اکیسواں سال /21:درس نمبر

بسم اللہ الرحمن الرحیم

21:درس نمبر

خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط

 اکیسواں سال     

نبوت کے 23 سال23درس

سلسلہ مختصر سیرت النبی ﷺ / رمضان 2013

ہجرت کا آٹھواں سال : ؁  8   ھ

ذی الحجہ  سنہ 7 ہجری  سے واپس  آنے کے بعد اللہ کے رسول ﷺ  محرم ، صفر اور ربیع  کے دونوں مہینے  مدینہ منورہ میں  قیام فرمایا ، اس درمیان کسی عظیم  مہم کا ذکر نہیں ملتا ، چند چھوٹی  چھوٹی  ٹولیاں  بدوی  قبائل  کی سرکوبی کے لئے روانہ فرماتے رہے ۔

سریہ مؤتہ  ، جمادی الاولی ؁  8   ھ : شام کے نصرانیوں  اور ان کے ہمنوا  عرب قبیلوں سے نپٹنے  کے لئے  نبی کریم ﷺ  نے تین ہزار  کی ایک فوج تیار کی اور اس کی قیادت  زید بن حارثہ  کو سونپی  اور فرمایا  اگر  زید شہید  ہوگئے تو فوج  کی قیادت  جعفر  بن ابی  طالب کریں گے ، اگر جعفر  بھی شہید  ہوگئے تو فوج کی قیادت  عبد اللہ بن رواحہ  کریں گے  ، یہ فوج  شام کی طرف روانہ ہوئی اور جب ” معان ”  تک پہنچے تو معلوم ہوا کہ ہرقل  2 لاکھ  کی فوج  لے کر آگے بڑھ رہا ہے ،  اتنی بڑی فوج  سے لڑنے میں  مسلمانوں  کو ابتداء میں تردد ہوا  ، لیکن  حضرت عبد اللہ بن رواحہ  نے شہادت کی فضیلت  بیان کی اور جہاد پر ابھارا  ، چنانچہ  مسلمان آگے بڑھ  کر موتہ  میں  دشمن کی فوج سے مقابلہ کیا  اور بہت ہی بہادری   سے لڑے  حتی کہ مسلمانوں کے تینوں  کمانڈر یکے  بعد دیگرے  کام آگئے  ، پھر اللہ تعالی کے حکم سے حضرت خالد بن الولید  نے اپنے ہاتھ میں  جھنڈا لیا اور ایسی حکمت  و بہادری سے لڑے کہ دشمن کو پسپا ہونا پڑا ۔

سریہ  ذات سلاسل  ، جمادی الاول ؁  8   ھ : نبی ﷺ نے بنو قضاعہ  کی ایک  باغی جماعت  کی  سرکوبی کے لئے  حضرت عمرو  بن العاص  کی قیادت  میں تین  سو مسلمانوں کی ایک چھوٹی  فوج بھیجی  ، اس فوج میں  حضرت ابوبکر  رضی اللہ عنہ  بھی  شریک تھے ، حضرت عمرو نے ان کے علاقے میں گھس  کر انہیں  تتر بتر کردیا ، اس غزوہ  میں  حضرت  عمرو بن العاص  کو جنابت لاحق ہوئی چونکہ  موسم بہت ٹھنڈا تھا اس لئے  انہوں نے تیمم کرکے نماز پڑھائی جس   کی شکایت  نبی ﷺ سے کی گئی  تو آپ نے  حضرت عمرو کی موافقت کی ۔

فتح مکہ رمضان ، ؁  8   ھ : اسی سال  فتح اعظم  یعنی مکہ مکرمہ  کا واقعہ پیش آیا ، صلح حدیبیہ  کے موقعہ پر نبی ﷺ اور قریش  کےدرمیان  دس سال تک  جنگ بندی کا معاہدہ  تھا ، لیکن سترہ یا اٹھارہ مہینہ  کے بعد ہی قریش نے  اس عہد کو توڑدیا ، چنانچہ  نبی ﷺ  آٹھ  یا دس رمضان  ؁  8   ھ کو دس ہزار کی فوج  لے کر مکہ مکرمہ  کے لئے روانہ ہوئے ، اس مہم پر نبی  ﷺ  بڑی خاموشی  سے روانہ ہوئے تھے ،  جب اسلامی فوج  مکہ مکرمہ کے قریب پہنچی  تو قریش  کو اس کا علم ہوا ، ادھر آپ نے اعلان فرما دیا ، جو ہتھیار  ڈال دے اسے امان ہے ، جو مسجد حرام میں داخل ہواسے امان ہے اور جو اپنا دروازہ  بند کرلے اسے امان ہے ، صرف چند مجرموں  کو اس سے مستثنی  قرار دیا ، اٹھارہ رمضان کی صبح  آپ  مکہ مکرمہ  میں داخل ہوئے  اور اسلامی فوج کے قائدین  کو تاکید فرمائی کہ لڑائی   اس سے کی جائے  جو لڑنے کے لئے  سامنے آئے  بچوں اور  عورتوں کو قتل نہ کیا جائے  اور جو ہتھیار  ڈال دے اس سے  تعرض نہ کیا جائے  ، چنانچہ  نبی ﷺ  اپنے صحابہ  کے جلو میں ۔۔۔۔ کی طرف سے مکہ مکرمہ میں داخل  ہوئے ، صرف معمولی   جھڑپ  کے علاوہ  کوئی  خونریز  لڑائی  نہیں ہوئی ، نبی ﷺ بڑی تواضع کے ساتھ مسجد حرام میں داخل ہوئے ، خانہ کعبہ  کے ارد گرد  موجود بتوں کو توڑا  اور بیت اللہ کا طواف کیا  ، اس کے بعد  کعبہ  میں داخل ہوئے اور اسے شرک کی غلاظت

سے پاک کیا  جب خانہ کعبہ سے باہرآئے تو قریش کے لئے  عام معافی کا اعلان فرمادیا ۔ مکہ مکرمہ میں آپ پندرہ  سے بیس دن ٹھہرے  رہے اور وہیں  سے دین کی تعلیم  اور شرک  کے اڈوں  کو ڈھانے کے لئے  مہمیں  روانہ کرتے رہے  ۔ [۱] خالد بن ولید  کو عزی نامی  بت کے مرکز کو ڈھانے کے لئے بھیجا ۔ [۲] حضرت سعید بن زید   کو مناۃ کو ڈھانے کے لئے روانہ کیا ۔ [۳] عمرو بن عاص کو سواع نامی بت کے اڈے کو ڈھانے کے لئے روانہ کیا ۔ غزوۂ حنین  ، شوال ؁  8   ھ : نبی ﷺ کو  معلوم ہوا کہ بنو ہوازن  اور ثقیف کے لوگ 20000 کی فوج لے کر  وادی حنین  میں جمع ہیں اور مسلمانوں سے ایک فیصلہ کن جنگ  کرنا چاہتے ہیں ، اس خبر  کی تصدیق  کے بعد نبی ﷺ  نے بارہ ہزار کی جماعت لے کر وادی حنین  کی طرف بڑھے ، دشمن سے مقابلہ ہوا ،  ابتدا میں تو دشمن کے  فوجی بھاگ کھڑی ہوئِی  ، لیکن  جب مسلمان ان کے تعاقب میں آگے بڑھے تو وادی  کے کناروں سے ان پر تیر کی بارش ہونے لگی  جس  سےمسلمانوں میں شامل نئے مسلمان بھاگ کھڑے ہوئے  اور بچے  مسلمانوں  کو بھی پیچھے ہٹنا  پڑا لیکن نبی ﷺ اپنی جگہ  پر جمے رہے اور مسلمانوں  خصوصا مہاجرین ، انصار اور  اہل بیعت  رضوان  کو آواز دی  چنانچہ تھوڑی  ہی دیر میں مسلمانوں  نے اپنی طاقت جمع کرلی  اور اس  بہادری سے لڑے کہ دشمن  کو میدان چھوڑنا پڑا  اور ایسے  بھاگے کہ اپنے پیچھے  سازو سامان کے ساتھ  اپنے بیوی بچوں  کو بھی چھوڑ دیا ، چنانچہ    مسلمانوں کو مال غنیمت  کے طور پر  6000 عورتیں  اور بچے  ، چار ہزار  اوقیہ  [ ایک لاکھ  ساٹھ ہزار درہم ]  ، چوبیس  ہزار اونٹ  اور چالیس  ہزار بکریاں  ہاتھ آئیں ، نبی ﷺ  نے اس پورے مال غنیمت  کو جعرانہ میں محفوظ کیا  اور دشمن  کے تعاقب  میں آگے بڑھے ۔ غزوۂ طائف : غزوۂ حنین  سے ہارنے  کے بعد   اہل طائف  بھاگ کر اپنے شہر میں محصور ہوگئے ، نبی ﷺ نے وہاں بھی ان کا تعاقب کیا اور شہر کا محاصرہ کرلیا ، اس موقعہ پر مسلمانوں نے پہلی بار  منجنیق  اور ٹینک کی شکل کے بعض آلات حرب استعمال کئے  ، لیکن  کامیابی  کی کوئی صورت نظر نہ آئی تو تقریبا پندرہ دن کے محاصرے کے بعد نبی ﷺ نے واپسی کا اعلان کیا ۔

مال غنیمت کی تقسیم : نبی ﷺ کو طائف سے جعرانہ واپس  ہوئے  اور وہیں  پر مال غنیمت  تقسیم فرمایا ، مال غنیمت  تقسیم ہوچکا تھا کہ  بنو ہوازن کا  وفد خدمت نبوی میں حاضر ہوا اور آپ  ﷺ کا ان کے ہاں   دودھ پنیے  کا واسطہ دیا ، نبی ﷺ نے صحابہ سے بات کی اور ان کے قیدیوں کو واپس کردیا ۔

عمرۂ جعرانہ : مال غنیمت کی تقسیم سے فارغ ہونے کے بعد نبی ﷺ جعرانہ سے احرام باندھ کر عمرہ کیا اور مدینہ منورہ کے لئے واپس ہوئے ۔

اس سال کے چند  اہم حادثات :  [۱] مشہور شاعر  کعب بن زہیر کا اسلام : فتح مکہ  اور فتح حنین  کے بعد عرب کا یہ مشہور شاعر کعب بن زہیر  بھاگ گیا تھا ، لیکن  جب کہیں جائے پناہ نہ ملی تو اس کے بھائی  بحیر  نے جو خود بھی ایک شاعر تھے ، اسے سمجھایا  اور نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے کہا ، بالآخر  اس نے ایک بلیغ  قصیدہ معذرت  نامہ کے طور پر لکھا اور خدمت نبوی میں حاضر ہوا  ، نبی ﷺ نے اس کا عذر قبول فرمایا ، یہ قصیدہ کتب ادب میں قصیدہ بانت سعاد کے نام سے مشہور ہے ۔ [۲] ابراہیم بن محمد ﷺ کی پیدائش : اسی سال ذی الحجہ میں حضرت ماریہ قبطیہ  کے بطن سے  نبی ﷺ  کے صاحبزادے  ابراہیم پیدا ہوئے  جس پر آپ بے حد خوش ہوئے ۔ [۳] زینب بنت رسول اللہ ﷺ کی وفات : اسی سال کے ابتداء میں نبی ﷺ کی صاحبزادی  حضرت زینب  کا انتقال ہوا ، نبی ﷺ  نے ان کے کفن  کے لئے  اپنی چادر  مبارک عطا کردی ۔ [۴] منبر رسول : مؤرخین کا کہنا ہے کہ اسی سال نبی ﷺ کے لئے  مسجد نبوی میں  منبر  رکھا گیا  ، اس سے قبل آپ ایک کھجور کے تنے کا  سہارا لے کر خطبہ دیتے تھے ، جب آپ منبر پر بیٹھے  تو  کھجور کا تنا بچوں کی طرح رونے لگا ۔ [۵] مسلمانوں کا پہلا حج : نبی ﷺ  جب مکہ مکرمہ  سے روانہ ہوئے  تو وہاں کی ذمہ داری حضرت  عتاب بن اسید کو سونپ  دی ، چنانچہ  اسی سال انہوں  نے مسلمانوں کو لے کر حج کیا  ، اسلامی تاریخ کا یہ پہلا حج تھا ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں