بدعت حسنہ وسیئہ کی تقسیم

بسم اللہ الرحمن الرحیم

بدعت حسنہ وسیئہ کی تقسیم

از قلم : شیخ عبد الہادی عبد الخالق مدنی

{ پیشکش : مکتب توعیۃ الجالیات الغاط، www.islamdawah.com/urdu }

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بدعت کی دو قسمیں ہیں :

١۔ بدعت حسنہ

٢۔ بدعت سیئہ

ذیل میں ہم ان کے شبہات کا ذکر کریں گے، اور ساتھ ہی ان کا علمی جائزہ لیں گے اور ان کے ازالہ کی کوشش کریں گے۔

پہلا شبہ :

عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں لوگوں کو تراویح کے لئے جمع کیا تھا اور پھر فرمایا تھا :

(نِعْمَتِ الْبِدْعَةُ ھٰذِہِ)یہ کتنی اچھی بدعت ہے!

(بخاری٥٨٣)

ازالہ:

عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول شریعت کے اندر بدعت حسنہ کی دلیل نہیں بن سکتا، کیونکہ یہاں انھوں نے اس کا لغوی مفہوم مراد لیا ہے۔ اس لئے کہ یہ عمل ہر اعتبار سے سنت تھا :

٭ خود قیام رمضان سنت ہے۔آپ ۖ نے اس کی ترغیب فرمائی ہے۔آپ نے فرمایا ہے:

مَنْ قَامَ رَمَضَانَ ِیْمَاناً وَّاحْتِسَاباً غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ (بخاری٥٨٣)

{جس نے ایمان کے ساتھ اور حصول ثواب کی نیت سے رمضان کا قیام کیا(تراویح پڑھی)اس کے تمام پچھلے گناہ بخش دیئے جائیں گے }

٭آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو کئی راتیں باجماعت تراویح پڑھائی، جب لوگوں کی تعداد کافی بڑھ گئی تو آپ اس اندیشہ کی وجہ سے کہ کہیں اسے فرض نہ کردیا جائے لوگوں کی طرف نکلنے سے باز رہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک معاملہ اسی پر باقی رہا۔ (ملاحظہ ہو بخاری٥٨٣ـ٥٩)

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی،اور وحی کے بند ہوجانے کی وجہ سے اس کے فرض کردیئے جانے کا اندیشہ ختم ہوگیا، تو عمر فاروق ص نے اپنے عہد خلافت میں لوگوں کو ایک امام پر جمع کردیا، اور اس بات پر صحابہ کا اجماع ہوگیا۔

٭نیز یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ یہ ایک خلیفۂ راشد کی سنت ہے جن کی اتباع کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

فَعَلَیْکُمْ بِسُنَّتِْ وَسُنَّةِ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَہْدِیِّیْنَ مِنْ بَعْدِْ

(مسند احمد١٢٧٤، ابوداود١٣٥ـ١٥،ترمذی١٤٩٤ـ١٥٠)

اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ابو بکر صدیق صکے زمانے میں اسے باجماعت کیوں نہیں اداکیا گیا؟تو اس کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ابوبکر ص کی رائے کے مطابق آخر شب کا قیام اول شب میں امام کے ساتھ اکٹھا پڑھنے سے افضل تھا، لہذاآپ نے اول شب میں ایک امام کے ساتھ پڑھنے پر انھیں جمع نہیں کیا۔

دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ایک تو آپ کی مدت خلافت کافی مختصر تھی، نیز مرتدین ومانعین زکاة وغیرہ کے ساتھ معرکہ آرایئوںکی بنا پر آپ کو اس کی فرصت نہ ملی کہ ان امور پر غور کرسکتے۔ عمر ص کے زمانے میں چونکہ سارے فتنے سرد پڑچکے تھے، اسلامی حکومت مستحکم ہوچکی تھی، اس لئے آپ نے ان امور پر توجہ دی اور سنت کے احیا ء کی فضیلت آپ کو حاصل ہوئی۔

٭اگر مذکورہ بحث سے اطمینان حاصل نہ ہو تو یہ قاعدہ ذہن نشین کرلیں کہ قول صحابی قول رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف حجت اور دلیل نہیں بن سکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے :

کُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَة {ہر بدعت گمراہی ہے }

حدیث بالکل عام ہے، اس میں کسی قسم کا استثناء نہیں ہے،لہذا اس عموم کے خلاف کسی صحابی کے قول کو دلیل نہیں بنایا جاسکتا ہے۔

دوسرا شبہ :

بدعت کو حسنہ اور سیئہ میں تقسیم کرنے والے دوسری دلیل کے طور پر حدیث ذیل کو پیش کرتے ہیں۔

عَنْ جَرِیْرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ ص قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ۖ مَنْ سَنَّ فِْ الِسْلاَمِ سُنَّةً حَسَنَةً فَلَہُ أَجْرُہَا وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِہَا بَعْدَہُ مِنْ غَیْرِ أَنْ یَّنْقُصَ مِنْ أُجُورِہِمْ شَْئ وَمَنْ سَنَّ فِْ الِسْلاَمِ سُنَّةً سَیِّئَةً کَانَ عَلَیْہِ وِزْرُہَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِہَا مِنْ بَعْدِہِ مِنْ غَیْرِ أَنْ یَّنْقُصَ ذَالِکَ مِنْ أَوْزَارِہِمْ شَْئ۔

(صحیح مسلم٧٠٤٢ـ٧٠٥)

{جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ شروع کیا خود اسے اس کا اجر ملے گا اور ان تمام لوگوں کا اجر بھی جو اس کے بعد اس پر عمل کریںگے بغیر اس کے کہ ان لوگوں کے ا جر میں کسی قسم کی کمی واقع ہو۔ اور جس نے اسلام میں کوئی برا طریقہ شروع کیا تو اس کے اوپر اس کا اپنا گناہ ہوگا اور ان لوگوں کا بھی جنہوں نے اس کے بعد اس پر عمل کیا بغیر اس کے کہ ان لوگوں کے گناہ میں کسی قسم کی کمی واقع ہو}۔

اس حدیث سے وجہ استدلال یہ ہے کہ یہ حدیث کُلُّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَة والی حدیث کے عموم کی تخصیص کرتی ہے۔

اس حدیث میں سَنَّ کا لفظ آیا ہے جو اخترع(ایجادکرنے)اور ابتدع(بلا مثال سابق شروع کرنے)کے ہم معنی ہے، نیز اس کے شروع کرنے کو شارع کے بجائے مکلف کی طرف منسوب کیا گیا ہے، بالکل اس حدیث کی طرح جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :

لَیْسَ مِنْ نَفْسٍ تُقْتَلُ ظُلْماً ِلاَّ کَانَ عَلَیٰ ابْنِ آدَمَ الَوَّلِ کِفْل مِّنْ دَمِہَا لَنَّہُ أَوَّلُ مَنْ سَنَّ الْقَتْلَ۔ (بخاری ١٢٧٩)

{جو نفس بھی ظلماً قتل کیا جائے گا آدم کے پہلے بیٹے پر اس کے خون کا ایک حصہ(گناہ) جائے گا اس لئے کہ سب سے پہلے اسی نے قتل کا طریقہ شروع کیا}۔

اس حدیث میں بھی سَنَّ کا لفظ اخترع یعنی ایجادکرنے کے معنی میں ہے، کیونکہ قابیل نے ہی قتل کا طریقہ سب سے پہلے شروع کیا ہے، اس سے پہلے قتل کا وجود نہیں تھا۔ اگر حدیث میں یہ کہنا مقصود ہوتا کہ شریعت میں ثابت کسی سنت پر کسی نے عمل شروع کیا تو سَنَّ کے بجائے یوں کہا جاتا: مَنْ عَمِلَ بِسُنَّتِْ ـیاـ بِسُنَّةٍ مِّنْ سُنَّتِْ ـ یاـ مَنْ أَحْیَا سُنَّةً مِنْ سُنَّتِ{جس کسی نے میری سنت پر عمل کیا یا میری کسی سنت کو زندہ کیا}

ازالہ:

مذکورہ حدیث میں کسی نئے عمل کی ایجاد مراد نہیں ہے بلکہ کسی سنت ثابتہ پر عمل یا کسی سنت متروکہ کا احیاء مراد ہے۔ اس کی وضاحت دو طرح سے ہوگی۔

١۔ حدیث کی مراد اس کے سبب ورود سے واضح ہوگی۔

چنانچہ پوری حدیث اس طرح ہے :

” جریر بن عبد اللہ ص نے فرمایاکہ دن کے شروع حصہ میں ہم لوگ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے کہ آپ کے پاس ایک قوم آئی۔ جو ننگے بدن تھی، دھاری دار اونی چادر اوڑھے ہوئے تھی، تلواریں لٹکائے ہوئے تھی۔ ان میں سے بیشتر بلکہ سب کے سب قبیلہ مضر کے تھے۔ ان کا فقروفاقہ دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ متغیر ہوگیا۔ آپ گھر میں داخل ہوئے، پھر باہر نکلے، پھر بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا، انھوں نے اذان واقامت کہی،پھر آپ نے صلاة پڑھائی، خطبہ دیا اور ان آیات کی تلاوت فرمائی:

( یٰأَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِْ خَلَقَکُمْ مِنْ نَفْسٍ وَّاحِدَةٍ۔۔۔)الآیة اور (اِتَّقُوْا اللّٰہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْس مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَّاتَّقُوْا اللّٰہَ)۔

اور فرمایا : لوگ صدقہ دیں اپنے دینار سے، اپنے درہم سے، اپنے کپڑے سے، اپنے ایک صاع گیہوں اور ایک صاع کھجور سے،حتی کہ آپ نے فرمایا: اگر چہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو۔راوی کہتے ہیں کہ پھر ایک انصاری ایک تھیلی لے کر آئے، جس سے ان کا ہاتھ تھکا جاتا تھابلکہ تھک گیا تھا، پھر لوگوں کا سلسلہ لگ گیا، یہاں تک کہ میں نے غلے اور کپڑے کے دو ڈھیر دیکھے، اور دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا روئے مبارک کھل اٹھا ہے اور کندن کی طرح دمک رہا ہے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

مَنْ سَنَّ فِْ الِسْلاَمِ سُنَّةً حَسَنَةً۔۔۔۔۔(مسلم٧٠٥٢)

اس حدیث کے سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ سنت حسنہ سے انصاری صحابی والے عمل جیسا عمل مراد ہے۔کیونکہ جب وہ تھیلی بھر کر لائے تو صدقہ کا دروازہ کھل گیا، اور لوگ یکے بعد دیگرے اپنے صدقات لانے لگے۔ مگر بہر حال اس خیر وبھلائی کے شروعات کی فضیلت انھیں ہی حاصل ہوئی۔ صحابی مذکور کا عمل کوئی نئی چیز نہیں،بلکہ شریعت سے ثابت ایک عمل تھا۔ زیادہ سے زیاہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ صحابہ کو متنبہ کرنے اور انھیں صدقہ پر ابھارنے میں ان کے کردار کا ہاتھ تھا۔ چنانچہ معلوم ہوا کہ سنت حسنہ سے مراد کسی سنت پر عمل کرنا ہے، خصوصاً اس وقت جب لوگ اس سے غافل ہوں یا اسے ترک کرچکے ہوں۔

٢۔ اس حدیث میں سَنَّ کے لفظ کو اختراع وایجاد کے معنی پر محمول کرنا درست نہیں ہے۔ کیونکہ کسی عمل کا اچھا یا برا ہونا شریعت کی موافقت یا مخالفت ہی سے معلوم ہوسکتا ہے۔اگر شریعت کے موافق ہے تو سنت حسنہ ورنہ سنت سیئہ۔

سنت سیئہ دو چیزوں پر بولا جاتا ہے :

الف۔ گناہ ومعصیت کے کاموں کو شروع کرنا،جیسا کہ قابیل سے متعلق حدیث میں ہے جو پچھلے صفحات میں گذر چکی ہے۔

ب۔ دین میں کسی بدعت کو شروع کرنا۔

اگر بالفرض مذکورہ حدیث سے شریعت کے اندر بدعت حسنہ کے وجود پر استدلال کیا جائے تو یہ حدیث ان احادیث سے متعارض ہوگی جس میں بدعت کی عمومی مذمت کی گئی ہے، اور یہ قاعدہ معلوم ہے کہ جب عموم اور تخصیص کے دلائل باہم متعارض ہوتے ہیں تو تخصیص ناقابل قبول ہوتی ہے۔(الموافقات٢٣٢٣)

تیسرا شبہ :

بدعت حسنہ کی دلیل کے طور پر یہ روایت بھی ذکر کی جاتی ہے:

عَنْ بِلَالِ بْنِ الْحَارِثِ ص أَنَّ النَّبَِّ ۖ قَالَ لَہُ ِعْلَمْ۔ قَالَ مَا أَعْلَمُ یَا رَسُولَ اللّٰہِ ؟ قَالَ : ِنَّہُ مَنْ أَحْیَا سُنَّةً مِّنْ سُنَّتِْ قَدْ أُمِیْتَتْ بَعْدِْ کَانَ لَہُ مِنَ الَجْرِ مِثْلَ أُجُوْرِ مَنْ عَمِلَ بِہَا مِنْ غَیْرِ أَنْ یَّنْقُصَ مِنْ أُجُوْرِہِمْ شَیْئاً وَمَنِ ابْتَدَعَ بِدْعَةً ضَلَالَةً لاَ یَرْضَاہَا اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ کَانَ عَلَیْہِ مِثْلَ آثَامِ مَنْ عَمِلَ بِہَا لاَ یَنْقُصُ ذَالِکَ مِنْ أَوْزَارِ النَّاسِ شَیْئاً۔(ترمذی١٥٠٤ـ١٥١)

{بلال بن حارث صسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جان لو۔ انھوں نے کہا : کیا جان لوں اے اللہ کے رسول ؟ آپ نے فرمایا : جس نے میری کسی ایسی سنت کو زندہ کیا جو میرے بعدمردہ کی جاچکی تھی، تو اس کو اس پر عمل کرنے والے کے برابر اجر ملے گا، بغیر اس کے کہ ان لوگوں کے اجر میں کسی طرح کی کمی ہو۔ اور جس نے کوئی بدعت ضلالت ایجاد کی جو الله اور اس کے رسول کو پسند نہیں، تو اس کو اس پر عمل کرنے والوں کے برابر گناہ ملے گا، بغیر اس کے کہ ان کے گناہوں میں کوئی کمی واقع ہو }۔

اس حدیث سے وجہ استدلال یہ ہے کہ اس میں مطلقاً ہر بدعت کی مذمت نہیں کی گئی ہے بلکہ صرف اسی بدعت کی مذمت کی گئی ہے جوالله اور اس کے رسول کی مرضی کے خلاف ہو اور بدعت ضلالت ہو۔

ازالہ:

مذکورہ حدیث سے استدلال درست نہیں کیونکہ وہ ضعیف ہے، اس میں ایک راوی کثیر بن عبد اللہ بن عمرو بن عوف المزنی ہے جو متروک ومجروح ہے اور اس کی روایت ناقابل اعتبار ہے۔

چوتھا شبہ :

عبد اللہ بن مسعودص فرماتے ہیں : مَا رَآہُ الْمُسْلِمُوْنَ حَسَناً فَہُوَ عِنْدَ اللّٰہِ حَسَن (مسند احمد٣٧٩١)

{جس چیز کو مسلمان اچھا سمجھیں وہ اﷲ کے نزدیک بھی اچھا ہے}۔

وجہ استدلال یہ ہے کہ اچھا سمجھنے کی نسبت مسلمانوں کی طرف کی گئی ہے، دلیل کی طرف نہیں۔ جس سے معلوم ہوا کہ بدعت اچھی اور بری دونوں طرح ہوسکتی ہے۔

ازالہ:

مذکورہ حدیث ایک طویل حدیث کا ٹکڑا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس شبہ کے ازالہ کی خاطر پوری حدیث مکمل سیاق کے ساتھ پہلے یہاں ذکر کردیں۔

عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍص قَالَ: ِنَّ اللّٰہَ نَظَرَ فِْ قُلُوْبِ الْعِبَادِفَوَجَدَ قَلْبَ مُحَمَّدٍ ۖ خَیْرَ قُلُوْبِ الْعِبَادِ فَاصْطَفَاہُ لِنَفْسِہِ وَابْتَعَثَہُ بِرِسَالِتِہِ ثُمَّ نَظَرَ فِْ قُلُوْبِ الْعِبَاِد بَعْدَ قَلْبِ مُحَمَّدٍ ۖ فَوَجَدَ قُلُوْبَ أَصْحَابِہِ خَیْرَ قُلُوْبِ الْعِبَادِ فَجَعَلَہُمْ وُزَرَائَ نَبِیِّہِ یُقَاتِلُوْنَ عَلَیٰ دِیْنِہِ فَمَا رَأَیٰ الْمُسْلِمُوْنَ حَسَناً فَہُوَ عِنْدَ اللّٰہِ حَسَن وَّمَا رَأَوْہُ سَیْئاً فَہُوَ عِنْدَ اللّٰہِ سَِّئ(مسند احمد ٣٧٩١)

{عبد اللہ بن مسعودص فرماتے ہیں : اللہ تعالی نے بندوں کے دلوں میں دیکھا، تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دل بندوں کے دلوں میں سب سے بہتر پایا۔چنانچہ آپ کو اپنے لئے منتخب کرلیا اور آپ کو اپنی رسالت دے کر مبعوث فرمایا۔ پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بندوں کے دلوں میں دیکھا، تو آپ کے صحابہ کے دلوں کو بندوں کے دلوں میں سب سے بہتر پایا۔ چنانچہ انھیں اپنے نبی کا وزیر بنایا،جو اللہ کے دین کے لئے جنگ کرتے ہیں۔ لہذا جسے مسلمان اچھا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھا ہے۔ اور جسے مسلمان برا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی برا ہے۔

یہ حدیث کئی اسباب کی بنا پربدعت حسنہ کے لئے دلیل نہیں بن سکتی:

١۔ یہ حدیث موقوف ہے، مرفوع نہیں ہے۔ لہذا اسے مرفوع کے مقابلے میں پیش کرنا درست نہیں ہے۔ یعنی یہ صحابی کا قول ہے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول سے ٹکرانا درست نہیں ہے۔

٢۔ اگر فرض کرلیا جائے کہ یہ حجت ہے تو اس سے مراد اجماع صحابہ ہوگا۔

٣۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ اس سے مراد غیر صحابہ ہیں، تو عالم وجاہل تمام مسلمان اس سے مراد نہیں ہوں گے، بلکہ اہل اجماع مقصود ہوں گے۔ اگر کوئی یہ کہتا ہے کے عالم وجاہل تمام مسلمان مراد ہیں تو اس سے دو باطل چیزیں لازم آئیں گی:

اول:یہ درج ذیل حدیث سے متناقض ہوگا۔

سَتَفْتَرِقُ أُمَّتِْ عَلَیٰ ثَلاَثٍ وَّ سَبْعِیْنَ فِرْقَةً کُلُّہُمْ فِْ النَّارِ ِلاَّ وَاحِدَة۔(ابوداود٥٥ـ٦،مسند احمد ١٠٢٤،حاکم١٢٨١)

{اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی، سب جہنم میں جائیں گے سوائے ایک کے}۔

تناقض کی صورت یہ ہے کہ سابقہ حدیث سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ کوئی مسلمان کسی چیز کواچھا سمجھے تو وہ اچھی چیز ہے۔ یعنی اس کی بات اور اس کا خیال غلط نہیں ہوسکتا ہے۔ اگر معاملہ ایسا ہی ہے تو پھر تہتر فرقوں میں تقسیم اور ایک کے سوا سب کے جہنمی ہونے کا کیا مطلب ہوگا!!

دوم : اس کا تقاضہ یہ ہوگا کہ کوئی عمل کسی کے نزدیک حسن ہو اور کسی کے نزدیک قبیح، حالانکہ یہ باطل ہے۔ اور اگر عبد اللہ بن مسعود صکی حدیث سے یہ مراد لی جائے کہ جسے عام مسلمان اچھا سمجھیں وہ اچھا ہے،تو گویا دین میں بدعت ایجاد کرنے کے لئے چوردروازہ کھول دیا گیا۔

حقیقت یہ ہے کہ ابن مسعود صکی حدیث سے بدعت حسنہ کے وجود یا جواز پر استدلال کرنا کسی صورت میں درست نہیں ہے۔

پانچواں شبہ :

سلف صالحین نے کچھ ایسے اعمال انجام دیئے ہیں جن سے متعلق خاص اور صریح نص وارد نہیں ہے۔ جیسے جمع قرآن اور تصنیف علوم وغیرہ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت میں بدعت حسنہ کا وجود ہے۔

ازالہ :

معلوم ہونا چاہئے کہ وہ چیز بدعت نہیں ہے جس کے الله اور اس کے رسول کی اطاعت ہونے کے بارے میں شرعی دلیل موجود ہو۔

جہاں تک جمع قرآن کا معاملہ ہے تو اگرچہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلمنے اپنی حیات مبارکہ میں ایسا نہیں کیا،مگر آپ نے قرآن مجید کے لکھنے کا حکم دیا، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

لاَتَکْتُبُوْا عَنِّْ غَیْرَ الْقُرْآنِ وَمَنْ کَتَبَ عَنِّْ غَیْرَ الْقُرْآنِ فَلْیَمْحُہُ

(صحیح مسلم ٢٢٩٨٤)

{میری طرف سے قرآن کے سوا کچھ نہ لکھو، جس نے قرآن کے سوا کچھ لکھا ہو اسے مٹا دے}۔

البتہ جہاں تک ایک مصحف میں دو دفتیوں کے درمیان قرآن مجیدکے جمع کرنے کی بات ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں ایسا اس لئے نہیں کیاکیونکہ کچھ آیات یا کچھ سورتوں کے نازل ہونے یا کچھ آیتوں کے منسوخ ہونے کا احتمال تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد یہ احتمال ختم ہوگیا۔ چنانچہ ابوبکر صنے یہ مبارک عمل انجام دیا۔ پھر عثمان صنے لوگوں کو ایک مصحف پر جمع کردیا اور تمام صحابہ کا اس بات پر اجماع ہوگیا۔ جہاں تک احادیث نبویہ کی تدوین اور علوم شرعیہ کی تصنیف کا سوال ہے تو یہ تبلیغ شریعت کے ضمن میں داخل ہے اور اس کے دلائل واضح اور معلوم ہیں۔

بہر حال سلف کے وہ اعمال جن سے بدعت حسنہ کے وجود پر استدلال کیا گیا ہے، یا تو وہ سنت کے وسیع مفہوم میں شامل اور داخل ہیں، یا تو کسی شرعی کام کی انجام دہی کا وسیلہ اور ذریعہ ہیں لہذا بدعت نہیں ہیں۔

یہاں پریہ بات ذہن نشین رہے کہ یہ اختلاف لفظی ہے، ورنہ تمام معتبر اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ تمام بدعات مذمومہ ضلالت ہیں جن کا خلاصہ بیان ہوچکا ہے۔

ختم شدہ

{ پیشکش : مکتب توعیۃ الجالیات الغاط، www.islamdawah.com/urdu }

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں