بسم اللہ الرحمن الرحیم
سلسلہ خلاصہ معانی قرآن مجید
از قلم : شیخ مقصود الحسن فیضی حفظہ اللہ
*انیسواں پارہ(و قال الذین)*
انیسواں پارہ تین سورتوں پر مشتمل ہے؛ سورہ فرقان کا بقیہ حصہ، سورہ شعراء مکمل اور سورہ نمل کا ا بتدائی حصہ۔
o اس پارے کی ابتداء مشرکین کے ان بعض اعتراضات او ران کے جواب سے ہوئی ہے جن کا ذکر ابتدائے سورت سے چلا آرہا ہے۔
o کافروں کا ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ جب اس نبی کے پاس کوئی فرشتہ وحی لے کر آتا ہے تو ہمارے پاس کوئی فرشتہ کیوں نہیں آتا، یا اس نبی کے حق میں گواہی دینے کے لئے ہمارے پاس کوئی فرشتہ کیوں نہیں آتا، یا اللہ کو ہم اپنی آنکھوں سے کیوں نہیں دیکھ لیتے کہ اس نے اس شخص کو نبی بنا کر بھیجا ہے۔
o ان سوالوں کے جواب میں اللہ تعالی نے فرمایا کہ اولا :ان کا یہ اعتراض اس بات کی دلیل ہے کہ انہیں آخرت کی کوئی امید یا اس سے خوف نہیں ہے۔
o ثانیا:یہ ان کا تکبر ہے اور اپنے آپ کو رسول کے مقام پر کھڑا کر دینے کے مترادف ہے۔
o ثالثا:موت کے وقت جب یہ لوگ فرشتوں کو دیکھ لیں گے تو وہ دن ان کے لئے بہت برا ہوگا اور ان فرشتوں سے دور ہی بھاگنا چاہیں گے۔
o رابعا:جس دن ان کے حساب کے لئے اللہ تعالی آ جائے گا تو وہ دن ان کے لئے بڑا مشکل او رخسارے کا ہوگا۔
o پھر اس کے بعد قیامت کے کچھ مناظرکا ذکر ہے اور مخلوقات کے درمیان فیصلے کے لئے فرشتوں کے جلو میں شان وشوکت کے ساتھ باری تعالی کی آمد کا ذکر ہے ۔
o نیز عقبہ بن ابی معیط اور اس کے قصے کی طرف اشارہ ہے جس نے اس دنیا میں اپنے دوست کو خوش کرنے کیلئے نبی ﷺ کو اذیت پہنچائی تھی جس کی وجہ سے قیامت کے دن افسوس سےوہ اپنی ہتھیلی کاٹے گااور کہے گاکہ کاش میں نے رسول کی اتباع کی ہوتی اور اپنے دوست کی وجہ سے ان کے ساتھ کفر نہ کیا ہوتا۔
o آیت 30اور 31میں نبی ﷺ کی اس پریشانی کی طرف اشارہ ہے جو آپ کی دعوت کو قبول نہ کرنے والوں کی وجہ سے آپ کو پیش آتی تھی۔
چنانچہ رسول ﷺ نے اللہ تعالی کے حضور بطور شکایت یہ کہا کہ ” إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا (30)”اے میرے رب !میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا ہے ۔
o اس کے جواب میں اللہ تعالی نے نبی ﷺ کو تسلی دی کہ یہ معاملہ صرف آپ ہی کے ساتھ پیش نہیں آیا ،دیگر انبیاء کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوتا رہا ہے۔یاد رکھئےکہ لوگوں کو ہدایت دینا صرف اللہ کاکام ہے اور آپ کی مدد بھی اللہ کے ذمے ہے۔
o آیت 32اور 33میں کافروں کے اس اعتراض کا جواب ہے کہ جب قرآن ایک ہی کتاب ہے تو ایک ہی بار کیوں نازل نہیں ہو جاتا۔
o قرآن مجید کو یکبارگی نازل کرنے کے بجائے اسے ٹھوڑا تھوڑا کرکے نازل کرنے کی اللہ تعالی نےتین وحکمتیں بیان فرمائیں۔
1) اس طرح یاد کرنے میں آسانی ہے اور دلجمعی کا سبب بھی ہے۔کیونکہ اور ایک ضخیم کتاب بیک وقت نازل ہوجاتی تو اس کو یاد کرنا مشکل ہوتا۔
2) جب کفار آپ پر کوئی اعتراض کرتے یا کوئی ناگوار حادثہ پیش آجاتا تو اسی وقت آپ کی تسلی کے لئے کوئی آیت نازل ہو جاتی۔ جس کے ذریعہ آپ کو اوراہلِ ایمان کو ثابت قدمی حاصل ہو جاتی۔
3) اسی طرح مخالفین کی طرف سے پیش کئے گئے نئے نئے اعتراضات کا جواب بھی دیا جاتا رہے گا۔
o آیت 35سے 40تک ان آیات میں اللہ تعالی نے گزشتہ انبیاء کی طرف اشارہ فرمایا ہے جیسے موسی و ہارون ،نوح و ہود اور صالح و لوط علیہم السلام او ر پھر ان کی قوموں کی ہلاکت کا ذکر بھی فرمایا ہے۔،کیونکہ انہوں نے اپنےاپنے رسولوں کو جھٹلایا اوران کا مذاق اڑایا تھا۔
o نیز اصحاب الرس اور مذکورہ قوموں کے درمیان اور بھی بہت سی قوموں کا حوالہ دے کر فرمایا کہ ان سب قوموں نے بھی اپنے اپنے رسولوں کے ساتھ وہی کچھ کیا جو اہل مکہ آپ کے ساتھ کر رہے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالی نے ہر ایک پر حجت قائم کردینے کے بعد انہیں بالکل ہی تباہ وبرباد کردیا ۔
o اس طرف اشارہ ہے کہ اگر اہل مکہ اپنی روش پر اسی طرح باقی رہے تو ان کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوگا ۔
o آیت 40، 41 میں اہلِ مکہ کے تکبر اور کٹ حجتی کا ذکر ہے جو وہ نبیﷺ کو پہچان لینے اور نبیوں کے مخالفین کی تباہ شدہ بستیوں کے مشاہدے کے بعد بھی کیا کرتے تھے۔ یعنی آپﷺ کا مذاق اڑانا اور اپنی باطل روش پر اڑے رہنا ۔
o آیت4۲اور 44میں نبی ﷺ کو تسلی دی جا رہی ہے کہ گزشتہ قوموں کی طرح یب یہ لوگ عذاب کو دیکھ لیں گے تو آپ کی حقانیت ان کے سامنے واضح ہو جائے، یہ لوگ تو وہ ہیں جوعقل کو بالائے طاق رکھ کر خواہشاتِ نفس کے غلام بن چکے ہیں، لہذا اس قرآن کے ذریعے ان کو ہدایت نہیں مل سکتی۔نیز ان کی حال اس قدر بد تر ہو چکی ہے کہ آپ انہیں انسان نہ سمجھئے بلکہ وہ انسان کی شکل میں چوپائے ہیں بلکہ چوپایوں سے بھی بد تر اور گئے گزرےہیں۔
o آیت 45سے 55تک کائنات میں محسوس کی جانے والی بعض نشانیوں سے اللہ کی قدرت اور توحید پر استدلال کیا گیا ہے۔ جیسے:
1- سایے کا بڑھنا اور گھٹنا۔ آیت:45، 46
2- رات ودن کا نظام۔ آیت:46
3- رات آرام کے لئے اور دن کام کاج کے لئے ، آیت: 47
4- باران رحمت سے پہلے خوشخبری دینے والی ہواؤں کو چلانا۔
5- پھر مقرر مقدار میں بارش کا برسانا آیت:48- 50
6- میٹھے پانی اور کھارے پانی کاسمندر۔
7- اور ان کا باہم ایک دوسرے میں گڈ مڈ نہ ہونا۔ آیت:53
8- بلکہ خود انسان کی پیدائش او راس کیلئے نسب و سسرال کو نظام مقررکرنا ۔آیت: 54
o یہ سارا نظام صرف اللہ وحدہ لاشریک کی کاری گری کا شکار ہے۔
o پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ان میں انسانوں کےلئے بے شمارفوائد ہیں؟ اگر یہ چیزیں نہ ہوں تو انسان کس شدید مشکل میں پھنس جائے۔یہ سب کام اس بات کے دلائل ہیں کہ یہ اللہ قادرِمطلق کی کاری گری ہے۔لہذا عبادت بھی اسی کی ہونی چاہئے۔
اسی لئے ان دلائل کے ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالی نے ان کے باطل معبودوں کی عبادت پرمشرکین کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا :وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنْفَعُهُمْ وَلَا يَضُرُّهُمْ وَكَانَ الْكَافِرُ عَلَى رَبِّهِ ظَهِيرًا (55) ” یہ اللہ کو چھوڑ کر ان کی عبادت کرتے ہیں جو نہ تو انہیں کوئی نفع دے سکیں اور نہ کوئی نقصان پہونچا سکیں، اور کافر تو ہے ہی اپنے رب کے خلاف (شیطان) کی مدد کرنے والا”۔
o درمیانِ کلام میں نبی ﷺ کی نبوت کی عالمگیری کو بھی بیان کیا گیا ہے اور مکی مرحلے میں آپﷺ کوقرآن کے ذریعے یعنی اوامر و نواہی کو صاف صاف بیان کرکے جہاد کا حکم دیا گیا ہے۔
o آیت 56اور 57میں مخالفین کی مخالفت کی پرواہ کئے بغیر نبی ﷺ کو محنت کے ساتھ اپنے کام میں لگے رہنے کا حکم ہے کہ آپ ان سے صاف صاف کہہ دیں کہ میر اکام تو صرف ڈرانا او ر خوشخبری دینا ہے،میں تم سے کسی قسم کا معاوضہ طلب نہیں کرتا ،میرا مقصد صرف تمہیں اللہ کے راستے پر لانا ہے۔
o اس موقع پر نبی ﷺ کو اللہ پر توکل کرنے اوراس کی تسبیح و تحمید کا حکم دیا گیا ہے ۔ وَتَوَكَّلْ عَلَى الْحَيِّ الَّذِي لَا يَمُوتُ وَسَبِّحْ بِحَمْدِهِ وَكَفَى بِهِ بِذُنُوبِ عِبَادِهِ خَبِيرًا (58) "اور اس ہمیشہ زندہ وجاوید اللہ توکل کریں جسے کبھی موت نہیں آتی، اور اس کی تعریف کے سا تھ پاکیزگی بیان کرتے رہیں، وہ اپنے بندوں کے گناہوں سے کافی خبردارہے”۔
اس میں دعاۃ کے لئے یہ رہنمائی ہے کہ وہ اپنے کام کے حوالے سے اللہ پر توکل کریں اور اس درمیان اللہ کے ذکر کا خوب اہتمام کیاکریں۔
o گزشتہ آیات میں چونکہ اللہ کے رسول ﷺ کو اس اللہ پر توکل کا حکم دیا گیا تھا ، جس کی ذات حی او ر قیوم ہے، آیت 59تا 61میں اللہ کی عظمت بیان ہو رہی ہے کہ اس نے چھ دن میں آسمان و زمین کو پیدا کیا اور پھر عرش پر مستوی ہوکر ساری دنیا کے نظام کو چلا رہا ہے اور وہی رحمان ہے جو عبادت کے لائق ہے۔
o آیت 61اور 62میں اللہ تعالی کی اسی قدرت اور توحید کا بیان ہے، نیز محسوس دلائل کے ذریعے اس کی توحید کا اثبات ہے جس کا سلسلہ آیت نمبر 45 سے شروع ہوا تھا۔
o یعنی یہ بابرکت اللہ کی قدرت ہے کہ اس نے آسمانوں میں بڑے بڑے ستارے، اور سورج وچاند بنائے ہیں ۔آیت:61
o اسی ذات نے رات ودن کے آنے جانے کا انتظام کررکھا ہے جو ایک دوسرے کے بعد آتے جاتے رہتے ہیں۔ اس میں کفر وضلالت میں پڑے لوگوں کے لئے عبرت و نصیحت کا سامان ہے ۔
o آیت نمبر 63سے آخر سورت تک رحمان کے بندوں او راس کے رسول کے تابعداروں کی ایک درجن کے قریب صفات بیان ہوئی ہیں۔لہذا جو شخص عباد الرحمن کی جماعت میں شامل ہونا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ ان صفات کو اپنائے:
1) زمین میں اکڑ کر نہیں چلتے۔ بلکہ نرم چال اور فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں۔
2) حلم و برداشت کے پیکر ہوتے ہیں اور جاہلوں کی جہالت پر خاموش رہتے ہیں۔ ان سے تکرار نہیں کرتے۔
3) وہ تہجد گزار ہوتے ہیں۔ بلکہ ان کی رات کا اکثر حصہ قیام و سجود میں گزرتا ہے۔
4) جہنم سے اللہ کی پناہ مانگنا ان کا شیوہ او ر زندگی کا حصہ ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ جہنم کا عذاب جان کو لاگو رہنے والا ہے اور جہنم بری جائے پناہ ہے۔
5) وہ فضول خرچی نہیں کرتے اور نہ ہی بخل سے کام لیتے ہیں۔ بلکہ میانہ روی سے خرچ کرتے ہیں۔
6) اللہ تعالی کے ساتھ شرک سے دور رہتے ہیں۔
7) زنا وفواحش سے پرہیز کرتے ہیں۔
8) کسی کو نا حق قتل نہیں کرتے (غریبی کے ڈر سے اپنی اولاد کو قتل نہیں کرتے)۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہمذکرہ بالا تینوں گناہ [شرک، زنا اور قتل] سب سے بڑے گناہ ہیں اور ان پر پکڑ بھی بڑی سخت ہے ۔
9) اپنی کسی غلطی پر فورا اللہ سے توبہ کرتے ہیں۔
اسی ضمن میں اللہ تعالی نے توبہ کی فضیلت بھی بیان فرمادئی ہے کہ سچی توبہ کے بعد اللہ تعالی نہ صرف یہ کہ بندوں کے گناہوں کو معاف کرکے گناہوں کو نیکیوں میں تبدیل کردیتا ہے ۔ بس شرط ہے کہ بندہ توبہ کے بعد نیک عمل کو اپنائے ۔
10) لغویات سے دور رہتے ہیں۔ بلکہ ہر لہو ولعب کے کام کے پاس سے شرافت سے گزر جاتے ہیں۔
11) جھوٹ،جھوٹی گواہی اور باطل کی مجلسوں سے دور رہتے ہیں۔
12) نصیحت پر کان دھرتے ہیں اور اس موقع پر گونگے بہرے نہیں بن جاتے۔
13) اپنی اولاد اور بیویوں کے لئے دعائیں کرتے ہیں اوراپنے آپ کو ان کے لئے بہترین نمونہ بننے کی بھی دعا کرتے ہیں۔
o یہی وہ لوگ ہیں جنہیں ان کے صبر کے عوض جنت کے بالا خانے دئیے جائیں گے اور ان میں انہیں سلام پیش کیا جائے گا۔ أُولَئِكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوا وَيُلَقَّوْنَ فِيهَا تَحِيَّةً وَسَلَامًا (75) خَالِدِينَ فِيهَا حَسُنَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقَامًا (76)” یہی وه لوگ ہیں جنہیں ان کے صبر کے بدلے جنت کے بلند و باﻻخانے دیئے جائیں گے جہاں انہیں دعا سلام پہنچایا جائے گا۔ اس میں یہ ہمیشہ رہیں گے، وه بہت ہی اچھی جگہ اور عمده مقام ہے”۔
o آخری آیت میں مشرکین مکہ کو مخاطب کرکے کہا گیا ہے کہ ابھی بھی وقت ہے اگر تم ایمان لے آتے ہو اور اللہ کی عبادت کرتے ہو تو ٹھیک ہے،ورنہ تمہارا یہ جھٹلانا تمہارے ہی گلے کا طوق بن جانے والا ہے۔
سورت الشعراء
یہ سورت مکی ہے۔
اسے سورت الشعراء اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں شعراء [شاعروں] کی حقیقت کو بیان کر کے ان میں اور نبی ﷺ میں فرق واضح کیا گیا ہے ۔کیونکہ مکہ کے مشرکین نبی ﷺ کو شاعر کہتے تھے۔
مکی سورتوں کی طرح اس سورت کا موضوع بھی عقیدہ ہے۔ جیسے عقیدہ آخرت،موت کے بعد دوبارہ اٹھنا اور عقیدہ و حی و رسالت۔
یہ سورت مقدمہ اور خاتمہ کے علاوہ مکمل طور پر انبیاء علیہم السلام کے واقعات پرمشتمل ہے اور ان واقعات میں ہمارے لئے عبرت کے پہلوؤں کو واضح کیا گیا ہے۔
ابتدائی آیتوں میں نبی ﷺ کو اس بات پر تسلی دی گئی ہے کہ آپ ان کے ایمان کے اس قدر خواہشمند ہیں کہ گویا آپ اپنے آپ کو ہلاک کر لیں گے،اس لئے آپ کی خواہش ہوتی ہے کہ مشرک جب کسی معجزے کا مطالبہ کریں تو فورا اسےظاہر کر دیا جائے۔ لیکن آپ اس سے پریشان نہ ہوں ہم کوئی بھی ایسی نشانی ظاہر کر سکتے ہیں جو ان کی گردنوں کو جھکا دے۔
البتہ معجزات و نشانیوں سے ان کا مقصد حق کو حاصل کرنا نہیں ہے، ورنہ حق کے مطلبگار کے لئے قرآن سے بڑھ کر اور کون سی نشانی ہو سکتی ہے؟۔ تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْمُبِينِ (2)”یہ کتاب مبین کی آیات ہیں”۔
اسی طرح اگر وہ غور و فکر کر کے زمین کو ہی دیکھ لیں کہ ہم نے اس میں کس قدر قسم قسم کی عمدہ چیزیں اگائی ہیں؟ اگر وہ سوچیں تو یہ کتنی بڑی نعمت او ر نشانی ہے۔
پھر آیت 10سے 191تک انبیاء علیہم السلام کے واقعات کا طویل سلسلہ ہے۔
o آیت نمبر 10تا 68میں حضرت موسی علیہ السلام کا واقعہ ہوا ہے،جس میں ان کے فرعون کے پاس جانے،فرعون سے مناظرہ،جادوگروں سے مقابلہ،پھر حضرت موسی علیہ السلام کا اپنی قوم کو مصر سے لے کر نکلنا او ر فرعون کے سمندر میں غرق ہونے تک کے واقعات کا ذکر ہے۔
o اس قصے میں دو مقام زیادہ باعث عبرت ہیں:
1) حضرت موسی علیہ السلام کا فرعون سے مناظرہ او راس میں موسی علیہ السلام کی سنجیدگی و حاضر جوابی جس کاذکر آیت 23تا 30میں ہے۔
قَالَ فِرْعَوْنُ وَمَا رَبُّ الْعَالَمِينَ (23) قَالَ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا إِنْ كُنْتُمْ مُوقِنِينَ (24) قَالَ لِمَنْ حَوْلَهُ أَلَا تَسْتَمِعُونَ (25) قَالَ رَبُّكُمْ وَرَبُّ آبَائِكُمُ الْأَوَّلِينَ (26) قَالَ إِنَّ رَسُولَكُمُ الَّذِي أُرْسِلَ إِلَيْكُمْ لَمَجْنُونٌ (27) قَالَ رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَمَا بَيْنَهُمَا إِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُونَ (28) قَالَ لَئِنِ اتَّخَذْتَ إِلَهًا غَيْرِي لَأَجْعَلَنَّكَ مِنَ الْمَسْجُونِينَ (29)
"فرعون نے کہا یہ رب العالمین کیا ہوتا ہے؟ ۔
موسی علیہ السلام نے جواب دیا: آسمانوں اور زمینوں کا رب اور ان سب چیزوں کا رب جو آسمان اور زمین کے درمیان ہے، اگر تم یقین کرنے والے ہو۔
فرعون نے اپنے گرد وپیش کے لوگوں سے کہا: سنتے ہو؟
موسی علیہ السلام نے کہا:تمہارا رب بھی اور تمہارے ان آباء اجداد کا بھی رب، جو گزر چکے ہیں۔
فرعون نے (حاضرین سے) کہا : تمہارے یہ رسول صاحب جو تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں، بالکل ہی پاگل معلوم ہوتے ہیں۔
موسی علیہ السلام نے کہا: مشرق ومغرب اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا رب، اگر آپ لوگ کچھ عقل رکھتے ہیں۔
فرعون نے کہا: اگر تونے میرے سوا کسی اور کو معبود مانا تو تجھے بھی ان لوگوں میں شامل کر دوں گا جو قید خانوں میں پڑے سڑ رہے ہیں۔
اس کے بعد موسی علیہ السلام کا اپنا معجزہ دکھانے کا ذکر ہے، جس پر فرعون کا اپنے جادو گروں کو حضرت موسی علیہ السلام سے مقابلہ کے لئے جمع کرنے کا ذکر ہے، جس میں حضرت موسی علیہ السلام کو اللہ تعالی کامیاب کرتا ہے اور وہی جادوگر جو ابھی تھوڑی دیر پہلے حق کا مقابلہ کرنے اور اسے نیچا دکھانے کے در پے تھے اور اس کی خاطر شرک کر رہے تھے ، سچے دل سے مسلمان ہوجاتے ہیں، اور ایسے مسلمان کہ سخت سے سخت عذاب کی دھمکی بھی ان کے پائے استقلال کو ہلا نہیں پاتی، بلکہ جب فرعون نے قتل کرنے ، ہاتھ پیر کاٹ دینے اور سولی پر لٹکا دینے تک کی دھمکی دی تو اس کے جواب میں بڑی بے باکی سے کہہ دیا کہ آپ جو کچھ کرسکتےہیں کرگزریں،ہمارا کوئی نقصان نہیں ہے، ہمیں تو بہر حال اللہ کی طرف لوٹنا ہے، اس طرح مریں گے تو شہادت کی موت مریں گے اور اپنے رب کے پاس پہنچ جائیں گے جہاں آرام ہی آرام ہے۔
اس کے بعد اللہ تعالی کے حکم سے موسی علیہ السلام کا بنی اسرائیل کو لے کے رات ہی رات میں مصر سے نکلنے کا ذکر ہے۔ فرعون کو خبر ہوجاتی ہے اوروہ اپنے لشکر کے ساتھ موسی علیہ السلام اور آپ کی ساتھیوں کا پیچھا کرتا ہے اور سمندر کے پاس جاکر بنو اسرائیل کو پالیتا ہے۔
2) حضرت موسی علیہ السلام کا مشکل سے مشکل ترین وقت میں اللہ تعالی پر اعتماد اور قوت یقین۔ جب موسی علیہ السلام کے ساتھی فرعون اور اس کے لشکر کو دیکھ کر حوصلہ چھوڑ بیٹھے تو اس وقت موسی علیہ السلام نے فرمایا : قَالَ كَلَّا إِنَّ مَعِيَ رَبِّي سَيَهْدِينِ (62):(موسی علیہ السلام نے) کہا: ہر گز نہیں! میرے ساتھ میرا رب ہے وہ ضرور میری رہنمائی فرمائے گا”۔ یعنی یہ تمہارا اندیشہ صحیح نہیں ہے، اب دوبارہ تن فرعون کی گرفت میں نہیں جاوگے۔ میرا رب میرے ساتھ ہے، یقیناً نجات کے راستوں کی رہنمائی کرے گا۔
پھر کیا ہوا کہ اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام کی طرف وحی کی کہ اپنی لاٹھی سمندر پر ماریں ۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا تو دائیں طرف کا پانی دائین طرف اور بائیں طرف کا پانی بائیں طرف رک گیا اور دونوں کے بیچ سمندر میں خشک راستہ بن گیا۔
o آیت نمبر 69تا 104میں حضرت ابراہیم خلیل علیہ السلام کا واقعہ بیان ہوا ہے،جس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنی قوم کے ساتھ مباحثہ اور قوم کو توحید کی دعوت دینے کا نمایاں ذکر ہے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا: دیکھو تم اور تمہارے باپ دادا جن بتوں کی عبادت کرتے ہو وہ میرے دشمن ہیں ،یعنی میں ان سے بیزار ہوں، میرا تو صرف اس رب پر اعتماد ہے جو رب العالمین ہے۔
o اسی نے مجھے پیدا کیا او روہی میری رہنمائی کرتا ہے۔وہی مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے۔ مجھے بیماری سے بھی وہی شفا دیتا ہے۔ وہی مجھے موت دے گا اور پھر دوبارہ زندہ کرے گا۔ اور اسی سے گناہوں کی معافی کی امید کی جاتی ہے۔
گویا جو ان تمام خوبیوں کا مالک ہو وہی عبادت کے لائق ہے۔
o حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعے میں دو باتیں قابل توجہ ہیں:
1) حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ : وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ (80) ” وہی مجھے شفا دیتا ہے جب میں بیمار ہوتا ہوں "۔
یہ عبارت قابلِ غور ہےکہ ہر معاملے میں دونوں فعل کی نسبت اللہ تعالی کی طرف کی گئی ہے، جیسے یہ کہا” اسی نے مجھے پیدا کیا او روہی میری رہنمائی کرتا ہے۔وہی مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے ” ، اوریہ نہیں کہا کہ وہی بیمار کرتا اور شفا دیتا ہے۔ لیکن یہاں اسلوب بدل دیا اویہ کہا کہ جب میں بیمار ہوتا ہوں۔ یہ اللہ تعالی کے ساتھ حسنِ ادب ہے کہ بیمار کرنے کی نسبت اس کی طرف نہیں کی۔
2) حضرت ابراہیم علیہ السلام نے قیامت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا "اس دن مال او ر اولاد فائدہ نہیں دیں گے، ہاں !جو شخص قلب سلیم لے کر آئے گا” وہی کامیاب ہوگا۔
o حضرت ابراہیم علیہ السلام اگر یہ کہہ رہے ہیں تو ہمارا کیا موقف ہونا چاہئے؟کیا ہم نے اپنے دل کو قلب سلیم بنانے کے بارے میں سوچا ہے؟۔
o آیت 90 تا 102 قیامت کی بعض ہولناکیوں کا ذکر ہے۔
o جنت و دوزخ میں داخلے سے قبل ان کو آمنے سامنے کردیا جائے گا، تاکہ اہل ایمان کے سرور اور کافروں کی غم میں اضافہ ہو۔آیت: 90، 91
o باطل پرستوں کو ڈانٹ پلائی جائے گی کہ کہاں ہیں تمہارے باطل معبود ؟ کیا آج وہ تمہاری کوئی مدد کرسکتے ہیں؟ آیت:92، 93
o پھر عابد ومعبود سب کو بلکہ شیطان کے تمام لشکروں کو ڈھور ڈنگر کی طرح جہنم میں ڈال دیا جائے گا ، جس میں وہ ایک دوسرے پر جا گریں گے۔ آیت:94، 95
o پھرجہنم کی تہ میں باطل معبودوں کو مشکل کشا اور حاجت روا سمجھنے والے اپنے معبودں سے جھگڑتے ہوئے کہیں گے کہ تمہیں رب العالمین کے برابر ٹھہرا کر ہم یقینا بہت بڑی گمراہی میں تھے، ہمارے بڑے جو حقیقت میں مجرم تھے انہوں ہی نے ہمیں گمراہ کیا، آج میں دیکھ رہا ہوں کہ کوئی بھی میری شفارش کے لئے تیار ہے اور نہ کوئی دوست میری مدد کو آرہا ہے، اے کاش! اگر ہمیں واپس جانے کا موقعہ ملتا تو ہم سچے پکے مومن بن جاتے۔
o آیت نمبر 105تا 122میں حضرت نوح علیہ السلام کا واقعہ بیان ہوا ہے۔
o حضرت نوح اور ان کے بعد کے نبیوں کے تذکرے میں ہے کہ ہر نبی نے اپنی قوم سے دو باتیں بڑے واضح طور پر کہیں:
1) اللہ سے ڈرو ۔ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ (108) "اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو”۔
گویا شرک وہ سب سے اہم کام ہے جس کے بارے میں اللہ سے ڈر کے رہنا چاہئے۔
2) ہم اپنی دعوت پر تم سے کسی معاوضہ کے طالب نہیں ہیں، ہم یہ کام صرف اللہ کی رضا کی خاطر کر رہے ہیں ۔
گویا داعی( اور ہم سب داعی ہیں) کو یہ دو بڑی اہم صفتیں اپنانی چاہئے۔
o نوح علیہ السلام کے واقعے میں ایک یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم ان سے کہتی ہے کہ اگر تم اپنی اس دعوت سے باز نہیں آئیےتو ہم آپ کو سنگسار کر دیں گے۔قَالُوا لَئِنْ لَمْ تَنْتَهِ يَانُوحُ لَتَكُونَنَّ مِنَ الْمَرْجُومِينَ (116)
o نوح علیہ السلام قوم کے جواب پر ان سے لڑائی پر نہیں اتر آئے، جیسا کہ ہمارا طرز عمل ہوتاہے،بلکہ دعوت میں لگے رہے اور جب مایوس ہو گئے تو اللہ سے فیصلہ کردینے کی دعا کی ۔
دعوت وتبلیغ کا کام کرنے والوں کے لئے یہ ایک درس ہے کہ لوگوں سے الجھنے کے بجائے آخری حد تک کوشش کرنے کے بعد فیصلہ کے لئے اپنی درخواست اللہ کے حضور رکھنی چاہئے۔
o آیت نمبر 123تا 140میں حضرت ہود علیہ السلام او ران کی قوم عاد کا ذکر ہے۔
o حضرت ہود علیہ السلام نے اپنی قوم کو اللہ کی وہ نعمتیں یاد دلائیں جو انہیں صنعتکاری اور بلند و بالا بلڈنگیں بنانے کی صورت میں حاصل تھیں، جس میں وہ لوگ اس قدر مشغول تھے کہ گویا انہیں اسی دنیا میں ہمیشہ رہنا ہے۔لیکن انہوں نے حضرت ہود کی دعوت کو ماننے کی بجائے سرکشی کی او ر کہا کہ آپ ہمیں نصیحت کریں یا نہ کریں ہمارے لئے سب برابر ہے ۔
o اس ناشکری او راللہ کے نبی کی مخالفت کی وجہ سے اللہ نے انہیں ہلاک کر دیا ۔فَكَذَّبُوهُ فَأَهْلَكْنَاهُمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُمْ مُؤْمِنِينَ (139)” چنانچہ ان عادیوں نے ان(ہود علیہ السلام)کو جھٹلایا، اس لئے ہم نے انہیں تباہ کردیا ، یقینا اس میں نشانی ہے، اور ان میں سے اکثر ایمان لانے والے نہ تھے”۔
o اس کے بعد اللہ تعالی نے حضرت صالح،حضرت لوط اور حضرت شعیب علیہم السلام کا ذکر کیا ہے،ان میں ہر ایک نبی نے اپنی قوم کو یہی دعوت دی کہ اللہ سے ڈرو او ر مجھے اللہ کا رسول مان کر میری اطاعت کرو، ورنہ اللہ کے عذاب کا انتظار کرو۔ لیکن ہر قوم نے اپنے نبی کی باتوں پر دھیان نہ دیا ، جس کے نتیجے میں وہ تاریخ کا حصہ بن گئے۔
o حضرت صالح علیہ السلام کے قصے سے جو سب سے بڑا سبق ملتا ہے وہ یہ کہ حضرت صالح علیہ السلام نے توحید کی دعوت دینےکے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا کہ ” تمہاری قوم میں چند شر پسند لوگ ہیں ان کی باتوں میں آکر اللہ کے اس معجزہ یعنی اونٹنی کے ساتھ بد سلوکی نہ کرو ورنہ اللہ کا عذاب تمہیں دبوچ لے گا”۔
اس سے معلوم ہوا کہ کسی بھی قوم کے ظالم اور فسادی لوگوں کی اطاعت بھی فساد او رظلم ہے،اس لئے وہ بھی ہلاک ہوئے جنہوں نے اونٹنی کو زخمی کیا تھا اور وہ بھی ہلاک ہوئے جو اس کام پر راضی تھے ۔
o حضرت لوط علیہ السلام کے واقعے سے سب سے بڑا سبق یہ ملتا ہے کہ فسادی او ر باطل و منکر میں ملوث لوگوں کے عمل سے رضامندی بھی بڑے خطرے کا سبب ہے۔جیسا کہ حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی جو عملاً تو برے کام میں ملوث نہ تھی ، البتہ رائے اور مشورے میں اپنی قوم کے ساتھ تھی تو وہ بھی قوم کے ساتھ ہلاک کی گئی۔فَنَجَّيْنَاهُ وَأَهْلَهُ أَجْمَعِينَ (170) إِلَّا عَجُوزًا فِي الْغَابِرِينَ (171) "پس ہم نے اسے(لوط علیہ السلام) اور اس کے متعلقین کو بچا لیا ، بجز ایک بڑھیا کے کے کہ وہ پیچھے رہنے والوں میں ہوگئی”۔
o حضرت شعیب علیہ السلام کے واقعے سے یہ سبق ملتا ہے کہ جس طرح اللہ تعالی کے حقوق کے بارے میں سرکشی و تکبر عذاب الہی کا سبب ہے ویسے ہی ناپ تول میں کمی کرنا اللہ کے عذاب کو دعوت دینا ہے ،بلکہ یہ زمین میں بہت بڑا فساد ہے۔ اسی لئے حضرت شعیب علیہ السلام نے فرمایا: أَوْفُوا الْكَيْلَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُخْسِرِينَ (181) وَزِنُوا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِيمِ (182) وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ (183)” ناپ پورا بھرا کرو، کم دینے والوں میں شامل مت ہو، اور سیدھےاور صحیح ترازو سے تولا کرو، لوگوں کو ان کی چیزیں کمی سے نہ دو، بے باکی کے ساتھ زمین میں فساد مچاتے نہ پھرو”۔
o آیات 192سے 227تک ۔ ان آیات میں پوری سورت کا خلاصہ بیان ہوا ہے اور اس سورت کے مضامین پرتبصرہ ہے۔ یہاں چند باتیں خصوصا ذکر کے لائق ہیں:
1) یہ قرآن فصیح عربی زبان میں اللہ رب العالمین کا نازل کردہ ہے جو جبریل امین کے ذریعے حضرت محمد ﷺ کے دل پر نازل کیا گیا ہے تاکہ وہ اس کے ذریعے انذار وتنبیہ کا کام کریں۔آیت:192- 195
2) قرآن ایسی کتاب ہے جس کا ذکر سابقہ آسمانی کتابوں میں بھی پایا جاتا ہے۔جیسا کہ اہل کتاب کے علماءکو اس کا علم ہے۔ توکیا اہلِ مکہ کے لئے قرآن کی حقانیت معلوم کرنےکے لئے یہ کافی نہیں ہے؟ ۔ آیت: 196 -197
3) قریش پر اللہ کا یہ احسان ہے کہ قرآن کو فصیح عربی زبان میں نازل کیا گیا ہے کیونکہ اگر کسی اجنبی زبان میں نازل ہوتا تو ان کے لئے پڑھنا اور سمجھنا مشکل ہوتا۔ آیت:198، 199
4) قریش اور اہل مکہ کو تنبیہ کی گئی ہے کہ تمہاری کج بحثی اور بد نیتی کی وجہ سے اللہ تعالی نے تمہارے لئے بطور عذاب اس کتاب پر ایمان لانےکو مشکل بنا دیا ہے۔اب بھی موقع ہے کہ عذاب کی آخری گھڑی سے قبل اس قرآن پر ایمان لے آؤ،ورنہ اللہ کی حجت اب تم پر پوری ہو چکی ہے ۔ آیت:200- 207
5) اے قریش کے لوگو!اس قرآن کو شیطان کا کلام کہنا تمہاری خام خیالی ہے۔ کیونکہ شیطان کی باتوں او ر قرآن کی تعلیمات میں بہت فرق ہے۔ شیطان تو اس جگہ پہنچ بھی نہیں سکتا جہاں سے یہ قرآن آتا ہے اور نہ وہاں تک پہنچنا شیطان کے بس میں ہے۔اور یاد رکھو شیاطین محمد(ﷺ) جیسے سچے لوگوں کے قریب تک نہیں بھٹکتے، وہ تو جھوٹے اور دھوکے باز لوگوں کے پاس آتے ہیں۔آیت:210– 212
o آیت 213سے 220تک کلام کا رخ نبی ﷺ کی طرف ہے اور آپ کو چند نصیحتیں کی گئی ہیں:
1) شرک اور اہل شرک سے دوریرکھنا۔
2) قریبی رشتہ داروں کو دعوت کا خصوصی اہتمام کرنا۔
3) اپنے ماننے والوں او ر پیروکاروں کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرنا۔
4) نافرمانوں سے کنارہ کشی کرنا۔
5) غالب ا و رحیم اللہ پر توکل کرنا۔
o 6)اللہ کی عبادت خصوصا اللہ کےمراقبے کے ساتھ۔ یعنی اس احساس کے ساتھ کہ اللہ تعالی ہماری حالت پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
o قیام و سجود کا خصوصی اہتمام ( یعنی نماز تہجد کا اہتمام)۔
o آخر میں نبی ﷺ اور مسلمانوں کو خطاب کرکے قرآن مجید کے بارے میں الزام کو دور کیا گیا ہے کہ یہ کسی کاہن و شاعرکا کلام ہے ۔
o اور اس کے بعد اللہ تعالی نے شاعروں کی بعض علامتیں بتائی ہیں، تاکہ ان علامات کو دیکھ کر ہر شخص نبی ﷺ اور شاعر میں بآسانی فرق کرسکے :
1) شاعر کی پہلی علامت یہ کہ شاعروں کے ساتھی گمراہ اور برے اور بیہودہ لوگ ہوتے ہیں، جن کاکام فحش بکنا،جھوٹ بولنا اور ہنسی مذاق اور شور شراباکرنا ہوتا ہے۔سنجیدگی ان کے قریب بھی نہیں جاتی۔
2) ان کی باتوں کی کوئی حد نہیں ہوتی ،بلکہ جو کچھ دماغ میں آیا اسے شعر کا جامہ پہنا دیتے ہیں۔
3) ان کی اکثر باتیں وہ ہوتی ہیں جن پر وہ خود عمل نہیں کرتے ۔
o آخری آیت میں قابلِ مذمت شاعروں سے ان شاعروں کو علحدہ کیا گیا ہے جو اہل ایمان ہوتے ہیں اور عمل صالح کے پابند ہو تے ہیں۔ اور ان کے اشعار اللہ کے دین کی تعلیم اور اس کے دفاع کے لئے ہوتے ہیں۔ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَذَكَرُوا اللَّهَ كَثِيرًا وَانْتَصَرُوا مِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُوا "مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور عمل صالح کئے اور بکثرت اللہ کا ذکر کیا ، اور اپنی مظلومیت کے بعد انتقام لیا ۔
سورت النمل
یہ سورت مکی ہے۔
مکی سورتوں کی طرح اس کا مضمون بھی عقیدہ ہے،خصوصا عقیدہ توحید و آخرت کا ثبوت ہے۔
اس سورت کی ابتداء بھی عام مکی سورتوں کی طرح قرآن مجید کی عظمت شان بیان کرنے سے ہوئی ہے۔
o آیت نمبر 1تا 6میں قرآن کی عظمت اور اس سے مستفید ہونے والوں کی صفات کا ذکر ہے۔
o یعنی یہ کتاب "کتاب ہدایت” ہے اور اس پر عمل کامیابی کی بشارت ہے،لیکن ان لوگوں کیلئے: 1-جو مومن ہوں۔ 2-نماز کا اہتمام کرنے والے ہوں۔ 3- زکاۃ دینے والے ہوں ۔ 4- اور آخرت پر یقین و ایمان رکھتے ہوں ۔
o البتہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور انہیں دنیا کمانےکے لئے کئے جانے والے کام ہی بہت اچھے لگتے ہیں وہ اس قرآن سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔نتیجۃً یہی لوگ آخرت میں خسارہ پانے والے ہوں گے۔
o چھٹی آیت میں نبی ﷺ کو تسلی دی گئی ہے کہ یہ لوگ اس کتاب پر ایمان لائیں یا نہ لائیں آپ مطمئن رہیں، یہ کتاب رب علیم کی طرف سے آپ کو عطا کی جا رہی ہے، کافروں کی باتوں کو چھوڑئے، آپ یہ باتیں شیطان سے نہیں، بلکہ اللہ کی وحی سے لے رہے ہیں۔
o آیت نمبر 7تا 14 میں حضرت موسی علیہ السلام کا ذکر خیر ہے۔
o مدین سے واپسی پر نبوت ملنے اور پھر نشانیاں اور معجزات ملنے کے بعد موسی علیہ السلام فرعون کے دربار میں دعوت دینےکے لئے جانے کا ذکر ہے۔ان آیتوں میں دو باتیں زیادہ قابل غور ہیں:
o 1) ارشاد باری تعالی ہے: وَأَلْقِ عَصَاكَ فَلَمَّا رَآهَا تَهْتَزُّ كَأَنَّهَا جَانٌّ وَلَّى مُدْبِرًا وَلَمْ يُعَقِّبْ يَامُوسَى لَا تَخَفْ إِنِّي لَا يَخَافُ لَدَيَّ الْمُرْسَلُونَ (10) إِلَّا مَنْ ظَلَمَ ثُمَّ بَدَّلَ حُسْنًا بَعْدَ سُوءٍ فَإِنِّي غَفُورٌ رَحِيمٌ (11)” تو اپنی لاٹھی ڈال دے، موسی نے جب اسے ہلتا جلتا دیکھا اس طرح کہ گویا کوئی سانپ ہے تو منہ موڑے ہوئے پیٹھ پھیر کر بھاگے اور پلٹ کر بھی نہ دیکھا۔ (اللہ تعالی نے فرمایا) اے موسی !خوف نہ کھا، میرے حضور میں پیغمبر ڈرا نہیں کرتے،لیکن جولوگ ظلم کریں ، پھر اس کے عوض نیکی کریں اس برائی کے پیچھے تو میں بخشنے والا مہربان ہوں۔
اس آیت میں حضرت موسی علیہ السلام کے اس خوف کا ذکر ہے جب عصا کو سانپ کی شکل میں دیکھ کر پیچھے ہٹ رہے تھے۔
اور اللہ تعالی کے فرمان کہ مجھ سے صرف اسی کو ڈرنا چاہئے جو گناہ کرے۔البتہ جو گناہ کرکے توبہ کر لے میں اسے معاف کرتا ہوں اور اس پر رحم کرتا ہوں۔ شاید اس سے موسی علیہ السلام کے ہاتھوں قبطی کے قتل ہو جانے کی طرف اشارہ ہے ۔
2)عموما کافر اورہر رسول کے مخالفین حقیقت کو سمجھتے اور حق کو پہچانتے ہیں لیکن ضد،عناد او رتکبر کی وجہ سے ایمان نہیں لاتے۔ یہ کفر کی سب سے بری صورت ہوتی ہے۔چنانچہ فرعون جانتا تھا کہ موسی علیہ السلام حق پر ہیں، لیکن عناد او رتکبر کی وجہ سے ایمان نہیں لایا۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: وَجَحَدُوا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَا أَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَعُلُوًّا فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ (14) ” صرف ظلم اور تکبر کی بنا پر انہوں نے انکار کر دیا ، حالانکہ ان کے دل یقین کر چکے تھے،پس دیکھ لیجئے کہ فتنہ پردازوں کا انجام کیسا ہوا”۔
o آیت 16سے 42تک حضرت سلیمان علیہ السلام کا ذکر خیر ہے کہ اللہ تعالی نے کس طرح انہیں نبوت او ر علم و حکومت سے نوازا تھا ، انہیں بہت ساری نعمتوں سے نوازاتھا حتی کہ وہ پرندوں کی زبان بھی سمجھتے تھے۔
o اس سلسلے میں ان کے ساتھ پیش آئے تین واقعات کا خصوصی طور پر ذکر ہوا ہے؛
o پہلا واقعہ تو یہ ہے کہ ایک بارحضرت سلیمان علیہ السلام جنوں وانس اور حیوانات پر مشتمل اپنا لشکر لے کر نکلے ۔ راستے میں ایک ایسی وادی سے گزرے جہاں چیونٹیوں کی کثرت تھی۔لشکر کو آتے دیکھ کر چیونٹیوں کے سردار نے کہا: اے چیونٹیوں کی جماعت اپنے اپنے سوراخ میں داخل ہوجاؤ، کہیں ایسا نہ ہو کہ سلیمان علیہ السلام کا لشکر بےدھیانی میں تمہیں روند نہ ڈالے۔چیونٹیوں کا خوف میں مبتلا ہونا اور ان کا آپس میں کا گفتحو کرنا حضرت سلیمان نے سن لیا ، بڑے خوش ہوئے اور بارگای الہی میں حمدوشکر کے گیت گانے لگے: رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ (19) ” اے میرے رب! مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکر ادا کر سکوں جو تونے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کی ہے، اور یہ کہ میں نیک عمل کرسکوں جسے تو پسند کرے اور اپنی رحمت سے مجھے اپنے نیک بنوں میں داخل فرمادے”۔
دوسرا واقعہ ہدہد اور تیسرا واقعہ ملکہ سبا کا ہے۔ آیات کی روشنی میں اس کا ماحصل یہ ہے: ایک بار کا واقعہ ہے کہ کسی موقعہ پرحضرت سلیمان علیہ السلام نے جب اپنے لشکر کا جائزہ لیا تو ہدہد کو غیر حاضر پایا۔کہنے لگے کہ "مَا لِيَ لَآ أَرَى ٱلۡهُدۡهُدَ” کیا بات ہے کہ ہدہد دکھائی نہیں دے رہا ہے؟اس کے بارے میں پتا لگاؤ،اگر واقعی وہ بلا اجازت غائب ہے تو یقینا لائقِ سزا ہے۔لہذاجب وہ آئے تو میں اسے سخت سزا دوں گا یا پھر ذبح کر ڈالوں گا، الا یہ کہ وہ اپنی غیر حاضری کی کوئی معقول وجہ بیان کرے۔
ابھی کوئی زیادہ وقفہ نہیں گزرا کہ ہدہد سامنے آگیا اور اس نے ملکہ سبا اور اس کی قوم کے بارے میں یہ معلومات فراہم کی ۔
ہوا یہ کہ ہدہد شام کے علاقے سےجہاں حضرت سلیمان علیہ السلام کی حکومت تھی وہاں سےآگے بڑھ کر یمن کے علاقے میں پہنچ گیا، وہاں اسے جہاں ایک طرف لوگوں کی زندگی خوشحال نظر آئی ،زمین سرسبز وشاداب دکھائی دی ، ہر قسم کی مادی ترقی کا منظر دکھائی دیا اور ہر طرف سے اللہ کی نعمتوں کی بھر مار دکھائی دی ، وہیں دوسری طرف ایک افسوس ناک بات یہ دکھائی دی کہ اولا تو ان کی حاکم ایک عورت تھی ،جو ایک بڑے عرش کی مالک تھی۔
ثانیا- یہاں کےلوگ اپنے حقیقی خالق ومالک کوچھوڑ کر بادشاہ وعوام سب ملکر سورج کو سجدہ کررہے ہیں۔یہ چیز اسے بہت بری اور بڑی عجیب محسوس ہوئی۔ لہذا سامنے آتے ہی قبل اس کے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام اس سے کچھ پوچھتے بول اٹھتا ہے کہ مجھے ایک عجیب وغریب ایسے امر پر اطلاع ملی ہے جس کی خبر ابھی تک آپ کو نہیں ہے، میں یہ یقینی اور عجیب خبر آپ کو سناتا ہوں کہ قوم سبأ کے لوگ عجیب گمراہیوں میں مبتلا ہیں۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہدہد بات کرنے اور اپنا عذر پیش کرنے میں بڑی مہارت رکھتا تھا ،چنانچہ اس نے تین بڑی اہم باتیں بیان کیں۔
ایک تو یہ کہ اس قوم پر ایک عورت حکومت کررہی ہے،جسے اللہ تعالی نے سب کچھ دے رکھا ہے اور اس کے پاس ایک بڑا عظیم عرش ہے۔
دوم یہ کہ وہ عورت اور اس کی عوام نے سورج کو اپنا معبود بنا رکھا ہے ، اور صبح وشام اسی کو سجدہ کرتے ہیں۔
سوم یہ کہ وہ اپنی حالت میں مگن ہیں،وہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم جو کچھ کررہے ہیں یہی درست دین ہے۔کیونکہ شیطان نے انہیں دھوکہ میں رکھا ہے جس کی وجہ سے وہ آخرت کا راستہ بھٹک گئے ہیں۔
ہدہد نے اظہار تعجب کے طور پر مزید یہ بھی کہا کہ ان لوگوں نے سوچ وفکر کی صلاحیت کھو دی ہے۔ حالانکہ اگر وہ غور وفکر سے کام لیتے تو انہیں اللہ تعالی کی عبادت کرنی چاہئے جس نے انہیں پیدا کیا ہے اور ان کے فائدے کے لئے آسمان وزمین سے پوشیدہ چیزیں نکالتا ہے ۔جیسے آسمان سے بارش نازل کرتا ہے اور پھر اس بارش کے سبب زمین سے غلے اگتے ہیں،یہ سب اللہ کا کام ہے۔نیز اس کی شان تو یہ ہے کہ وہ لوگوں کے ظاہر وپوشیدہ ہر چیز سے واقف ہے ،یعنی وہ صاحب قدرت بھی ہے اور صاحب علم بھی، جو اس کے معبود برحق ہونے کی واضح دلیل ہے۔لہذا حقیقی معبود اللہ تعالی ہے، اس کے سوا کوئی بھی عبادت کے لائق نہیں ہے ،وہی عرش عظیم کا رب ہے ،وہ عرش جس کا مقابلہ دنیا کا کوئی عرش نہیں کرسکتا ہے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہدہد کی بیان کردہ یہ عجیب وغریب خبر سنی اور تعجب میں پڑے، لیکن کوئی قدم اٹھانے سے قبل اس کے بارے میں مزید تحقیق کرناچاہی۔چنانچہ انہوں نے ہدہد سے فرمایا:اچھا! میں تیرے سچ وجھوٹ کا امتحان لیتا ہوں۔ایسا کر کہ میرا یہ خط ل ےکر اس ملکہ کے پاس جا اور اس کے سامنے ڈال دے،پھر کنارے ہوکر انتظار کرتا رہ اور دیکھ کہ وہ کیا جواب دیتی ہے۔چنانچہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ایک خط لکھا جس میں ملکہ سبأ اور اس کی قوم کو ایمان لانے کی طرف دعوت دی اورخط کو ہدہد کے حوالے کردیا۔
ہدہد نے حضرت سلیمان کا مکتوب مبارک لیا اور ملکہ سبا کے خدمت میں پہنچا دیا،ملکہ نے یہ عجیب وغریب خط اٹھایا اور پڑھا،پڑھتے ہی اس کے ہوش اڑگئے ہونگے کہ اولا تو یہ خط ایک عجیب وغریب انداز سے پہنچا ہے کہ ایک پرندہ میرے سامنے گرادے رہا ہے، جب کہ عام بادشاہوں کا دستور ہوتا ہےکہ لانے والا کوئی شاہی وفد ہوتا ہے۔ ثانیا- خط لکھنے والا کوئی معمولی انسان نہیں لگتا ، بلکہ یہ کوئی غیر معمولی صلاحیت وقوت رکھنے والا انسان محسوس ہوتا ہے۔ ثالثا -خط کا مضمون بھی کچھ عجیب وغریب ہے کہ اللہ رحمن ورحیم کے نام سے شروع ہورہا ہے۔
چنانچہ ملکہ نے امرجنسی طور پر پارلیمنٹ کی میٹنگ بلائی اور مشورہ کرنے لگی کہ درباریوں ! میری طرف ایک معزز اور بڑا اہم خط پھینکا گیا ہے، یہ خط ایک اللہ کے بندے سلیمان کی طرف سے ہے، اس کی ابتدا "بسم اللہ الرحمن الرحیم ” سے ہو رہی ہے اور اس کا مضمون یہ ہے کہ میرے مقابلہ میں سرکشی سے کام نہ لو، بلکہ فرمانبردار بن کر میرے پاس چلی آؤ۔آپ لوگ جانتے ہیں کہ میں آپ لوگوں کے مشورہ کے بغیر کوئی اہم فیصلہ نہیں لیتی، لہذا سوچ کر بتلاؤ کہ اس بارے میں کیا فیصلہ کیا جائے۔
درباریوں نے جواب دیا: جہاں تک دھمکی کی بات ہے تو اس کی پرواہ نہ کی جائے ،کیونکہ ہم زبردست طاقت اور بڑی فوج والے ہیں،ہم لڑنا جانتے ہیں، جو کوئی بھی ہوگا اس سے نپٹ لیں گے۔ البتہ جہاں تک فیصلہ کرنے کا تعلق ہے وہ آپ کے صوابدید پر ہے،جو چاہیں فیصلہ کریں۔
ملکہ سباچونکہ سمجھ دار تھی اور خط کے اندازِ ورود اور مضمون ہی سے حضرت سلیمان کی طاقت کا اندازہ لگا لیا تھا ، لہذا اس نے درباریوں سے کہا کہ لڑائی کی دعوت دینا کوئی اچھی بات نہیں ہوتی ،کیونکہ بادشادہ لوگ جب کسی ملک وشہر پر حملہ کرتے ہیں اور فاتح کی حیثیت سے کسی شہر میں داخل ہوتے ہیں تو اس میں فساد مچا دیتے ہیں، اس کی معیشت کو تباہ کردیتے ہیں،قتل وغارتگری مچاتےہیں اور شہریوں میں باعزت لوگوں کو ذلیل کرکے رکھ دیتے ہیں۔ واقعۃً ان کا یہی رویہ چلا آرہا ہے۔لہذا اول تو ان کے پاس کچھ تحفے وہدایا بھیجتی ہوں اور دیکھتی ہوں کہ ہمارے ایلچی کیا جواب لیکر آتے ہیں ،اس طرح ہم ان کے مزاج،ان کی طاقت اور ان کی نیت کا صحیح اندازہ کرلیں گے۔
چنانچہ ملکہ کے قاصد بیش بہا تحائف لیکر حضرت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں روانہ ہوئے اور آپ کی خدمت میں تحائف پیش کئے۔حضرت سلیمان علیہ السلام نے ان کے تحائف لینے سےیہ کہکر انکار کردیا کہ تم لوگوں نے مجھے غلط سمجھاہے،میں کوئی دنیادار بادشاہ نہیں ہوں، کیا تم مجھے مال ودولت کا لالچ دے رہے ہو ؟تاکہ تمہیں شرک پر رہنے دوں ،حالانکہ جو کچھ اللہ تعالی نے مجھے دیا ہے اس کے مقابلے میں تمہاری دولت کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔لہذا تم اپنی دولت واپس لے جاو اور یہ دنیاوی دولت تمہیں ہی مبارک ہو، میں تو شرک کو مٹانے اور توحید کو غالب کرنے آیا ہوں۔لہذا تم واپس جاو اور ملکہ اور اس کے درباریوں کو یہ پیغام پہنچا دو کہ میرے حکم کی تعمیل میں یا تو شرک سے توبہ کریں اور تابع فرمان ہوکر آجائیں ،یا پھر ایسے عظیم لشکر سے تم پر حملہ کروں گا کہ اس سے مقابلہ کی تمہارے اندر طاقت نہ رہے گی۔ نتیجۃً ذلیل ورسوا کرکے تم لوگوں کو شہر بدر کردوں گا۔
جب ملکہ کا وفد تحائف ل ےکر واپس پہنچا اور پورا قصہ سنایا،اورحضرت سلیمان علیہ السلام کی حکومت اور فوج کا حال بھی بتلادیا کہ اس فوج میں تو صرف انسان ہی نہیں بلکہ جن حتی کہ چرند وپرند بھی شامل ہیں، نیز حضرت سلیمان علیہ السلام کا پیغام پہنچایا تو اس نےخیر اسی میں سمجھی کہ اب ہمارا ملک اسی صورت میں بچ سکتا ہے کہ میں خود ان کی طلب پر شام کا سفر کروں اور آمنے سامنے ان سے مسئلہ حل کر لوں۔
چنانچہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو کہلوا بھیجا کہ آپ کے حکم کے مطابق میں خود ہی حاضر ہورہی ہوں۔ ادھر وہ اپنا عرش چھوڑ کر حضرت سلیمان علیہ السلام سے ملاقات کے لئے شام کی طرف روانہ ہوئی، ادھر حضرت سلیمان علیہ السلا م نے اس پر مزید اثر ڈالنے کے لئے یہ سوچا کہ میرے پاس آمد سے پہلے اس کا مکمل عرش بھی ہمارے پاس آجائے ۔جس سے مقصد یہ تھا کہ اس طرح اسے ہماری طاقت کا مزید اندازہ ہوجائیگا کہ میں صرف ایک بادشاہ ہی نہیں بلکہ اللہ کا ایک نبی بھی ہوں۔چنانچہ آپ علیہ السلام نے اپنے درباریوں سے کہا: تم میں سے کون ہے جو یہ خدمت انجام دے سکے کہ ملکہ سبأ کے میرے پاس آنے سے قبل اس کا عرش لاکرحاضر کردے؟ یہ سنکر ایک دیو ہیکل جن نے اپنی خدمت پیش کی اور عرض پرواز ہوا: آپ کا دربار برخاست ہونے سے قبل اس کا عرش میں آپ کے سامنے لاکر رکھ دوں گا،مجھے اس کی طاقت بھی حاصل ہے اور میں امانت دار بھی ہوں۔دیوہیکل جن کی یہ گفتگو سن کر ایک اور شخص جسے اللہ تعالی نے کتاب کا علم دیا تھا بول پڑا کہ میں اس عرش کو آپ کی پلک چھپکنے سے پہلے حاضر کردوں گا ۔
پھر ایسا ہوا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے رخ پھیرا تو کیا دیکھتے ہیں کہ ملکہ سبأ کا عرش عظیم سامنے رکھا ہوا ہے۔اللہ کی یہ نعمت دیکھ کر حضرت سلیمان علیہ السلام فورا بول اٹھے کہ یہ تو مجھ پر اللہ تعالی کا وہ فضل وکرم ہے جس کے ذریعہ وہ مجھے آزمانا چاہتا ہے کہ میں اس کا شکر گزار بندہ بنتا ہوں یا اس کی ناشکری کرتا ہوں اور واقعۃً جو اللہ تعالی کا شکر گزار بنے گا وہ اپنی ذات ہی کو نفع پہنچائے گا اور جو اس کی ناشکری کرے گا تو اس سے اللہ تعالی کا کوئی نقصان نہ ہوگا کیونکہ وہ بے نیاز اور بزرگ وبرتر ہے۔
پھر حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے درباریوں سے کہا کہ اس کے عرش میں کچھ تبدیلی کردو تاکہ اس کی عقلیت اور دوررسی کا اندازہ بھی کیا جا سکے اور یہ بھی معلوم ہوجائے کہ آیا وہ حقیقت کوسمجھ پائے گی یا دھوکے ہی میں رہے گی۔نیز اس سے یہ بھی اندازہ ہوجائے گا کہ وہ اپنے شرک سے توبہ کرےگی یا اس پر اڑی رہے گی؟۔
چنانچہ ایسا ہی کیا گیا کہ عرش تو وہی رہا البتہ اس کی ہیئت میں قدر ےتبدیلی کردی گئی ،بعض چیزوں کو ان کی اصل جگہ سے ہٹا کر دوسری جگہ رکھ دیا گیا۔
پھر جب ملکہ سبأ شام میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس پہنچتی ہے اور اس سے عرش پر بیٹھنے کے لئے کہا جاتا ہے تو اسی وقت یہ سوال بھی کر لیا گیا کہ کیا تمہارا عرش بھی ایسا ہی ہے؟ وہ حقیقت تو سمجھ گئی تھی لیکن جواب میں سیاسی زبان استعمال کرتے ہوئے کہتی ہے”لگ تو ایسا ہی رہا ہے” اس کی مجموعی کیفیت بتا رہی ہے کہ یہ میرا ہی تخت ہے ، ویسے آپ بہتر جانتے ہیں،ویسے میں بتلادوں کہ میرے عرش کا یہاں مجھ سے پہلے آجانا کوئی باعث تعجب بات نہیں ہے ،کیونکہ مجھے آپ کی عدیم المثال قوت اور قدرت کا علم پہلے ہی سے ہوچکا ہے، اسی لئے تو میں آپ کی خدمت میں تابع فرمان بنکر حاضر ہو رہی ہوں۔
o آیت 45سے 52تک حضرت صالح علیہ السلام کا ذکر خیر ہے۔حضرت صالح علیہ السلام کی دعوت میں سب سے ا ہم بات یہ ہے کہ ایک نبی اپنی قوم پر کس قدر رحیم ہوتا ہے، انہوں نے جب اپنی قوم کو دعوت دی تو وہ ایمان لانے کی بجائے ضد پر اڑ گئے او رعذاب کا مطالبہ کرنے لگے ۔لیکن اس موقع کر حضرت صالح نے انہیں پیار او ر شفقت سے سمجھاتے ہوئے استغفار کرنے کا حکم دیا۔لیکن پھر بھی قوم کا اسلوب نرم نہیں پڑا بلکہ وہ کہنے لگے تم لوگ بڑے منحوس نکلےہو( نعوذ باللہ) ،ہم تو آپ او ر آپ کے ساتھیوں کو منحوس سمجھتے ہیں۔ اس پر حضرت صالح نے فرمایا اصل نحوست تو تمہارے اعمال بد ہیں،لیکن چونکہ تم لوگ فتنے میں پڑے ہو اس لئے تم اس کو سمجھ نہیں پا رہے ہو۔
o اس قصے میں جو مقام زیادہ باعثِ عبرت ہے وہ یہ کہ اللہ تعالی فرماتاہے: وَمَكَرُوا مَكْرًا وَمَكَرْنَا مَكْرًا وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ (50) فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ مَكْرِهِمْ أَنَّا دَمَّرْنَاهُمْ وَقَوْمَهُمْ أَجْمَعِينَ (51)”وہ ایک چال چلے اور ہم نے بھی ایک خفیہ تدبیر کی او ر وہ اسے سمجھتے نہ تھے، اب دیکھ لے کہ ان کے مکر کا انجام کیسا ہوا کہ ہم نے ان کو اور ان کی قوم کو سب کو غارت کردیا”۔
o قوم ثمود کے بدبختوں کی چال یہ تھی کہ ان کے نو سردار تھے جو رات ہی رات میں حضرت صالح کو قتل کردینا چاہتے تھے۔
o او راللہ تعالی کی تدبیر یہ تھی کہ اس نے حضرت صالح اور ان کے ساتھیوں کو بحفاظت وہاں سے نکال لیا ۔
o آیت 54سے 59تک حضرت لوط علیہ السلام کی قو م کا ذکر ہے جن کے اندر لواطت کی بیماری تھی۔ یہاں قوم لوط کے واقعے کا جو حصہ بیان ہوا ہے اس سے پتہ چلا کہ ان کی ہلاکت کے تین بڑے اسباب تھے:
1) اس منکر کام (لواطت)کے وہ موجد تھے۔ان سے قبل یہ برائی دنیا میں نہیں تھی۔
2) اس جرم پر اتنا دلیر ہو چکے تھے کہ وہ یہ کام علی الاعلان کرتے تھے۔ اور ایک تفسیر کے مطابق وہ اسے گناہ سمجھتے تھے اور پھر بھی جرأت اور دلیری کے ساتھ یہ کام کرتے تھے۔
3) وہ اہلِ حق کا مذاق اڑاتے تھے۔ کہ یہ لوگ بڑے پاک و صاف بنتے ہیں لہذا انہیں اپنی آبادی سے نکال دو۔
o ان واقعات کا اختتام اللہ تعالی نے اس آیت پر فرمایاہے: قُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلَامٌ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفَى آللَّهُ خَيْرٌ أَمَّا يُشْرِكُونَ (59) ” کہہ دیجئے کہ تمام تعریف اللہ ہی کے لئے ہے اور اس کے بر گزیدہ بندوں پر سلام ہے۔ کیا اللہ بہتر ہے یا وہ جنہیں یہ شریک ٹھہرا رہے ہیں”۔
o اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خطبہ یا کتاب کے خاتمے پر بھی اللہ کی حمد اور نبیوں پر سلام بھیجنا مشروع ہے۔