بسم اللہ الرحمن الرحیم
سلسلہ خلاصہ معانی قرآن مجید
از قلم : شیخ مقصود الحسن فیضی حفظہ اللہ
*اٹھائیسواں پارہ(قد سمع اللہ)*
اس پارے میں نو سورتیں ہیں؛ پہلی سورت المجادلہ او ر آخری سورت التحریم ہے۔
سورت المجادلۃ
یہ سورت مدنی ہے۔
اس کا موضوع شرعی احکام یعنی قانون ہے۔اس میں ظہار کا کفارہ اور بعض اسلامی آداب کا بیان ہے۔
o اس سورت کی ابتداء اس طرح ہوئی کہ اللہ تعالی نے اس عورت کی بات سن لی ہےجو آپ سے اپنے شوہر کے بارے میں تکرار کر رہی تھی ۔
o یہ عورت حضرت خولہ بنت ثعلبہ رضی اللہ عنہا ہیں،جن سے ان کے شوہر حضرت اوس بن صامت رضی اللہ عنہ نے ظہار کر لیا تھا ۔ زمانہ جاہلیت کے دستور کے مطابق ظہار کرنے سے عورت ہمیشہ ہمیشہ کےلئے اپنے شوہر پر حرام ہو جاتی تھی۔ حضرت خولہ اپنا معاملہ لے کر نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔چونکہ ابھی اس بارے میں کوئی شرعی حکم نازل نہیں ہوا تھا اس لئے آپﷺ خاموش رہے، یا انہیں اپنے شوہر سے جدا ہوجانے کا حکم دیا۔ اس پر حضرت خولہ کہنے لگیں کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اب اس عمر میں میرا او ر میرے بچوں کا کیا ہوگا؟،اس پس منظر میں یہ آیتیں نازل ہوئیں۔سنن ابو داود: ۲۲۱۴
o آیت نمبر 1تا4میں اس امر(ظہار ) کی تفصیل ہے اور واضح کیا گیا ہے کہ یہ جہالت کی باتیں ہیں ،اس سے کسی کی بیوی اس کی ماں نہیں بن جاتی۔ البتہ چونکہ یہ جھوٹ اورایک گناہ کی بات ہے لہذا بیوی کی طرف رجوع سے قبل اس کا کفار ہ ادا کرنا ہوگا۔
ظہار کا کفارہ یہ بیان ہوا ہے؛ایک غلام آزاد کرنا۔ غلام نہ ملے، یا اس کی طاقت نہ ہو تو لگاتار دو ماہ کے روزے رکھنا، اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو پھر ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا۔
o آیت نمبر 5اور 6میں گزشتہ حکم پر تبصرہ ہے کہ جو لوگ اللہ کے نازل کردہ ان احکام کی اطاعت نہ کرکے اللہ اور اس کی رسول کی مخالفت کر رہے ہیں وہ بڑے مجرم ہیں،ان کے لئے دنیا میں بھی رسوائی ہے اور آخرت میں عذاب الیم ہے۔
o یاد رکھو، جو کچھ بھی تم کرتے ہو وہ سب اللہ کے ہاں محفوظ ہے، اوراللہ تعالی ایک ایک کرکے تمہارے اعمال کا حساب لے گا ۔
o آیت نمبر7میں ایک معاشرتی برائی کی اصلاح ہے جسے "نجوی ” یعنی سرگوشی کہا جاتا ہے کہ اس سے پرہیز کرو۔ یاد رکھو کہ اللہ تعالی کا علم ہر چیز کو محیط ہے،تم جہاں کہیں بھی تین ،چار یا پانچ،چھ کی شکل میں ہو گے، وہ اللہ کے علم سے باہر نہیں ہے اور وہ اس پر تمہاری گرفت کرسکتا ہے۔
o آیت نمبر8میں یہود اور منافقین کی اس بری خصلت کا بیان ہے کہ جب انہیں دین کے خلاف سرگوشیوں سے روکا جاتا ہےتو اپنی الگ مجلس میں بے دھڑک اس کی خلاف ورزی کرتے تھےاو رپھر خوش ہوتے تھے کہ محمد[ﷺ} تو یہ کہتے ہیں کہ اللہ ہمیں اس پر عذاب دے گا۔آخر وہ عذاب کہاں ہے؟۔
o اللہ تعالی نے فرمایا کہ اولا تو رسول کے سچا ہونے کے لئے یہ کافی ہےکہ اللہ تعالی تمہاری اس حرکت کی اسے خبر دے رہا ہے۔ ثانیا جہاں تک عذاب کا تعلق ہے تو کسی جرم پر فورا عذاب دینا اللہ کی سنت نہیں ہے ،بلکہ اس کی سنت مہلت دینا ہے تاکہ کسی کے لئے حجت باقی نہ رہ جائے ۔ لیکن مجرم اگر عبرت نہیں لیتا تو اُس کے لئے جہنم تیار ہے جو بہت برا ٹھکانا ہے ۔
o آیت نمبر 9اور 10میں مسلمانوں کو خصوصی تاکید کی ہے کہ یہود و منافقین کی مشابہت میں تم یہ طریقہ نہ اپناؤ کہ گناہ و نافرمانی کے کاموں میں سرگوشیاں کیاکرو، بلکہ تمہیں نیکی اور تقوی کے کا موں کے لئے سرگوشی کرنی چاہئے ،اور تم سے کوئی ایسی حرکت ظاہر نہیں ہونی چاہئے جس کافائدہ اٹھا کر شیطان دو بھائیوں میں بد ظنی پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائے۔
o آیت11تا13میں مجلس، خصوصا نبی ﷺ کی مجلس کے کچھ آداب کا بیان ہے
1) مجلس میں بیٹھیں تو کشادگی پیدا کریں۔یعنی مزید لوگوں کے بیٹھنے کے لئے گنجائش باقی چھوڑدیں ۔
2) اگر نبی ﷺ (یا مجلس کے منتظمین)کسی کو اٹھ جانے یا کسی اور جگہ بیٹھنے کا حکم دیں تو اسے اٹھ جانا چاہئے اور اس کی وجہ سے دل میں کچھ ملال نہیں ہونا چاہئے۔
3) اہل علم و فضل کسی مجلس میں آئیں تو انہیں مناسب جگہ پربٹھانا چاہئے، خواہ کسی کو اٹھا کر ہی انہیں بٹھانا پڑے ۔
4) رسول ﷺ کی مجلس کا خاص ادب یہ ہے کہ اگر تم رسول ﷺ کے ساتھ علحدگی میں گفتگو کرنا چاہتے ہو تو اس سے قبل کچھ صدقہ کرو ۔
5) اگر کوئی شخص خدمتِ رسول ﷺ میں حاضر ہونے سے قبل صدقہ نہیں کر سکتا تو اسے نماز،زکاۃ اور اللہ کے رسول ﷺ کی اطاعت میں مشغول ہونا چاہئے۔
o آیت14تا21میں منافقین او ر اسلام دشمن لوگوں کے ساتھ تعلقات اور ان سے تال میل رکھنے کی ممانعت او راس پر سخت وعید ہے اور اسے ایمان کے منافی قرار دیا گیا ہے۔
o ان آیات میں اللہ تعالی نے منافقین کی بعض بری خصلتوں (جیسے اسلام دشمن طاقتوں کے ساتھ تال میل، مسلمانوں کے راز فاش کرنا،مسلمانوں کی جماعت سے دوری، جھوٹ بولنا او راپنی صفائی کے لئے بار بار قسمیں کھانا)کا ذکر کر کے انہیں آخرت کے عذاب سے ڈرایا ہے۔
o نیز یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ یہ سب کچھ شیطان کی پیروی کی وجہ سے ہے۔یاد رکھو جو شیطان کی پیروی کرے گا وہ رسوا ہو گا۔
o پھر دھمکی کے انداز انہیں خبر دار کیا گیا کہ جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرے گا، ذلت اس کی زندگی کا حصہ ہے ۔ اسے یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ غلبہ اللہ تعالی او راس کے رسول کو حاصل رہے گا۔
o آخری آیت میں اللہ تعالی نے عقیدہ ولاء و براء کو واضح کر دیا ہے اور "حب فی اللہ اور بغض فی اللہ” یعنی اللہ ہی کے لئے محبت اور اللہ کی رضا کے لئے کسی سے دشمنی کی اہمیت بیان کر دی ہے کہ جو لوگ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہوں ان کے لئے یہ قطعا مناسب نہیں ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والوں سے ولاء ومحبت کا رشتہ رکھیں،خواہ وہ ان کے قریب ترین لوگ ہی کیوں نہ ہوں ،جیسے باپ،بیٹے ،بھائی اور خاندان کے افراد۔
o پھر آیت کے آخر میں کئی اعتبار سے اللہ کی رضا کے لئے محبت اور دشمنی کرنے والوں کی فضیلت کا بیان ہے۔
1) ان کے دل میں ایمان کی آبیاری ہوتی ہے۔
2) اللہ کی خصوصی تائید او ر مدد ہوتی ہے۔
3) ان کے لئے جنت ہے۔
4) اللہ ان سے راضی ہو گا اور وہ بھی اللہ سے راضی ہوں گے ۔
5) یہی لوگ اللہ کی جماعت ہیں۔
6) ان کے لئے ہی کامیابی ہے۔
ان باتوں کو سامنے رکھ کر دوبارہ اس آیت کو غور سے پڑھئے ، بات واضح ہو جائے گی۔
لَّا تَجِدُ قَوۡماً يُؤۡمِنُونَ بِٱللَّهِ وَٱلۡيَوۡمِ ٱلۡأٓخِرِ يُوَآدُّونَ مَنۡ حَآدَّ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ وَلَوۡ كَانُوٓاْ ءَابَآءَهُمۡ أَوۡ أَبۡنَآءَهُمۡ أَوۡ إِخۡوَٰنَهُمۡ أَوۡ عَشِيرَتَهُمۡۚ أُوْلَٰٓئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ ٱلۡإِيمَٰنَ وَأَيَّدَهُم بِرُوحٍ مِّنۡهُۖ وَيُدۡخِلُهُمۡ جَنَّٰتٍ تَجۡرِي مِن تَحۡتِهَا ٱلۡأَنۡهَٰرُ خَٰلِدِينَ فِيهَاۚ رَضِيَ ٱللَّهُ عَنۡهُمۡ وَرَضُواْ عَنۡهُۚ أُوْلَٰٓئِكَ حِزۡبُ ٱللَّهِۚ أَلَآ إِنَّ حِزۡبَ ٱللَّهِ هُمُ ٱلۡمُفۡلِحُونَ (٢٢) "اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والوں کو آپ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والوں سے محبت رکھتے ہوئے ہرگز نہ پائیں گے گو وه ان کے باپ یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائی یا ان کے کنبہ (قبیلے) کے (عزیز) ہی کیوں نہ ہوں۔ یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے ایمان کو لکھ دیا ہے اور جن کی تائید اپنی روح سے کی ہے اور جنہیں ان جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جہاں یہ ہمیشہ رہیں گے، اللہ ان سے راضی ہے اور یہ اللہ سے خوش ہیں یہ خدائی لشکر ہے، آگاه رہو بیشک اللہ کے گروه والے ہی کامیاب لوگ ہیں”۔
سورت الحشر:
سورت "الحشر” مدنی ہے۔
اس سورت کا نزول غزوہ بنی نضیر جو غزوہ احد کے بعد تقریبا 4 ہجری میں پیش آیا اس پر تبصرے کے طور پر نازل ہوئی ہے۔اسی مناسبت سے اس سورت کا ایک نام سورۃ بنی النضیر بھی ہے۔
o ابتدائی پانچ آیتوں میں غزوہ بنو نضیر او ر یہود کے مدینہ سے جلا وطن کئے جانے کا ذکر ہے۔ اسی مناسبت سے کچھ اہم باتوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
1) اللہ کی تسبیح و تمجید کے بعد مسلمانوں پر اللہ تعالی نے یہ احسان جتلایا کہ یہ اللہ کی قدرت ہے کہ ایک ایسی قوم یعنی یہود بنی نضیر جو تعداد میں تم سے کچھ کم نہ تھی ،ان کے پاس قلعے او رگڑھیاں بھی تھیں ، وہ ہتھیار سے لیس تھے، لیکن یہ اللہ کی قدرت کہ ان کے دلوں میں اپنے نبی کا ایسا خوف ڈالا کہ چند ہی دن کے محاصرہ کے بعد وہ نہ صرف ہتھیار ڈالنے بلکہ اپنی سالوں او ر صدیوں کی جائیدادیں چھوڑ کر شہر بدر ہونے پر تیار ہو گئے۔
2) یہود کے اوپر اس مصیبت کی اصل وجہ یہ تھی کہ وہ لوگ اللہ او ر اس کے رسول کی مخالفت پر تلے ہوئے تھے،اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتا ہے، اس کا انجام اس دنیا میں رسوائی اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔
3) آیت نمبر 5 میں ایک جنگی قانون کی طرف اشار ہ ہے کہ اصل تو یہ ہے کہ دشمنوں کی جائیداد اور ان کے مال کو نقصان نہیں پہنچایا جائے گا ،لیکن اگر کوئی جنگی ضرورت اور مجبوری پیش آجائے تو اس کی اجازت ہے۔
o آیت6تا10میں مال "في ” کا حکم اور اس کا مصرف (اس کے خرچ کرنے کی جگہ)بیان ہوا ہے۔ مال في وہ مال ہے جو دشمنوں سے جنگ کے بغیرہی حاصل ہوا ہو۔
o آیت نمبر۷ میں مالِ فَی کا عام حکم مجملا بیان ہوا ہےکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کا ہے ۔یعنی اسے بیت المال میں جمع کر دیا جائے۔ پھر اللہ کا رسول [ اور اس کے بعد امیرِ وقت] اسے رسول کے قرابتداروں، یتیموں ،مسکینوں او رمسافروں وغیرہ میں تقسیم کریں گے۔
o پھر آیت نمبر آٹھ میں مالِ فَی کا مصرف تفصیل سے بیان کیا گیا اور اس کے حقداروں کو تین حصوں میں بانٹا۔ دو کا تعلق تو خاص عہدِ رسولﷺ سے ہے اور ایک فریق کا تعلق عہدِ رسول کے بعد سے ہے۔
1- پہلا گروہ فقرائےمہاجرین کا ہے جنہوں نے اللہ و رسول کے لئے اپنا سب کچھ چھوڑ کر ہجرت کی ہے۔
2- دوسرا گروہ انصار کا ہے، جنہوں نے اللہ کے رسول اور مہاجرین کو نہ صرف ٹھکانا دیا، بلکہ دل کی خوشی سےاپنا سب کچھ ان کےلئے نچھاور کر دیا۔
3- تیسرا گروہ بعد میں آنے والے ان مسلمانوں کا ہے جو مہاجرین و انصار کے ایمان کی شہادت دیتے ہیں، ان کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہیں اور ان کی طرف سے اپنے دل میں کسی قسم کا کینہ وبغض نہیں رکھتے ۔
ان آیات میں چند باتیں قابل غور ہیں۔
1) اللہ تعالی نے مالِ فَی کی اس تقسیم کا ذکر کرنے کے بعد اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا:كَيۡ لَا يَكُونَ دُولَةَۢ بَيۡنَ ٱلۡأَغۡنِيَآءِ مِنكُمۡۚ ” تاکہ یہ مال صرف امیروں کے درمیان ہی گردش نہ کرتا رہے” یعنی اس سے فقراء بھی فائدہ اٹھا سکیں گویا اسلامی شریعت میں مال کا بہاؤ فقراء او رمحتاجین کی طرف ہے نہ کہ مالداروں اور سرمایہ داروں کی طرف۔
2) اس کے بعد کہا گیا :وَمَآ ءَاتَىٰكُمُ ٱلرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَىٰكُمۡ عَنۡهُ فَٱنتَهُواْۚ” رسول جو تمہیں حکم دے وہ لے لو او رجس چیز سے منع کر دے اس سے رک جاؤ۔یہ حکم بظاہر اس مالِ فَی سے متعلق ہے جو رسول اللہ ﷺ کسی کو دیں، لیکن لفظ کے عموم میں ہر اس حکم کو شامل ہے جو آپﷺ کی جناب سے صادر ہو ۔
3) مہاجرین اور انصار کی فضیلت ہے کہ اللہ تعالی خود ان کی نیک نیتی کی شہادت دے رہا ہے ۔اور یہ فضیلت انہیں اس لئے ملی کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے رہے ہیں اور بلانیتِ معاوضہ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے رہے ہیں۔ لہذا جو شخص بھی یہ أصول اپنائے گا اسے اس فضل میں سے کچھ نہ کچھ حصہ ضرور ملے گا۔
4) مہاجرین اور انصار کے بعد آنے والے اہلِ ایمان کو یہ حکم ہے کہ وہ مہاجرین و انصار کے حق میں دعاء مغفرت کریں او ران کے بارے میں کسی بد ظنی کا شکار نہ ہوں۔ اس سے ایسےشیعہ کی تردید ہوتی ہے جو صحابہ کرام کے بارے میں بد ظنی کا شکار ہیں اور انہیں گالیاں دیتے ہیں ۔
o آیت11تا17میں کلام کا رخ منافقین کے اس رویے کی طرف ہے جو انہوں نے بنو نضیر کے محاصرے سے قبل ان سے کہا تھا، اور ان کے بعد بنو قریظہ سے بھہ کہا تھا۔ یعنی تم گھبراؤ نہیں، ہم تمہارے ساتھی ہیں اور تمہارا ساتھ ہر گز نہ چھوڑیں گے،لڑنا پڑا تو تمہارے ساتھ مل کرلڑیں گے اور مکل بدر ہوجانا ہوا تو شہر سےنکل جائیں گے ۔
o اللہ تعالی نے فرمایا :یہ لوگ ایسا ہرگز نہیں کریں گے ، یہ مصلحت پسند اور بزدل لوگ ہیں،ان سے کسی خیر کی امید نہیں ہے، ان کی مثال شیطان کی طرح ہے کہ وہ انسان کو کفر پر ابھارتا ہے او ر فائدے اور کامیابی کی امید دلاتا ہے، لیکن جب مقابلے کا وقت آتا ہے تو ساتھ چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے (جیسا کہ غزوہ بدر میں ہوا تھا)۔
o آیت18تا20مسلمانوں کے لئے ایک نصیحت نامہ ہے ،گویا ان سے یہ کہا جا رہا ہے کہ منافقین اور دنیا پرست یہود کے انجام سے عبرت حاصل کرو،اللہ ورسول پر سچا ایمان لاو،اللہ کا تقوی اختیار کرو اور آخرت کے لئے تیاری کرو۔
o نیزان لوگوں جیسے نہ بن جاو جنہوں نے اللہ اور آخرت کو بھلا دیا ہے، جس کی وجہ سے ان کا شمار فاسقوں میں ہوچلا ہے۔ ایسا کرکے انہوں نے اللہ کو نہیں بلکہ خود اپنے آپ کو بھلایا ہے۔ یاد رکھو کہ یہ جہنمی لوگ ہیں اور اللہ سے ڈرنے والے جنتی ۔ دو علحدہ علحدہ گروہ ہیں ، اور یہ دونوں یعنی اہل جنت ا ور اہل جہنم دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔
o آیت نمبر 21میں قرآن کی عظمت و اہمیت کے ساتھ اس کی تاثیر کا بیان ہے کہ اگر اس کا مکلف کسی پہاڑ کو بنایا گیا ہوتا تو وہ بھی اس سے لرزاں رہتا او رخوف سے ریزہ ریزہ ہو جاتا ۔
o اس سورت کی آخری تین آیتوں میں اللہ تعالی کے 16 اسماء حسنی کے ذکر کے ذریعے اللہ کی عظمت و جلال کا بیان ہے ۔ تا کہ لوگوں کے دلوں پر اس کی عظمت بیٹھے ،لوگ اللہ کی توحید کو اپنائیں، شرک سے پرہیز کریں اور آخرت کے لئے عمل پر آمادہ ہوں۔
o آخری آیت بعینہ اسی موضوع بلکہ تقریبا انہیں الفاظ پر ختم ہوئی ہے جس سے سورت کا آغاز ہوا تھا۔ یعنی آسمان وزمین کی ہر چیز ہمہ وقت اللہ کی تسبیح وتعظیم میں مشغول ہے۔ ﵟيُسَبِّحُ لَهُۥ مَا فِي ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلۡأَرۡضِۖ وَهُوَ ٱلۡعَزِيزُ ٱلۡحَكِيمُ (٢٤) ﵞ
سورت الممتحنہ:
سورت” الممتحنہ” مدنی ہے۔
اس سورت کا موضوع بھی تشریع اسلامی (اسلامی قانون )ہے۔ اس کا بنیادی موضوع "موالات و معادات "ہے، یعنی ایک مسلمان کی وفاداری وخیر خواہی اللہ ، اس کے رسول اور مسلمانوں کے ساتھ ہونی چاہئے اور کافروں واسلام دشمنوں سے بے زاری ہونی چاہئے۔
یہ سورت فتح مکہ کے موقعہ پر حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کے اس غلطی کے بعد نازل ہوئی جو انہوں نے اپنے اہل و عیال کی حفاظت کی خاطر کی تھی ۔ خیال کیا کہ مکہ کے لوگوں کو نبی ﷺ کی طرف سے ان کے اوپر حملے کی تیاری کی اطلاع دینی چاہی تھی ۔
o ابتدائی تین آیتوں میں ایسے مسلمانوں کو تنبیہ کی گئی ہے جو کافروں سے محبت اور ان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے تھے۔اللہ تعالی نے فرمایا:اے لوگو!جو اللہ کے اور تمہارے دشمن ہوں، ان کے ساتھ محبت کا رشتہ نہ رکھو، کیونکہ اولا تو یہ کہ وہ حق کے منکر ہیں، اور ثانیا انہوں نے تمہیں اور رسول کو صرف اس بنیاد پر گھروں سےنکالاہے اورتمہیں تمہاری اپنی جائیدادوں سے بے دخل کر دیا کہ تم اللہ پر ایمان لائے ہو۔ یاد رکھو! یہ گمراہی کا راستہ ہے اور اللہ کی ناراضگی کو دعوت دینا ہے۔
o نیز مسلمانوں کو اس بات پر بھی متنبہ کیا کہ تمہیں یہ بھی دھیان میں ر کھنا چاہئے کہ قیامت کے دن یہ رشتے کسی کام آنے والے نہیں ہیں۔
o آیت4تا7میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے سچے پیروکاروں کا حوالہ دے کر مسلمانوں کو یاد دلایا گیا ہے کہ جس طرح ان لوگوں نے اللہ کے باغیوں سے لا تعلقی کا اظہار کیا تھا، ویسے ہی تمہیں بھی کرنا چاہئے،خواہ یہ رشتہ باپ اور بھائی کا ہی کیوں نہ ہو۔حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان پر ایمان لانے والوں نے اپنی قوم کے سامنے لا تعلقی کا اظہار ان صاف الفاظ میں کر دیا تھا کہ ہمارے اور تمہارے درمیان "ولاء ” یعنی محبت و وفاداری کا رشتہ اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتا جب تک تم اللہ کو اپنا معبودِ واحد نہ مان لو،اور اس کے ساتھ ساتھ دعا بھی کرتے رہے او راللہ تعالی سے مدد بھی مانگتے رہے ۔
o آیت نمبر ۶میں ایک اہم نقطے پر توجہ دلائی گئی کہ قریبی رشتہ داروں اوراولاد کےکفر کی صورت میں ان سے لا تعلقی کا اظہار ایک مشکل مرحلہ ہے، لیکن اگر کوئی شخص اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے تو اس کے لئے یہ کام مشکل نہیں ہے۔ اس کے باوجود بھی اگر کوئی ان سے "ولاء” کا تعلق بنائے رکھتا ہے تو اسے سمجھ لینا چاہئے کہ اللہ تعالی غنی وحمید ہے، کسی کی نیکی و بدی کا اس پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔
o آیت نمبر ۷ میں مومنین کو ان کے کافر اقرباء سے متعلق تسلی دیتے ہوئے یہ امید دلائی گئی کہ اللہ تعالی اس بات پر قادر ہے کہ ان کے دلوں میں ایمان ڈال دے، جس سے وہ مسلمان بن جائیں اور اس طرح وہ تمہارے دوست بن جائیں ۔
o بالآخر ایساہی ہوا کہ اہلِ مکہ کے اکثر لوگ بلکہ سارے ہی لوگ مسلمان ہو گئے۔
o آیت نمبر 8اور 9میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ جو کافر تم سے لڑائی نہیں کرتے اور نہ ہی تمہیں تمہارے گھروں سے نکالتے ہوں ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ،البتہ جو لوگ تمہیں تمہارے گھروں سے نکلنے پر مجبور کرتے ہیں او رتمہارے ساتھ لڑائی بھی کرتے ہیں ،ان کے ساتھ محبت وخیرخواہی کا رشتہرکھنے کی اجازت نہیں ہے۔
o آیت نمبر 10اور 11میں ان عورتوں کا حکم بیان ہوا ہے جو صلح حدیبیہ کے بعد کافروں سے چھپ چھپاکر ہجرت کرکے آئی تھیں۔ یعنی سب سے پہلے ان کو پرکھ لیا جائے او ر یہ تاکید کر لی جائے کہ ان کے اسلام اور ہجرت کا سبب صرف اللہ کی رضا ہے،وہ کسی دنیوی غرض یا اپنے شوہر سے ناراض ہوکر نہیں آئی ہیں۔ پھر اگر معلوم ہو جائے کہ وہ حقیقتاً مسلمان ہیں تو اب ان کو کافروں کے پاس واپس کرنا جائز نہیں ہے۔ کیونکہ اب وہ کافروں کےلئے حلال نہیں ہیں۔نیز ان کی عدت گزر جانے کے بعد مسلمان ان عورتوں سے نکاح بھی کر سکتے ہیں۔
o نیز اس آیت میں یہ بھی واضح کیاگیا کہ جس کی بیوی مرتد ہو کر بھاگ جائے اسے یہ حق بنتا ہے کہ اپنے خرچ کا مطالبہ کرے۔ اس کی دو صورت ہو سکتی ہے۔
1- اسی عورت سے براہِ راست یا جس کے پاس وہ بھاگ کر گئی ہے، اس سے مطالبہ کرے کہ اس سے نکاح کرنے میں مہر یا دیگر امور میں میرا جو خرچ ہوا ہے اسے واپس کیا جائے۔
یہ اس صورت میں ہے کہ مسلمان اور کافر میں صلح کا معاملہ ہو۔
2- اور اگر ان دونوں میں لڑائی اور حرب کا معاملہ ہو تو مسلمان شوہر کا حقِ مہر مالِ غنیمت، بیت المال یا مسلمانوں کے باہمی تعاون سے ادا کیا جائے گا۔
o آیت نمبر 10 نازل ہو جانے کے بعد وہ تمام پرانے ازدواجی رشتے ٹوٹ گئے جو مسلمانوں او ر کافروں کے ما بین تھے۔ اس اعلان کے بعد سے کسی کا فر و مشرک مرد کا رشتہ کسی مسلمان عورت سے اور کسی مسلمان مرد کا رشتہ کسی کافر عورت سےنہ ہو سکتا ہے اور نہ ہی پرانا رشتہ ہے تو باقی رہ سکتا ہے۔
o آیت نمبر 12میں نبی ﷺ کو ہدایت ہے کہ جو مسلمان عورتیں آپ سے بیعت کرنے آئیں آپ ان سے ان چھ باتوں پر بیعت کرلیں:
1) شرک نہ کریں۔
2) چوری نہ کریں۔
3) زنا نہ کریں۔
4) اپنی اولاد کو قتل نہ کریں۔
5) بہتان تراشی سے پرہیز کریں۔
6) رسول کی نافرمانی نہ کریں۔
یہ سورت اسی موضوع پر ختم ہو رہی ہے جس سے اس کا آغاز ہوا تھا کہ اللہ کے دشمنوں اور جن پر اللہ کا غضب نازل ہوا ہے ان سے ولاء و وفاداری کا رشتہ نہ رکھا جائے۔ کیونکہ وہ آخرت کے منکر ہیں۔
سورت الصف
سورت ” الصف” مدنی ہے۔
یہ ان پانچ سورتوں میں سے ایک ہے جنہیں "المسبحات” کہا جاتا ہے۔
اس سورت کا بنیادی موضوع اخلاص ، دین حق کے لئے قربانی اور مجاہدین کی فضیلت پر مشتمل ہے۔
o ابتدائی آیات ۔ سورت کا آغاز اللہ کی تسبیح اور اس کی عظمت وبڑائی کے بیان سے ہوا ہے۔ جس کا مقصد شاید سامعین کے دلوں میں اس ذات کی عظمت بیٹھانا ہے جو آگے کے احکام بیان کر رہی ہے۔
o پھر مسلمانوں کو اس طرز عمل سے روکا گیا ہے کہ وہ کوئی ایسی بات کریں جس پر وہ خود عمل نہ کریں۔ بلکہ اس کی قباحت کے طور پر اسے اللہ کی سخت ترین ناراضگی کا سبب بتلایا ہے ۔
o آیت نمبر 4میں ان لوگوں کے فضائل بیان ہوئے ہیں جو صف بستہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں۔ یعنی یہ کہ اللہ ان سے محبت کرتا ہے۔
o آیت نمبر 5میں حضرت موسی علیہ السلام کا حوالہ دے کر امت مسلمہ کوخبر دار کیا گیا ہے کہ تم لوگ یہود کی طرح نہ بننا کہ وہ حضرت موسی کو اذیتیں پہنچاتے ،ان کی نافرمانی کرتے اور جہاد و قتال کے لئے انہیں تنہا چھوڑ دیتے تھے۔
o جس کے نتیجے میں اللہ تعالی نے ان کے دلوں پر سختی مسلط کر دی ۔
o آیت نمبر 6اور 7میں مسلمانوں کو یہودیوں کے ایک دوسرے رویے کے بارے میں آگاہ کیا گیا ہے کہ جب حضرت عیسی علیہ السلام ان کے پاس دلیل لے کر آئے اور اپنے بعد ’’احمد ‘‘نامی ایک نبی کے آمدکی بشارت دی، لیکن جب وہ نبی آگیا تو واضح نشانیوں کے باوجودماننے کے لئے تیار نہ ہوئے، بلکہ حقائق سامنے آجانے کے با جود کھلا جادو کہہ کر ٹھکرا دیا ۔
o آیت نمبر 8اور 9میں مسلمانوں کو اطمینان دلانے کے لئے واضح کیا گیا ہے کہ لوگ کتنی ہی کوشش کر لیں وہ اس نور یعنی دعوت اسلام کو بجھا نہیں سکتے، بلکہ اللہ کا وعدہ ہے کہ کفار مشرکین خواہ کتنی ہی کوشش کرلیں اور اسے ناپسند کریں محمد ﷺ کا لایا ہوا دین ساری دنیا کے ادیان پر غالب ہو کر رہے گا۔
o آیت9تا13میں شوق دلانے اور ترغیب کے اسلوب میں یہ نصیحت کی جارہی ہے کہ تمہیں چاہئے کہ اس تجارت کی طرف توجہ دو جس میں کبھی بھی گھاٹا نہیں ہے،اور جوقیامت کے دن دردناک عذاب سے بچائے گا۔وہ تجارت ہے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا اور اس کے لئے جان و مال کی قربانی دینا۔ اس کا فائدہ یہ حاصل ہوگا کہ اللہ تمہارے گناہ معاف کر دے گا،تمہیں نہروں او رمحلات والی جنت ملے گی اور ایک اہم چیز بھی ملنے والی ہے جسے تم پسند کروگے، یعنی اللہ کی مدد و نصرت اور فتح و کامیابی حاصل ہو گی۔
o آخری آیت میں مسلمانوں کو دین الہی کی مدد کی دعوت ہے۔
o ابتدائی آیتوں میں مسلمانوں کو یہود کی مشابہت سے روکا گیا تھا،اب آخر میں حضرت عیسی علیہ السلام کے حواریوں کی پیروی پر ابھارا گیا ہے جن کی نیکی کے کاموں سبقت کرنے سے اس فتح مندی کی راہ کھلی جو بالآخر اہل ایمان کے غلبہ پر منتہی ہوئی ۔تدبر قرآن:8/350، نیز دیکھئے التفسیر المنیرللزحیلی
سورت الجمعہ
یہ سورت مدنی ہے۔
اس سورت کا موضوع مدنی سورتوں کی طرح شرعی احکام کا ہے۔ نیزاس میں جمعہ کے بعض احکام بیان ہوئے ہیں۔
o ابتدائی چار آیتوں میں اللہ کی تسبیح و تمجید کے بعد نبی ﷺ کی بعثت کا ذکر ہے، جس سے متعلق کئی اہم امور پر تنبیہ کی گئی ہے۔
1- سب سے پہلے تو آپ کی بعثت کے عام ہونے کا ذکر ہےکہ آپ کو "امیوں” یعنی عرب کے لوگوں اور بعد والوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہے ۔
2- پھر نبی ﷺ کی بعثت کے چار مقاصد بیان فرمائے۔
ا– تلاوتِ کتاب۔ ب-تعلیمِ کتاب۔ ج- تزکیہ اور عمل کا پابند بنانا۔ د- اور حکمت،یعنی حدیث رسول کی تعلیم۔
3- ثالثا یہ واضح کیا گیا کہ یہ اللہ کا فضل ہے، جسے چاہتا ہے اسے اس سے نوازدیتا ہے۔اس بارے میں نہ یہودیوں سے مشورہ کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی مالدار یا حکمران کی اس پر اجارہ داری ہے۔
o آیت5تا8میں کلام کا رخ یہود کی اس بد کرداری کی طرف ہے جو وہ کتابِ الہی تورات کے ساتھ کیا کرتے تھے کہ وہ صرف اس کے حامل بننے کے دعویدار تھے۔ چنانچہ وہ تورات کو پڑھتے اور یاد کرتے تھے، لیکن اس پر عمل نہیں کرتے تھے۔ ان کی مثال اس گدھے کی ہے جس کے اوپر کتابوں کا ایک بوجھ تو لدا ہو، لیکن وہ اس سے کوئی فائدہ نہ اٹھاتا ہو۔
علماء کہتے ہیں یہی مثال ہر اس حامل قرآن کی ہے جو پڑھتا اور یاد تو کرتا ہے لیکن اس پر عمل نہیں کرتا [ابن کثیر]
o نیز یہود کے اس زعمِ باطل کا رد کیا ہےکہ جو وہ صرف زبانی اللہ کے چہیتے ہونے کے دعویدار تھے۔ لیکن جان و مال کی قربانیاں دینے سے گریز کرتے تھے۔اس پر بھی انہیں تنبیہ کی گئی ہے، اور چیلنج کیا گیا ہے کہ ہر محبوب اپنے محبوب سے ملنے کی تمنا کرتا ہے تو اگر تم اللہ کے چہیتے ہو تو موت کی تمنا کرو لیکن تم کبھی بھی ایسا نہیں کرو گے ۔
فی الواقع یہ مسلمانوں کے لئے تنبیہ ہے کہ اس کتاب کا حق ادا کرو، ورنہ تمہاری مثال بھی یہی ہوگی۔
o آیت نمبر 9سے آخر تک جمعہ کے خطبے اور نمازکا ذکر ہے اور اس کے بعض احکام بیان ہوئے ہیں۔
1- جمعہ کے اہتمام کا حکم دیا ہے،اور اس کے بارے میں کوتاہی پر تنبیہ کی گئی ہے۔
اس طرح گویا ہفتہ کے دن کے ساتھ یہود کا کیا رویہ رہا ہے اس طرز عمل سے مسلمانوں کو روکا گیا ہے۔
2- جمعہ کے دن جب جمعہ یعنی خطبہ جمعہ کی اذان ہو جائے تو ہراس شخص کے لئے اس پر لبیک کہنا ضروری ہے جس پر جمعہ واجب ہے۔
3- جمعہ کی دوسری اذان ہو جانے کے بعد خرید و فروخت قطعا جائز نہیں ہے، بلکہ حرام ہے ۔،
4- یہاں صرف تجارت کا ذکر ہے ،وگرنہ علماء کے نزدیک اسی حکم میں تمام مصروفیات،نوکریاں او رزراعت وغیرہ داخل ہیں۔ ہاں جمعہ کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد تمام مشاغل اور معمولات کی اجازت ہے۔
5- خطبہ جمعہ کو اللہ تعالی نے "ذکر” سے تعبیر کیا ہے ، جس کے دو فائدے ہیں۔
اول- جب خطبہ کا مقصدوعظ ونصیحت ہے، تو اسے سامعین کی زبان میں ہونا چاہئے۔ ورنہ خطبے کا مقصد پورا نہیں ہوگا۔
دوم- جمعہ کا خطبہ در اصل وعظ ونصیحت ہے ، جس سے سامعین کے دل نرم ہوں، ان میں آخرت کی تیاری کا جذبہ ابھرے۔ جمعہ کا خطبہ سیاسی، اختلافی اور لمبی لمبی تقریروں کے لئے نہیں ہے۔ پس چند کلمات ہوں جن سے فائدہ بھی اور یاد بھی رہیں۔
o آخری آیت میں مسلمانوں کو تنبیہ کی گئی کہ ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ تجارت اور دنیاوی مشاغل تمہیں اللہ کے مقرر کردہ فرائض کی ادائیگی سے روک دیں ۔
سورت المنافقون
یہ سورت مدنی ہے۔
اس سورت کا موضوع جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ منافقوں او ران کی بری عادتوں سے خبردار کرنا ہے۔
o ابتدائی آیات میں منافقین کی بعض بری خصلتوں کا ذکر ہے، جیسے جھوٹ بولنا، جھوٹے دعوے کرنا، قسمیں کھاکھا کر اپنے ایمان اور اپنی وفاداری کا یقین دلانا ،اللہ تعالی کے راہ سے روکنا اور ایمان کا متزلزل ہونا۔ وغیرہ۔ یہ وہ صفات ہیں جو ان کی دلی کیفیت کا حال بیان کر رہی ہیں ۔
o آیت نمبر ۳ میں اس وجہ کی ذکر ہے جس کے سبب اللہ تعالی نے ان سے فکر سلیم کی صلاحیت کو چھین لیا ہے۔یعنی اس وجہ سے کہ ایمان کی دولت پاجانے کے بعد ان لوگوں نے دنیا کی محبت میں کفر کی راہ اختیار کی ۔
o آیت ۴- ۶ میں منافقین کی بعض جسمانی صفات کا بیان ہے۔ جیسے ڈیل ڈول کی خوبصورتی، چرب زبانی، حسین وجمیل ہونے کے باوجود فائدے سے خالی، جہاد کا موقع آئے تو پیچھا چھڑانااور حق کے سامنے کبر وغرور سے کام لینا، وغیرہ۔
o ان صفات کے ذکر کے بعد رسول اللہﷺ اور مسلمانوں کو ان کے بارے میں دو ہدایات دی گئیں۔
1- تمہارے حقیقی اور خطرناک دشمن یہی ہیں، لہذا ان سے بچنے کی پوری کوشش کرو۔
2- چونکہ یہ کافرو فاسق ہیں ، جس کی وجہ سے اللہ کے یہاں ان کی معافی نہیں ہے ، لہذا ان کے لئے دعائے مغفرت کرنی جائز نہیں ہے۔
o آیت ۷-۸ میں منافقین کے ان قبیح کرداروں کا ذکر اور ان کی تردید ہے جن کا ارتکاب غزوہ بنی مصطلق کے موقع پر ان کے سردار عبد اللہ بن اُبَی نے کیا تھا۔
اول یہ کہ انصار کےاپنے منافق ساتھیوں کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ اگر تم لوگ محمد[ﷺ] اور ان کے ساتھیوں پر خرچ کرنا بند کردو تو وہ لوگ خود ہی مدینہ چھوڑ کر چلے جائیں گے۔
دوسری بات اس نے اپنے ہمنواوں کو بھڑکاتے ہوئے یہ کہی کہ "اگر ہم مدینہ پہنچے تو جو عزت والے ہیں یعنی ہم لوگ ، ان ذلیل لوگوں یعنی( نعوذ باللہ) نبیﷺ اور مسلمانوں کو نکال باہر کریں گے۔
اس کے جواب میں اللہ تعالی نےمنافقین کے سامنے یہ واضح کیا کہ مال کا مالک تو صرف اللہ تعالی ہے،یہ دنیا اور مال کی محبت ہی ہے جو تمہیں نفاق پر ابھار رہی ہے اور حقیقی عزت ،مال و جاہ میں نہیں ہے بلکہ اصل عزت تو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی پیروی میں ہے۔ لیکن منافقین کی بخیلی و نا سمجھی کا یہ عالم ہے کہ اس کھلی حقیقت کو بھی وہ نہیں سمجھ پاتے۔
o آیت9تا11میں مسلمانوں کو منافقین کی بعض صفات سے پرہیز کی دعوت ہے اور قیامت سے پہلے اس کی تیاری کر لینے پر ابھارا گیا ہے۔
جیسے مال و اولاد کی محبت تمہیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کردے۔موت سے پہلے جو کچھ اللہ کی راہ میں صدقہ کرنا چاہتے ہو کر لو۔ورنہ جب موت کی گھڑی آلے گی تو اس وقت موقع نہ ملے گا۔
سورت التغابن
یہ سورت مدنی ہے۔اور اس کا شمار بھی "المسبحات” میں ہے۔
اس کا بنیادی موضوع آخرت او راس کے لئے تیاری ہے، بعض اخلاقی برائیوں کی اصلاح پر زور ہے۔ نیز رسالت پر ایمان اور اطاعت کا بھی ذکر ہے۔
o ابتدائی چار آیتوں میں اللہ کی متعدد صفات کا ذکرکےاس کی عظمت وکبریائی، توحید اور اس کی عظیم قدرت کا بیان ہواہے۔جس سے یہ اشارہ کرنا مقصود ہے کہ اللہ تعالی کی کاریگری بے مقصد نہیں ہے ،بلکہ ان کا مقصد عبادت کی طرف دعوت دیناہے۔
o دوسری آیت میں انسان کی تخلیق کا حوالہ ہے اور اس بات کو واضح کیا گیاہے کہ اس کے پیدا کردہ لوگ دو حصوں میں بٹ گئے؛کچھ ایمان لائے اور کچھ نے کفر کیا۔
o تیسری آیت میں آسمان و زمین کی تخلیق اور انسان کو اچھی صورت دینے کا حوالہ ہے،اور چوتھی آیت میں اللہ تعالی نے اپنی صفت علم اور اس کی وسعت کا ذکر فرمایا ہے کہ وہ تمہارے دلوں کے بھیدوں کو بھی جانتا ہے ۔
o آیت نمبر 5اور 6میں بعض ہلاک شدہ قوموں کا حوالہ دے کر ان کی ہلاکت کا سبب واضح کیا گیا ہے کہ ان کی ہلاکت کا سب سے بڑا سبب رسول کا انکار کرنا تھا ۔
o آیت نمبر 7اور 8میں بڑے زور دار انداز میں قیامت کی حقانیت ، اللہ ، اس کے رسول او ر کتاب پر ایمان لانے کی دعوت دی ہے۔
ان دونوں آیتوں میں دو چیزیں قابل غور ہیں:
1) آیت نمبر 7، ان تین جگہوں میں سے ایک ہے جہاں نبی ﷺ کو قسم کھانے کا حکم دیاہے کہ آپ کہہ دیجئے مجھے میرے رب کی قسم ہے تم ضرور بالضرور دوبارہ اٹھائے جاؤ گے۔
2) یہاں کتاب کے لئے نور کا لفظ استعمال ہوا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سورہ مائدہ آیت نمبر ۱۵میں جس نور کا اللہ کی طرف سے آنے کا ذکر ہے وہاں نور سے مراد کتاب ہی ہے۔
o آیت نمبر 9اور 10میں قیامت کی ہولناکی کا ذکر ہے اور اس دن کو "یوم التغابن” کہا گیا ہے۔
تغابن کا معنی ہے "ہار جیت کا دن” ۔ اس دن جیت ان کی ہوگی جو ایمان لائے اور عملِ صالح کیا اور ہار ان کی ہوگی جنہوں نے کفر کیا اور رسولوں کی تکذیب کی ہوگی۔
تغابن کا اصل معنی ہے: نقصان پہنچانا۔ گویا اہل جنت جنت میں جہنمیوں کی جگہ لے کر انہیں نقصان پہنچائیں گے ۔
o آیت نمبر 10میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ کوئی مصیبت اللہ کی اجازت کے بغیر نہیں پہنچ سکتی،پھر جو اللہ پر ایمان لائے اللہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے،اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔
اس آیت میں تقدیر کا ایک مسئلہ بیان ہوا ہے جس پر غور و فکر کرنا چاہئے۔
o آیت نمبر 12اور 13میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت،اللہ کی توحید کی دعوت اور اس پر توکل کا حکم ہے۔
o آیت12تا18میں اہلِ ایمان کو کچھ اہم نصیحتیں کی گئی ہیں۔
1- سب سے پہلے تو یہ بتایا گیا ہےکہ تمہاری کچھ اوکادیں اولاد او ربعض بیویاں تمہاری دشمن ہیں، کیونکہ وہ خیر کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ لہذاتمہیں ان سے ہوشیار رہنا چاہئے اور غور کرنا چاہئے کہ وہ دشمنی کس قسم کی ہے؟عین ممکن ہے کہ آپ اسے محبت سمجھ رہے ہوں او ر فی الواقع وہ دشمنی ہو۔
2- اس دشمنی کے باوجود بھی ان پر بد دعا کرنے سے روکا گیا ہے۔جس کی طرف اشارہ اس آیت میں ہے،غور کریں ۔
3- تمہارے مال و اولاد تمہارے لئے ایک آزمائش ہیں ، اور اس کا علاج یہ بتایا گیا ہے کہ اس بارے میں حتی الوسع اللہ سے ڈرتے رہو اور مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے رہو ۔
4- کامیابی کی اصل راہ یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کو حرص اور لالچ سے بچا لے۔
o آخری آیت میں اللہ تعالی کی بعض صفاتِ کمال کا ذکر ہے۔اس طرح یہ سورت اللہ کی عظمت کے بیان پر ختم ہوئی جیسے اللہ کی بڑائی سے شروع ہوئی تھی ۔
سورت الطلاق
یہ سورت مدنی ہے۔
اس کا موضوع اس کے نام سے ظاہر ہے۔ یعنی طلاق کا حکم اور اس کا صحیح طریقہ کیا ہے؟ ۔نیز اس ضمن میں عدت اور نان و نفقہ کے بعض مسائل بھی بیان ہوئے ہیں۔
o ابتدائی تین آیتوں میں طلاق کا طریقہ اور اس کے بعض مسائل بیان ہوئے ہیں۔جس کا خلاصہ یہ ہے
1) عورت کو طلاق صحیح او ر شرعا معتبر وقت میں دی جائے۔ یعنی جب حیض سے پاک ہو، حالتِ طہر میں جماع سے پہلے، اور ایک وقت میں ایک ہی طلاق دی جائے۔
2) عدت کے ایام کو شمار کیا جائے۔ تاکہ عدت کے ایام سے متعلق جو مسائل ہیں ان میں گڑ بڑ نہ ہو۔
3) طلاق دینے کے بعد مطلقہ(رجعیہ) کو نہ گھر سے نکالا جائے او رنہ ہی وہ خود گھر سے نکلے۔ الا یہ کہ کوئی عذر ہو۔ جیسے کہ عورت بد اخلاقی کا مظاہرہ کرے۔
4) اگر طلاق اس کے صحیح وقت میں دی گئی ہو اور ایک ہی طلاق دی گئی ہو، اور عورت گھر میں ہی رہے تو اللہ تعالی دونوں میں صلح کی کوئی سبیل پیدا کر دے گا۔
5) عدت ختم ہونے سے پہلے پہلے شوہر اپنی بیوی سے رجوع کر سکتا ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ رجوع کا مقصد نباہ کرنا ہو، تنگ کرنا نہ ہو۔
6) اگر شوہر اپنی بیوی کو رکھنا نہیں چاہتا تو دستور و قاعدے کے مطابق بھلے طریقے سے اسے چھوڑ دے۔
7) طلاق او رجوع پر گواہ بنانا بہتر ہے۔
8) اور سب سے اہم یہ ہےکہ ان تمام معاملات میں میان وبیوی ،دونوں کو اللہ تعالی سے ڈرنے اور اس پر توکل کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ جو کہ قابل غور ہے۔
o آیت نمبر 4اور 5میں اللہ تعالی نے عورتوں کی عدت بیان کی ہے۔ خصوصا عدت کی وہ صورتیں جن کا ذکر سورہ بقرہ میں بیان نہیں ہوا ہے۔ جیسے:
1) حاملہ عورت کی عدت وضع حمل ہے۔
2) بڑی عمر کی عورتیں جن کا حیض بند ہو چکا ہو ، یا وہ عورتیں جنہیں کسی بیماری کے سبب حیض نہ آتاہو۔ان کی عدت تین ماہ ہے۔
3) وہ عورت جو چھوٹی عمر کی ہو اور حیض نہ آیا ہو، یا ویسے ہی کسی بیماری کی وجہ سے انہیں حیض نہ آیا ہو، لیکن رخصتی ہو گئی ہو تو اس کی عدت بھی تین ماہ ہے۔
ان پانچ آیتوں میں چار بار تقوی کا حکم ہے اور تقوی کے فوائد بیان ہوئے ہیں۔ بظاہر اس کی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ میاں بیوی کے تعلقات میں عموما اور خاص کر طلاق کے بارے میں خصوصاً تقوی کو مدِ نظر رکھنےکی بڑی اہمیت ہے۔
اسی مناسبت سے اس مقام پر تقوی کے پانچ فوائد بیان ہوئے ہیں۔
1) اللہ تعالی متقی کے لئے پریشانی اور تنگی سے نکلنے راستہ بنا دے گا۔
2) تقوی اختیار کرنے والے کو اللہ تعالی ایسی جگہ سے رزق دے گا جہاں سے اس کا وہم و گمان بھی نہیں ہوگا۔
3) اللہ تعالی اس کے معاملے کو آسان کر دے گا۔
4) اس کے گناہوں کو مٹا دے گا۔
5) مزید یہ کہ اللہ تعالی متقی کو اجرِ عظیم سے نوازے گا۔
o آیت نمبر 6اور 7میں مطلقہ عورت کے نفقہ وسکنی یعنی خرچ او ر رہائش کی تفصیل بیان ہوئی ہے، جو اس طرح ہے۔
1) مطلقہ رجعیہ کا خرچ اور رہائش شوہر کے ذمے ہے ۔شرط یہ ہے کہ وہ شوہر کے گھر میں رہ رہی ہو۔
2) مطلقہ حاملہ خواہ رجعیہ ہو یا مغلظہ۔ یا وہ حاملہ جس کا خاوند وفات پا چکا ہو، ایسی صورتوں میں پوری مدتِ حمل میں اس کا خرچ اس کے شوہر یا شوہر کے قریبی رشتے داروں کے ذمے ہوگا۔
3) یہ خرچ کی مقدار اور رہائش کا معیارشوہر کی معاشی حالت کے مطابق ہوگا۔ اس کی طاقت سے بڑھ کر نہیں ہوگا۔
4) مطلقہ بائنہ(جس طلاق کے رجوع کی گنجائش یا ارادہ نہ ہو) اگر اپنے بچے کو دودھ پلاتی ہے تو دودھ پلائی کی اجرت شوہر کے ذمے ہے۔
نیزان آیات میں ایک عام شرعی قاعدہ یہ بیان ہوا ہےکہ اللہ تعالی کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر ذمہ داری نہیں دیتا ۔
o آیت8تا12میں سب سے پہلے یہ تنبیہ کی گئی ہے کہ ان قوموں کو یاد کرو جن قوموں نے تم سے پہلے اللہ اور اس کے رسول کے حکم کی خلاف ورزی کی۔اللہ تعالی نے انہیں سخت سزا دی اور آخر کار وہ خسارے کو پہنچ گئے۔ لہذا تم ان تباہ برباد قوموں سے عبرت حاصل کرو۔
o ثانیا یہ رسول جو تمہارے پاس اللہ کے احکام لے کر آیا ہے، اس بارے میں اس کی پیروی کرکے نہروں و باغات والی ابدی جنت کے وارث بن جاؤ۔
o ورنہ اللہ قادر کے علم اور پکڑ سے کوئی دور نہیں ہے،اس نے ہر چیز کا اپنے حکم کے ذریعے احاطہ کر لیا ہے ۔
سورت التحریم:
یہ سورت بھی مدنی ہے۔
اس کا بنیادی موضوع "امہات المومنین ” یعنی نبی ﷺ کی زوجاتِ مطہرات ہیں۔
o ابتدائی پانچ آیتیں نبی ﷺ کی ازواج مطہرات کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔جن کا ایک سبب نزول یہ بیان کیا گیا ہے کہ کسی موقع پر نبی ﷺ نے شہد پینے کو یا اپنی لونڈی کو خود پر حرام کر لیا تھا۔اور جس خاص بیوی (حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا)کی رضا کے لئے ایسا کیا تھا، آپ نے ان سےفرما دیا تھا کہ یہ بات کسی کونہ بتلانا۔ لیکن انہوں نے اس کا تذکرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کر دیا۔اس ضمن میں یہ آیتیں نازل ہوئیں۔
o سب سے پہلے تو نبی کریم ﷺ کو محبت بھرے انداز میں نصیحت کی گئی ہے کہ آپ نے اپنے اوپر وہ چیز کیوں حرام کر لی ہے جسے اللہ نے آپ پر حلال کیا ہے۔لہذا اس بات کو ختم کریں اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کرکے اس چیز کو استعمال کیجئے۔
o پھر نبی ﷺ کی ازواج خصوصا ان دو بیویوں کی سرزنش کی گئی جنہوں نے اس راز کو فاش کیا تھا۔ انہیں یہ ہدایت کی گئی کہ توبہ کریں،کیونکہ یہ تمہاری بہت بڑی غلطی ہے۔یاد رکھو! اللہ تعالی اپنے نبی کی مدد کرنے والا ہے، اور ہوسکتا ہے کہ اگر وہ نبی تمہیں طلاق دے دے تو اللہ تعالی تم سے بہتر بیویاں انہیں عطا فر مادے جن کی صفات بڑی اعلی قسم کی ہوں گی ۔
o آیت6تا8۔ ازواجِ مطہرات کو تنبیہ کرنےکے بعد اللہ تعالی مومنین کو کچھ نصیحتیں فرما رہا ہے، کہ انہیں چاہئےکہ اپنی اور اپنے اہل و عیال کی تربیت پر زور دیں اور وقت آنے سے قبل بچاؤ کا سامان کریں۔
o سب سے پہلے مومنین کو یہ حکم ہوا کہ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے بچائیں۔
اس کی صورت یہ ہے کہ تقوی اختیار کریں اور نیک عمل کرکے جہنم سے بچنے کا سامان کریں۔نیزاپنی اولاد اور ما تحت لوگوں کوبھی دینی تعلیم سے آشنا کرائیں اور انہیں ادب سکھائیں۔
o پھر مزید تنبیہ کرنے کے لئے اس جہنم اور اس کے نگران فرشتوں کی صفات بیان فرمائی کہ جہنم کا ایندھن لوگ اور پتھر ہوں گے ۔ اور فرشتے ایسے جوبڑے ہی طاقت ور،بڑے سخت دل،اپنے رب کے فرمانبردار اور فرمانبرداری میں ذرہ بھی تاخیر کرنے والے نہ ہونگے۔
o پھر اسی مناسبت سے عام کافروں کو بھی خطاب کرکے کہا گیا ہے تم بھی اس آگ سے بچنے کا سامان کرو ،ورنہ آخرت میں تمہارا کوئی عذر قبول نہ ہوگا۔
o نیز عام مسلمانوں کو خالص توبہ کا حکم دیا جس کے سبب اللہ تعالی حشر کے میدان میں جہاں انہیں مغفرت کے پروانے سے نوازے گا وہیں جنت تک پہنچنے کے لئے عظیم نور بھی دے گا ۔
o آیت نمبر ۹ میں کفار ومشرکین سے جہاد اور اس بارے میں سختی سے پیش آنے کا حکم دیا ہے، اور واضح کیا کہ ان دونوں کا ٹھکانا جہنم ہے۔
o سورت کے خاتمے میں اللہ تعالی نے چار عورتوں کی مثالیں بیان کی ہے۔دو عورتوں کی مثال کافروں کے لئے اوردو عورتوں کی مثال مومن بندوں کے لئے۔
o کافروں کے لئے دو مومن بندوں یعنی اللہ کے نبی حضرت نوح ولوط علیہما السلام کی بیویوں کی مثال دی ہے،جنہوں نے دین کے معاملے میں اپنے شوہروں کی مخالفت کی او ر خفیہ طور پر کافروں کی مدد کرتی رہیں۔ ان دونوں کا پیغمبروں کی زوجیت میں ہونا انہیں اللہ کے عذاب سے نہ بچا سکا۔
o اور اہل ایمان کے لئے فرعون کی بیوی حضرت آسیہ بنت مزاحم او ر مریم بتول کی مثال بیان کی ۔
اس مثال سے یہ واضح کیا کہ اگر ایمان اور نبی کی پیروی موجود ہو تو بڑے سے بڑے کافر کی بیوی بھی آخرت میں بلند درجات حاصل کر سکتی ہے۔ گویا ہر ایک کو اس کا اپنا عمل نجات دلانے والا ہے۔
اس سے شاید عام مسلمانوں او ر خصوصا نبی ﷺ کی ازواج مطہرات کو یہ سبق دینا مقصود ومطلوب تھا کہ ایمان اور عمل صالح کے بغیر بڑی او ر چھوٹی نسبت کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔واللہ اعلم۔