ایام مبارکہ

بسم الله الرحمن الرحيم

ایام مبارکہ

عن ابن عباس رضی اللہ عنھما عن النبی ۖ أنہ قال : ما العمل فی أیام أفضل منھا فی ھذا العشر قالوا ولا الجھاد ؟ قال : ولا الجھاد لا رجل خرج یخاطر بنفسہ ومالہ فلم یرجع بشیء ۔

( صحیح البخاری : ٩٦٩، العیدین ، سنن ابوداؤد)

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ۖ نے ارشاد فرمایا : ان دس دنوں میں ( یعنی عشر ذی الحجہ میں ) نیک عمل جتنا افضل ہے کسی دوسرے دن میں اتنا افضل نہیں ہے ، صحابہ نے عرض کیا : جہاد بھی اتنا افضل نہیں ہے ، آپ ۖ نے ارشاد فرمایا : جہاد بھی نہیں ،سوائے اس مجاہد کے جس نے اپنے جان ومال کو خطرے میں ڈال کر جہاد کیلئے نکلا اور کسی چیز کو لیکر واپس نہیں آیا

( صحیح البخاری ، سنن ابوداؤد )

دینی بھائیو! اللہ تبارک وتعالی کا یہ بہت بڑا فضل وکرم ہے کہ اس نے اپنے مومن بندوں کیلئے ایسے خیروبھلائی کے موسم متعین فرماتے ہیں جن میں وہ نیک عمل کا کثر ت سے اہتمام کریں ، متعدد قسم کی عبادتوں کو بجا لائیں ، عام دنوں میں حاصل شدہ کمی کو پورا کریں اور اپنے رب کریم کا تقرب حاصل کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت پہنچانے کی کوشش کریں ، انہیں مبارک دنوں میں ذی الحجہ کا مہینہ اور خصوصی طور پر اسکے ابتدائی دس دن ہیں ، جنہیں اللہ تبارک وتعالی نے بڑی برکتوں اور فضیلتوں سے نوازا ہے ،ان کی اہمیت کے پیش نظر اللہ تبارک وتعالی نے انکی قسم کھائی ہے والفجر ولیال عشر ، قسم ہے فجر کی اورقسم ہے دس راتوں کی ، عمومی طور پر مفسرین کا خیال ہے کہ اس آیت میں دس راتوں سے مراد ذی الحجہ کا پہلا عشرہ ہے ، انہیں دنوں میں حاجیوں سے خصوصا اور عام مسلمانوں سے عموما کثرت ذکر کا مطالبہ ہے ، ویذکر اللہ فی أیام معلومات ، اور معلوم دنوں میں اللہ تعالی کا ذکر کریں ، معلوم دنوں سے مراد حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے بیان کے مطابق ذی الحجہ کے ابتدائی دس دن ہیں

( صحیح بخاری )

یہ عشرہ سال کا سب سے افضل عشرہ ہے حتی کہ دن کے لحاظ سے رمضان المبارک کے آخری عشرے سے بھی افضل ہے جیسا کہ زیر بحث حدیث سے واضح ہے ، جسکی مزید وضاحت اس حدیث میں وارد ہے جسے امام بیھقی اور امام دارمی رحمہما اللہ نے حضرت سعید بن جبیر سے نقل کی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے روایت کیا کہ اللہ کے رسول ۖ نے ارشاد فرمایا ہے کہ : ذی الحجہ کے دس دنوں میں کوئی نیک عمل کرنا اللہ تبارک وتعالی کے نزدیک جتنا عمدہ اور افضل ہے اتنا کسی او ردن میں نہیں ہے ، آپۖ سے پوچھا گیا کہ کیا اللہ کی راہ میں جہاد بھی اتنا پسندیدہ نہیں ہے ؟ آپ ۖ نے فرمایا : اللہ کی راہ میں جہاد بھی اس قدر پسندیدہ نہیں ہے سوائے اس شخص کے جو اپنی جان ومال لیکر جہاد کیلئے نکلا اور کچھ بھی لیکر واپس نہ آیا ۔

راوی کہتے ہیں کہ حضرت سعید بن جبیر کا معمول تھا کہ جب ذی الحجہ کا پہلا عشرہ داخل ہوتا تو عبادت میں اس قدر کوشش کرتے کہ عام لوگوں کیلئے اس پر قدرت پا نا مشکل ہوتا ( سنن الدارمی ،ج: ٢ ، ص: ٢٥، ٢٦ ، شعب الیمان ،ج: ٥ ، ص: ٣٠٩ )

اہل علم کہتے ہیں کہ عشرہ ذی الحجہ کی یہ فضیلت اس وجہ سے ہے کہ اس عشرے میں جس قدر عبادتیں اور تقرب اللہ کے عمل جمع ہوتے ہیں کسی اور دنوں میں اکٹھا نہیں ہوسکتے جیسے حج کی ادائیگی جو اسلام کا ایک رکن ہے ، قربانی کرنا جو اللہ تعالی کے نزدیک بڑا ہی پسندیدہ ہے ، یوم عرفہ کا روزہ جو دو سال کے گناہوں کا کفارہ ہے ، دیگر اور عبادتوں کا یکجا ہونا جیسا نفلی روزے صدقات وخیرات اور ذکر واذکار وغیرہ جو عام دنوں میں بھی ہوسکتے ہیں ۔

اس لئے خیرو بھلائی کے طالب اور رضائے الہی کے راغب مسلمانوں کو چاہئے کہ اس مبارک مہینہ اور خصوصا پہلے عشرے کو غنیمت سمجھیں اور نیک عمل کی ایک معتمد بہ بجٹ جمع کرلیں ، اس عشرے کے مستحب اعما ل :

**تو بہ واستغفار : تو بہ واستغفار ایک سچے مومن کی زندگی بھر کا وظیفہ ہے ، اس کا کوئی دن کا کوئی گھنٹہ توبہ واستغفار سے خالی نہیں رہنا چاہئے ، ایک مومن کے سامنے سید المتقین و امام الصالحین حضرت محمد مصطفی ۖ کی یہ حدیث ہمیشہ سامنے رہنی چاہئے کہ : ائے لوگو ! اللہ تعالی کی جناب میں توبہ واستغفار کرو میں خود دن میں سو100بار اللہ تعالی سے مغفرت طلب کرتا ہوں

( صحیح مسلم)

**گناہوں سے دوری : گناہ خواہ کبیرہ ہوں یا صغیرہ رب کی ناراضگی حقیقی مالک سے دوری اور نعمت الہی کے رک جانے کا سبب بنتے ہیں اللہ کے رسول ۖ کا ارشاد ہے : یاک والمعصیة فن بالمعصیة مل سخط اللہ ”رب کی نافرمانی سے پرہیز کرو کیونکہ رب کی نافرمانی کی وجہ اللہ کا غضب نازل ہوتا ہے ۔

**ذکر واذکار : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول ۖ نے ارشاد فرمایا : ذو الحجہ کے ابتدائی دس دنوں کے مقابلہ میں کوئی اور ایام ایسے نہیں ہیں جن میں اللہ تبارک وتعالی کو نیک عمل ان دنوں سے زیادہ محبوب ہوں اس لئے تم لوگ ان دنوں میں کثرت سے تہلیل ( لا لہ لا اللہ ) تکبیر ( اللہ اکبر ) اور تحمید ( الحمد للہ ) کا ورد کیا کرو ( مسند أحمد ، ج: ٢ ، ص: ٧٥ ، شعب الیمان ، ج: ٥ ، ص: ٣٠٨ )

**روزہ رکھنا : اللہ کے رسول ۖ کا معمول تھا کہ آپ ذی الحجہ کے ابتدائی عشرے میں نو دن کا روزہ رکھتے تھے ( سنن ابودائود ، مسند أحمد ) خصوصا عرفہ کے دن یعنی نوویں ذی الحجہ کا روزہ تو بڑی اہمیت کا حامل ہے نبی ۖ کا ارشاد ہے کہ عرفہ کے دن کا روزہ گزشتہ اور آئندہ سال کے گناہوں کا کفارہ ہے ( صحیح مسلم )

**قربانی کرنااور حج کرنا : اس عشرے کے مستحب اعمال میں داخل ہیں لیکن جو لوگ قربانی یا حج کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے وہ ان ایام میں نفلی روزے رکھ کر اور دیگر عبادات کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ اجر وثواب حاصل کرسکتے ہیں ۔

فوائد :

**اللہ کا فضل وکرم اور بندوں پر اسکا احسان عظیم کہ اس نے عبادت واعمال وصالحہ کے موقعہ عنایت فرمائے ۔

**عشر ذی الحجہ کی فضیلت کہ اس میں عبادات اور اعمال صالحہ کے اجر وثواب میں غیر معمولی اضافہ ہوجاتا ہے ۔

**اللہ تبارک وتعالی کے راستے میں جہاد کی فضیلت ۔

**جہاد صرف تلوار وہتھیار سے ہی نہیں کیا جاتا بلکہ نبی ۖ کا فرمان ہے کہ مسلمان اپنی زبان اور ہتھیار دونوں سے جہاد کرتاہے ( مسند أحمد )

ختم شدہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں