بسم اللہ الرحمن الرحیم
حدیث نمبر: 68
خلاصۂ درس شیخ ابو کلیم:
بتاریخ ٢٤،٢٥ ذی الحجة ١٤٢٩ھ
٢٢،٢٣ دیسمبر ٢٠٠٨م
ایمان کی نشانی
{معذرت کے ساتھ کہ کچھ فنی مشکلات کی بنا پر اس درس کو تاخیر سے پیش کیا جارہا ہے ۔ ادارہ }
عن ابی امامة رضی اللہ عنہ ان رجلا سأل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ماالایمان؟ قال : اذا سرتک حسنتک وسائتک سیئتک فانت مؤمن ؟ قال یا رسول اللہ فما الاثم؟ قال :اذا حاک فی صدرک شیء فدعہ۔
(مسند احمد ٢٥٢٥، صحیح ابن حبان ٢٦٦١، مستدرک الحاکم ١ ١٤)
ترجمہ: حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اللہ کے رسول ۖ سے سوال کیا کہ ایمان کی علامت کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا: جب تیری نیکی تجھے خوش کرے اور تیرا گناہ تجھے برا لگے تو تو مومن ہے ، اس شخص پھر سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول گناہ {کی علامت} کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا : جس چیزسے متعلق تیرے دل میں کھٹک پیدا ہو اسے چھوڑدو ۔
تشریح : بندوں سے جس ایمان کا مطالبہ ہے اسکی جگہ دل ہے، باقی دیگر اعضاء کا ایمان اسکے تابع اور اسکی صحت پ معلق ہے ، لیکن چونکہ یہ ایک پوشیدہ امر ہے جس پر رب العالمین کے علاوہ کسی کو اطلاع نہیں ہے اسلئے اللہ تعالی نے دل میں ایمان ہونے کی کچھ علامتیں متعین فرمانی ہیں جنہیں قول وعمل کہا جاتا ہے ، چنانچہ اہل سنت وجماعت کے نزیک شرعی طور پر وہی ایمان مقبول ہے جسکی تصدیق زبان واعضاء کرتے ہوں ، اسی لئے انکے نزدیک بندوں سے جس ایمان کا مطالبہ ہے وہ تین چیزوں کے مجموعہ کا نام ہے ١۔{دل سے } تصدیق، ٢۔{زبان سے} اقرار، ٣۔اور {اعضاء سے} عمل ، لیکن ان میں سب سے زیادہ اہمیت دل کی تصدیق کو حاصل ہے اسی لئے آپ دیکھیں گے کہ بہت سی حدیثوں میں بہت سے ایسے لوگوں سے دل کے ایمان کی نفی کی گئی جو اپنی زبان واعضاء کو احکام الہی کے تابع نہیں کرتے چنانچہ ایک حدیث میں ارشاد نبوی ہے کہ کسی بندے کا ایمان اس وقت تک درست نہیں ہو سکتا جب تک کہ اسکا دل درست نہ ہو جائے اور کسی کا دل اس وقت تک درست نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ اسکی زبان درست ہوجائے ۔ مسند احمد بروایت انس
زیر بحث حدیث میں بھی ایک سائل کا جواب میں نبی کریم ۖ نے دل میں موجود ایمان کی کچھ علامتیں بیان فرمائی ہیں جس سے ہر بندہ یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ اسکا ایمان کیسا ہے اور اسکے دل میں ایمان کو کتنی جگہ حاصل ہے ، چنانچہ سائل نے پو چھا کہ اے اللہ کے رسول ! ایمان کی علامت کیا ہے ؟ اور کیسے سمجھوں کہ میں مومن ہوں ؟
آپ ۖ نے جواب میں ایک ایسی واضح علامت بتلائی جسے ہر شخص سمجھ سکتا ہے اور اسکے ذریعہ اپنے ایمان کی حقیقت کا صحیح اندازہ لگا سکتا ہے، آپ نے فرمایا کہ اگر تم سے نیکی کا کام سرزد اور اس کام کے بعد تمھیں خوشی محسوس ہو کہ تم نے ایک ایسا کام کیا ہے جس سے تمہارا رب خوشی ہوتا ہے ، اس پر تمھیں بڑے اجر سے نوازتا ہے ، اس عمل کی وجہ سے اس دنیا میں اگر چہ تمہیں کچھ تکلیف پہنچی ہے، تمھارا کچھ مال ضرور خرچ ہوا ہے ، تمھیں اپنے نفس
پر زور دنیا پڑا ہے لیکن ان تمام باتوں کے باوجود تمھیں خوشی اسلئے حاصل ہورہی ہے کہ اللہ تعالی تم سے یہی چاہتا ہے اور قیامت کے دن اس پر اچھے سے اچھا بدلہ دیکا اگر ایسا ہے تو یہ تمھارے مومن ہونے کی دلیل ہے، بر خلاف اسکے اگر عبادت سے تم کو خوشی نہیں ہوتی بلکہ تم اسے ایک بوجھ محسوس کرتے ہو، زکاة دینے کو تم ایک تاوان سمجتے ہو، لوگوں سے درگزر کرنے کو اپنی تو ہین ، سمجھتے اور اس بارے میں احکام الہی کا لحاظ نہیں رکھتے تو اسکا مطلب ہے کہ تمھارے دل میں ایمان نہیں ہے یا یہ سمجھو کہ حقیقی ایمان سے تمھارا دل خالی ہے۔
اسی طرح اگربتقاضائے نے بشریت تم سے کو ئی گناہ کا کام ہو جارہا ہے تو اس سے تمھیں تکلیف محسوس ہو رہی ہے، اس پرعمگین ہو رہے ہو، ہو تمھیں شر مند گی لاحق ہے اور یہ خوف دا منگیر ہے کہ اگر اللہ تعالی نے اس گناہ کو معاف نہ کیا تو ہم ہلاک ہوگئے ، آخرت میں قیامت کے دن ہمیں رسوا ہونا پڑے گا ، میں اپنے مالک حقیقی کو کیا منھ دگھلاؤں گا وغیرہ وغیرہ، تو یہ بھی تمھارے سچے اور حقیقی مومن ہونے کی دلیل ہے بر خلاف اسکے اگر تم نڈر ہو کر گناہ کا کام کرتے ہو ، نمازیں چھوڑتے ہو ، اللہ تعالی کا دیا ہوا مال خرچ کرنے پر بخل سے کام لیتے ہو، لوگوں پر طلم کرنا ، انکا مال ہرپ کرنا ، چوری کرنا جھوٹ بولنا اور فلمیں وغیرہ دیکھنے میں تمھیں کوئی عار نہیں محسوس ہوتی اور نہ ہی قیامت کے دن اللہ تعالی کے سامنے حاضری کا کوئی خوف دا منیگرہوتاہے تو اسکا مطلب ہے کہ تمھارا دل ایمان حقیقی سے خالی ہے ، نعوذ باللہ من ذلک
سائل کا دوسرا سوال گناہ سے متعلق تھا کہ اگر کسی کام سے متعلق کوئی شرعی حکم موجو دنہ ہوتو اسکے بارے میں میں کیسے سمجھوں کہ یہ گناہ کا کام ہے ؟ اسکے جواب میں بھی آپ ۖ نے ایک واضح اور عام اصول بیان فرمایا کہ اگر اس کام پر تمھارا ضمیر ملامت کررہا ہو، دل میں انقباض محسوس ہورہا ہو ۔ نیز تمھیں یہ بھی ڈرہو کہ کہیں لوگ اسے دیکھ نہ لیں تو یہ سمجھ لو کہ یہ گناہ کا کام ہے اسے چھوڑ دیناچاہئے ، لیکن ظاہر ہے کہ یہ اس صورت میں ہے جب برے ماحول اور بری صحبت کی وجہ سے انسانی فطرت مسح ہو کر نہ رہ گئی ہو بلکہ اپنی اصل حالت پر باقی ہو ۔
فوائد
١۔ نیک عمل پر خوش ہونا اور برائی پر عمگین ہونا ایمان کی علامت ہے ۔
٢۔ حقیقی ایمان کی جگہ تو دل ہے البتہ قول وعمل سے اسکی حقیقت واضح ہوتی ہے ۔
٣۔ جس کام کی حلت وحرمت سے متعلق کوئی شرعی حکم موجود نہ ہو اس سے متعلق دیکھنا چاہئے کہ ضمیر کی آ واز کیا ہے ؟
٤۔ اللہ اور اسکے رسول کے حکم کونا پسند کرنا بے ایمانی اور کفر کی دلیل ہے۔
ختم شدہ