بسم اللہ الرحمن الرحیم
سلسلہ خلاصہ معانی قرآن مجید
از قلم : شیخ مقصود الحسن فیضی حفظہ اللہ
اٹھار ھواں پارہ(قد افلح)
اٹھارہویں پارے کے تین حصے ہیں؛پہلا حصہ مکمل سورہ مومنون، دوسرا حصہ مکمل سورہ نور، جبکہ تیسرا حصہ سورہ فرقان کی ابتدائی 20آیات پر مشتمل ہے ۔
سورت المؤمنون
یہ سور ت مکی ہے۔
اس سورت کا موضوع عقیدہ ہے۔ خصوصا موت کے بعد کی زندگی اور توحید پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔
o سورت کی ابتدا میں اہلِ ایمان کی سات اہم صفات بیان ہوئی ہیں، جن کے اہتمام سے ایک صاحب ایمان فلاح ابدی کو حاصل کر سکتا ہے۔جیسے ۱-نماز میں خشوع ۔ ۲-لغو بات سے پرہیز۔ ۳- زکاۃ کی ادائیگی۔ ۴- شرمگاہ کی حفاظت۔ ۵- امانت کی ادائیگی۔ ۶-عہد کی پاسداری ۔ ۷-اور نماز کی حفاظت ۔
1) نماز میں خشوع کے فورا بعد اور زکاۃ سے پہلے لغویات(بے مقصد باتوں یا کاموں ) سے پرہیز کا ذکر ہے،جس سے اولا انسانی زندگی میں اس سےپرہیزکی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے، ثانیا- شاید یہ واضح کرنا مقصودہے کہ نماز میں خشوع کے نہ ہونے کا ایک بہت بڑاسبب لغویات میں مشغولیت بھی ہوتاہے۔
2) نماز کی اہمیت کہ ان صفات کی ابتدا بھی نماز سے کی ہے اور انتہا پر بھی نماز کا ذکر ہے۔ ابتدا میں نماز میں خشوع وخضوع کا ذکر اور آخر میں نماز کی حفاظت کا ذکر ہے۔
o آیت 12تا 22میں انسان کی پیدائش اور کائنات کی متعدد چیزوں کی پیدائش میں آخرت ،اللہ کی قدرت اور مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے پر جو دلائل ہیں ان کا ذکر ہے۔
o ۔انسان کی تخلیق کے سات مراحل ذکر ہوئے ہیں ؛۱-مٹی کے خلاصہ۔ ۲-نطفہ۔ ۳-علقہ۔ ۴-مضغہ۔ ۵-ہڈیاں۔ ۶-ہڈیوں پر گوشت ۔ ۷-اور پھر اس میں روح پھونکنا۔جدید سائنس سے ان تمام مراحل کی مکمل تائید ہوتی ہے۔
o آیت 15، 16 میں یہ واضح کیا گیا کہ جو رب انسان کو پہلی دفعہ پیدا کرنے پر قادر ہے وہ دوبارہ پیدا کرنے پر بھی قدرت رکھاتا ہے ۔
o پھر سات آسمان کی پیدائش اور ان کا انتظام ،پانی کو نازل کرنا اور اسے زمین کی تہ میں محفوظ رکھنا ،پھر اس سے طرح طرح کے پھل و کھیتی کو اگانا ،یہ سب اللہ کی کمال قدرت کی نشانیاں ہیں۔
o اسی طرح حیوانوں کی پیدائش بھی باعث عبرت ہے کہ انسان ان کے دودھ اور گوشت کے علاوہ ان سے طرح طرح کےفائدے حاصل کرتا ہے۔ جیسے سواری کرنا، حیوانوں کے فضلات کو ایندھن بنانا،ان کے چمڑے اور ہڈیوں سے فائدہ اٹھا نا ۔وَلَكُمْ فِيهَا مَنَافِعُ كَثِيرَةٌ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ (21) وَعَلَيْهَا وَعَلَى الْفُلْكِ تُحْمَلُونَ (22) "(دودھ کے علاوہ)ان جانوروں میں تمہارے لئے اور بھی بہت سے فائدے ہیں، انہیں میں سے بعض کو تم کھاتے ہو، ان پر اور کشتیوں پر تم سوار کرائے جاتے ہو”۔
o آیت نمبر 23سے 50تک انبیاء علیہم السلام اور ان کی امتوں کے واقعے بڑے اختصار کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔سب سے پہلے حضرت نوح علیہ السلام کا ذکر خیر ہے۔
o جس میں حضرت نوح علیہ السلام کا اپنی قوم کو دعوت توحید اور اللہ سے ڈرنے کی دعوت ہے۔لیکن قوم کے سرکردہ لوگوں نے یہ کہتے ہوئے انکار کیا کہ یہ تو ہمارے ہی جیسا انسان ہے ، یہ رسول کیسے ہوسکتا ہے ؟ اس کا مقصد تو کچھ اور ہی لگتا ہے۔ پھر نوح علیہ السلام کی طرف سے اللہ تعالی سے دعا کا ذکر ہے ۔ اللہ تعالی طوفان سے محفوظ رہنے کے لئے کشتی بنانے اور اس میں اہلِ ایمان کے سوار کرنے کا حکم دیا ، البتہ ظالموں کے بارے میں کسی بھی قسم کی سفارش سے روک دیا۔ نیز یہ بھی ہدایت دی کہ کشتی پر سوار ہونا تو یہ دعا پڑھنا : فَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي نَجَّانَا مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ (28) وَقُلْ رَبِّ أَنْزِلْنِي مُنْزَلًا مُبَارَكًا وَأَنْتَ خَيْرُ الْمُنْزِلِينَ (29) ” تو کہنا کہ سب تعریف اللہ کے لئے ہی ہے جس نے ہمیں ﻇالم لوگوں سے نجات عطا فرمائی۔اور کہنا کہ اے میرے رب! مجھے بابرکت اتارنا اتار اور تو ہی بہتر ہے اتارنے والوں میں”۔
o اور آخر میں حضرت موسی، ہارون اور عیسی بن مریم علیہم السلام کا ذکر خیر ہواہے۔ ان آیات میں حضرت موسی وہارون علیہما السلام کی طرف سے فرعون کو دعوت دینے، فرعون اور اس کی قوم کے عناد کرنے ، جس کے نتیجے میں ان کی ہلاکت کا بیان ہے۔اور پھر موسی علیہ السلام کو کتاب ہدایت دئے جانے کا ذکر ہے ۔
o حضرتِ مسیح علیہ السلام کی والدہ علیہما السلام کے ہاں بیٹے کی معجزانہ پیدائش اور انہیں کسی بلند مقام پر ٹھکانا فراہم کرنے کا ذکر ہے۔
o حضرت نوح و موسی وعیسی علیہم السلام کے درمیان نام لئے بغیر بعض نبیوں کے قصوں کی طرف اشارہ ہے،جیسے حضرت ہود او ر صالح اور حضرت لوط وغرہم علیہم السلام کے واقعات ۔
o نبیوں کے اس مختصر تذکرے میں چند اہم باتوں کی طرف خصوصی اشارہ ہے۔
1) ہر نبی کی دعوت ایک ہی رہی ہے، کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے۔ يَاقَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ . "اے میری قوم کے لوگو! تم سب اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے”۔ آیت: 23، 32
2) ہر نبی کے مخالفین کو یہی شبہہ رہا ہے کہ ہمارے ہی جیسا کوئی انسان رسول کیسے بن سکتا ہے؟قوم نوح،قوم عاد و ثمود اور فرعون اور ان کے ساتھیوں سب نے یہی کہا ۔
3) وہ لوگ دنیا کی زندگی میں اس قدر مصروف تھے کہ انہیں اپنی آخرت کی کوئی فکر قطعا نہ تھی، بلکہ وہ آخرت کو ایک فرسودہ عقیدہ سمجھتے تھے۔ چنانچہ قوم عاد نے کہا تھا: أَيَعِدُكُمْ أَنَّكُمْ إِذَا مِتُّمْ وَكُنْتُمْ تُرَابًا وَعِظَامًا أَنَّكُمْ مُخْرَجُونَ (35) هَيْهَاتَ هَيْهَاتَ لِمَا تُوعَدُونَ (36) إِنْ هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوثِينَ (37) "کیا یہ تم سے اس بات کا وعدہ کرتا ہے کہ جب تم مر کر صرف خاک اور ہڈیاں رہ جاؤ گے تو تم ہھر زندہ کئے جاؤگے؟، نہیں نہیں دور اور بہت دور ہے وہ جس کا تم وعدہ دئے جاتے ہو۔ یہ تو صرف زندگانیِ دنیا ہی ہے ، ہم مرتے جیتے رہتے ہیں اور یہ نہیں کہ ہم پھر اٹھائے جائیں گے”۔
4) جب قوموں نے اپنے نبیوں کی بات نہ مانی اور ان کا اصرار باطل پر رہا تو سب کا انجام ایک ہی ہوا، یعنی ہلاکت۔
5) اللہ تعالی کی ایک سنت تغییر و تبدیل ہے ۔ یعنی جب کوئی قوم اپنا فریضہ ادا نہیں کرتی تو اللہ تعالی اس کی جگہ دوسری قوم کو کھڑا کر دیتا ہے ۔
o آیت نمبر 51سے 56تک یہ واضح کیا گیا ہے کہ تمام انبیاء کا دین ایک ہی ہے،البتہ آج لوگوں میں جو اختلافات پائے جاتے ہیں یہ ان کی اپنی ذاتی سوچ ہے۔ہر رسول کی تعلیم میں توحید، آخرت پر ایمان ،پاکیزہ روزی کھانا اور رب کی رضا کے لئے عمل صالح کرتے رہنا ۔یہی ان کی بنیادی تعلیم رہی ہے ۔
o لیکن لوگوں نے اس سے منہ موڑ کرکے نئے نئے راستے ایجاد کئے اور انہی میں مگن رہے۔ پھراگر ہم نے انہیں مال و دولت کی فراوانی دی ہے تو یہ کیا سمجھتے ہیں کہ یہ اللہ کا ان پر انعام ہے؟ ہرگز نہیں،یہ ان کے لئے ڈھیل ہے، شاید وہ سیدھے راستے پر آجائیں ۔
o ایک چیز یہاں قابلِ غور ہے کہ حلال کھانے کو عمل صالح پر مقدم کیا ہے،”يَاأَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ (51)” اے پیغمبرو! حلال چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو تم جو کچھ کر رہے ہو اس سے میں بخوبی واقف ہوں”۔
جس کا یہ واضح مطلب ہے کہ عمل صالح کی توفیق اور عمل صالح کی قبولیت کا بڑا دارومدار حلال کھانے پر ہے ۔
o آیت نمبر 57سے 61تک وہ صفات بیان ہوئی ہیں جو ایک سچے مومن میں ہونی چاہئیں۔ اس میں گویا اہل باطل اور دنیا میں مشغول لوگوں کو یہ بتانا تھا کہ اصل کامیاب یہ لوگ ہیں جن میں یہ صفات پائی جائیں:
1) اللہ کا خوف کھانا۔ یعنی وہ لوگ مال و دولت کی فراوانی میں اللہ کو بھول نہیں جاتے۔
2) اللہ کی کونی و شرعی آیات[یعنی کائنات میں پائی جانے والی نشانیوں اور شرعی احکام ] پر ایمان و یقین رکھتے ہیں۔
3) اللہ کے ساتھ شرک نہیں کرتے۔
4) ہر ممکن نیک عمل کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
5) وہ خود پسندی کا شکار نہیں ہوتے ، بلکہ اپنے نیک اعمال کے قبول نہ ہونے سے ڈرتے رہتے ہیں ۔ آیات: 57- 60
o آیت 63تا 82میں کلام کا رخ اہل مکہ کی طرف ہے کہ حقائق واضح ہو جانے کے بعد بھی تمہارا معاملہ غفلت والا ہی ہے،نہ تم قرآنی آیات پر توجہ دیتے ہو اور نہ ہی اپنے اوپر نازل ہونے والے عذاب سے عبرت حاصل کرتے ہو، بلکہ اپنی مجلسوں میں گپ شپ ہی میں اپنا وقت ضائع کرتے ہو۔
o پھر بطور تعجب ، استفہام انکاری کے طور پر ان سے کئی سوال کئے گئے ہیں۔
1) ان لوگوں نے اس کلام پر غور و فکر سے کام نہیں لیا؟۔ "أَفَلَمْ يَدَّبَّرُوا الْقَوْلَ”
2) کیا یہ قرآن کوئی ایسی نرالی بات پیش کر رہا ہے جو ان کے باپ داد نے کبھی نہ سنی ہو؟۔ أَمْ جَاءَهُمْ مَا لَمْ يَأْتِ آبَاءَهُمُ الْأَوَّلِينَ (68)
3) یا انہوں نے اپنے رسول کو پہچانا ہی نہ ہو۔ أَمْ لَمْ يَعْرِفُوا رَسُولَهُمْ فَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ (69)
4) یا ان کا یہ کہنا ہے کہ یہ باتیں کہنے والا کوئی مجنون ہے؟۔ أَمْ يَقُولُونَ بِهِ جِنَّةٌ۔
o پھر خود ہی اللہ تعالی نےجواب دیا ہےکہ یہ ساری باتیں نہیں ہیں، بلکہ اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ حق قبول نہیں کرنا چاہتے، بلکہ حق سے نفرت کر رہے ہیں۔ بَلْ جَاءَهُمْ بِالْحَقِّ وَأَكْثَرُهُمْ لِلْحَقِّ كَارِهُونَ (70)(بلکہ وہ تو ان کے پاس حق لایا ہے ، ہاں! ان میں سے اکثر حق سے چڑھتے ہیں)
o ہم نے انہیں بعض ہلکے عذاب میں مبتلا کیا لیکن ان کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ نہ انہوں نے عاجزی اختیار کی او رنہ ہی حق کے سامنے جھکے۔ وَلَقَدْ أَخَذْنَاهُمْ بِالْعَذَابِ فَمَا اسْتَكَانُوا لِرَبِّهِمْ وَمَا يَتَضَرَّعُونَ (76)(اور ہم نے انہیں عذاب میں بھی پکڑا ، تاہم وہ لوگ نہ تو اپنے پروردگارکے سامنے جھکے اور نہ ہی عاجزی اختیار کی)۔
o انہیں یاد رکھنا چاہئے جب ہم ان پر اپنا عذاب لائیں گے تو اس سے نجات کی کوئی راہ نہ رہے گی۔ حَتَّى إِذَا فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَابًا ذَا عَذَابٍ شَدِيدٍ إِذَا هُمْ فِيهِ مُبْلِسُونَ (77)( یہاں تک کہ جب ہم نے ان پر سخت عذاب کا دروازی کھول دیا تو اسی وقت فورا مایوس ہوگئے۔)
o آیت 78تا 92میں کلام کا رخ پھر اسی مضمون کی طرف پھیر دیا گیا ہے جس کا اس سورت کی ابتداء میں بیان ہوا تھا، یعنی محسوس امور سے موت کے بعد اٹھائے جانے اور اللہ تعالی کے وجود و توحید پر استدلال۔
o چنانچہ اللہ تعالی نے انسان کی توجہ خود اس کی ذات میں موجود نشانیوں کی طرف دلائی کہ اللہ تعالی ہی نے تمہارے اندر سوچنے،دیکھنے او ر سننے کی صلاحیت رکھی ہے۔اس سے کام لے کر سوچو کہ اللہ کے علاوہ کوئی او ریہ کام کر سکتا ہے؟ ۔
o اور وہی ذات ہے جس نے تمہیں پیدا کرکے زمین میں بسایا ہے اور ایک وقت کے بعد تمہیں اپنی طرف بلا لے گا۔ کیا ایسا کرنے والا اللہ تعالی کے علاوہ کوئی اور ہے؟،
o اور وہی ہے جو زندہ کرتا او ر مارتا ہے او راسی نے رات او ردن کی آمد رفت کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔اس پر غور کیوں نہیں کرتے ؟اگر غور کرو گےتو سمجھ سکتے ہو کہ دوبارہ زندہ کرنا اللہ تعالی کے لئے مشکل نہیں ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر قسم کی نشانیاں دیکھ لینے کے بعد بھی تم وہی بات دہراتے ہو جو تم سے پہلی قومیں دہراتی رہی ہیں، کہ مرنے او ر گلنے سڑنے کے بعد ہم دوبارہ کیسے پیدا کئے جائیں گے؟۔بَلْ قَالُوا مِثْلَ مَا قَالَ الْأَوَّلُونَ (81) قَالُوا أَإِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَعِظَامًا أَإِنَّا لَمَبْعُوثُونَ (82)” بلکہ ان لوگوں نے بھی ویسی ہی بات کہی جو اگلے کہتے چلے آئے۔کہ کیا جب ہم مر کر مٹی اور ہڈی ہوجائیں گے کیا پھر بھی ہم ضرور اٹھائے جائیں گے؟”۔
o آیت نمبر 84سے 92تک ان حقائق کا اعتراف کرایا گیا ہے جن کے اقرار کے باوجود وہ شرک میں مبتلا تھے،جیسے یہ زمین اور زمین کی ساری چیزیں کس کی ملکیت ہیں؟آسمان او رعرش عظیم کا مالک اور خالق کون ہے؟ وہ کون سی ذات ہے جس کے اختیارات کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا ؟
o ان میں سےہر ایک سوال کا جواب ان کے پاس اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے کہ یہ سب کرنے والا صرف اللہ ہے۔
o پھر تو سوال ہے کہ تم شرک کیوں کرتے ہو؟۔عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ (92)” وہ غائب وحاضر کا جاننے والے ہےاور جو شرک یہ کرتے ہیں اس سے بالا تر ہے”۔
o آیت 93سے 98تک خطاب کا رخ اللہ کے رسول ﷺ کی طرف ہے، لیکن مراد ہر مسلمان،داعی اور مبلغ ہے، کہ جب لوگ دین کے راستے سے دور ہوں اور سمجھانے کے باوجود حق کے قریب نہ آنا چاہیں تو گویا وہ اللہ کے عذاب کو دعوت دے رہے ہیں۔ لہذا آپ کا موقف یہ ہونا چاہئے:
1) اللہ کے عذاب سے پناہ مانگیں او ریہ کہیں کہ اے اللہ اگر تو ان ظالموں کو عذاب دینا ہی چاہتا ہے تو مجھے اس سے بچائے رکھ۔
2) برائی کا بدلہ برائی سے نہیں بلکہ بھلائی سے دیں۔
3) شیطانی وسوسوں سےبچا اور میرے معاملات میں شیطان کی دخل اندازی سے میری حفاظت فرما۔
o آیت 99اور 100میں کافروں،مجرموں اور حق سے دور لوگوں کی اس وقت کی پریشانیوں کا ذکر ہے جب وہ موت کے قریب ہوں گے، اور عذاب کو آتا ہوا دیکھیں گے تو اللہ تعالی سے مہلت مانگیں گے اور نیک عمل کی تمناکریں گے۔
لیکن نیک عمل کا وقت نکل چکا ہو گا، لہذاجواب میں اللہ تعالی فرمائے گاکہ یہ صرف زبان سےکہنے کی باتیں ہیں ،اگر وہ واقعۃً نیک عمل کرنا چاہتے ہوتے تو ان کو کافی مہلت دی جا چکی ہے۔ كَلَّا إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ (100)” ہرگز ایسا نہیں ہوگا، یہ تو صرف ایک قول ہے جس کا یہ قائل ہے، ان کے پس پشت تو ایک حجاب ہے، ان کے دوباره جی اٹھنے کے دن تک”۔
o آیت 101سے 104تک قیامت کی بعض ہولناکیوں کا ذکر ہے جس سے انسانی وجود کانپ جائے او ر دل دہل جائیں۔ جیسے فرمایا: فَإِذَا نُفِخَ فِي الصُّورِ فَلَا أَنْسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَئِذٍ وَلَا يَتَسَاءَلُونَ (101)” پس جب صور پھونک دیا جائے گا تو اس دن نہ آپس میں رشتے رہیں گے اور نہ ہی آپس میں پوچھ گچھ”۔
o پھر آخرت میں مومن و کافر کے انجام کا ذکر ہے ۔
o کافروں کے اس رسوا کن انجام کا بیان ہے کہ وہ لوگ جہنم میں چیختے او ر واویلا مچاتے ہوئے اور اپنی بدبختی و ظلم کا اعتراف کرتے ہوئے جب اللہ تعالی سے درخواست کریں گے کہ اس بارہمیں یہاں سے نکال لے، اگر پھر ہم نے دابارہ ایسا ہی کیا تو ہم ظالم ٹھہریں گے ،لیکن اللہ تعالی کی طرف سے اس کا جواب صرف یہ ملے گا کہ” قَالَ اخْسَئُوا فِيهَا وَلَا تُكَلِّمُونِ (108)” تم دفع ہو جاؤ اور مجھ سے بات بھی مت کرو۔
o اس موقع پر اللہ تعالی کاروں کو ان کی ایک بڑی غلطی یاد دلائے گا کہ” تم دنیا میں اہل ایمان کا مذاق اڑاتے تھے، او ر جن کا تم مذاق اڑاتے تھے آج میں نے ان کے صبر کے بدلے میں نےانہیں کامیاب قرار دیا ہے "۔ جس سے معلوم ہوا کہ دنیا میں دین و ایمان کی باتوں پر عمل کرنے کی وجہ سے دین سے ناآشنا لوگ جو دینداروں کا مذاق اڑاتے ہیں اس پر صبر کرنا آخرت میں کامیابی کا ایک اہم ذریعہ ہے ۔
o سورت کے اختتام پر مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے پر ایک عقلی دلیل دے کر توحید کی دعوت دی گئی ہے او ریہ بتلایا گیا ہے کہ شرک پر کوئی دلیل نہیں ہے۔ چنانچہ اللہ تعالی فرماتا ہے:أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ (115) فَتَعَالَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ (116) "کیا تم یہ گمان کئے ہوئے ہو کہ ہم نے تمہیں یوں ہی بیکار پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹائے نہیں جاؤگے؟ اللہ سچا بادشاہ ہے اور وہ بڑی بلندی والا ہے ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہی بزرگ عرش والا ہے”۔
o آخری دو آیتوں (117، 118)میں یہ واضح کیا گیا کہ کافروں کے لئے ناکامی کی وجہ یہ ہے کہ وہ بلا دلیل و برہان شرک میں مبتلا ہیں، لہذا اے نبی !آپ اپنے رب سے جڑے رہیں تا کہ ان بد بختوں جیسے نہ بن جائیں۔
o سورت کی ابتدا "قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ (1)” سے ہوئی ہے، اور ” إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الْكَافِرُونَ (117)” پر ختم ہورہی ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مکمل اورحقیقی کامیابی اہلِ ایمان کے لئے ہے اور اہلِ کفر اس کامیابی سے محروم رہیں گے۔
سورت نور
یہ سورت مدنی ہے اور غزوہ بنی مصطلق کے بعد نازل ہوئی ۔
اس سورت کا بنیادی موضوع عفت اور پاکبازی ہے، اور اسی سے متعلق زیادہ گفتگو ہے۔نیزان اسباب ووسائل کا ذکر ہے جن کا اہتمام کرنےسے کوئی معاشرہ ایک پاکیزہ معاشرہ بن سکتا ہے۔
o اس سورت کی پہلی آیت بطور تنبیہ ہے کہ اس میں خاص احکام بیان ہوئے ہیں جو اللہ تعالی کی طرف سے متعین اور لازم کردہ ہیں۔لہذا انہیں ایسے نہ لیا جائے جیسے کسی او رانسان کی باتوں کو لیا جاتا ہے۔
o آیت 2سے 10تک زنا سے متعلقہ احکام کا ذکر ہے ،کیونکہ کسی بھی معاشرے کے فسادکا بہت بڑا سبب یہی گناہ ہے ۔
o چنانچہ اس تعلق سے یہاں کچھ اہم باتوں کا ذکر ہے:
1) زنا کی حد بیان کی گئی ہے کہ غیر شادی شدہ مرد و عورت کو 100 کو ڑے عام لوگوں کے سامنے مارے جائیں۔
2) کسی پاکباز شریف عورت (یا مرد ) پرزنا کی تہمت کی حد 80 کو ڑے رکھی گئی ہے۔اور اس کے ساتھ ساتھ ایسے شخص کی ہر قسم کی گواہی کو عدالت میں رد کر دیا جائے گا ۔
3) اگر ایسے لوگ توبہ کرکے اپنی اصلاح کرلیتے ہیں تو ان کی توبہ تو قبول کرلی جائے گی ،البتہ ان کی شہادت کی قبولیت پھر بھی محل نظر رہے گی۔
4) اگر کوئی شخص اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگاتا ہے او راس کے پاس چار گواہ نہیں ہیں، تو اس صورت میں حد لعان کا حکم ہےکہ شوہر چار بار قسم کھا کر کہے کہ میں نے جو تہمت لگائی ہے اس میں میں سچا ہوں، اورپانچویں بار کہے گااگر میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر اللہ کی لعنت ہو ۔
o اسی طرح عورت بھی چار بار قسم کھا کر کہے گی کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے،اور پانچویں بار کہے گی کہ اگر یہ سچ بول رہا ہے تو مجھ پر اللہ کا غضب ہو ۔
o آیت 11تا 26میں ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر زنا کی تہمت لگائے جانے کے واقعہ کا ذکر ہے ۔ جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا کہ اسے برا نہ سمجھو ، بلکہ اس میں تمھارے لئے خیر کے بھی بہت پہلو ہیں۔
o اس سلسلے میں مسلمانوں کو بہت سی قیمتی نصیحتیں کی گئی ہیں:
1) ان صحابہ کی تعریف کی گئی ہے جنہوں نے سنتے ہی اس واقعے کو جھٹلایا اور بعید از عقل وقیاس قرار دیا۔ جیسے حضرت ابو ایوب انصاری اور ان کی بیوی رضی اللہ عنہما۔آیت:12۔
اس سےمسلمانوں کو یہ سبق دینا ہے کہ کسی پاکباز او ر شریف مسلمان عورت کے بارے میں اچھا گمان رکھنا چاہئے۔
2) ان مسلمانوں کو تنبیہ کی گئی ہے جو منافقین کی باتوں میں آکر تہمت والی باتوں میں شریک ہو گئے تھے۔
3) اس بات پر تنبیہ کہ کسی مسلمان عورت پر تہمت بہت بری و قبیح حرکت ہے۔ ایسا شخص حقیقی معنوں میں جھوٹا اور اللہ کے نزدیک سخت عذاب کا مستحق ہے۔
4) مسلمانوں کو یہ تنبیہ کی گئی کہ جو لوگ مسلم معاشرہ میں برائی پھیلانے کا سبب بنیں ان سے بچیں۔ کیونکہ ان کے لئے اللہ کا بڑا عذاب ہے۔
5) اہل ایمان کو شیطان کی چالوں سے دور رہنے کا حکم ہے۔ کیو نکہ اس کا کام ہی برائی کو عام کرنا ہے۔آیت:21
6) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خصوصا او ر مسلمانوں کو عموما یہ سبق دیا گیاہے کہ قریبی رشتہ داروں سے ان کی غلطیوں پر درگزر کیاکریں ۔
7) کسی سیدھی سادھی مومنہ او ر پاکباز عورت پر زنا کی تہمت لگانا دنیا وآخرت میں اللہ کی لعنت اور اس کی طرف سے دردناک عذاب کا سبب ہے۔
o آیت نمبر 26 پورے واقعہ پر تبصرہ ہے اور اس میں ایک نفسیاتی حقیقت بیان کی گئی ہے کہ خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لائق ہوتی ہیں اور خبیث مرد خبیث عورتوں مناسب ہوتے ہیں ۔ اس کے برخلاف پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے لائق ہوتی ہیں اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لئے مناسب ہوتے ہیں۔ جس سے یہ اشارہ مقصود ہے کہ اگر (ام المومنین ) عائشہ میں خباثت کا ادنی سا بھی شائبہ ہوتا تو نبیﷺ جیسے پاکیزہ مرد کے عقد میں سالوں سے کیسے رہ سکتی تھیں۔
o آیت 27تا 29میں کسی کے گھر میں داخل ہونے کے آداب کا بیان ہے:
1) کسی کے گھر جانا ہو تو اجازت لے کر اور سلام کر کے جائیں۔
2) اگر گھر اور کمرے میں کوئی نہ ہو تو بلا اجازت داخل نہ ہوں۔
3) اگر کسی کے یہاں زیارت کے لئے جائیں اور اس نے اجازت نہ دی تو واپس ہو جائیں اور ناراض نہ ہوں۔
4) اگرکوئی ایسا گھر ہے جہاں آپ کو جانے کی ضرورت ہے یا آپ کاکوئی سامان ہے اور اس میں کوئی نہیں ہے تو اس میں بلا اجازت داخلے کی اجازت ہے۔جیسے مسافر خانہ یا مہمان خانہ وغیرہ(بشرطیکہ وہ مہمان خانہ گھر کی حدود سے باہر ہو)۔
o آیت 30میں مسلمانوں کو نگاہیں پست رکھنے اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے کا حکم ہے۔
نگاہ کی حفاظت کا حکم پہلےہے ،کیونکہ اس کے بغیر شرمگاہ کی حفاظت ممکن نہیں ہے۔
o آیت 31میں عورتوں کو نگاہیں پست رکھنے اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے کا حکم ہے،اور اجنبی مردوں کے سامنے اپنی زیب و زینت کو ظاہر کرنے سے روکا گیا ہے ۔
o پھر ان بارہ مردوں کا بھی ذکر ہے جن کے سامنے عورتیں اپنی زیب و زینت کو ظاہر کر سکتی ہیں،جیسے شوہر،باپ،سسر،شوہر کے بیٹے،اپنے بیٹے،بھائی ،بھتیجے،بھانجے،(مسلمان )عورتیں،زرخرید غلام،نابالغ بچے اور وہ لوگ جن کے اندر جنسی خواہشات نہیں ہیں۔
o اسی آیت میں عورت کو کسی بھی ایسی حرکت سے روکا گیا ہے جس سے اس کی پوشیدہ زینت کا علم ہو سکتا ہو۔جیسے پیر پٹخنا،چوڑی بجانا ، خوشبو لگانایا نرم و شیریں آواز سے بات کرنا۔
o آیت 32تا 34میں نکاح اور شادی وغیرہ سے متعلق کچھ اہم تعلیمات دی گئی ہیں:
1) بیوہ عورتوں اور غیر شادی شدہ مردوں و عورتوں کو شادی کی ترغیب دلائی گئی ہے اور یہ کہ کسی کی غربت شادی میں رکاوٹ نہیں بننی چاہئے۔
2) جو شادی کے لئے کوئی وسائل نہ پاتے ہوں انہیں پاکیزگی اور شرافت کی زندگی بسر کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔
3) غلاموں کو غلامی سے آزادی حاصل کرنے پر مدد کی تاکید کی گئی ہے۔
4) اس بات پر شدید مذمت کی گئی ہے کہ لونڈیوں کو زنا پر ابھارا جائے ۔
گویا زنا اور اس کے اسباب کو ذریعہ معاش بنانے کی شدیدممانعت ہے۔
o آیت 35تا 40میں اللہ کے نور ،اس کی مثال اور اس سے فائدہ اٹھانے والے اور نہ اٹھانے والوں کی مثال بیان کی گئی ہے۔
o اللہ کی ذات ہی نور کا مصدر و سبب ہے او ر وہ اپنی ہدایات او ر کتابوں کی شکل میں نور کو نازل فرماتا ہے۔پس جو کوئی اس نور کو قبول کر لیتا ہے وہ کامیاب اور روشنی میں ہوتاہے اور جو اسے قبول نہیں کرتا وہ ظلمت و تاریکی میں بھٹک رہا ہوتا ہے۔
o آیت 36—38 میں اللہ تعالی نور کے حصول کی جگہ اور اللہ کے نور سے مستفید ہونے والے لوگوں کی صفات کا بیان ہے۔
o یہ نور ان گھروں میں ، یا اس نور کے حامل ان گھروں میں رہتے ہیں جنہیں اللہ کا گھر(مسجد) ہونے کا شرف حاصل ہے۔ اسی لئے اللہ تعالی نے مسجدوں کے احترام اور ان کی تقدیس کا حکم دیا ہے اور یہ تاکید کی ہے صبح وشام ان میں اللہ کا ذکر کیا جائے۔
o اس نور سے فائدہ اٹھانے والوں کی صفات یہ ہیں ۔
1- تجارت وخرید وفروخت انہیں اللہ کی عبادت سے مشغول نہیں کرتی۔
2- نماز کا اہتمام کرتے ہیں۔
3- زکاۃ ادا کرتے ہیں۔
4- قیامت کے دن( جس دن آنکھیں پلٹ جائیں گی) اس دن سے ڈرتے رہتے ہیں ۔
o نور سے محروم لوگوں کی دو مثالیں دی گئی ہیں ۔ ایک ان لوگوں کی جو کفر پر ہونے کے باوجود کچھ نیک عمل کرتے ہیں اور اپنے مذہب کو پھیلانے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ دوسرے وہ کافر ہیں جن کی زندگی اور حیوان کی زندگی میں کوئی فرق نہیں ہے ، وہ آخرت کے لئے نہ کچھ کرتے ہیں اور نہ سوچتے ہیں۔
o پہلی قسم کے کافروں کی مثال اس پیاسے جیسی ہے جو دور سے سراب[ چمکتی ہوئی] کو دیکھتا ہے تو اسے پانی سے بھرا ہوا ایک تالاب سمجھتا ہے ۔ لیکن جب وہاں پہنچتا ہے تو اسے مایوسی کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آتا۔
یہی مثال اس کافر کی ہے کہ جو یہ تو سمجھتا ہے کہ آخرت کی طرف نیک عمل لے کر بڑھ رہا ہے، لیکن چونکہ اس نے اللہ کے دئے ہوئے نور سے فائدہ اٹھا کر نیک عمل نہیں کیا ، لہذا جب وہ قیامت کے دن اللہ کے حضور پیش ہوگا تو اس کے سارے اعمال بے کار جائیں گے اور سخت عذاب کے علاوہ اسےکچھ ہاتھ نہ آئیگا۔
o دوسری قسم کے کافرکی مثال اس شخص کی سی ہے جو سمندر کی تہ میں ہے،اوپر لہروں پر لہروں کی تاریکی ہے، پھر اس پر مزید یہ کہ گھنے بادل چھائے ہوئے ہیں، ان سب کی تاریکی ہے۔ ظاہر بات ہے کہ ایسے میں اگر کوئی شخص اپنے ہاتھ کو اپنی نظروں کے قریب سےقریب لے جائے ، پھر بھی اسے اپناہاتھ نظر نہ آئے گا ۔
یہ مثال ہے اس کافر کی جو عقیدے کی تاریکی ،عمل کی تاریکی اور اپنے قول کی تاریکی میں ڈوباا ہوا ہے ۔
o آیت 35تا 40میں اس کائنات میں موجود اللہ تعالی کے خالق ہونے او راس کی وحدانیت کی کئی نشانیوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جو اس کےاپنے وجود و توحید کی گواہی دیتی ہیں۔لیکن دلائل کو وہی محسوس کرسکتا ہے جسے اللہ تعالی نے نور دیا ہو۔ ورنہ صرف علمِ جیولوجی اور علمِ زیولوجی کی قوت سے اسے نہیں سمجھا جا سکتا ۔
o پہلی دلیل- آسمان و زمین کی ہر چیز حتی کہ پر پھیلائے ہوئے پرندے جو فضا میں اڑ رہے ہیں وہ اللہ کے دئیے ہوئے نور سے ہدایت لے کر اس کی تسبیح و تحمید میں مشغول رہتے ہیں، ۔
o دوسری دلیل۔ اللہ کا بادلوں کو چلانا ،پھر انہیں ملا دینا، اس کے بعد انہیں تہ بتہ کر دینا، پھر اس میں سے مینہ برسانا، یہ جان لینا ایسی نشانی ہے جو اللہ کی قدرت کاملہ کی شہادت دے رہی ہے۔ اس منظر پر ہی غور کرلیں تو یہ ایسی چیز ہے جس کی یہ خوبصورت جانکاری عہد رسالت میں ممکن نہ تھی ۔
o تیسری دلیل- رات ودن کی پیدائش اور اس میں رد وبدل، یعنی کبھی دن بڑے اور راتیں چھوٹی اور کبھی راتیں بڑی اور دن چھوٹے۔ یہ سارے کام اللہ کی کمال قدرت کی دلیل ہیں ۔
o چوٹھی دلیل ۔ ہر جانور کو اللہ تعالی نے پانی سے پیدا فرمایا، پھر ایک ہی چیز سے پیدا ہونے والے جانور مختلف شکل کے ہیں۔ کوئی پیٹ پر چلتا ہے ، کوئی دوپیر کے سہارے چلتا ہے اور کوئی چار پیر سے۔ یہ بھی اس کی قدرت کاملہ کی دلیل ہے ۔
o آیت 47تا 54میں منافقین کی بعض کمینی حرکتوں سے پردہ اٹھا کر انہیں نبی ﷺ پر سچا ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے ۔
ہوتا یہ تھا کہ منافق رسول اللہ ﷺ اور کتاب الہی کے اس فیصلے کو بڑی خوشی سے قبول کر لیتے تھے جس میں انہیں اپنا کوئی فائدہ نظر آتا تھا، لیکن ان احکام و قوانین سے منہ موڑ لیتے تھے جن میں انہیں اپنا بظاہر کوئی نقصان نظر آتا تھا۔ انہیں اللہ کے رسول کی اطاعت کی دعوت دی گئی ہے اور واضح کیا گیا ہےکہ ہدایت رسولﷺکی مکمل اطاعت ہی میں ہے۔
o نیز سچے اور حقیقی مسلمانوں کی یہ علامت بیان کی گئی ہے کہ ان کاپہچان یہ ہوتی ہے کہ وہ اللہ اور اس کے ہر فیصلے کو برضا ورغبت قبول کرتے ہیں، ہر معاملے میں اللہ اور اس کے رسول کے مطیع رہتے ہیں، اللہ کے خوف سے متصف ہوتے ہیں اور تقوی ان کا شعار ہوتا ہے۔ آیت: 52، 53
o منافقین کو تنبیہ کی گئی ہےکہ جھوٹی قسمیں کھا کھاکر اپنی طاعت شعاری ثابت کرنے کی کوشش نہ کریں ، بلکہ عملی اطاعت کے ذریعے یہ ثابت کریں کہ وہ اس دین کے خیر خواہ ہیں۔
o اور منافقین کو یہ تنبیہ بھی کی گئی کہ تمہارے لئےیہی بہتر بھی ہے کہ اللہ کے رسول کی اطاعت کرلو ، کیونکہ ہدایت کی واحد راہ اس رسول کی اطاعت ہے۔ ورنہ رسول کا کام صرف پیغام رسانی ہے۔ وَإِنْ تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ (54)”ہدایت تو تمہیں اسی وقت ملے گی جب رسول کی اطاعت کروگے، سنو! رسول کے ذمے تو صرف صاف طور پر پہنچانا ہے”۔
o ہجرت کے بعد ہی سے مسلمان سخت خوف وہراس کے شکار تھے، سارا عرب ان کے خلاف اکٹھا تھا ۔ ایسے وقت میں وہ بڑی ہی بد امنی اور پریشانی کی زندگی گزار رہے تھے۔ آگے کی آیت میں اللہ تعالی نے ان سے وعدہ کیا ہے اور یہ تسلی دی ہے کہ اب وہ وقت دور نہیں ہے کہ اللہ تعالی ان کے دین کو غلبہ دے گا،انہیں اس روئے زمین پر حکومت دے گا او ران کے خوف کو امن میں بدل دے گا۔لیکن اس کے لئے انہیں درج ذیل کام کرنے ہوں گے:
1) اللہ کی عبادت اخلاص کے ساتھ کرنا(عمل صالح کرنا)۔
2) شرک سے پرہیزکرنا۔
3) نماز قائم کرنا۔
4) زکاۃ کی ادائیگی کرنا۔
5) اور رسول ﷺ کی اطاعت کرنا ۔
o آیت 58تا 60میں پردے اور حجاب کے کچھ بقیہ احکام ذکر کئے ہیں۔
1) وہ لوگ جو تمہارے زیر دست ہیں یعنی غلام و لونڈی او ر نابالغ بچے ،تمہارے پاس ہر وقت آ جا سکتے ہیں سوائے تین اوقات کے؛ عشاء کے بعد ،فجر سے پہلے اور دوپہر میں قیلولہ کے وقت۔
2) یہ حکم ان کی بلوغت سے پہلے کا ہے، بلوغت کے بعد ہر شخص کی طرح ان کو بھی تمہارے خاص کمرے میں جانے کے لئے اجازت کی ضرورت ہے۔
3) وہ عورتیں جو بہت زیادہ بوڑھی ہو چکی ہوں یعنی وہ اپنی عمر کے اس حصے میں پہنچ چکی ہوں کہ جس میں ان کو دیکھ کر کسی کوان سے شادی یا کوئی جنسی تعلق قائم کرنے کا خیال دل میں نہ آسکے،تو ایسی عورتوں کو اپناپردہ یعنی اضافی لباس اتارنے کی اجازت ہے۔ البتہ اس حالت میں زیب و زینت کا اظہار نہیں کریں گی۔لیکن اس حالت میں بھی اگروہ پردہ کریں تو یہی بہتر ہے۔
4) البتہ مرد خواہ وہ بوڑھا ہو یا جوان اس سے ہر حال میں پردہ ہے۔
o آیت 61میں اس خاص حالت کی طرف اشارہ ہے کہ جب صحابہ کرام جہاد پر جاتے تو اپنے کسی قریبی معذور یا کمزور کو اپنے گھر کی ذمہ داری سونپ کر جاتے، جیسا کہ آج بھی ایسا ہوتا ہے۔تو جسے گھر کی ذمہ داری سونپی گئی ہوتی تھی وہ ضرورت کے باوجود اس میں سے کچھ کھانے او رگھر کی کسی چیز کے استعمال سے پر ہیز کرتا تھا،جس سے اسے پریشانی ہوتی تھی۔
o اس کا ازالہ کرتے ہوئے اللہ تعالی نے انہیں اجازت دی کہ ان حالات میں ان کے لئے وہاں سےکھانے میں کوئی حرج نہیں ، بلکہ اللہ تعالی نے اپنے گھر کے ساتھ دس ایسے گھر شمار کرادئے جہاں سے کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
o 1- باپوں کے گھر۔ 2- ماؤں کےگھر۔ 3- بھائیوں کے گھر۔ 4- بہنوں کے گھر۔ 5- چچاؤں کے گھر۔ 6-پھوپھیوں کے گھر۔ 7- مامؤوں کے گھر۔ 8- خالاؤں کے گھر۔ 9- وہ گھر جو زیر نگرانی ہو۔ 10- دوست کے گھر ۔
o اسی ضمن میں کھانے کا ایک ادب یہ بھی بتلایا گیا کہ آدمی تنہا کھائے یا جماعت کے ساتھ کھائے دونوں طرح جائز ہے۔
o اسی آیت کے آخر میں اللہ تعالی نے بندوں کےاپنے گھروں میں داخلے کا ایک ادب بیان کیا ہے کہ گھر میں داخلے کے وقت اپنے اہل خانہ کو سلام کیا جائے۔ حتی کہ اگر گھر میں کوئی بھی نہ ہو تب بھی سلام کرکے ہی داخل ہونا چاہئے۔
o سورت کے آخر میں نبی ﷺ کے مقام کو واضح کیا گیا ہے کہ رسول کا احترام ضروری ، آپ کی تعظیم فرض ، آپ کی اطاعت واجب اور آپ کی مخالفت قطعا جائز نہیں ہے۔ اس سلسلے میں مسلمانوں کو کچھ اہم ہدایات دی گئی ہیں۔
1) اگر کسی اہم معاملے میں شامل ہونے کے لئے رسول تمہیں بلائے تو اولا بلا چون و چراں ان کی بات پر لبیک کہو ،ثانیا وہاں سے ان کی اجازت کے بغیر نہ جاؤ۔
2) رسول کو خطاب کرتے وقت وہ اسلوب اختیار نہ کرو جو اسلوب آپس میں ایک دوسرے کو خطاب کے وقت اختیار کرتے ہو۔
3) رسول اگر تمہیں کوئی آواز دیں تو اس کی حیثیت وہ نہیں ہے جو تمہارےایک دوسرے کو بلانے کی ہوتی ہے،بلکہ ان کی آواز پرفوراً لبیک کہنا ہر حال میں واجب ہوتا ہے ،حتی کہ اگر کوئی (نفل)نماز ہی کیوں نہ پڑھ رہا ہو۔
4) رسول کی مخالفت سے بچنا چاہئے، کیوں کہ اس سے فتنے میں پڑنے کا خطرہ ہوتا ہے ۔یا اللہ کی طرف سے عذاب پہنچ سکتا ہے۔
5) رسول کے حکم سے پیچھا چھڑانے کے لئے حیلہ سازی اور بہانہ بازی منافقوں کا طریقہ ہے ۔
o آخری آیت میں اللہ تعالی کے علم و ملکیت و قدرت کا حوالہ دے کر اللہ تعالی منافقین کو تنبیہ کی ہے کہ یاد رکھو! آسمانوں اور زمینوں کی طرح تمہارا بھی مالک اللہ تعالی ہے، لہذا تمہارے لئے بھی اس کی نافرمانی قطعا جائز نہیں ہے، اور یہ بھی یاد رکھو کہ تم جس حال میں بھی رہتے ہو، اللہ کو اس کی پوری خبر ہے اور آخر ایک دن اس کے حضور پیشی ہونی ہے جہاں سارے راز سر بستہ کھل جائیں گے۔
سورت فرقان
یہ سورت مکی ہے۔
مکی سورتوں کی طرح اس سورت کا موضوع بھی عقیدہ ہے ۔خصوصا رسالت او ر قیامت پر ایمان وغیرہ ۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مشرکین کی طرف سے نبی ﷺ پر جواعتراضات تھے ان کے جواب کے لئے یہ سورت نازل ہوئی ہے۔
o اس سورت کی ابتداء میں قرآن او ر قرآن کے نازل کرنے والی ذات کا بابرکت ہو نا بیان کیا گیا ہے۔
o اس طرح گویا یہ واضح کیا گیا ہے کہ قرآن برکتوں والے رب کی طرف سے نازل ہوا ہے ،یہ کسی انسان کا قول نہیں ہے۔ نیز اس قرآن کے نزول کا مقصد لوگوں کو شرک او ر اپنے خالق کی نا فرمانی سے ڈرانا ہے۔
o آیت 2اور 3میں اللہ کی عظمت اور اس کی وحدانیت کا بیان ہے جس کے اثبات کے لئے یہ قرآن نازل ہوا ہے ، نیزباطل معبودوں کی تردید ہے۔گویا جو خالق و مالک اور نفع نقصان کا مالک ہے وہی عبادت کے لائق ہے۔
o آیت نمبر 4تا 9میں کفار کے ان اعتراضات کا جواب ہے جو وہ نبی ﷺ پر کرتے تھے۔
1) ان کاپہلا اعتراض یہ تھا کہ قرآن اللہ کا نازل کردہ نہیں ہے بلکہ یہ پہلے لوگوں کی بے سند کہانیاں ہیں،اور خودمحمد[ﷺ] کے کچھ افکار و خیالات ہیں جنہیں یہ دوسروں کی مدد سے جمع کرکے اللہ کی طرف منسوب کر رہا ہے۔
اس کا جواب اللہ تعالی نے یہ دیا کہ ایسا نہیں ہے ، اس بارے میں غور توکرو کہ کیا اس کی کوئی بات خلاف واقعہ ہے؟ جس اللہ نے یہ کتاب نازل کی ہے وہ ماضی ، حاضر و مستقبل اور ظاہر وپوشیدہ ہر چیز سے واقف ہے ،تو اس میں کسی بات میں کمی کوتاہی کیسے ہوسکتی ہے، اگر تمہیں یہ شبہہ ہے کہ یہ محمد(ﷺ) کا گھڑا ہوا کلام ہے تو اس جیسی کوئی ایک سورت ہی لا کر پیش کرو ۔ قُلْ أَنْزَلَهُ الَّذِي يَعْلَمُ السِّرَّ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِنَّهُ كَانَ غَفُورًا رَحِيمًا (6) ” کہہ دیجئے کہ اسے اس اللہ نے اتارا ہے جو آسمان وزمین کی تمام پوشیدہ باتوں کو جانتا ہے۔ بے شک وہ بڑا ہی بخشنے والا مہربان ہے”۔
2) دوسرا اعتراض یہ تھا کہ یہ کیسا رسول ہے جو کھاتا پیتا ہےاور بازاروں میں سودا سلف لینے کا محتاج ہے۔یہ رسول ہوتا تو اس کی مدد کے لئے کو ئی فرشتہ آتا، یا اسے کوئی خزانہ ملا ہوتا ،یا اس کے باغات وغیرہ ہوتے، تاکہ یہ دنیا کے مشاغل سےبے نیاز ہوتا ۔
3) نیز ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس پر جادو کیا گیا ہے۔
اس کا جواب اللہ تعالی نے یہ دیا کہ انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثَالَ فَضَلُّوا فَلَا يَسْتَطِيعُونَ سَبِيلًا (9)”دیکھو! یہ آپ کیلئے کیسی کیسی باتیں بناتے ہیں ، پس جس سے خود ہی بہک رہے ہیں،اور کسی طرح راہ نہیں پا رہے ہیں ” ۔
o آیت 10سے ان مشرکین کے اعتراضات کاتفصیلی جواب ہے۔
o جو لوگ رسول کی بشریت پر اور اس کے محتاج ہونے پر اعتراض کرتے ہیں ، اس کا جواب یہ ہے کہ اگر اللہ تعالی چاہتا تو اپنے رسول کے لئے ان کی پیش کردہ چیزوں سے بہتر عطا فرماتا، لیکن اس کی مصلحت یہی ہے کہ اس کا رسول غریبوں اور مسکینوں کی صف میں رہیں۔
o نیز ان کے اس اعتراض کی اصل وجہ یہ ہے کہ وہ آخرت کو جھٹلاتے ہیں او راس پر ایمان ہی نہیں رکھتے۔
o اسی مناسبت سے اللہ تعالی نے ان کافروں کو جہنم میں سخت عذاب کی دھمکی دی او راس عذاب کا ایک ہیبت ناک منظر بھی پیش کردیاہے۔ جب انہیں اس میں جکڑ کر پھینک دیا جائے گا تو وہاں شدت عذاب کی وجہ سے موت کو پکاریں گے، لیکن ان سے کہا جائے گا کہ اب صرف ایک موت کونہیں ،موت پر موت کو آواز دو پھر بھی تمہیں جہنم کے انواع واقسام کے عذاب سے چھٹکارا نہیں ہے۔ آیت:13، 14
o آیت 15، 16 میں جنت کی بعض نعمتوں اور جنتیوں کے حسن انجام کا ذکر ہے۔ جیسا کہ قرآن کا یہ اسلوب ہے کہ جہاں جہنم کا ذکر ہوتا ہے وہیں تقابل کے طور پر جنت کا بھی ذکر کر دیا جاتا ہے۔
o آیت 17اور 18میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ آج یہ مشرکین جن نیک ہستیوں پر اعتماد کئے ہوئے ہیں اور ان کی شفاعت کے قائل ہیں، قیامت کے دن جب اللہ تعالی عابد و معبود دونوں کو حاضر کرے گا تو ان کے معبود انہیں جھوٹا کہیں گے اور ان سے براءت کا اظہار کریں گے ۔ ان کے معبود کہیں گے یہ خود نمک حرام تھے۔
o آیت نمبر 18اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ مکہ کے مشرکین صرف بتوں کو نہیں بلکہ اولیاء و صلحاء کو بھی پوجتے تھے
o آیت نمبر 20میں نبیﷺپرمشرکین کے اس اعتراض کا جواب ہے کہ "اگر یہ رسول ہوتے تو عام انسانوں کی طرح کھاتے پیتے نہیں”۔
اس کے جواب میں اللہ تعالی نے یہ واضح کیا کہ یہ محمد ﷺ ہی نہیں بلکہ ہم نے ان سے قبل کے تمام نبیوں کو کھانے پینے والا اور بازاروں میں خرید و فروخت کرنے والا ہی بنایا تھا، لہذا یہ کوئی وجیِ اعتراض نہیں ہے۔ نیز ہم رسولوں کو عموما کم مال اس لئے دیتے ہیں تاکہ ہم لوگوں کو آزمائیں۔