اولاد کے حقوق – سلسلہ حقوق: 7

بسم اللہ الرحمن الرحیم

خلاصہ درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط

بتاریخ : 10/ رمضان المبارک 1429ھ 10 /ستمبر 2008م

اولاد کے حقوق

عن أنس بن مالك رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : إن الله سائل كل راع عما استرعاه ، أحفظ ذلك أم ضيع ؟ حتى يسأل الرجل عن أهل بيته .

( سنن النسائي الكبرى : 9174، ج : 5 ص: 374 /

صحيح ابن حبان : 4475 ، ج : 6 ، ص: 465 )

ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تبارک وتعالی ہر ذمہ دار سے اسکی رعایا کے بارے میں پوچھے گا کہ اس نے انکے بارے میں اپنی ذمہ داری کو نبھایا ، یا ضائع کردیا ، حتی کہ بندے سے اسکے اہل و عیال کے بارے میں بھی پوچھا جائے گا ۔

تشریح : اولاد والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک ، زندگی کی خوشی اور مستقبل کی امید ہیں ، انسان کے گھر کی رونق اولاد سے ہے ، انکی زندگی میں لذت و سرور ، اولاد ہی سے ہے بلکہ شرعی طور پر اولاد ایک ایسا ذخیرہ ہیں کہ انسان کے اس دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد بھی باقی رہتا ہے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب انسان مرجاتا ہے تو اسکے عمل کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے ، سوائے تین چیزوں کے [ کہ انکا فیض انہیں پہنچتا رہتا ہے ] صدقہ جاریہ ، یا وہ علم جس سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہو ، نیک اولاد جو اسکے لئے دعا کرے ۔

[ صحیح مسلم : بروایت ابو ہریرہ ]

لیکن کسی بھی باپ و ماں کو یہ نعمت اس وقت حاصل ہوگی جب وہ اپنے بچوں کے حقوق کو ادا کریں ، ذیل میں اولاد کے چند حقوق ذکر کئے جاتے ہیں :

[ 1 ] ماں کا انتخاب : یہ وہ پہلا مرحلہ ہے جہاں سے اولاد کے حقوق شروع ہوتے ہیں ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : اپنے نطفے کیلئے [ اچھے رحم کا ] انتخاب کرو چنانچہ کفو میں [ اپنے مردوں کی ] شادی کرو اور [ لڑکیوں کی شادی میں بھی ] کفو کا لحاظ رکھو ۔

{ سنن ابن ماجہ : 1968 ، بروایت عائشہ }

[ 2 ] زندگی کی حفاظت : یعنی استقرار حمل کے بعد اسے ضائع کرنے یا ولادت کے بعد اسے قتل کرنے سے پرہیز کریں ۔

اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے : ولا تقتلوا اولادکم من املاق نحن نرزقکم و ایاکم [ الانعام : 151 ] اور اپنی اولاد کو تنگ دستی کے ڈر سے قتل نہ کرو ، ہم ہی تمہیں اور انہیں رزق دیتے ہیں ۔

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا : اللہ تعالی کے نزدیک سب سے بڑا گناہ کیا ہے ؟ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا : اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرائے حالانکہ اسی نے تجھے پیدا کیا ، میں نے کہا : یہ تو بہت بڑا جرم ہے ، پھر اسکے بعد کیا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا : تو اپنے بچے کو اس ڈر سے قتل کردے کہ وہ تیرے ساتھ کھائے گا ، میں نے عرض کیا : پھر اسکے بعد کیا ؟ آپ نے فرمایا : یہ کہ تو اپنے پڑوسی کی بیوی کے ساتھ زنا کرے ۔

[ صحیح بخاری و صحیح مسلم ]

[ 3 ] رضاعت و حضانت : بچپن اور بلوغت کو پہنچنے کے مرحلے تک والدین کی ذمہ داری ہے کہ بچے کے کھلانے پلانے کا انتظام کریں :

وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلاَدَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَن يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ وَعلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ( سورة البقرة : 233 ) اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں یہ (حکم) اس شخص کے لئے ہے جو پوری مدت تک دودھ پلوانا چاہے۔ اور دودھ پلانے والی ماؤں کا کھانا اور کپڑا دستور کے مطابق باپ کے ذمے ہوگا۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : آدمی کے گناہ گار ہونے کیلئے یہی کافی ہیکہ وہ جن کی روزی کا ذمہ دار ہے ان کے حقوق ضائع کردے [ یعنی نان و نفقہ میں کوتاہی کرے ]

{ سنن ابو داود ، بروایت عبد اللہ بن عمرو }

[ 4 ] تعلیم و تربیت : اولاد کا ایک اہم حق یہ ہے کہ والدین انکی تعلیم وتربیت کا خیال رکھیں :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ ( سورة التحريم : 6 )

مومنو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل عیال کو آتش (جہنم) سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تم اپنے بچے کو سات سال کی عمر میں نماز سکھاو اور دس سال کی عمر میں اس [ نماز میں کوتاہی کرنے ] پر انکی گوش مالی کرو ۔

[ سنن ابو داود ، ترمذی ، بروایت سبرہ بن معبد ]

[ 5 ] عقیقہ اور نام : پیدائش کے بعد والدین کی سب سےاہم ذمہ داری بچے کا عقیقہ کرنااور اسکے لئے عمدہ نام کا انتخاب کرنا ہے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہر بچہ اپنے عقیقہ کے عوض گروی رہتا ہے ، ساتویں دن اسکی طرف سے عقیقہ کیا جائے ، اس سے گندگی کو دور کیا جائے یعنی اسکے بال اتروائے جائیں اور نام رکھا جائے ۔

[ مسند احمد اور سنن وغیرہ بروایت : سمرہ ]

[6 ] عدل و مساوات : دو بچے جس طرح ایک ماں باپ کی اولاد ہیں اسی طرح انکا حق یہ ہیکہ انکے درمیان عدل و مساوات کا برتاو کیا جائے ایک لڑکے کو دوسرے لڑکے پر یا ایک جنس کو دوسری جنس پر ترجیح نہ دی جائے ۔
ختم شدہ