بسم اللہ الرحمن الرحیم
بدعت کی مذمت کتاب وسنت کی روشنی میں
از: شیخ ندیم اختر سلفی حفظہ اللہ
داعیہ جالیات حوطہ سدیر
ہر قسم کی تعریف اس رب العالمین کے لئے ہےجس نے ہمیں اتباع ِ کتاب وسنت کا حکم دیا اور دین میں بدعت ایجاد کر نے سے منع کیا،میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ہی معبود ہے اس کا کوئی شریک نہیں،جس نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی اس نے رشدوہدایت کو پالیا،اور جس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی وہ گمراہی میں جاپڑا،جس کا نقصان اسے خود ہوگا اللہ کو نہیں،اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو ایسی شاہ راہ پر چھوڑا جس کی راتیں اس کے دن کی مانند ہیں اس سے وہی گمراہ ہوگا جس کے مقدر میں ہلاک ہونا ہے،اور درود سلام ہوآپ پر،آپ کے آل پر اور آپ کے تمام ساتھیوں پرجنہوں نے آپ کی پیروی کی اور تمسک بالسنۃ جن کا شعار تھا۔
برادرانِ اسلام!ایک مسلمان پر جو چیز واجب ہے وہ یہ کہ اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت پر صحابہ کرام کے فہم کے مطابق مضبوطی کے ساتھ قائم وائم رہےکیونکہ یہی ہدایت اور روشنی کا منبع ہے، اور دین میں نئے نئے طریقے ایجاد کرنے سے پرہیز کرےکیونکہ اس میں گمراہی ہے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:]اتَّبِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ وَلا تَتَّبِعُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ قَلِيلاً مَا تَذَكَّرُونَ[(الأعراف:3)(تم لوگ اس کا اتباع کروجو تمہارے رب کی طرف سے آئی ہے،اور اللہ کو چھوڑ کر من گھڑت سر پرستوں کی اتباع مت کروتم لوگ بہت ہی کم نصیحت پکڑتے ہو)،نیز ارشاد ہے:]فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلا يَضِلُّ وَلا يَشْقَى[(طه:123)(جو میری ہدایت کی پیروی کرے نہ تو وہ بہکے گانہ تکلیف میں پڑے گا)،آیت مذکورہ میں اللہ کی طرف سے یہ وعدہ ہے کہ جو کتاب اللہ پر عمل کرے گاوہ دنیا میں گمراہی میں واقع نہ ہوگا اور وہ آخرت میں سعادت مند رہے گا،لیکن جو اللہ کی کتاب سے اعراض کرے گا اس کو دھمکی دی گئی ہےجیسا کہ ارشاد ہے:]وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكاً وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى[ (طه:124) (اور(ہاں)جو میری یاد سے روگردانی کرے گااس کی زندگی تنگی میں رہے گی،اور ہم اسے بروز ِ قیامت اندھا کرکے اٹھائیں گے)،یعنی جس نے میرے حکم کی اور جو کچھ رسول پر نازل ہوا ہےاس کی مخالفت کرتے ہوئے اعراض کیا اور اسے بھول بیٹھا اور دوسرے راستے کی پیروی کی تو ایسا شخص دنیا میں بے کلی اور بے چینی کا شکار رہے گا اسے سکون اور اطمینان نصیب نہ ہوگابلکہ گمراہی کی وجہ سے اس کا دل تنگ رہے گا ایسا شخص گرچہ ظاہری طور پر دنیاوی نعمت سے لُطف اندوز ہورہا ہو لیکن ہمیشہ اس کا دل قلق و اضطراب کا شکار رہے گا،وہ ہمیشہ حیرت اور شک میں سائے میں رہے گا(اور بعض نے اس تنگی سے عذاب ِ قبر مُراد لیا ہے)ایسے شخص کو اللہ قیامت کے دن بصارت اور بصیرت دونوں سے محروم کردے گا جیسا کہ دوسری آیت میں ہے:]وَمَنْ يَهْدِ اللَّهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَهُمْ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِهِ وَنَحْشُرُهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى وُجُوهِهِمْ عُمْياً وَبُكْماً وَصُمّاً مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنَاهُمْ سَعِيراً[ (الإسراء:97)(اللہ جس کی رہنمائی کرے وہ تو ہدایت یافتہ ہے اور جسے وہ راہ سے بھٹکادے ناممکن ہے کہ تو اس کا مددگار اس کے سوا کسی اور کو پائے،ایسے لوگوں کا ہم بروز ِ قیامت اوندھے منہ حشر کریں گے،[1] دراں حالیکہ وہ اندھے گونگے اور بہرے ہوں گے،ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا،جب کبھی وہ بجھنے لگے گی ہم ان پر اسے اور بھڑکا دیں گے)۔
محترم حضرات!قرآن کریم میں بے شمار آیتیں ہیں جن میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:]وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ , وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَاراً خَالِداً فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُهِينٌ[(النساء:13،14)(اور جو اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کرے گااسے اللہ تعالیٰ جنتوں میں لے جائے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے،اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرے اور اس کی مقرر ہ حدوں سے آگے نکلے اسے وہ جہنم میں ڈال دے گاجس میں وہ ہمیشہ رہے گا،ایسوں ہی کے لئے رسوا کن عذاب ہے)۔
& اور یہی کلمہ ٔ شہادت کا تقاضا ہے جس نے لا الہ الا اللہ کی گواہی دی ضروری ہے کہ وہ اللہ کی اطاعت کرےاور کتاب ِ الہی کو اپنا رہنما تسلیم کرے،اور جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رسالت کی گواہی دی اس پر واجب ہے کہ وہ سنت رسول کے سامنے سر تسلیم خم کردے۔&رسول کی فرمانبرداری اللہ سے محبت اور اللہ کی اس سے محبت کی علامت ہے،اور رسول کی نافرمانی اس شخص کے کفر کی دلیل ہے،ارشاد الہی ہے:]قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ , قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ الْكَافِرِينَ[ (آل عمران:31،32)(کہہ دیجئے!اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہوتو میری تابعداری کرو،خود اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرمادے گا اور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا مہربان ہے،کہہ دیجئے!کہ اللہ تعالیٰ اور رسول کی اطاعت کرو،اگر یہ منہ پھیر لیں تو بے شک اللہ تعالیٰ کافروں سے محبت نہیں کرتا)۔
& رسول کی اطاعت درحقیقت اللہ کی اطاعت ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:]مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ[ (النساء:80)(اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جو اطاعت کرے اسی نے اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کی)،&رسول کی فرمانبرداری کرنے والے کو ہدایت تامہ (مکمل ہدایت)حاصل ہوگی،ارشاد ہے:]وَإِنْ تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا[ (النور:54)(ہدایت تو تمہیں اسی وقت ملے گی جب رسول کی ماتحتی کرو)، &رسول کی اطاعت رحمت کا سبب ہے،ارشاد ہے:]وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ[ (آل عمران:132)(اور اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے)، &اور رسول کا نافرمان گمراہ اور خواہشات کی اتباع کرنے والاہے،ارشاد ہے:]فَإِنْ لَمْ يَسْتَجِيبُوا لَكَ فَاعْلَمْ أَنَّمَا يَتَّبِعُونَ أَهْوَاءَهُمْ وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوَاهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ[(القصص:50) (پھر اگر یہ تیری نہ مانیں تو تو یقین کرلے کہ یہ صرف اپنی خواہش کی پیروی کررہے ہیں،اور اس سے بڑھ کر بہکا ہوا کون ہے؟ جو اپنی خواہش کے پیچھے پڑ ا ہوا ہوبغیر اللہ کی رہنمائی کے)، &اور جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام سے سرتابی کرتے ہیں اللہ نے انہیں دھمکی دی ہے ،ارشاد ہے:]فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ[ (النور:63)(سنو!جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہئے کہ کہیں ان پر کوئی زبر دست آفت نہ آپڑے یا انہیں دردناک عذاب نہ پہنچے)،آیت میں جس فتنے کی دھمکی دی گئی ہے وہ دلوں کی وہ کجی ہے جو انسان کو ایمان سے محروم کردیتی ہے،اور ایمان سے محرومی اور کفر پر خاتمہ جہنم کے دائمی عذاب کا باعث ہے۔
محترم حضرات!کتاب وسنت کے مخالف جو بھی بات ہوگی اس کا شمار بدعت اور گمراہی میں ہوگا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم امت کو اس سے ڈراتے تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خطبے میں فرماتے تھے:” إن خير الحديث كتاب الله،وخير الهدي هدي محمد صلى الله عليه وسلم,وشر الأمور محدثاتها وكل محدثة بدعة وكل بدعة ضلالة "وزاد النسائي”وكل ضلالة في النار”(سب سے بہتر بات اللہ کی کتاب ہے اور سب سے اچھا طریقہ طریقہ محمدی ہے،اور بد ترین امور دین میں ایجاد کردی چیزیں ہیں،اور دین میں ہر ایجاد کردہ چیز بدعت ہے اور ہر بدعت ضلالت ہے اور ہر ضلالت کا انجام جہنم ہے)(مسلم وغیرہ نے اسے روایت کیا ہے)،اور اختلاف کے وقت سنت ِ رسول اور خلفا٫ راشدین کی سنت کو مضبوطی کے ساتھ تھامے رہنے کا حکم دیتے جیسا کہ آپ کا ارشاد ہے:” إنه من يعش منكم بعدي فسيرى اختلافاً كثيراً ،فعليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين تمسكوا بها وعضوا عليها بالنواجذ ، وإياكم ومحدثات الأمور فإن كل محدثة بدعة وكل بدعة ضلالة "(بلا شبہ تم میں سے جو میرے بعد زندہ رہا وہ بہت سارا اختلاف دیکھے گا،ایسے موقع پر تم میری سنت اور میرے خلفا٫ راشدین کی سنت اپنائے رکھنا،سنت کو خوب مضبوطی سے تھامے رہنا،نئی نئی بدعات واختراعات سے اپنے آپ کوبچائے رکھنا،بلا شبہ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے)(ابوداؤد فی السنۃ باب اس بارے میں کہ سنت کا اتباع واجب ہے ح:4607،ترمذی فی العلم باب سنت کو پکڑنے اور بدعت سے اجتناب کے بارے میں ح:2676) ،اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے:” من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد” (جس نے ہمارے اس معاملہ (دین)میں کوئی نئی بات ایجاد کی جو اس میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے)(بخاري ح:2697بروایت عائشہ رضی اللہ عنہا ومسلم ح:)،اورایک روایت میں ہے:” من عمل عملاً ليس عليه أمرنا فهو رد ” (جس نے وہ کام کیا جو ہمارے طریقہ پر نہیں تو وہ مردود ہے)(مسلم ح:17)
& سیرت صحابہ میں بھی ہمیں یہ مثال ملتی ہے کہ وہ سختی کے ساتھ لوگوں کوبدعت سے منع کرتے تھے،چنانچہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو خبر پہنچی کہ وسط کوفہ میں عمرو بن عتبہ کے ساتھیوں نے ایک مسجد بنائی ہے تو آپ اس مسجد کو گرانے کا حکم دیتے ہیں،پھر انہیں یہ بات معلوم ہوئی کہ کوفہ کی کسی مسجد میں جمع ہوکر تسبیح وتہلیل اور تکبیر کے ایک معیّن تعداد کا ورد کررہے ہیں،چنانچہ آپ بُرنس ایک خاص قسم کا کپڑا پہنتے ہیں (بُرنس اس لمبے لباس کو کہتے ہیں جو سر کو ڈھانپ لے،اہل مغرب اس قسم کے کپڑے کا استعمال کرتے ہیں)اور ان کی مجلس میں جاکر بیٹھ جاتے ہیں،جب ان کے ذکر کو جان لیتے ہیں تو اپنے سر سے وہ کپڑا ہٹا کران سے فرماتے ہیں:میں ابو عبد الرحمن(عبد اللہ بن مسعود کی کنیت)ہوں،پھر ان سے فرماتے ہیں :تم لوگ صحابہ کرام سے علم میں زیادہ افضل ہو یا ظلماً کسی بدعت کا ارتکاب کررہے ہو؟ یہ سن کر عمرو بن عتبہ تین مرتبہ استغفار کرتا ہے پھر بنی تمیم کا ایک شخص کہتا ہے کہ واللہ نہ ہم صحابہ کرام سے علم میں افضل ہیں اور نہ ظلماً کسی بدعت کا ایجاد کرنے والے ہیں لیکن ہم لوگ اللہ کو یاد کررہے ہیں،تو جواب میں حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:ہاں کیوں نہیں!قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں ابن مسعود کی جان ہے اگر تم لوگ صحابہ کرام کے نقش قدم پر چلوگے تو آگے ہی بڑھتے رہوگے،اور اگر تم لوگ دائیں اور بائیں چلے گئے تو دور کی گمراہی میں جاگروگے۔()
مذکورہ ان نصوص میں ارتکاب بدعت اور سنت کی مخالفت سے اجتناب کا حکم دیا گیا ہے۔
بدعت کی تعریف:
دین میں ایجاد کیا گیا وہ طریقہ جو شریعت کی شکل میں ہواور جس سے (بدعت پر عمل کرنے والا یا اسے ایجاد کرنے والے کا) مقصد رضائے الہی کے حصول میں مبالغہ ہوبدعت کہلاتا ہے۔(الاعتصام للشاطبی 1/37)
اور یہ تعریف دین کے نام پر ایجاد کی ہوئی ہر اس چیز کو شامل ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل اور دلیل موجود نہ ہو،لیکن شریعت میں جس چیز کی اصل اور دلیل موجود ہو تو وہ شرعاً بدعت نہیں ہوگی گرچہ اس کو لغۃً بدعت کا نام دیا جائے۔
بدعت کی کئی صورتیں:
کبھی بدعت کی یہ صورت ہوتی ہے کہ کوئی ایسی عبادت ایجاد کرلی جاتی ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل نہ ہو،جیسے جشن ِ میلاد النبی کی بدعت،جشن ِ معراج کی بدعت یا ہجری اور عیسوی سال نو کی مناسبت سے جشن کی بدعت وغیرہ ۔اس کو حقیقی بدعت کہتے ہیں۔یا کبھی اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ عبادت کےلئے کسی وقت کو خاص کرلیا جاتا ہے جس کی تخصیص شریعت سے ثابت نہیں ہوتی جیسے قیام اور ذکر واذکا ر کے لئے ماہ رجب یا شعبان کی پندرھویں رات کی تخصیص،اسی طرح روزہ کے لئے اس کے دن کی تخصیص۔یا کبھی اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ ثابت شدہ عبادت میں کسی صفت کا اضافہ کرلیا جاتا ہےجس کا ثبوت شریعت میں نہیں ہوتا جیسےفرض نماز کے بعد اجتماعی دعا،اجتماعی ذکر واذکاراور ان جیسی دیگر بدعتیں،اس طرح کی بدعات کو اضافی بدعت کہتے ہیں۔
بدعت کے مفاسد:
&بدعتی اپنی خواہشات کا پیرو کار ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:]وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوَاهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ[ (القصص:50) (اور اس سے بڑھ کر بہکا ہوا کون ہے؟ جو اپنی خواہش کے پیچھے پڑ ا ہوا ہوبغیر اللہ کی رہنمائی کے)۔
& بدعتی اللہ کے بارے میں ایسی بات کہتا ہے جس کا اس کے پاس علم نہیں ہوتا اور بغیر علم کے اللہ کے بارے میں کوئی بات کہنا شرک کے برابر ہےجس سے اللہ تعالیٰ نے خبردار کیا ہے:]قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْأِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَنْ تُشْرِكُوا بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَاناً وَأَنْ تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لا تَعْلَمُونَ[ (الأعراف:33) (آپ فرمائیے کہ البتہ میرے رب نے صرف حرام کیا ہے ان تمام فحش باتوں کو جو علانیہ ہیں [2] اور جو پوشیدہ ہیں اور ہر گناہ کی بات کو اور ناحق کسی پر ظلم کرنے کو اور اس بات کو کہ تم اللہ کے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک ٹھہراؤ جس کی اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی اور اس بات کو کہ تم اللہ کے ذمے ایسی بات لگادو جس کو تم جانتے نہیں)
& ابلیس کو معصیت کے مقابلے میں بدعت زیادہ محبوب ہے۔ابلیس کہتا ہے(اس پر اللہ کی لعنت ہو):میں نے ابن آدم کو گناہوں کے ذریعہ ہلاک کیا اور انہوں نے مجھے لا الہ الا اللہ اور استغفار کے ذریعہ ہلاک کیا،پھر جب میں نے یہ دیکھا تو ان میں بدعتوں کو پھیلادیا تو اب وہ گناہ کرتے ہیں اور توبہ نہیں کرتے اس لئے کہ ان کے گمان کے مطابق وہ اچھا کام کررہے ہیں۔
& اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت کے علاوہ امت محمدیہ کو کوئی تیسری شئ جمع نہیں کرسکتی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ]وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً وَلا تَفَرَّقُوا[ (آل عمران:103) (اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوط تھام لو،اور پھونٹ نہ ڈالو) [3]، نیز ارشاد ہے:]وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيماً فَاتَّبِعُوهُ وَلا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ
سنت کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔اسی لئے آپ دیکھیں گے کہ بدعتی حضرات سنت سے زیادہ بدعت پر عمل کرنے کے حریص ہوتے ہیں کیونکہ وہ اسی کو دین سمجھتے ہیں۔
& بدعتی یہ خیال کرتا ہے کہ دین ناقص ہے اس لئے وہ اپنی بدعت کے ذریعہ اس کی تکمیل چاہتا ہے ورنہ اگر وہ یہ سمجھتا کہ دین مکمل ہے تو بدعت سے بےنیاز ہوجاتا۔
& بدعتی حضرات سنت پر عمل کرنے میں کوتاہ اور بدعت کو انجام دینے میں بڑے نشیط نظر آتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ احیا٫ بدعت کے لئے اموال خرچ کرتے ہیں،اس میں اپنا وقت صرف کرتے ہیں۔
& بدعت سے لوگوں میں اختلاف اور تفرقہ پیدا ہوتا ہے،اور ہر فریق یہی سمجھتا ہے کہ وہ دوسرے سے اچھا ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:]كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ[ (المؤمنون:53) (ہر گروہ جو کچھ اس کے پاس ہے اسی پر اترا رہا ہے)،جب کہ سنت اتحاد اور دلوں کے جوڑنے کا سبب بنتا ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشا دہے:]وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً وَلا تَفَرَّقُوا[ (آل عمران:103)(اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوط تھام لو،اور پھونٹ نہ ڈالو)۔
& بدعت تکبر اور انکار ِ حق کا باعث ہے،چنانچہ جب بدعتی کو حق کی دعوت دی جاتی ہے تو وہ اسے ماننے سے انکار کردیتا ہےبلکہ بدعت کا دفاع بھی کرتاہے۔
& بدعت صحیح دین کو بگاڑ دیتا ہے۔ اور یہی مقصد ہے اسلام دشمن تنظیموں کا تاکہ مختلف اسباب وسائل کے ذریعےلوگوں کو اصلی دین سے دور کردیا جائے،چنانچہ اس کام کے لئے ان کے پاس سب سے بڑا ہتھیار بدعات وخرافات کاہے۔واضح ہو کہ جو لوگ بدعت کی ترویج واشاعت کرتے ہیں اس کے پیچھے ان کے اپنے مادی مقاصد بھی ہوتے ہیں یا پھر نفسانی خواہشات کی تکمیل مقصود ہوتی ہے ،چنانچہ آپ دیکھیں گے کہ دور حاضر میں بدعات کے اوپر کس قدر اموال خرچ کئے جارہے ہیں۔بدعات کی ترویج واشاعت میں میڈیا(ٹی وی،اخبار اور رسائل وجرائد)کا بہت بڑا دور رہا ہے،لوگ جب انہیں پڑھتے اور سنتے ہیں تو اس کو دین سمجھ بیٹھتے ہیں۔اسی طرح بدعات کو فروغ دینے اور اسے شرعی لباس پہنانے میں علما٫ سو٫(بُرے علما٫)کا بہت بڑا کردار رہا ہے۔
اسلامی بھائیو!موجودہ زمانے میں بدعات کی بھرمار ہے ہر چہار جانب آپ کو ایسے لوگ ملیں گےجو بڑے جوش کے ساتھ بدعت کو پھیلانے میں لگے ہوئے ہیں،جب جب اس کا موسم آتا ہے لوگوں کو اس کی دعوت دی جاتی ہے،سبب یہ ہے کہ اب یہی بدعات مسلمانوں کے نزدیک دین کا حصہ ہیں،انہیں بدعات میں ایک پندرہویں شعبان کی بدعت ہے،اس کی رات کا نام لوگوں نے “شب ِ برأت”رکھا ہوا ہے،اور یہ گمان رکھتے ہیں کہ اس رات میں گناہ بخشے جاتے ہیں،عُمریں بڑھائی جاتی ہیں،روزیوں میں اضافہ کیا جاتاہے،رات بھر جاگ کر نمازیں پڑھی جاتی ہیں ،قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے،قبروں کی زیارت کرتے ہیں ،چراغ جلاتے ہیں،قبروں پر پھول چڑھاتے ہیں،گذشتہ شعبان سے لے کرموجودہ شعبان تک جو لوگ مرے ہوئے ہوتے ہیں ان کے نام رجسٹر میں درج کرتے ہیں،حلوہ بناتے ہیں ،بیوہ عورت یہ سمجھتی ہے کہ اس کے شوہر کی روح پندرہویں شعبان کی رات میں آئے گی اس لئے اس کے واسطے کھانا پکاتی ہے اور اس کے انتظار میں بیٹھتی ہے۔(بدعات اور ان کا شرعی پوسٹ مارٹم-اختصار کے ساتھ-ص:687)
چونکہ اس قسم کی بدعت کا ایک جانب مشروع ہوتاہے اس لئےعوام دھوکہ کھاجاتے ہیں،اس رات کو خاص طور پر ذکر اور قیام کرنے اور دن کو روزہ رکھنے کی کوئی دلیل ثابت نہیں،اس کے ثبوت کے لئے جو روایتیں پیش کی جاتی ہیں وہ یا تو نہایت ضعیف یا موضوع روایتیں ہیں،اور جس عبادت پر کوئی دلیل نہ ہو ایسی عبادت کا شمار بدعت میں ہوگا۔
اختلاف کا واحد حل قرآن وحدیث:
علما٫ کرام رحمہم اللہ کا اس بات پر اجماع واتفاق ہے کہ جس مسئلہ میں اختلاف پیدا ہوجائے اس کو کتاب وسنت کی روشنی میں حل کیا جائے،چنانچہ ان دونوں(کتاب وسنت)یا ان میں سے ایک نے جو بھی فیصلہ کیا وہی واجب الاتباع شریعت ہوگی اور جو حکم ان دونوں کے خلاف ہو اس کا چھوڑ دینا واجب ہے، اس طرح جن عبادتوں کا تذکرہ ان میں نہیں ہے وہ چیزیں بدعت ہیں ان پر عمل کرنا جائز نہیں،چہ جائیکہ اس کی دعوت وتبلیغ کی جائے۔جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ]يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاً [ (النساء:59)
ترجمہ:(اے ایمان والو!فرمانبرداری کرو اللہ تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)کی اور تم میں سے اختیار والوں کی،پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول کی طرف،اگر تمہیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے،یہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے۔
مزید ارشاد باری تعالیٰ ہے: ]وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيهِ مِن شَيْءٍ فَحُكْمُهُ إِلَى اللَّهِ ذَلِكُمُ اللَّهُ رَبِّي عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ [(الشورى:10) ترجمہ:(اور جس چیز میں تمہارا اختلاف ہو اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف ہے،یہی اللہ میرا رب ہےجس پر میں نے بھروسہ کر رکھا ہے اور جس کی طرف میں جھکتا ہوں)
ارشاد گرامی ہے: ]فَلاَ وَرَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ حَتَّىَ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لاَ يَجِدُواْ فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجاً مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُواْ تَسْلِيماً[ (النساء:65) ترجمہ:(-اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم -تیرے پروردگار کی قسم!یہ مومن نہیں ہوسکتے،جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں،پھر جو فیصلے آپ ان میں کردیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور نا خوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کرلیں)
ایک اور جگہ ارشاد ربانی ہے:]قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ , قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ الْكَافِرِينَ[ (آل عمران:31،32)(کہہ دیجئے!اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہوتو میری تابعداری کرو،خود اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرمادے گا اور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا مہربان ہے،کہہ دیجئے!کہ اللہ تعالیٰ اور رسول کی اطاعت کرو،اگر یہ منہ پھیر لیں تو بے شک اللہ تعالیٰ کافروں سے محبت نہیں کرتا)۔
اس معنی ومفہوم پر مشتملہ آیات بکثرت موجود ہیں اور یہ سب اختلافی مسائل کو کتاب وسنت کی طرف رجوع کرنے اور ان کے فیصلہ کردہ احکام کو قبول کرنے کے سلسلہ میں صریح نصوص ہیں،اور یہی ایمان ویقین کا تقاضا اور دنیا وآخرت میں سرخروئی کا سبب ہے۔
نصف شعبان کے بارے میں علما٫ محققین کا قول:
& ابو بکر الطرطوشی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم نے اپنے مشائخ اور فقہا٫ کرام کو نصف شعبان کی طرف کوئی توجہ کرتے ہوئے نہیں پایا،اور نہ وہ یہ خیال کرتے تھے کہ دوسری رات پر اس رات کی کوئی فضیلت ہے،بلکہ وہ حضرت مکحول وغیرہ کے مسلک کو ناقابلِ التفات سمجھتے تھے۔(رواہ ابن الوضاح فی کتاب “البدع والحوادث”)
& حضرت ابن ابی ملیکہ سے عرض کیا گیا کہ زیاد النمیری تو اس کے فضائل میں کہ کہتے ہیں کہ”پندرہویں شعبان کے شب کا اجر وثواب شب ِ قدر جیسا ہے”تو آپ نے فرمایا”اگر ان سے یہ بات سنتے وقت ہاتھ میں ڈنڈا ہوتا تو میں ان کی پٹائی کردیتا،زیاد کون ہوتے ہیں وہ تو محض ایک قصہ گو تھے”(التحذیر من البدعۃلسماحۃ الشیخ عبد اللہ بن بازص:34)
& علامہ ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:اس رات کی تخصیص کا اکثر علما٫ حجاز نے انکار کیا ہے۔عبدا لرحمن بن زید بن اسلم رحمہ اللہ نے فقہا٫ اہل ِ مدینہ سے یہی نقل کیا ہے۔نیز امام مالک اور ان کے شاگردوں کا بھی یہی مسلک ہے۔یہ تمام حضرات اسے بدعت کہتے تھے۔(دیکھئے:لطائف المعارف ص:144)
&نیز ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:اس رات میں قیام سے متعلق اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی بھی حدیث ثابت نہیں،اور نہ صحابہ کرام کا اس پر کوئی عمل ثابت ہے ۔(لطائف المعارف ص:145)
& حافظ عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:نصف شعبان میں نماز پڑھنے والی حدیث باطل ہے۔علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے اسے اپنی کتاب “الموضوعات” میں روایت کیا ہے۔
& امام شوکانی رحمہ اللہ “المختصر”میں فرماتے ہیں کہ :”پندرہویں شعبان کے متعلق حدیث باطل ہے”۔(دیکھئے التحذیر من البدع ص:34)
& علامہ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں :شعبان کی پندرہویں رات کے فضائل میں جو احادیث مروی ہیں وہ اتنی ضعیف ہیں کہ ان پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا اور اس شب میں(کسی خاص قسم کی)نماز پڑھنے کے سلسلے میں جو روایات مذکور ہیں وہ سب کی سب موضوع(من گھڑت)ہیں جس کی طرف محدثین نے توجہ دلائی ہے۔اور جہاں تک ان احادیث ضعیفہ کا تعلق ہے جو فضائل اعمال کے سلسلے میں قابل قبول ہوتی ہیں اور اس کی بنیاد پر عبادت کی جاسکتی ہیں تو یہ وہ احادیث ہیں جن کے اصول صحیح دلائل سے ثابت ہیں،اور جہاں تک نصف شعبان میں جشن کا تعلق ہے تو اس میں کوئی صحیح اصل(بنیاد)نہیں پائی جاتی کہ ضعیف احادیث سے اس کی تائید حاصل کی جائے۔(التحذیر من البدعۃ لسماحۃ الشیخ عبد اللہ بن بازص:27)
&اور جو لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ سورہ دخان کی آیت :]إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ[ (الدخان:3) (ہم نے اسے ایک مبارک رات میں نازل کیا ہے)سے مراد یہی شب ِ برأت ہے،تو ایسا گمان باطل اور حق کے مخالف ہے،کیونکہ مبارک رات سے مراد شب ِ قدر ہے،اہل علم کی اکثریت کا یہی مسلک ہے اور مفسرین کی ایک بڑی تعداد نے اسی کو راجح قرار دیا ہے([1])جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ]إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ[ (القدر:1) (یقیناً ہم نے اسے شب ِ قدر میں نازل فرمایا)،اور یہ رات رمضان میں آتی ہے نہ کہ شعبان میں،کیونکہ قرآن کا نزول رمضان میں ہوا ہے،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:]شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ[ (البقرة:185) (ماہ ِ رمضان وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا)۔علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جس نے یہ کہا کہ اس سے مراد شعبان کی پندرہویں رات ہے وہ حق سے بہت دور ہے۔
علما٫ کرام کے مذکورہ اقوال سے بخوبی اندازہ ہوگیا کہ ماہ ِ شعبان کےپندرہویں شب کو کسی طرح کی عبادت کرنا یا جشن منانا نہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور نہ صحابہ کرام سے کچھ منقول ہے بلکہ اضافہ کردہ بدعت ہے۔
محترم حضرات!جو رات میں قیام کا عادی ہے وہ دوسری راتوں کی طرح اس رات میں بھی قیام کرے،جو ایام ِ بیض میں روزے رکھنے کا عادی ہے وہ شعبان کے ان دنوں میں روزے رکھے،جو پیر اور جمعرات کے دن روزے رکھنے کا عادی ہے اور شعبان کی پندرہویں تاریخ ان دنوں میں سے کسی دن کے موافق ہوجائےتو اس دن کا روزہ رکھےاس میں کوئی حرج نہیں،اسی طرح جو شخص شعبان کے اکثر دنوں میں روزے رکھنے کا عادی ہے تو وہ اس دن کا روزہ رکھے اس میں کوئی حرج نہیں،کیونکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے بعد سب سے زیادہ شعبان کے مہینے میں روزہ رکھتے۔
برادران ِ اسلام!دین اسلام میں نفلی نمازیں اور نفلی روزے جس کثرت سے ثابت ہیں اگر ایک مسلمان اسی کا پابند ہوجائے تو اس کے لئے بہت کافی ہے۔لہذا ایک مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ ان عبادات کو چھوڑکر بدعات وخرافات کی طرف متوجہ ہو،یہ ان کی روش ہے جن کے دلوں میں کجی ہے،جو واضح اور روشن دلیلوں کو چھوڑ کر متشابہات کے پیچھے پڑتے ہیں ایسے لوگ سنت کو دباتے ہیں اور بدعت کو زندہ کرتے ہیں۔ یہ کس قدر تعجب کی بات ہے کہ بعض لوگ ثابت شدہ عبادات کو چھوڑ کر ان چیزوں کے پیچھے بھاگتے ہیں جن کا کوئی ثبوت نہیں۔
اس لئے مسلمانو!اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت کو مضبوطی کے ساتھ تھام لو،بدعات وخرافات سے پرہیز کرو،اپنے ایک ایک عمل کا نمونہ اسوۂ نبی میں تلاش کرو،یہی نجات کی راہ ہے،دلوں میں بھلائی کی تڑپ ہو لیکن اس میں سیرت ِ رسول کا کوئی حصہ نہ ہو ایسے عمل کا کوئی فائدہ نہیں،بلکہ ایسا عمل صاحب ِ عمل کے لئے وبال بن جائے گا۔
{ناشر:مکتب توعیۃ الجالیات الغاط: www.islamidawah.com }
ختم شدہ
[1]) دیکھئے: تفسیر الطبری 11/231،223،الوسیط للواحدی 4/85،احکام القرآن لابن العربی 4/117، تفسیر القرطبی 16/85، تفسیر ابن کثیر 6/245، اور الضوء المنیر لابن القیم رحمہم اللہ جمیعاً