اپنے اہل خانہ کی خدمت میں مصروف رہتے

موضوع الخطبة        :من مشكاة النبوة (4) في مهنة أهله

الخطيب       : فضيلة الشيخ حسام بن عبد العزيز الجبرين/ حفظه الله

لغة الترجمة    : الأردو

موضوع:

اپنے اہل خانہ کی خدمت میں مصروف رہتے

پہلا خطبہ:

﴿ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَلَهُ الْحَمْدُ فِي الْآخِرَةِ وَهُوَ الْحَكِيمُ الْخَبِيرُ ﴾ [سورة سبأ: 1] ربنا لك الحمدُ ملءَ السماواتِ والأرضِ وملءَ ما شِئتَ من شيءٍ بعدُ، وأشهد ألا إله إلا الله وحده لا شريك له وأشهد أن محمدا عبد الله و رسوله من اتبعه واقتدى به تطهّر قلبه و جَـمُل لفظه، وسمتْ نفسه صلى الله وسلم عليه وعلى آله وأصحابه والتابعين ومن تبعهم بإحسان إلى يوم الدين.

حمد وثنا کے بعد!

میں اپنے آپ کو اور آپ کو اللہ کا تقوی اور نیک اعمال کا توشہ اختیار کرنے کی وصیت کرتا ہوں۔

﴿ فَمَن يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا كُفْرَانَ لِسَعْيِهِ وَإِنَّا لَهُ كَاتِبُونَ ﴾ [الأنبياء:94]

ترجمہ:جو بھی نیک عمل کرے اور و ہ مومن (بھی ) ہو تو اس کی کوشش کی بے قدری نہیں کی جائے گی۔ہم تو اس کے لکھنے والے ہیں۔

رحمن کے بندو! آئیے ہم خانہ نبوی کا جائزہ لیتے ہیں، وہ گھر جس سے اللہ نے  ہر قسم کی غلاظت کو دور کردیا اور اسے پورے طور پر صاف کردیا، آئیے ہم اس گھر میں اس روشن دان سے جھانکتے ہیں جسے ہماری ماں عائشہ رضی اللہ عنہ  نے کھولا تھا، جب بعض تابعین نے آپ سے اس عظیم شخصیت کے بارے میں دریافت کیا جن کے کندھوں پر امت کا بوجھ تھا کہ و ہ جب گھر میں داخل ہوتے  اور دروازہ بند کرلیتے تو ان کی کیفیت کیا ہوا کرتی تھی؟!

بخاری نے اپنی صحیح میں اپنی سندسے الاسود کی روایت نقل کی ہے، وہ کہتے ہیں:  میں نے عائشہ سے نبی ﷐ کی گھریلو مصروفیات کے تعلق سے سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: آپ ﷐ اپنے اہل خانہ کی خدمت میں مصروف رہتے او رجب نماز کا وقت آجاتا تو آپ نمازکے لئے تشریف لے جاتے۔

مسند احمد کی روایت میں ہے کہ : عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا گیا: رسول اللہ ﷐ گھر میں کیا کام کیا کرتے تھے؟ انہوں نے کہا: آپ انسانوں میں سے ایک انسان تھے، جوؤں کے خیال سے اپنے کپڑے خود ٹٹول لیا کرتے تھے، بکری کا دودھ دوہ لیتے، اور اپنی خدمت کے کام خود کرلیا کرتے تھے۔ (اسے البانی نے صحیح کہا ہے)  (صحیح ابن حبان میں یہ الفاظ آئے ہیں: "اپنی جوتی خود  ٹانک  لیتے، کپڑا بھی خود ہی   سی لیتے اور برتن بھی خود ہی سدھا ر لیتے”۔

میرے عزیزو! آئیے ہم ٹھہر کر چند نکات پر غور وفکر کریں:

پہلا نکتہ: "آپ انسانوں میں سے ایک انسان تھے” چنانچہ آپ گھر میں لیڈر اور رہبر کی حیثیت سے نہیں بلکہ شوہر کی حیثیت سے داخل ہوتے ، تاکہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ پر سکون ازدواجی زندگی گزاریں، خاندانی زندگی کی سادگی اور بے تکلفی کا لطف اٹھائیں۔

دوسرا نکتہ: فرماتی ہیں: "آپ ﷐ اپنے اہل خانہ کی خدمت میں مصروف رہتے” یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے، کیا اما عائشہ رضی اللہ عنہا کو کام کی کثرت اور مشقت کا شکوہ تھا  کہ نبی ﷐  ان کی مدد اور خدمت کریں؟ کیا ان کے کمرے کی دیواریں قریب قریب نہ تھیں، اس کی وسعت بہت معمولی نہ تھی، باین طور کہ اس کی لمبائی دس ہاتھ اور چوڑائی سات ہاتھ سے زائد نہ تھی؟!  جس کی پیمائش آج کے حساب سے تقریبا پانچ میٹر (لمبائی) اور ساڑھے تین میٹر (چوڑائی) بنتی ہے! جوکہ آج ہمارے گھروں کے صرف ایک کمرہ کے برابر ہے! اللہ المستعان۔

کیاانہوں نے نہیں  بتایا کہ تین ماہ گزر جاتے تھے لیکن گھر کا چولہا نہ جلتا کہ کھانا بنایا جائے! دو ماہ اور بسا اوقات اس سے بھی زیادہ عرصہ گزر جاتا ! لیکن کھانا نہیں بنتا، بلکہ صرف کھجور اور پانی پر ان کا گزر بسر ہوتا تھا!

نیز وہ ایک نوجوان لڑکی تھی جس کے پاس بال بچوں کی مصروفیات بھی نہ تھیں! تو بھلا کوئی ایسا کام رہا ہوگا جو محنت ولگن کا متقاضی ہو؟! چہ جائیکہ ایسا کام ہو جس کو انجام دینے کے لئے تعاون کی ضرورت درکار ہو؟!

یقین جانیں  (اس سے مراد)  ایک عمیق ترین معنی کو بروئے عمل لانے میں تعاون کرنا  ہے،  جوکہ باہمی ہمدردی اور ازدواجی زندگی میں آپسی مشارکت کا اظہار ہے،اور بیوی سے سکون حاصل کرنے کے مختلف معانی میں سے ایک اہم معنی کو بروئے عمل لانے کا مظاہرہ  ہے :﴿ وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجاً لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا ﴾ [الروم: 21]

ترجمہ: اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تمہاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے آرام پاؤ ۔

اللہ پاک نے یہ نہیں کہا کہ: تاکہ تم ان کے ساتھ سکونت اختیار کرو۔

تیسرا نکتہ: ہم اس روشن دان سے نبی ﷐ کے اس گھر کا نظارہ کرتے ہیں جو رقبہ میں بہت  چھوٹا تھا،جس کے سازو سامان بڑے معمولی تھے، لیکن اس کے مکینوں کو بڑی وسعت قلبی، انشراح صدر، آپسی محبت ومودت اور باہمی تعاون حاصل تھا، جس سے سعادت وخوش بختی، فرحت ومسرت اور پاکیز ہ زندگی کا چشمہ پھوٹتا تھا۔

سیرت نبویہ میں عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ قول آیا ہے کہ: "آپ ﷐ تمہارے ہی طرح ایک مرد تھے، لیکن آپ بہت ہنس مکھ اور خوش مزاج تھے”۔ ترش رو اور بدمزاج نہ تھے، بلکہ روحانی حسن وجمال اور تبسم کی انسیت سے آپ کا گھر معمور تھا۔

چوتھا نکتہ: (بیوی کا)ساتھ دینے  کے لئے  شوہر کی پہل اور اس کی خوش کن پیش قدمی بیوی کے دل اور اس کے احساس وشعور میں  بڑا مقام ومرتبہ بناتی ہے، اس کی موجودگی کو فرحت بخش اور اس کی غیر موجودگی کو محرومی اور وحشت بنادیتی ہے۔

میرے عزیزو! جو شخص ازدواجی زندگی میں برودت اور خشکی محسوس کرتا ہو ، اس کو چاہئے کہ اس نبوی درس سے فائدہ حاصل کرے تاکہ بیوی کا ساتھ دینے اور تبسم ریز  چہرہ کے ساتھ  اس کا سامنا کرنے  جیسے سحر انگیز  برتاؤ  سے  اس کی زندگی  میں گرم جوشی کی لہر دوڑ جائے۔

اللہ تعالی مجھے اور آپ کو کتاب وسنت سے فائدہ پہنچائے، ان میں جو آیتیں اور حکمت کی باتیں ہیں، انہیں ہمارے لئے مفید بنائے، آپ اللہ سے مغفرت طلب کریں، یقینا وہ خوب معاف کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ:

الحمد لله القائل ﴿ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيراً ﴾ [الأحزاب: 33] وصلى الله وسلم على الرحمة المهداة والنعمة المسداة محمد بن عبد الله وعلى آله وصحبه.

حمد وصلاۃ کے بعد:

نبوی زندگی کا یہ توازن ہمیں کس قدر حیرت میں ڈال دیتا ہے کہ رسول اللہ ﷐ لوگوں کے سامنے کثرت سے مسکراتے، اور اپنے گھر میں ہنس مکھ اور تبسم ریز چہرہ کے ساتھ رہتے، لوگوں کے ساتھ خیر وبھلائی  کرنے میں چلتی ہوا کی طرح تھے، اپنے گھر میں اہل خانہ کے کام میں مصروف رہتے، آپ لوگوں کے لئے تمام لوگوں میں سب سے زیادہ بہتر تھے اور لوگوں میں سب سے زیادہ اپنے اہل خانہ کے لئے بہتر تھے۔

یہ توازن ایسے لوگوں کے اندر مفقود ہے جو لوگوں کے ساتھ اپنے برتاؤ میں نرم رویہ اختیار کرتے ہیں، لیکن اپنے اہل خانہ کے ساتھ ترش روی اور تنگ دلی سے پیش آتے ہیں، اللہ کا درود وسلام نازل ہو اس نبی پر جن  کا حسن ِاخلاق تمام لوگوں کے لئے عام تھا، اور لوگوں میں سب سے زیادہ ان کے اہل خانہ ان کے حسنِ اخلاق سے فیض اٹھاتے تھے۔

معزز حضرات! یہ نبوی درس  ہر اس شخص  کے لئے ایک کھلا پیغام ہے جو قوّامیت (سرداری) کا غلط مفہوم سمجھتے ہیں، خشک برتری حاصل کرنے اور بے جا تسلط کے مظاہر پھیلانے کے لئے اس کا غلط استعمال کرتے ہیں، بایں طور کہ جب ان کو دیکھیں غصہ میں نظر آتے ہیں اور جب بھی سنیں تو حکم دے  رہے ہوتے ہیں یا خبر دار کرر ہے ہوتے ہیں۔

آخری بات: اللہ تعالی اما عائشہ سے راضی ہو جن کے تعلق سے حکمت الہی کا تقاضہ تھا کہ وہ نبی ﷐ کی وفات کے بعد تقریباً نصف صدی تک با حیات رہیں، آپ خانہ نبوی کے لئے کھلے روشن دان بن کر رہیں ، جس سے امت محمدیہ کو اپنے نبی ﷐ کا طرز زندگی صاف صاف نظر آتا رہا، اللہ ان سے راضی ہو اور انہیں راضی کرے اور امت محمدیہ کی طرف سے ان کو بہترین اور کامل ترین بدلہ عطا فرمائے۔

درود وسلام پڑھیں…

صلی اللہ علیہ وسلم

از قلم:

فضیلۃ الشیخ حسام بن عبد العزیز الجبرین

 

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں