروں کے اعتراضات و شبہات کے مقابلے میں تسلی واطمینان رکھیں،یہ قرآن حقیقتا ہم نے ہی آپ پر نازل کیا ہے،آپ اپنے کام میں لگے رہیں اور اس پرقوت حاصل کرنے کے لئے درج ذیل عبادات کااہتمام کریں۔
1) صبر کو لازم پکڑیں ۔
2) کافروں اور گناہ گاروں کی اطاعت سے پرہیز کریں۔
3) صبح و شام اللہ کا ذکر لازم پکڑیں ۔
4) تہجد کی نماز کا خصوصی اہتمام کریں۔
o آیت نمبر 27اور 28میں نبی ﷺ اور آخرت پر ایمان نہ لانے والوں کی اصل بیماری کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ اصل وجہ یہ ہے کہ وہ لوگ دنیا ئے فانی کو ترجیح دیتے ہیں اور آخرت جو بہت بھاری دن ہے اس سے غفلت برتتے ہیں،یہ لوگ آخرت اور دوبارہ پیدا ہونے کو مشکل سمجھ رہے ہیں۔ یہ لوگ کیوں اپنی پیدائش پر غور نہیں کرتے کہ ہم نے ان کے اعضاء اور پٹھوں وغیرہ کو کس قدر خوبصورت ،مناسب اور قوی بنایا ہے۔
گویا ان کی دو کمزوریاں ہیں: 1)دنیا کی زیب و زینت میں مشغولیت۔2) سوچ بچار کی کمی۔
o آیت29تا31بطور دھمکی اورتنبیہ کے نازل ہوئی ہیں کہ آپ ان سے کہہ دیں کہ یہ قرآن تمہارے لئے نصیحت ہے، یا تو اسے اپنا کر اللہ علیم و حکیم کی رحمتوں کے مستحق بنو، یا پھر منہ موڑ کراس کے دردناک عذاب کو دعوت دو۔

سورت المرسلات
یہ سورت مکی ہے۔
مکی سورتوں کی طرح اس کا موضوع بھی عقیدہ ہے ۔خصوصا عقیدہ آخرت ۔
o اللہ تعالی نےابتدائی سات آیتوں میں مختلف مقاصد کے لئے بھیجے گئے فرشتوں، یا ہواؤں کی قسم کھا کر قیامت کی حقانیت اور اس کی آمدکے یقینی ہونے کو بیان کیاہے ۔کہ جس طرح ان فرشتوں یا ہواؤں کے ذریعے ہم نے جب چاہا کسی قوم کو ہلاک کر دیا، اسی طرح قریش کے ساتھ بھی یہ صورتِ حال پیش آ سکتی ہے۔
قسم اس بات پر کھائی ہے کہ جس دن یا جس عذاب کا وعدہ تم سےکیا جا رہا ہے بلاشبہ وہ آنے والا ہے۔
o پھر آیت8تا15میں اس دن کی بعض ہولناکیوں کا ذکر ہے کہ جب ستارے بے نور ہو جائیں گے،آسمان تباہ کر دیا جائے گا،پہاڑ ریزہ ریزہ کر دئیے جائیں گے اور اللہ کے رسولوں کو گواہی کے لئے حاضر کر دیا جائے گا، تو وہی دن فیصلے کا دن ہوگا۔وہ فیصلے کا دن جس دن کو جھٹلانےوالوں کے لئے تباہی ہی تباہی ہے ۔
o آیت نمبر 16تا19میں اہل مکہ کو مزید تنبیہ کی گئی ہے کہ تم جانتے ہو کہ جو گزشتہ قومیں رسولوں پر ایمان نہیں لائیں ہم نے انہیں ہلاک کیا ہے۔تو یاد رکھو بعد میں آنے والی قوموں نےبھی اگر یہی روش اختیار کی تو ان کا حشربھی یہی ہو گا ۔لہذا ایمان لے آؤ، ورنہ اس دن کی تکذیب کرنے والوں کے لئے تباہی و بربادی ہے۔
o آیت نمبر20سے 28تک اللہ تعالی کی قدرت کےمتعدد مظاہر اور کائنات کی شہادتوں کے حوالے سے فیصلے کے دن پر دلیل قائم کی گئی ہے۔جیسے:
1- ایک حقیر قطرے سے مختلف مراحل سے گزار کر انسان کی پیدائش۔
2- تمام مخلوقات کے لئے زندگی و موت ہر حالت میں زمین کا کافی ہونا اوراپنے اندر سمیٹ لینے کی صلاحیت رکھنا ۔
3- زمین میں بڑے بڑے پہاڑوں کا گاڑدینا، جو اس دنیا پربارش کا سبب بھی بنتے ہیں۔
مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ کیا ساری حقیقتیں ایک بڑی حقیقت ، یعنی قیامت کے دن کی گواہی نہیں دیتی ہیں ؟ یقینا دیتی ہیں۔ لہذا اس دن کو جھٹلانے والوں کیلئے تباہی ہے۔
o ایت نمبر29سے 40تک مجرمین اور اس دن کو جھٹلانے والوں کو جہنم کے دردناک عذاب کی دھمکی دی ہے اور انہیں دہکتی آگ میں ڈالنے کی وعید سنائی ہے۔ پھر اس آگ کی چار صفت بیان کی ہے۔
1- اس آگ سے ایسا دھواں اٹھے گا جو کثرت کی وجہ سے اوپر جاکر تین حصوں میں بٹ جائے گا۔
2- وہ ہوگا تو سایہ ،لیکن اس میں دنیا کے سایوں کی طرح ڈھنڈک نہ ہوگی، بلکہ اس میں بہٹ بڑی تپش ہوگی۔
3- نہ صرف یہ کہ وہ سایہ گرم ہوگا ،بلکہ وہاں سے نکل جانے کے بعد آگ سے چھٹکارا نہیں ملے گا۔ یعنی وہ دھواں بھی آگ ہی کا ایک حصہ ہوگا۔
4- اس آگ سے اتنی بڑی بڑی چنگاریاں اور شرارے اٹھیں گے جیسے بڑے بڑے محل اور سرخ اونٹ ہوں۔
o نیزاس دن کسی مجرم سے کسی بھی قسم کا کوئی عذر قبول نہیں کیا جائے گا۔ اور مزید یہ کہ اسی دن یہ رسوا کن سوال بھی ہوگا کہ کیا یہ فیصلے کا دن نہیں ہے؟ کیا اپنے دعوے کے مطابق ہم نے تم سب کو جمع نہیں کر لیا ہے؟ کیا اس سخت موقف سے چھٹکارا حاصل کرنے کا کوئی حیلہ تمہارے پاس ہے؟ ہر گز نہیں۔ لہذا اس دن کو جھٹلانے والوں کے لئے تباہی ہے۔
o آیت نمبر41سے 45تک قیامت کے دن پر ایمان لانے والوں کو ملنے والی نعمتوں کا بیان اور قیامت کےدن ان کی حوصلہ افزائی کا ذکر ہے۔ کہ متقیوں کیلئے سایوں اور چشموں والے باغات ہیں،انہیں من پسند میوے ملیں گے۔ کیونکہ انہوں نے اس دن کی تیاری میں نیک اعمال کئے تھے۔ اس کے برعکس اس دن کی تکذیب کرنے والوں کے لئے ہلاکت ہے۔
o آیت نمبر49سے آخر تک اس امر کی وضاحت ہے کہ مجرموں کے جہنم میں جانے اور آخرت کو جھٹلانے کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے تکبر سے کام لیا اور رسولوں کی باتوں پر دھیان نہ دیا۔
o چنانچہ ان کے جہنم میں جانے کی اصل وجہ یہ تھی کہ وہ نماز جیسی اہم عبادت سے دور اور غافل تھے۔
o آخری آیت میں ہے کہ کافروں کو تنبیہ کے طور پر خطاب کیاجارہا ہے کہ قرآن میں جو اللہ تعالی کے وجود، اس کی وحدانیت اور نبیﷺ کی رسالت پر اس قدر کھلے دلائل پائے جارے ہیں، اگر اس پر ایمان نہیں لاتے تو پھر وہ کون سی کتاب ہے ہوگی جس پر ایمان لاوگے؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں