بدگمانی ایک سلو پوائزن/حديث نمبر :84

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حديث نمبر :84

خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط

بتاریخ : 22/23 جمادی الآخرہ1430ھ، م 16/15جون 2009

بدگمانی ایک سلو پوائزن

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيثِ وَلَا تَحَسَّسُوا وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا تَنَاجَشُوا وَلَا تَحَاسَدُوا وَلَا تَبَاغَضُوا وَلَا تَدَابَرُوا وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا”.

( صحيح البخاري : 6066، الأدب / صحيح مسلم : 2563 ، الأدب )

ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بدگمانی سے بچو کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے ، دوسروں کی ٹوہ میں نہ لگو ، دوسروں کی جاسوسی نہ کرو ، نہ دوسرے پر بڑھنے کی بے جا ہوس کرو ، نہ آپس میں حسد رکھو ،نہ بغض رکھو اور نہ ہی ایک دوسرے سے منہ پھیرو ،اور اے اللہ کے بندو بھائی بھائی بن کر رہو ۔ { صحیح بخاری وصحیح مسلم }

تشریح : بدگمانی ایک قسم کا جھوٹا وہم ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے شخص کو ہر ایک کے کام میں بدنیتی معلوم ہوتی ہے ، کوئی بھی شخص اپنے کام میں حسن نیت نظر نہیں آتا اور دوسروں کی طرف اَن ہوئی باتیں منسوب کرنے لگتا ہے ، کتنے ایسے گھر ہیں جو بد گمانی ہی کی بنیاد پر اجڑتے دیکھے گئے ہیں ، کتنی ہی ایسی عورتیں ہیں جنہیں بدگمانی ہی کے سبب طلاق دے دیا گیا ہے ، سالوں کے کتنے ایسے دوست ہیں جو صرف بدگمانی ہی کی بنا پر ایک دوسرے کے دشمن بن گئے ہیں بلکہ اگر اپنے ماضی کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان کے دو افضل ترین جماعتوں میں لڑائی صرف بدگمانی ہی کی بنیاد پر ہوئی ہے جس میں ہزاروں مسلمان قتل ہوئے ہیں ، جنگ جمل جو حضرت علی اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کے درمیان پیش آئی تھی اس کی واضح مثال ہے ، اسی لئے اسلام نے اپنے بھائی سے متعلق بلا وجہ کی بدگمانی کو ناجائز و حرام کردیا ہے ، ارشاد باری تعالی ہے :

[يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَلَا تَجَسَّسُوا۔۔۔]{الحجرات:122}

ترجمہ : اے ایمان والو ! بہت بدگمانی سے بچو یقین جانو کہ بعض بدگمانیاں گناہ ہیں اور جاسوسی نہ کرو ۔

یعنی جس گمان کا کوئی موقعہ محل نہ ہو ، یا اس کا کوئی شرعی مقصد نہ ہو یا اس کا کوئی فائدہ نہ ہو تو اس جگہ بدگمانی سے بچنا چاہئے کیونکہ کسی ظاہری امر کو دیکھ کر اگر کوئی شخص اپنے بھائی سے متعلق کوئی خیال اپنے ذہن میں بٹھا لیتا ہے تو معاملہ صرف بدگمانی تک محدود نہیں رہتا بلکہ جب کوئی شخص کسی کے بارے میں بدگمانی کا شکار ہوتا ہے تو فطری طور پر اس معاملہ کی تحقیق کے لئے ٹوہ ، کھوج میں اس کی جاسوسی میں لگ جاتا ہے اور جب معاملہ ٹوہ لگانے اور جاسوسی کرنے تک پہنچتا ہے تو اپنے بھائی کی طرف ایسی باتیں منسوب کرنے لگتا ہے جس سے وہ بَری ہوتا ہے ، اس طرح وہ شخص غیبت جیسی مہلک بلا میں مبتلا ہوجاتا ہے جس کے نتیجے میں بغض ، کینہ اور حسد جیسی مہلک اخلاقی بیماریاں معاشرہ میں جنم لیتی ہیں اور بھائی بھائی کے درمیان اختلاف ، پھوٹ پڑنے اور آپسی لڑائیوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ۔

شاید یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جس کی وجہ سے قرآن وحدیث میں ایک مسلمان کے بارے میں بدگمانی سے روکا گیا ہے ، زیر بحث حدیث میں یہی چیز واضح کی گئی ہے اور اسے جھوٹ کی سب سے بری شکل سے تعبیر کیا گیا ہے ، اسی لئے حدیث میں بدگمانی کے ساتھ ساتھ ٹوہ لگانے ، غیبت کرنے اور حسد وغیرہ سے بھی روکا گیا ہے ، واضح رہے کہ وہ ظن جس کی بنیاد کسی ظاہری امر پر ہو جیسے کوئی شخص ہر وقت مئے خانہ میں رہتا ہے ، سمجھانے سے بھی اس جگہ سے دور رہنے کے لئے تیار نہیں ہوتا اور اس کے ظاہری اعمال بھی شراب نوشی سے پرہیزی کے نہیں ہیں تو ایسے شخص کے بارے میں بدظنی گناہ میں داخل نہیں ہے ، لیکن اسی کے ساتھ ساتھ یہ ضروری ہے کہ وہ شخص اپنے اوپر سے اس تہمت کو دور کرنے کی کوشش کرے اور ایسی جگہوں سے دوررہے جہاں سے اس پر بدظنی کا دروازہ کھلتا ہو جیسا کہ امام بیہقی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ تہمت کی جگہوں سے دور رہنا سنت میں داخل ہے ، پھر بطور دلیل حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کی وہ لمبی حدیث نقل کی ہے جس میں وہ بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف بیٹھے ہوئے تھے ، میں ایک رات آپ سے ملاقات کے لئے حاضر ہوئی بات بات میں کافی وقت گذر گیا ، فارغ ہوکر جب میں واپس جانے کے لئے کھڑی ہوئی تو آپ بھی میرے ساتھ کھڑے ہوگئے تاکہ مجھے مسجد کے دروازے تک رخصت کریں ، اتنے میں دو انصاری صحابی ادھر سے گذرے جب ان دونوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو تیزی سے جانے لگے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فورا آواز دی اور فرمایا : یہ میری بیوی صفیہ ہیں ، دونوں نے عرض کیا : سبحان اللہ ، اے اللہ کے رسول ! { اگر ہمیں کسی کے ساتھ بدگمانی کرنی ہو تی تو وہ آپ ہی تھے ؟ } آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : شیطان انسان کی رگوں میں اسی طرح دوڑتا رہتا ہے جیسے خون رگوں میں دوڑتا ہے ، مجھے خوف ہوا کہ وہ کہیں تمہارے دلوں میں کوئی بات نہ ڈال دے ۔

{ صحیح بخاری ومسلم، دیکھئے السنن الکبری ،ج :۴، ص : ۳۲۴ }

فوائد :

  1. کسی مسلمان کے ساتھ بدگمانی بہت بڑا گناہ ہے ۔
  2. بدگمانی بہت سے گناہوں کا دروازہ کھولتی ہے ۔
  3. بدگمانی کی بعض شکلیں جو کسی قرائن پر مبنی ہوں جائز ہیں ۔

ایک مسلمان کو چاہئے کہ حتی الامکان اپنے اوپر سے بدگمانی کو دور کرے ۔

ختم شدہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں