ایک خطرناک کـــــام 2/2

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ôایک خطرناک کـــــامô

قسط : 2/2

از قلم : شیخ ابو عبد المحسن

{ ناشر : مکتب توعیۃ الجالیات ، الغاط ، www.islamdawah.com/urdu }

پچھلی قسط کے آخری سطور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ô تکفیرسے متعلق اہم ضابطے اور اُصول:

(1) لفظ ایمان اور کفر ان شرعی الفاظ میں سے ہیں جن کا مفہوم انسان اپنی عقل اور خواہش سے متعین نہیں کرسکتا بلکہ اس کے لئے شرعی قیود کی پابندی اور غایت درجہ احتیاط ضروری ہے۔چنانچہ کتاب وسنت میں جن لوگوں کے کفر وفسق پر واضح دلیل موجود ہے اُسے ہی کافر یا فاسق کہا جائےگا۔

(2) کفر وشرک اور ظلم میں سے ہر ایک کی دو قسم ہے:اکبر اور اصغر، یہ وہاہم قاعدہ ہے جو خوارج اور ان کے پیروکاروں پر مخفی ہے، البتہ سلف صالحین کے نزدیک یہ واضح اور معروف رہا ہے۔ چنانچہ حضرت امام بخاری –رحمہ اللہ – اپنی صحیح میں فرماتے ہیں :”باب کُفران العشیر وکفر دُونَ کفر”(باب خاوندوں کی ناشکری کے بیان میں اور ایک کفر کا – اپنے درجہ میں – دوسرے کفر سے کم ہونے کے بیان میں )

حافظ ابن حجر- رحمہ اللہ– لکھتے ہیں کہ قاضی ابو بکر ابن العربی اپنی شرح میں فرماتے ہیں :اس قول سے مصنف یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ جسطرح طاعات کو ایمان کہا جاتا ہےاسی طرح معصیت کو کفرکا نام دیا جاتا ہے ۔لیکن جس جگہ معصیت پر کفر کا اطلاق ہوگا وہاں کفر سے مُراد وہ کفر نہ ہوگا جو ملت سے نکال دینے والا ہے ۔[ الفتح : 1/83 ]

[الابانۃ لابن بطۃ 2/723، ملاحظہ فرمائیے:براءۃ السنۃ ص:4،فتح الباری:(1/83-87)،مدارج السالکین:(1/344)،اقتضاء الصراط المستقیم :(1/207)]۔

(3) کسی شخص معین کی تکفیر اوراس کے قتل کا جواز اس وقت تک موقوف رہے گا جب تک کہ اس کے سامنے ان دلائل نبویہ کی وضاحت نہ کردی جائے جن کی مخالفت کفر تک پہونچادیتی ہے ، اس لئے کہ ہر جاہل کو کافر نہیں کہا جائے گا۔

(الرد علی البکری لشیخ الاسلام ابن تیمیہ ص:258،ملاحظہ فرمائیے :مجموع الفتاوی:(3/229)۔

(4) کسی مسلمان پر کفر یا فسق کا حُکم لگانے سے قبل دو چیزوں پر غور کرنا ضروری ہے :

(الف) کتاب وسنت میں واضح دلالت موجود ہو کہ یہ قول یا فعل مُوجب کفر یا فسق ہے۔

(ب) اس عمل و قول کے کہنے اور کرنے والے شخص پر حکم لاگو بھی ہو اس طرح کہ تکفیر اور تفسیق کے شروط اس کے حق میں پورے ہوتے ہوں اور اس میں کوئی رکاوٹ نہ ہو ۔

ôتکفیر (مُعین )کے شرائط:

اہلِ سنت وجماعت اس وقت تک کسی مسلمان پر کفر یا ارتداد کا حکم نہیں لگاتے جب تک کہ متفق علیہ اسلام کے منافی امور جو علماء کے نزدیک معروف ہیں ان میں سے کسی امر کا مرتکب نہ ہوجائے،نیزیہ بھی ضروری ہے کہ جس پر ارتداد اور کفر کا حکم لگایا جارہا ہے ذیل میں آنے والے شرائط بھی پائے جائیں ۔

(1) وہ شخص جاہل نہ ہو جس کی وجہ سے وہ معذور سمجھا جائے۔جیسے کوئی نیا مسلمان ہوا اور شرعی احکام کو ابھی تک نہ سیکھ سکا،یا ایسے ملک میں رہتا ہو جہاں اسلام کا بول بالا نہیں ہے اور قرآن کی تعلیمات قابلِ فہم انداز میں اس تک نہ پہنچی ہوں، یا وہ جس عمل کفر کا ارتکاب کررہا ہےایسا مخفی حکم ہو جو محتاجِ بیان ہو۔

(2) وہ مجبور نہ کیا گیا ہو کہ اپنی مجبوری کی وجہ سے صرف چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اسلئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:)مَن كَفَرَ بِاللّهِ مِن بَعْدِ إيمَانِهِ إِلاَّ مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالإِيمَانِ وَلَـكِن مَّن شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْراً فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ((النحل106)

(جو شخص اپنے ایمان کے بعد اللہ سے کفر کرےبجز اس کے جس پر جبر کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر برقرار ہو ، مگر جو لوگ کھُلے دل سے کفر کریں توان پر اللہ کا غضب اور انہیں کے لئے بہت بڑا عذاب ہے)

یہ آیت اس امر پر دلیل ہے کہ جو شخص مجبوراً کلمہ ء کفر ادا کرے اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو اور اس کا مقصد صرف چھٹکارا حاصل کرنا ہو تو وہ کافر نہ ہوگا۔

(3) وہ ایسی تاویل کرنے والا نہ ہو جسے وہ صحیح سمجھ رہا ہے۔ ایسی صورت میں ضروری ہے کہ اس کی اس غلطی کو واضح کیا جائے۔

(4) جہالت کی وجہ سے کسی ایسے شخص کی تقلید کرنے والا نہ ہو جسے وہ حق پر سمجھ رہا ہے یہاں تک کہ اس کی (جس کی تقلید کررہا ہے)حقیقت کو واضح نہ کردیا جائے۔

(5) دین کا پختہ علم رکھنے والے ہی کسی کے مُرتد یا کافر ہونے کا حکم لگائیں گے جو ہر حکم کو اس کا صحیح مقام دیتے ہیں ، اس بارے میں کسی جاہل اور طالب علم کے حکم کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔

خلاصئہ کلام یہ کہ صحیح اور واضح دلیل کے بغیر کسی مسلمان کو خارج از اسلام قرار دینا ایک خطرناک امر ہے، جیسا کہ پچھلے صفحات میں دلائل کے ذریعہ اس کی خطرناکی واضح ہو چکی ہے۔ (الغلو مظاهره ـ أسبابه ـ علاجه)

ôتکفیر مُطلق:

قارئین کرام!مذکورہ باتیں کسی شخص مُعین کو کافر قرار دینے سے تعلق رکھتی ہیں،البتہ جہاں تک تکفیر مُطلق کا تعلق ہےتو جو شخص اعمالِ کفریہ میں سے کسی عمل کا مُرتکب ہوگا اُسے مُطلقاً (اس کا نام لئے اور متعین کئے بغیر)کافر کہا جائے گا ۔

مثلاً:یوں کہا جائے گا کہ جس نے اس طرح کا اعتقاد رکھا وہ کافر ہے،جوان امور میں جو اللہ کے ساتھ خاص ہیں یہ کام کرے وہ کافر ہے،جو غیر اللہ سے فریاد کرے وہ کافر ہے۔

اس لئے کہ جوشخص بھی اعمالِ کفر کا مُرتکب ہوگا اس کے کافر ہونے پر کتاب وسنت اور سلف صالحین کے اقوال میں دلیل موجود ہے۔

چناچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:)إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللّهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَن يُفَرِّقُواْ بَيْنَ اللّهِ وَرُسُلِهِ وَيقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَن يَتَّخِذُواْ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلاً أُوْلَـئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ حَقّاً وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَاباً مُّهِيناً ((النساء150-151)

( جو لوگ اللہ کے ساتھ اور اس کے پیغمبروں کے ساتھ کفر کرتے ہیں اور جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان فرق رکھیں اور جو لوگ کہتے ہیں کہ بعض نبیوں پر تو ہمارا ایمان ہے اور بعض پر نہیں اور چاہتے ہیں کہ اس کے اور اس کے بین بین کوئی راہ نکالیں ۔یقین مانو یہ سب لوگ اصلی کافر ہیں، اور کافروں کے لئے ہم نے اہانت آمیز سزا تیار کر رکھی ہے)۔

نیز ارشاد ہے:)وَمَن يَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَهاً آخَرَ لَا بُرْهَانَ لَهُ بِهِ فَإِنَّمَا حِسَابُهُ عِندَ رَبِّهِ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الْكَافِرُونَ( (المؤمنون117)

(اور جو شخص اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو پکارے جس کی کوئی دلیل اس کے پاس نہیں ،پس اس کا حساب تو اس کے رب کے اوپر ہی ہے بے شک کافر لوگ نجات سے محروم ہیں) ۔

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:”من مات يشرك بالله شيئا دخل النار”(بخاری:1283،مسلم:92)

(جو شخص اس حالت میں مرجائے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرتاہو تو ہو جہنم میں جائےگا )

نیز آپ کا ارشاد ہے:” العهد الذي بيننا وبينهم الصلاة فمن تركها فقد كفر”(احمد، ترمذی،ابن ماجہ ، بروایت یزید وغیرہم)

ہمارے اور ان کے درمیان عہد نماز ہے ،جس نے نماز کو ترک کردیا اس نے کفر کیا)۔

اسی طرح سلف صالحین بعض اہلِ بدعت کوان کے کفریہ اعمال واقوال کی وجہ سے (اس کا نام لئے بغیر)کافر کہتے تھے۔مثلاً: قرآن اللہ کا کلام ہے جس نےاسے مخلوق کہا وہ کافر ہے اور جو اس کے کفر میں شک کرے وہ بھی کافر ہے۔اور جس نے تقدیر کا انکار کیا وہ کافر ہے، اسی طرح جس نے صحابہ کرام کو گالی دی وہ کافر ہے گرچہ وہ روزہ رکھے، نماز پڑھے، اور مسلمان ہونے کا دعوی کرے،اسی طرح جو حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کے معبود ہونے کا اعتقاد رکھے، یا یہ کہ (اصل) نبی وہی ہیں حضرت جبریل علیہ السلام سے تبلیغ رسالت میں غلطی ہوئی،تو اس کے کفر میں کوئی شک نہیں بلکہ اس کے کافر ہونے میں جو توقف کرے وہ بھی کافر ہے ۔

اسی طرح جو یہ گمان کرے کہ نبی (کی وفات) کے بعد سوائے چند کے سارے صحابہ مُرتد ہوگئے،اور (نعوذ باللہ )عموماً صحابہ فاسق ہوگئے،تو اس کے کفر میں کوئی شک نہیں بلکہ اس طرح کے کفر میں جو شک کرے وہ یقینی طور سے کافر ہے۔

ôتکفیرِ مُطلق میں دو چیزوں کی رعایت:

(1) اس مسئلہ میں اس بات کی رعایت ضروری ہےکہ اس (تکفیر مطلق)سے تکفیر مُعین لازم نہیں آتا اسلئے کہ آدمی کبھی کفریہ کام کرتا ہے یا اس کی زبان سے کُفریہ کلمات نکل جاتے ہیں لیکن اس کی وجہ سے وہ کافر نہیں ہوتا یہاں تک کہ اس میں تکفیر کے شروط پائے جاتے ہوں اور اس بارے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو ۔

(2) اس باب میں اس بات کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے کہ سلف سے بعض بدعتی فرقے کی جو تکفیر منقول ہے اس کا تعلق تکفیر مطلق سے ہے ، اس سے اس فرقے کے ہر شخص کی تکفیر لازم نہیں آتی ۔

جیسے سلف کا جہمیوں اورقدریوں کو کافر کہنا،تو اِن کو کافر کہنا اس بات کا متقاضی نہیں ہے کہ ہر جہمی اور ہر قدری کافر ہے۔ان کے علاوہ اور جن دوسرے فرقوں کو سلف نے کافر کہا ہے اس سے ان کے اعیان کی تکفیر لازم نہیں آتی۔

(موقف اہل السنہ والجماعۃ من اہل الاہواء والبدع:1/185-191)

میرے بھائیو!تکفیر مُعین کا معاملہ بڑا خطرناک ہے جیسا کہ آپ کو گزشتہ بیان سے اندازہ ہوگیا ہوگا اسلئے اس معاملہ میں جلدی نہ کریں بلکہ اس مسئلہ میں پختہ علم رکھنے والے علماء کی طرف رجوع کریں ۔بغیر علم کے کلام کرکے اپنی عاقبت خراب نہ کریں۔

اللہ ہمیں اور آپ کو سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)

(وما توفيقي إلا بالله)

المراجع والمصادر:

1ـ تكفير المعين. للشيخ الإمام العلامة عبد الله بن عبد الرحمن أبا بابطين

2ـ الغلو مظاهره ـ أسبابه ـ علاجه.للشيخ محمد بن ناصر العريني

3ـ موقف أهل السنة والجماعة من الأهواء والبدع.للدكتور إبراهيم بن عامر الرحيلي

ختم شدہ

{ ناشر : مکتب الدعوہ ، الغاط ، www.islamdawah.com/urdu }

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں