ان کے اعمال ان کو لے کر دوڑیں گے

موضوع الخطبة :        تجري بهم أعمالهم

الخطيب                   : فضيلة الشيخ حسام بن عبد العزيز الجبرين/ حفظه الله

لغة الترجمة     : الأردو

موضوع:

ان کے اعمال ان کو لے کر دوڑیں گے

 

پہلا خطبہ:

الحمد لله هدى النَّجدَين، وكلَّف الثقلين، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، أرسل رسله مبشرين ومنذرين، وأشهد أن محمدًا عبده ورسوله خاتم النبيين، والشفيع المشَفَّع يوم الدين، صلى الله عليه وعلى آله وصحبه أجمعين.

حمد وثنا کے بعد!

میں آپ کو اور اپنے آپ کو اللہ کا تقوی اختیار کرنے‘ اطاعتوں کے توشے سےدامن مراد کو بھرنے‘ محرمات کو ترک کرنے‘ کثرت سے استغفار کرنے اور از سر نو توبہ کرنے کی وصیت کرتا ہوں‘  جس نے تقوی کادامن تھام لیا وہ کامیاب ہوگیا اور جس نے سرکشی کی اور خواہشات نفس کی پیروی کی وہ ناکام ونامراد ہوا:

﴿ فَإِذَا جَاءَتِ الطَّامَّةُ الْكُبْرَى * يَوْمَ يَتَذَكَّرُ الْإِنْسَانُ مَا سَعَى * وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِمَنْ يَرَى * فَأَمَّا مَنْ طَغَى * وَآثَرَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا * فَإِنَّ الْجَحِيمَ هِيَ الْمَأْوَى * وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى * فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَى ﴾ [النازعات: 34 – 41]

ترجمہ:پس جب وہ بڑی آفت (قیامت) آجائے گی۔ جس دن کہ انسان اپنے کئے ہوئے کاموں کو یاد کرے گا۔اور (ہر ) دیکھنے والے کے سامنے  جہنم ظاہر کی جائے گی۔تو جس (شخص) نے سرکشی کی (ہوگی) اور دنیوی زندگی کو ترجیح دی (ہوگی)‘ اس کا ٹھکانہ جہنم ہی ہے۔ہاں جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتا رہا ہوگا اور اپنے نفس کو خواہش سے روکا ہوگا تو اس کا ٹھکانہ جنت ہی ہے۔

رحمن کے بندو!اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو پیدا کیا‘ انہیں بے شمار نعمتوں سے نوازا‘ اس کا فضل واحسان ہی ہے کہ اس نے انہیں اپنی عبادت کاحکم دیا اور اپنی اطاعت پر بیش بہا اجروثواب کا وعدہ فرمایا‘ بندوں کے ساتھ اس کی رحمت ہی ہے کہ اس نے انہیں وعید سناکر تنبیہ کی‘ تاکہ وہ ہلاکت وتباہی کے راستوں سے باز رہیں‘ اس کا ایک فضل یہ بھی ہے کہ  اس کی رحمت اس کے غیظ وغضب  پر مقدّم ہے‘ چنانچہ جو شخص اس سے مغفرت طلب کرتا ہے‘ ووہ اسے معاف کردیتا اور جو اس سے ہدایت کی دعا کرتا ہے‘ اسے ہدایت سے نوازتا ہے‘ اللہ نے اپنے رسولوں کو خوش خبری سنانے والا اور ڈرانے والابناکر بھیجا‘ انہوں نے لوگوں کے سامنے خیر وبھلائی اور شر وبرائی کو واضح کردیا اور انہیں بتایا کہ ان کا حساب وکتاب ہونے والا ہے اور انہیں ان کے اعمال کا بدلہ ملنے والا ہے‘ چنانچہ دنیا عمل کی جگہ ہے‘یہاں حساب وکتاب نہیں‘ اور آخرت حساب وکتاب کی جگہ ہوگی‘ وہاں عمل کی مہلت نہیں‘ اللہ تعالی نے حدیث قدسی میں ارشاد فرمایا: "میرے بندو! یہ تمہارے ہی اعمال ہیں جن کو تمہارے لیے شمار کرتا رہتا ہوں‘ پھر  تم کو ان اعمال کا پورا بدلہ دوں گا‘ سو جوشخص بہتر بدلہ پائے تو چاہئے کہ اللہ کا شکر کرے کہ اس کی کمائی بیکار نہ گئی اور جو برا بدلہ پائے تو اپنے ہی تئیں برا سمجھے”۔(مسلم)

اللہ کے بندو! اللہ پاک اعمال پر ہی نظر رکھتا ہے‘ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے:”اللہ تعالی تمہاری صورتوں اور تمہارے اموال کی طرف نہیں دیکھتا‘ لیکن وہ تمہارے دلوں اور اعمال کی طرف دیکھتا ہے”۔ (مسلم)

ایمان کا فائدہ یہ ہے کہ انسان نیک اعمال کرے‘ قرآن کریم میں دسیوں مقامات پر اللہ پاک نے اپنے اوپر ایمان لانے اور نیک اعمال انجام دینے کو ایک ساتھ ذکر کیا ہے‘اسی طرح گناہ ومعاصی دنیا میں سزا کاسبب ‘  برزخ اور قیامت  میں عذاب کی وجہ ہیں‘ اس لئے ہم ہر نماز میں قبر کے عذاب اور جہنم کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں!

ایمانی بھائیو! آئیے ہم ایسے موضوع پر گفتگو کرتے ہیں جس سے پتہ چلے گا کہ اخروی زندگی کے مختلف مراحل ومناظر میں اعمال سے ہمارا  ربط وضبط ظاہر  ہو گا‘ اللہ سے دعا ہے کہ اس موضوع کو ن خطیب اور سامع دونوں کے لئے مفید بنائے‘ ممکن ہے کہ خیر وبھلائی سے  ہم مزید قریب ہوجائیں اور گناہ ومعاصی اور دوری اختیار کرلیں۔

اسلامی بھائیو! قبر آخرت کی پہلی منزل ہے‘ جب انسان کو موت آتی ہے تو اس کےپیچھے اس کے اہل وعیال ‘ مال ودولت اور اس کے اعمال ہوتے ہیں‘ لیکن سب کے سب  اسی دنیا میں رہ جاتے ہیں اور قبر میں صرف اس کا عمل ہی اس کے ساتھ  ہوتا ہے‘   حدیث ملاحظہ کریں: "اس کے پاس (قبر میں ) ایک خوب رو شخص آئے گا‘ جو خوبصورت لباس میں ملبوس ہوگا‘ اس کے جسم سے خوشبو پھوٹ رہی ہوگی‘ کہے گا: تمہارے لئے مسرت آمیز نعمتوں کی بشارت ہے۔ یہ تمہارا وہ دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا‘ وہ کہے گا: تم کون ہو‘ تیرا چہرا تو خیر وبھلائی کی سوغات لیکر آنے والے کا چہرہ ہے؟! وہ کہے گا: میں تمہارا نیک عمل ہوں”۔ اس حدیث کو امام احمد اور ابو داود اور نسائی نے روایت کیا ہے اورالبانی نے صحیح کہا ہے۔اس حدیث میں یہ بھی ہے: "اس کے پاس (قبر میں) ایک بد شکل اور بد لباس شخص آئے‘ جس کے جسم سے بدبو پھوٹ رہی ہوگی‘ وہ اس سے کہے گا:تمہارے لئے  ناگوار اور ناپسندیدہ (سزاؤں کی) وعید ہے۔یہ تمہارا وہ  دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا‘ وہ کہے گا: تم کون ہو‘ تیرا چہرہ تو شر اور برائی لے کر آنے والے  کا چہرہ  ہے؟! وہ کہے گا: میں تمہارا برا عمل ہوں”۔

رحمن کے بندو! قیامت جب قائم ہوجائے گی تو آپ کو بہت سے ایسے مناظر اور مواقع کا سامنا کرنا پڑے گا جن کا آپ اعمال سے (گہرا) ربط اور تعلق ہوگا: ﴿ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتَاتًا لِيُرَوْا أَعْمَالَهُمْ * فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ * وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ ﴾ [الزلزلة: 6 – 8]

ترجمہ: اس روز  لوگ مختلف جماعتیں ہوکر (واپس) لوٹیں گے تاکہ انہیں ان کے اعمال دکھا دیئے جائیں۔پس جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا۔

اللہ کے بندو! قیامت کے وہ مناظر جن کا ہمارے اعمال سے (بڑا) ربط وتعلق ہوگا‘ ان میں یہ بھی ہےکہ: سورج قریب آجائے گا اور لوگ اپنے اعمال کے بقدر پسینے میں شرابور ہوں گے‘ حدیث ہے کہ: "قیامت کے دن سورج مخلوقات کے بہت نزدیک آجائے گا حتی کہ ان سے ایک میل کے فاصلے پر ہوگا۔سلیم بن عامر نے کہا: اللہ کی قسم! مجھے معلوم نہیں کہ میل سے ان (مقداد رضی اللہ عنہ ) کی مراد مسافت ہے یا وہ سلائی جس سے آنکھ میں سرمہ ڈالا جاتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لو گ اپن ےاعمال کے مطابق پسینے میں ڈوبے ہوں لے ان میں سے کوئی اپنے دونوں  ٹخنوں تک کوئی اپنے دونوں گھٹنوں تک کوئی اپنے دوونوں کولہوں تک اور کوئی ایسا ہوگا جسے پسینے نے لگام ڈال رکھی ہوگی”۔ (مقداد رضی اللہ عنہ نے ) کہا: اور (ایسا فرماتے ہوئے ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اپنے دہنِ مبارک کی طرف اشارہ فرمایا”۔(مسلم)

اللہ کے کچھ بندے ایسے بھی ہوں گے جو اللہ پاک کے سائے میں ہوں گے‘ اللہ تعالی مجھے اور آپ کو بھی ان خوش نصیبوں میں شامل فرمائے۔

ہمارے اعمال سے جڑے ہوئے مناظرِ قیامت میں : میدانِ محشر میں تاریکی کا منظر بھی ہوگا‘ جب ہر بندہ کو اس کے عمل کے مطابق نور (روشنی ) دی جائے گی‘ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿ يَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ يَسْعَى نُورُهُمْ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ ﴾} [الحديد: 12]

ترجمہ: (قیامت کے دن)تو دیکھے گا کہ مومن مردوں اور عورتوں کا نور ان کے آگے آگے اور ان کے دائیں دوڑ رہا ہوگا۔

ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے: لوگوں کو ان کے اعمال کے مطابق نور دیا جائے گا‘ چنانچہ کچھ لوگوں کا نور کھجور کے درخت کی طرح ہوگا‘ کچھ لوگوں کا نور کھڑے ہوئے آدمی کی مانند ہوگا اوران میں سب سے کم جس شخص کو نور ملے گا اس کا نور پاؤں کے انگوٹھے کے برابر ہوگا‘ کبھی بجھ جائے گا  تو کبھی روشن ہوجائے گا۔

رحمن کے بندو! ( پُل) صراط  قیامت کے دن اعمال  سے تعلق رکھنے والا (ایک ہم ترین) منظر ہوگا‘ چنانچہ اس سے گزرنے کی رفتار اعمال کے مطابق ہوگی‘ مسلم کی روایت کردہ حدیث میں آیا ہے:”امانت داری اور قرابت داری کو بھیج دیا جائے گا۔ وہ پل صراط کی دونوں جانب‘ دائیں اور بائیں کھڑی ہوجائیں گی۔ تم میں سے اولین  شخص پل صراط سے اس طرح پار ہوگا جیسے بجلی‘  میں نے پوچھا: میرے ماں باپ آپ پر قربان!‘ بجلی کی طرح کون سی چیز گزرتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے کبھی بجلی کی طرف نہیں دیکھا‘ کس طرح پلک جھپکنے میں گزرتی اور لوٹتی ہے؟‘ پھر  ہوا کے گزرنے کی طرف (تیزی سے)  ‘ پھر پرندہ گزرنے اور آدمی کے دووڑنے کی طرح‘ان کے اعمال ان کو لے کر دوڑیں گے”۔

اللہ تعالی مجھے اور آپ کو کتاب وسنت سے فائدہ پہنچائے‘ ان میں جو ہدایت اور حکمت کی باتیں ہیں‘ انہیں مفید بنائے‘ آپ اللہ سے مغفرت طلب کریں‘ یقیناً وہ خو ب معاف کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ:

الحمد لله القائل: ﴿ فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ * وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ ﴾ [الزلزلة: 7، 8]، وصلى الله وسلم على نبيه وعبده وعلى آله وصحبه.

حمد وصلاۃ کے بعد:

ہماری زندگی کے شب وروز بیج بونے کے دن ہیں‘ فصل کاٹنے کا وقت آخرت  میں ہوگا‘ اور وہ نہایت ہی عظیم دن ہوگا!

اس دن کچھ لوٹ خوف وہراس سے مامون رہیں گے‘ فرشتے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیں گے‘ جبکہ اس دن ڈر سے کچھ لوگوں کے کلیجے منہ کو آرہے ہوں گے‘  وہ بڑا ہی عظیم دن ہوگا:

ترجمہ: آپ دیکھیں گے کہ ہر امت گھٹنوں کے بل گری ہوئی ہوگی۔ ہر گروہ اپنے نامہ اعمال کی طرف بلایا جائے گا‘ آج تمہیں اپنے کیے کا بدلہ دیا جائے گا۔

"جس کے عمل نے اسے(خیرکےحصول میں) پیچھے رکھا‘ اس کا نسب اسے تیز نہیں کرسکتا”۔

ہمارے اعمال سے جڑے قیامت کے مناظر میں یہ منظر بھی ہوگا: جہنم کے دونوں طرف کانٹے (آنکڑے لگے) ہوں گے جو  لوگوں  کو ( ان کے برے اعمال ) کے مطابق گھسیٹیں گے‘ حدیث میں ہے: "جہنم میں سعدان کے کانٹوں کی طرح (آنکڑے ) ہوں گے‘ کیا تم نے سعدان کا کانٹا دیکھا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا: ہاں‘ آپ نے فرمایا: وہ سعدان کے کانٹوں کی طرح ہوں گے مگر ان کی لمبائی اللہ کے سواا ور کوئی نہیں جانتا۔ وہ آنکڑے لوگوں کو ان کے (برے) اعمال کے مطابق گھسیٹیں گے‘ بعض شخص تو اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے ہلاک ہوجائیں گےاور کچھ زخموں سے چور ہوکر بچ جائیں گے” ۔ (اسے بخاری ومسلم نے تقریباًانہی الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے)۔

اعمال سے جڑے قیامت کا ایک منظر : حساب وکتاب کا منظر بھی ہوگا‘ حدیث میں ہے: "تم اپنے پروردگار سے ملاقات کروگے‘ اور وہ تمہارے اعمال کے بارے میں تم سے سوال کرے گا” ۔(بخاری ومسلم)

قرآن مجید میں ہے:

﴿ وَلَتُسْأَلُنَّ عَمَّا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ ﴾ [النحل: 93]

ترجمہ: یقیناً تم جو کچھ کر رہے ہو اس کے بارے میں باز پرس کی جانے والی ہے۔

رحمن کے بندو! برزخ اور آخرت کی زندگی میں ہمارا عمل ہمارے ساتھ ہوگا‘ سورج جب قریب ہوجائے گا تو اس وقت لوگ اپنے اعمال کے مطابق ہی پسینے میں ڈوبے ہوں گے‘ محشر کی تاریکی میں ہر انسان کو اس کے عمل کے بقدر ہی نور سے نوازا جائے گا‘ (پُل) صراط سے گزرنے کی رفتار بھی اعمال کے مطابق ہی ہوگی‘ پل سراط کے اردگرد جو کانٹے (آنکڑے) لگے ہوں گے‘ وہ بھی انسانوں کو اعمال کے مطابق ہی  گھسیٹیں گے‘ اور اللہ تعالی اپنے بندوں سے ان کے اعمال کے بارے میں باز پرس کرے گا۔

اللہ کی رحمت کی وجہ سے ہی انسان جنت میں داخل ہوسکے گا‘ جیسا کہ صحیح حدیث میں آیا ہے‘  لیکن (یاد رکھنا چاہئے کہ)  اعمال صالحہ ہی  اللہ کی رحمت حاصل کرنے کا ذریعہ   اور جنت میں بلندی درجات کا سبب ہیں۔

آخری بات: آپ کے علم سے یہ مخفی نہیں کہ اعمال میں دل کا عمل‘ زبان کا عمل (قول) اور  (اعضاء وجوارح کا) فعل سب شامل ہیں۔

اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں حسنِ عمل کی توفیق دے‘ ہمیں برے اعمال سے بچائے ۔

درود وسلام بھیجیں…

صلی اللہ علیہ وسلم

 

 

از قلم :

فضیلۃ الشیخ حسام بن عبد العزیز الجبرین