ایک خطرناک کام 1/2

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ôایک خطرناک کام ô

قسط : 1/2

از قلم : شیخ ابو عبد المحسن

{ ناشر : مکتب توعیۃ الجالیات ، الغاط ، www.islamdawah.com/urdu }

ہرمسلمان (مردوعورت)جو اللہ اور آخرت کےدن پر ایمان ویقین رکھتاہواس کےلئے مناسب ہےکہ ہر اس چیز سےاپنی زبان کی حفاظت کرےجوموجبِ غضبِ الہی ہو۔کوئی ٹھوس ثبوت اور بغیر کسی سبب کےکسی مسلمان کو کافر کہنےاور دین اسلام سےاُسے نکالنےسےمکمل طور پر احتیاط برتے،کیونکہ بغیر علم وبصیرت کے کسی کو کافر کہ دینا وہ خطرناک امر ہے جو خون خرابہ اور تفرقہ بازی کا سبب بنتاہے ۔

لہذا جس کےپاس علم ومعرفت اور بصیرت ودانائی نہ ہو اس کےلئے جائزنہیںہےکہ اس مسئلہ کو چھیڑے ، کفر کا حکم اُسی بات پر لگے گاجسے اللہ اور اُس کےرسول صلی اللہ علیہ وسلمنےاسلام کے منافی امور میں سے کسی امر کے مرتکب کوکافر قرار دیاہو اور جن اُمور پر علماء کا اتفاق ہو ۔

پھر یہیں سےایک مسلمان پر ضروری ہےکہ اس بارے میں کلام کرنےسے پہلے علم سیکھے اور بغیر علم ومعرفت کے اس بارے میں کوئی بات نہ کرے ورنہ کسی مسلمان کو کافر کہنے کی وجہ وہ خود ایسے سےدو بڑے جرم کامرتکب ہوگا کہ ان میں کا ہر ایک دوسرے سے زیادہ خطرناک ہے،اور وہ یہ ہیں:

ôبغیر علم کےاللہ پر بہتان باندھنا:

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: )وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللّهِ كَذِباً ((الأنعام21)

(اس سے زیادہ بےانصاف کون ہوگاجو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بہتان باندھے)

نیز ارشاد ہے:)قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَن تُشْرِكُواْ بِاللّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَاناً وَأَن تَقُولُواْ عَلَى اللّهِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ ((الأعراف33)

(آپ فرمائیے کہ البتہ میرے رب نےصرف حرام کیاہے ان تمام فحش باتوں کوجواعلانیہ ہیں اور جو پوشیدہ ہیں اور ہر گناہ کی بات کو اور ناحق کسی پرظلم کرنے کو اوراس بات کو کہ تم اللہ کے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک ٹھہراؤ جس کی اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی اور اس بات کو کہ تم لوگ اللہ کے ذمے ایسی بات لگادو جس کو تم نہیں جانتے)

اس آیت میں اللہ پر بغیر علم کے کوئی بات کہنےکو اللہ نے شرک سے زیادہ خطرناک بتایاہے اسی لئے اس کا ذکر شرک کے بعد ہواہے۔

ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:)وَلاَ تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولـئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْؤُولاً ((الإسراء36)

(جس بات کی تجھے خبر ہی نہ ہواس کے پیچھے مت پڑ،کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے پوچھ گچھ کی جانے والی ہے)

پس ضروری ہے کہ انسان کچھ بولنے سے پہلے اسے سیکھے،کیونکہ قول وعمل کا مرتبہ علم کے بعد ہے۔

ارشاد الہی ہے: )فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ((محمد19)

(پس (اے نبی!)آپ جان لیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش مانگا کریں اور مومن مَردوں اور مومن عورتوں کے حق میں بھی)

لہذا جس قول کی بنیاد علم پر نہ ہو خصوصاً دین اور عقیدہ کے معاملہ میں تو وہ باطل قول ہے اور اللہ پر کذب بیانی ہے۔

2- مسلمان پر ظلم :

کسی مسلمان کو کافر اور اُسے دینِ اسلام سے خارج کہنا اُس مسلمان پر ظلم ہے کیونکہ اس حکم کے بعد اس پر کئی احکام مرتب ہوتے ہیں ،مثلاً:بیوی اس سے جُدا ہوجائےگی، نہ اس کا کوئی وارث اور نہ وہ کسی کا وارث ہوگا،مرنے کے بعد غسل و کفن، نمازِ جنازہ ، و دعاکی جائے گی اور نہ ہی اُسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفنایا جائے گا۔ پس جس نے اُسے بغیر حق کےکافر کہا تو اس پر مرتب ہونے والے مذکورہ امور کاوہ خود متحمل ہوگا۔

اسلئے ضروری ہےکہ انسان ان امور کو جانے جو مُوجبِ کفر و ارتداد ہو،بغیر علم کے بات کرے اور نہ اپنی رائے کے مخالف پر کُفر کا حکم لگائے۔

پھریہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ اس علم کا ماخذ کہاں ہے؟ کیا یہ علم کتابوں کے مطالعے،اور شرعی نصوص کو حفظ کرنے سے حاصل ہوگا؟ نہیں ،ایسا ہرگز نہیں ہے ،بلکہ پختہ اور گہراعلم رکھنے والے علماء ہی سے یہ حاصل ہوسکتاہے ۔کیونکہ یہ ضروری نہیں ہے کہ جو شخص کتابوں کا مطالعہ کرلے اور نصوص کو یاد کرلے وہ عالم بھی بن جائے،عالم تووہی ہے جسے اللہ کے دین کی سمجھ بوجھ ہو ،اور یہ چیز اہلِ علم سے ایک طویل عرصہ تک اخذ وتلقی کے بعد ہی حاصل ہوگی۔

تکفیر سے متعلق یہ صورت حال ان اولین بدعتوں میں سے ہےجو خوارج کے ذریعہ اسلام میں ظاہر ہوئی ،یہ پہلی صدی ہجری کے نصف اول کا زمانہ تھا۔ اس گمراہی میں جس چیز نے انہیں مبتلا کیا وہ اُن کا دین میں قلتِ فہم ،سنتِ رسول کی عدم معرفت ، اپنی عبادتوں پر اترانا ،اور ظاہری نصوص پر اڑے رہنا تھا ۔

عصرِ حاضرمیں کسی بھی غلطی یا گناہ پر کُفر کا فتوی لگانا،کسی کو کافر کہ دینا (دین میں)غلو کا ایک مظہر ہے۔یہ فتوئے کفر مسلمانوں کے جان ومال کی حلت کا سبب بنتاہے ،حالانکہ مسلمان اگرچہ کسی بڑے گناہ کا ارتکاب کر رہاہے لیکن وہ اپنے اسلام پر باقی ہے ، اس پر نہ تو کُفر کا فتوی لگے گا اور نہ ہی اُسے کافر قرار دیا جائےگا الا یہ کہ وہ کسی ایسے گناہ کا ارتکاب کرے جس سے کفر لازم آتا ہے، اس حال میں بھی اُس پر کفر کا فتوی اس وقت تک نہ لگے گا جب تک کہ اس کے سامنے اس کی وضاحت نہ کردی جائے، اور اس کے بعد بھی یہ حکم، پختہ علم رکھنے والے اہلِ علم کےذریعہ ہی ہوگا ،وہی لوگ اُس کے اوپر کفر وردت کا حکم لگائیں گے،ہر ایرے غیرے کو یہ اختیار نہ دیا جائے گا ۔

ôکسی کو کافر کہنے کی ممانعت:

اسلام نے کسی مسلمان کو کافرکہنے سے سختی سے منع کیا ہے اور اس سے مکمل طور پر بچنے کا حکم دیا ہے ۔چناچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ) وَلاَ تَقُولُواْ لِمَنْ أَلْقَى إِلَيْكُمُ السَّلاَمَ لَسْتَ مُؤْمِناً ((النساء94)

(اور جو تم سے سلام علیک کرے تم اُسے یہ نہ کہ دو کہ تو ایمان والا نہیں)

ایک مسلمان کا کام صرف یہ ہےکہ وہ بصیرت، علم اور دور اندیشی کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی طرف بلائے،اُسے یہ حکم نہیں ہے کہ وہ لوگوں کےدلوںمیں کیا پوشیدہ باتیں ہیں اس کا فیصلہ کرے۔ دوستو! آئیےچند دلائل اور اہلِ علم کے اقوال کی روشنی میں اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرتےہیں۔

حضرت عبد اللہ بن عُمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنےفرمایا:”إذا قال الرجل لأخيه يا كافرفقد باء بها أحدهما، فإن كان كما قال وإلارجعت إليه”(بخاري ومسلم)

(جب کوئی شخص اپنے کسی بھائی کو مخاطب کرکے کہتا ہےکہ اےکافر!تو ان دونوں میں سے ایک کافر ہوگیا،اگر وہ ایسا ہی ہے جس کو اس نے کافر کہا ہے ورنہ پکارنے والےپر لوٹ آئےگا)

اور حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کا بیان ہےکہ انہوں نے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلمکو فرماتے ہوئے سنا:”من دعا رجلاً بالكفر أو قال عدو الله وليس كذلك إلا حار عليه”(بخاري ومسلم)

(کہ جو شخص کسی کو کافر کہہ کر بلائے یا اسے اللہ کے دشمن کہہ کرمخاطب کرے پھر وہ (جس کو اس نام سےپکارا ہے)ایسا نہ ہو تو وہ پکارنے والے پر پلٹ آئےگا)

ایک اور مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا:”إذا قال المسلم لأخيه يا كافر فقد باء بها أحدهما”(بخاري)

(جب کوئی مسلمان اپنے(مسلم)بھائی کو کافرکہے تووہ کفر دونوں میں سےکسی پر ضرور پلٹے گا )

ایک دوسرے مقام پرحضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلمنےفرمایا:”ثلاث من أصل الإيمان: الكف عمن قال لا إله إلا الله لانكفره بذنب ولا نخرجه من الإسلام بعمل، والجهاد ماضٍ منذ بعثني الله إلى أن يقاتل آخر أمتي الدجال ، لايبطله جور جائر ولاعدل عادل، والإيمان بالأقدار”

(ابوداؤد(2532)ترمذي(1978) حاكم نے صحیح قرار دیاہے اور ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے)

(کہ تین چیزیں ایمان کی بنیاد میں سے ہیں:(1)لا الہ الا اللہ کہنے والےسےہاتھ روکنا،کسی گناہ کی وجہ سے نہ اُسے کافر کہنا اور نہ کسی عمل کی وجہ سے اُسےدائرہ اسلام سے خارج کرنا۔(2)میری بعثت سے لے کر جہاد اس وقت تک جاری رہےگا جب تک کہ میری اُمت کا آخری (گروہ)دجال سے قتال نہ کرے ،نہ کسی ظالم کا ظلم اُسے باطل ٹھہرا سکتاہے اور نہ کسی عادل کا عدل۔(3)اور تقدیر پر ایمان)

جیساکہ اپنی کتابوں میں ائمہ اسلام نے متنبہ کیا ہے:

چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ – رحمہ اللہ – فرماتے ہیں کہ”کسی کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ کسی مسلمان پر کفر کا فتوی لگائے اگرچہ وہ غلطی اور خطا کرے یہاں تک کہ اس پر حُجت قائم کردی ،اور اس کو صحیح طریقہ بتادیاجائے، اور واضح رہے کہ جس کا مسلمان ہونا یقینی طور پر ثابت ہوچکا ہے تومحض شک کی وجہ سے اُس سے زائل نہ ہوگا بلکہ حُجت قائم ہونے یا شُبہ کے ازالہ کے بعد ہی زائل ہوگا”(مجموع فتاوی 12/466)

حضرت امام احمد – رحمہ اللہ – علماء جہمیہ اور ان کے قاضیوں سے کہتے تھے:اگر تمھارا قول میں کہوں تو میں کافر ہو جاؤں گا لیکن میں تمھیں کافر نہیں کہتا اسلئے کہ تم سب میرے نزدیک جاہل ہو۔

علامہ شوکانی – رحمہ اللہ – فرماتے ہیں:”جان لو کہ کسی مسلمان پر اس کے دین سے خارج ہونے کا حکم لگانا اور (یہ کہنا کہ )وہ کفر میں داخل ہوگیا،کسی ایسے مسلمان کے لئے جو اللہ اور یومِ آخرت پر یقین رکھتا ہو مناسب نہیں ہے کہ اُس (مسلمان)پر (اس طرح کا حکم لگانے کی )ہمت کرےالا یہ کہ اس کے پاس ایسی دلیل ہو جو سورج سے زیادہ واضح اور روشن ہو، اسلئے کہ صحابہ کی ایک جماعت سے مروی کئی صحیح حدیثوں سے یہ ثابت ہے کہ جس نے اپنے بھائیوں سے کہا اے کافر!تو وہ کفر ان میں سے کسی ایک پر ضرور لوٹےگا ۔ (بخاری)۔

اور بخاری ومسلم اور ان کےعلاوہ دوسری حدیث کی کتابوں میں ان الفاظ میں وارد ہے کہ جس نے کسی آدمی کو کافر کہ کر بلایا ، یا اللہ کا دشمن کہ کر پکارا اور وہ ایسا نہ ہو تو وہ کفر پکارنے والے پر پلٹ آئے گا۔ اور ایک دوسرے لفظ میں ہے کہ ان میں سے ایک کافر ہوگیا ۔

تویہ حدیثیں اور اس طرح کی دوسری حدیثوں میں اس بات پر سخت تنبیہ اور بڑی نصیحت ہے کہ کسی کو کافر کہنے میں جلد بازی سے کام لیا جائے…”(السیل الجرار:(4/578)

حضرت امام مالک – رحمہ اللہ – کہتے تھے:اگر ننانوے سبب سے کسی شخص کے کافر ہونے اور ایک وجہ سے مسلم ہونے کا احتمال ہو تو مسلم سے حُسنِ ظن کی بنا پر اُسے مسلم کہا جائےگا۔

جیسا کہ کتاب "صیانۃ الانسان عن وسوسۃ الشیخ دحلان "میں امام محمد بن عبد الوہاب کا یہ صریح قول موجود ہے کہ عبد القادر جیلانی اور سید بدوی کی قبروں کے پاس سجدہ کرنے والے کو اس وقت تک کافر نہیں کہیں گے یہاں تک کہ اس پر حُجت قائم ہوجائے۔

مسئلہ تکفیر اور اس کی خطرناکی کے بارے میں چند احادیث اور علماء سلف اور اہلِ صلاح وتقوی اہلِ علم کے اقوال کے یہ چند نمونے ہیں۔برخلاف اس کےجن کی زبان سے بغیر علم وبرہان کے تحلیل وتحریم، تبدیع وتفسیق اور تکفیر کے فتوے ہم سنتے رہتے ہیں اور خاص کر علماءو امراء اور حُکام کے بارے میں تکفیر کے فتوے تو بہت عام ہیں ۔

ô تکفیرسے متعلق اہم ضابطے اور اُصول:

(1) لفظ ایمان اور کفر ان شرعی الفاظ میں سے ہیں جن کا مفہوم انسان اپنی عقل اور خواہش سے متعین نہیں کرسکتا بلکہ اس کے لئے شرعی قیود کی پابندی اور غایت درجہ احتیاط ضروری ہے۔چنانچہ کتاب وسنت میں جن لوگوں کے کفر وفسق پر واضح دلیل موجود ہے اُسے ہی کافر یا فاسق کہا جائےگا۔

(الرد علی البکری لشیخ الاسلام ابن تیمیہ ص:258، ملاحظہ فرمائیے:براءۃ السنۃ جنیدی کی ص: 39)

سلسلہ جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

{ ناشر : مکتب الدعوہ ، الغاط ، www.islamdawah.com/urdu }

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں