بسم اللہ الرحمن الرحیم
19:درس نمبر
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
انیسواں سال
نبوت کے 23 سال23درس
سلسلہ مختصر سیرت النبی ﷺ / رمضان 2013
ہجرت کا چھٹا سال :
نوٹ: پچھلے سالوں کے مقابلے میں اس سال غزوات و سرایا کی تعداد زیادہ ہے ، امام ذہبی نے اپنی تاریخ میں سولہ سے زائد غزوات و سرایا کا ذکر کیا ہے ، لیکن چونکہ ان میں اکثر کی سند صحیح نہیں ہے لہذا ذیل میں ان میں سے چند اہم مہموں کا ذکر کیا جاتا ہے ۔
قتل سلام بن الحقیق : یہ ایک یہودی تھا جس کا قلعہ حجاز میں خیبر سے متصل تھا ، اس اللہ کے دشمن نے بنو غطفان میں گھوم گھوم کر انہیں مسلمانوں کے خلاف ابھارا تھا اور بہت زیادہ مال دے کر غزوۂ احزاب میں شرکت کے لئے تیار کیا تھا اسی لئے غزوۂ خندق اور بنی قریضہ سے فارغ ہونے کے بعد نبی ﷺ نے عبد اللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں ایک وفد روانہ کیا ، حضرت عبد اللہ بن عتیک ایک بہانے سے اس کے قلعہ میں داخل ہوگئے اور جب رات کا سناٹا ہوا تو اس اللہ کےد شمن کو قتل کردیا ۔
سریہ محمد بن مسلمہ ، محرم 6 ھ : حضرت محمد بن مسلم کی قیادت میں نجد کی طرف بنو بکر کے بعض قبائل کی سرکوبی کے لئے تیس آدمیوں پر مشتمل یہ سریہ 10/محرم 6 ھ میں روانہ ہوا ، یہ لوگ رات بھر چلتے اور دن میں چھپ کر بیٹھ جاتے ، فرطاء کے مقام پر اچانک دشمنوں پر حملہ کردیا ، دشمن بھاگ کھڑے ہوئے اور کچھ اونٹ و بکریاں مال غنیمت کی شکل میں ہاتھ آئے ، اس مہم سے واپسی میں حضرت ثمامہ بن اثال گرفتار ہوئے تھے ، جو بعد میں مسلمان ہوگئے اور اسلام کے ایک بہادر سپاہی ثابت ہوئے ۔
سریہ زید بن حارثہ عیص کی طرف ، جمادی الاول 6 ھ : اس کا مقصد شام جانے والے قریش کے ایک قافلہ کو روکنا تھا ، اس قافلہ کی قیادت نبی ﷺ کے داماد حضرت ابو العاص بن الربیع کررہے تھے ، حضرت زید بن حارثہ نے ایک سو ستر صحابہ کو لے کر ان پر حملہ کردیا اور قافلہ پر قبضہ کرلیا ، قافلہ کے قائد بھاگ کھڑے ہوئے اور مدینہ منورہ آکر اپنی بیوی زینب کے یہاں لی ، حضرت زینب کی شفارش پر نبی ﷺ نے قافلہ کا سارا مال واپس کردیا اور ابو العاص کو امان دے دی ، وہ مکہ جاکر لوگوں کی امانتیں واپس کردئے اور خود مسلمان ہوگئے ۔
غزوہ بنی لحیان ، جمادی الاولی 6 ھ : اصحاب رجیع کا بدلہ لینے اور غزوۂ خندق میں شامل بعض بدوی قبائل کو سبق دینے کے لئے نبی ﷺ اپنے دو سو صحابہ کی جماعت لے کر نکلے ، چلتے چلتے آپ بنو لحیان کے علاقے میں گھس گئے ، جب بنو لحیان نے سنا تو بھاگ کر پہاڑوں میں پناہ لی ، نبی ﷺ مکہ مکرمہ کے قریب وادی غران [ مکہ مکرمہ سے 87 کیلو میٹر ] تک پہنچے ، اہل رجیع کی قبروں پر دعائے مغفرت کی اور چند دن تک وہاں ٹھہر کر واپس ہوئے ۔
صلاۃ خوف : اسی غزوہ میں پہلی بار نماز خوف کا حکم نازل ہوا ۔
سریہ الخیط ، رجب 6 ھ :تین سو سواروں پر مشتمل یہ جماعت حضرت ابوعبیدہ کی قیادت میں قریش کے ایک قافلے کا راستہ روکنے کے لئے نکلی تھی ، راستہ میں سامان رصد کی کمی کی وجہ سے مسلمانوں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا حتی کہ جھاڑ جھاڑ کر درخت کے پتے کھا کر گزارہ کیا ، اسی مناسبت سے اس کا نام سریۃ الخیط ہے ، خیط کے معنی ڈنڈے سے درخت کے پتے جھاڑنا ، بالآخر اللہ تعالی نے سمندر کے کنارے ایک بڑی مچھلی پھینک دی جس سے مسلمانوں کے کھانےکا مسئلہ حل ہوگیا ، قریش کے قافلوں کا راستہ روکنے والی یہ آخری مہم تھی ۔
سریہ کرز بن جابر الفہری ، شوال 6 ھ : عقل اور عرینہ کے کچھ لوگ آکر مسلمان ہوئے لیکن مدینہ منورہ کی آب و ہوا انہیں راس نہیں آئی ، لہذا رسول اللہ ﷺ نے انہیں اہل مدینہ کی چراگاہ کی طرف بھیج دیا کہ اونٹوں کا دودھ اور پیشاب پئیں اور کھلی آب و ہوا میں رہیں ، جب یہ لوگ صحت یاب ہوگئے تو چرواہوں کو قتل کردیا اور چوپایوں کو ہانک لے گئے ، نبی ﷺ کو معلوم ہوا تو اولا آپ نے بد دعا کی کہ اے اللہ ان کا راستہ اندھا کردے اور کنگن سے بھی زیادہ تنگ کردے ، ثانیا حضرت کرز بن جابر الفہری کی قیادت میں بیس صحابہ کو بھیجا چنانچہ وہ لوگ گرفتا ر ہوئے ، نبی ﷺ نے ان کے ہاتھ اور پیر کاٹ کر حرہ میں ڈال دیا اور اسی حال میں وہ مرگئے ۔
صلح حدیبیہ ، ذو القعدہ 6 ھ :غزوۂ احزاب سے فراغت کے کچھ ہی د ن بعد نبی ﷺ نے ایک دن خواب دیکھا کہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیت اللہ کا طواف کررہے ہیں ، لہذا ذی القعدہ 6 ھ میں عمرے کا ارادہ فرمایا اور اپنے تقریبا دیڑھ ہزار ساتھیوں کے ساتھ بقصد عمرہ روانہ ہوئے ، ذو الحلیفہ پہنچ کر احرام باندھا اور ہدی کے جانور ساتھ لئے ، جب عسفان پہنچے تو معلوم ہوا کہ قریش لڑائی کے لئے تیار ہیں بلکہ گھڑ سواروں کی ایک جماعت خالد بن ولید کی قیادت میں غمیم تک پہنچ چکی ہے ، نبی ﷺ نے عام راستہ تبدیل کردیا اور دائیں جانب کٹ کر حدیبیہ کا راستہ لیا ، جب آپ حدیبیہ پہنچے تو آپ کی اونٹنی قصواء وہیں بیٹھ گئی اور اس سے آگے جانے کے لئے تیار نہ ہوئی ۔ نبی ﷺ حدیبیہ ہی میں ٹھہر گئے ، ادھر قریش بھی نبی ﷺ کو روکنے کا عہد کئے بیٹھے تھے ، دونوں فریق میں قاصدوں کے آنے جانے کا سلسلہ شروع ہوا اور کئی دن کے بعد معاملہ طے ہوا کہ : ۱- اس سال مسلمان واپس جائیں ۔ ۲- آئندہ سال صرف تین دن کے لئے آکر عمرہ کریں اور ساتھ میں ہتھیار نہ رکھیں ۔ ۳- دونوں فریق دس سال تک جنگ بندی کا معاہدہ کریں ۔ ۴- قریش کا جو آدمی مسلمان ہوکر مدینہ جائے مسلمان اسے واپس کرنے کے ذمہ دار ہوں گے ۔ ۵- جو قبیلہ مسلمانوں کے عہد میں شامل ہونا چاہے وہ ان کے ساتھ ہو لے اور جو قریش کا ساتھ دینا چاہے وہ قریش کے ساتھ ہولے ۔ ۶- دونوں فریق ایک دوسرے کے لئے دل صاف رکھیں گے اور کوئی چال نہ چلیں گے ۔
پھر صلح کی یہ بنود لکھی گئیں ، اس کے بعد نبی ﷺ اور صحابہ رضوان اللہ علیہم نے اپنے قربانی کے جانور ذبح کرکے بال کٹایا اور حلال ہوگئے ۔
حدیبیہ کے مقام پر بیس دن ٹھہرنے کے بعد مدینہ منورہ کے لئے واپس ہوئے ۔ سورۃ الفتح کا نزول : نبی ﷺ مدینہ منورہ کے راستے پر تھے کہ آپ پر سورۂ فتح نازل ہوئی جس سے متعلق آپ نے فرمایا کہ میرے اوپر آج رات ایک ایسی سورت نازل ہوئی ہے جو میرے لئے ساری دنیا و مافیہا سے بہتر ہے ۔ { صحیح بخاری : 4177 }
کافرہ عورتوں سے نکاح حرام : صلح حدیبیہ کے بعد کچھ عورتیں جن میں ام کلثوم بنت عقبہ بھی تھیں مدینہ منورہ آئیں تو نبی ﷺ نے انہیں واپس نہیں کیا کیونکہ عورتیں اس عہد میں شامل نہیں تھیں ، اسی وقت سورۂ ممتحنہ کا دوسرا رکوع نازل کرکے اللہ تعالی مومن و کافر میں شادی کے رشتے کو حرام کردیا ۔
ابو بصیر کی آمد : صلح حدیبیہ کے بعد ابھی نبی ﷺ مدینہ منورہ پہنچے ہی تھے کہ ابو بصیر مسلمان ہوکر کافروں کے ظلم سے بھاگ کر آگئے ، ان کے پیچھے قریش کے دو آدمی آئے اور نبی ﷺ سے ابو بصیر کو ان کے ساتھ واپس کرنے کا مطالبہ کیا ، حضرت ابو بصیر واپس جارہے تھے کہ راستے میں ان میں سے ایک کو قتل کردیا اور دوسرا بھاگ کر مدینہ منورہ میں پناہ لیا ، ادھر پیچھے سے بو بصیر بھی آگئے ، نبی ﷺ نے ان کے اس عمل پر عدم موافقت کا اظہار کیا ، جب ابو بصیر نے یہ دیکھا تو وہ بھاگ کر ساحل سمندر چلے گئے ، پھر قریش کا جو شخص بھی مسلمان ہوتا وہ جاکر ابو بصیر سے مل جاتا ، یہاں تک کہ قریش اور دیگر طرف سے آئے کمزور مسلمانوں کی ایک جماعت تیار ہوگئی ، اور انہوں نے قریش کے قافلوں کو تنگ کرنا شروع کردیا، لہذا مجبور ہوکر قریش صلح سے اس بند ختم کرنے پر مجبور ہوئے ۔
اس سال کے قابل ذکر واقعات : ۱- عہد نبوی میں قحط سالی کا واقعہ اسی سال رمضان میں پیش آیا ، جس میں آپ نے صلاۃ الاستسقا ء پڑھی ۔ ۲- سعد بن خولہ صحابی قریش کی قید میں تھے اور وہیں ان کا انتقال ہوا ۔ ۳- حضرت عائشہ کی والدہ ام رومان بنت عامر کاانتقال اسی سال ہوا ہے ۔ { المنتظم : 3/291، 292 – المغازی الذھبی :402 } ۔