اٹھا رہواں سال /18:درس نمبر

بسم اللہ الرحمن الرحیم

18:درس نمبر

خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط

اٹھا رہواں سال   

نبوت کے 23 سال23درس

سلسلہ مختصر سیرت النبی ﷺ / رمضان 2013

ہجرت کا پانچواں سال :

غزوہ ذات الرقاع ، محرم ؁   5 ھ  : نبی ﷺ کو اطلاع ملی کی مقام نخل  میں [ جہاں  آج شہر الحناکیہ واقع ہے ]  بنومحارب ، بنو ثعلبہ کے بدوی قبائل  مدینہ منورہ  پر حملہ آور ہونے کے لئے  فوجیں  اکٹھا کررہے ہیں ، قبل اس کے کہ وہ  جمع ہوکر مدینہ منورہ  پر حملہ آور ہوں  نبی ﷺ نے ان پر اچانک دھاوا بولکر  تتر بتر  کردیا ، چونکہ اس غزوہ میں مسلمانوں کو پتھریلی زمین پر چلنا  پڑ رہا  تھا  اور ان کے پیر زخمی ہورہے تھے  تو انہوں نے اپنے پیر میں رقاع یعنی کپڑے کے چتھڑے  لپیٹ لئے تھے  ، اس لئے اس  کا نام ذات الرقاع  پڑگیا ۔ اس جنگ سے واپسی میں دو بڑے  واقعات پیش آئے ۔

[۱] اس بدوی کا واقعہ  جو آپ کو غافل پاکر  آپ  کی تلوار  پر قبضہ کرلیا تھا ور آپ کو قتل کی دھمکی  دے رہا تھا ، لیکن آپ کا خوف اس کے دل پر ایسا طاری ہوا کہ اس کے ہاتھ سے تلوار  گرگئی  ، پھر آپ نے اسے معاف کردیا ۔ { صحیح بخاری : 4136 – صحیح مسلم : 843 } ۔

[۲] اس غزوہ سے واپسی  میں  نبی ﷺ نے ایک جگہ قیام کیا جہاں  پہر ا دینے  کے لئے  دو صحابی  عمار بن یاسر اور عباد بن بشر  تیار ہونے  ، ان میں  سے ایک صحابی  رات کو نماز پڑھ  رہے تھے  تو دشمن  انہیں تیر مارا وہ اپنی نماز میں مشغو ل رہے اور تیر نکال کر بغل  میں رکھ دیتے رہے ۔ { سنن ابو داود :198 – احمد :3/344 } ۔

غزوہ دومۃ الجندل ، ربیع الاول ؁   5 ھ  :نبی ﷺ کو اطلاع  ملی  کہ دومۃ الجندل کے ارد گرد   موجود قبائل  قافلوں  کو لوٹ لینے پر اور مدینہ  منورہ  پر حملے  کی تیاری کررہے ہیں ، لہذا ان سے  نپٹنے  کے لئے  نبی ﷺ  روانہ ہوئے ، رات  میں سفر  کرنے دن میں کہیں  ٹھہر جائے  ، تاکہ  دشمن کو اطلاع  نہ ملے  ، پھر وہاں پہنچ کر ان قبائل  کو تتر بتر کردیا  اور کوئی لڑائی پیش نہ آئی ۔

غزوہ مریسیع شعبان ؁   5 ھ  :نبی ﷺ کو اطلاع ملی کہ  بنو مصطلق  کا  سردار حارث بن ضرار مدینہ منورہ  پر حملہ کی تیاریاں بڑے زور و شور سے کررہا ہے ، لہذا نبی  ﷺ نے  700 صحابہ کی فوج لے کر مریسیع  نامی چشمے پر اچانک حملہ کردیا ، اولا تو وہ مقابلہ کے لئے ڈٹ گئے لیکن  جلدہی  میدان چھوڑ کر  بھاگ کھڑے ہوئے ، چند مشرک  مقتول ہوئے ، کچھ  عورتیں  اور بچے  قید کئے گئے  اور بہت سے جانور  مال غنیمت  میں ملے ،  اس غزوہ  سے واپسی  میں تین  واقعات  ایسے پیش آئے  جن کی اسلامی تاریخ  میں بڑی اہمیت  ہے ۔

[۱]  حضرت جویریہ بنت  الحارث بنو مصطلق  کے سردار کی بیٹی تھیں ،  قیدیوں  میں وہ شامل  تھیں  ، نبی ﷺ نے آزاد کرکے  ان سے شادی کرلی  ، جس کے نتیجے میں  مسلمانوں نے اس جنگ میں قید  تمام قیدیوں کو آزاد کردیا ۔

[۲] اس غزوہ میں منافقین  نے انصار  اور مہاجرین کو باہم لڑا دینے کی کوشش کی  ، لیکن نبی ﷺ نے اپنی حکمت عملی سے اسے  دبا دیا ، سورۂ منافقون میں اسی واقعہ کا ذکر ہے ۔

[۳] حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت  لگانے   کا واقعہ اسی غزوہ میں پیش آیا ، سورۂ نور کے دوسرے اور تیسرے  رکوع  میں  اس  واقعہ کا ذکر ہے ۔

غزوۂ احزاب ، شوال ؁   5 ھ  : اسلام کی مخالفت  میں قریش  ، یہود اور بدوی قبائل  سب اکٹھا تھے  کیونکہ  اسلام  ان کے ظالمانہ  رویے  اور مشرکانہ  عقائد کے خلاف تھا ، چنانچہ  اسلام اور مسلمانوں کی بڑھتی قوت کو دیکھ کر ان تینوں نے  مل کر اسلام اور مسلمانوں پر ایک کاری ضرب لگانے کا پروگرام بنایا  جس میں  سب سے بڑا رول یہود  جبران بنو نضیر  کے سردار تھے ، چنانچہ قریش  اور ان کے  حامیوں  کا دس ہزار پر مشتمل  لشکر  مدینہ منورہ کی طرف متوجہ ہوا ، نبی ﷺ نے صحابہ  کو حکم دیا  کہ جس راستے  میں مدینہ  منور پر حملہ ممکن ہے وہاں ایک خندق  کھودیں ، چنانچہ  مدینہ منورہ کے شمال  کی جانب  ایک خندق  کھودی گئی  ، کافروں  کا لشکر  جب آگے بڑھا  تو سامنے  ڈھائی  کیلو میٹر لمبی  ، پونے چھ میٹر  چوڑی  اور سارھے چار میٹر  گہری  ایک خندق نظر آئی  ، لہذا وہ خندق کے باہر ٹھہر گئے  ، ادھر سے  مسلمان انہیں روکنے  کے لئے خندق کے دوسری جانب  جم گئے  ، کافروں نے خندق  کو پار کرنے اور اسے پاٹنے کی بڑی کوشش کی لیکن  کامیاب نہ ہوسکے ، بالآخر  کافروں نے  ایک ماہ  تک  مدینہ منورہ کا محاصرہ جاری رکھا  لیکن  جب کوئی  نتیجہ  نکلتا  نظر نہ آیا  تو ناکام  و نامراد واپس  ہوگئے ۔

سورۂ احزاب میں اسی جنگ کا تفصیلی ذکر ہے ۔

غزوہ بنو قریظہ ، ذی القعدہ ، ؁   5 ھ  : یہود کا یہ قبیلہ مدینہ منورہ میں  آباد تھا  اور اس کے ساتھ  رسول اللہ ﷺ کا عہد  تھا کہ مسلمانوں کے خلاف کسی کی  مدد نہ کرے گا ، لیکن اس عہد کے خلاف غزوۂ احزاب میں ٹھیک اس وقت جب کہ مسلمان سخت ترین خطرے کے شکار تھے اس نے عہد توڑ دیا ، لہذا غزوۂ احزاب سے فارغ ہوتے ہی  نبی ﷺ  نے بحکم الہہی ان کا محاصرہ کیا اور 25 دن تک ان کا محاصرہ جاری رکھا  ، بالآخر  اس شرط پر  ہتھیار  ڈالنے کے لئے تیار ہوئے کہ ان کہ بارے میں فیصلہ سعد بن معاذ کریں گے ،  چنانچہ حضرت سعد بن معاذ  نے فیصلہ کیا کہ  ان کے جنگجو قتل کردئے جائیں اور عورتیں اور بچے  غلام بنا لئے جائیں اور ا ن کی جائداد  پر قبضہ کرلیا جائے ۔

حضرت سعد بن معاذ کا انتقال : غزوۂ خندق میں حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو ایک تیر لگا تھا جس سے   ان کے بازو کی کوئی  رگ کٹ گئی تھی  جس سے وہ شفایاب نہ ہوسکے  اور غزوۂ بنو قریظہ  کے فورا بعد انتقال کرگئے ، انہیں سے متعلق نبی ﷺ  نے فرمایا : سعد کی موت پر عرش رحمان بھی جھوم اٹھا ۔ { صحیح بخاری ، صحیح مسلم } نیز ان کے جنازے میں ستر ہزار فرشتوں نے شرکت کی اور ان کے جنازنے کو کندھا دیا ۔ { سنن النسائی  } ۔

جلیبیب  کی شہادت  :اسی سال حضرت جلیبیب  کا  انتقال ہوا ، ان کی شادی اور شہادت  کا واقعہ مشہور ہے ۔ { مسند احمد : 4/422 }

ضمام بن ثعلبہ کی آمد : بقول ابن سعد  اسی سال قبیلۂ سعد بن بکر کی طرف سے حضرت ضمام بن ثعلبہ  تشریف لائے  ، انہوں نے اسلام قبول کیا اور اپنی قوم  کی طرف دین کی دعوت لے کر گئے ، شام ہوتے  ہوتے پورا قبیلہ مسلمان ہوگیا ۔ { احمد :1/264 – ابن سعد :1/299 } ۔

وفد مزینہ کی آمد : اسی سال رجب میں نبی ﷺ کی خدمت  میں مزینہ  قبیلہ کا وفد  آیا اور مسلمان ہوگیا ۔ { ابن سعد : 1/291 } ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں