برائي کي روک/حديث نمبر : 22

بسم اللہ الرحمن الرحيم

حديث نمبر : 22

برائي کي روک

خلاصہ درس شيخ أبو کليم : بروزپير و منگل بتاريخ : 12/11 /فروري 2008ئ

مطابق : 4/ 5/ صفر 1429ھ

عن أبي سعيد الخدري رضي اللہ عنہ قال : سمعت رسول اللہ صلي يللہ عليہ وسلم يقول : من رأي منکم منکرا فليغيرہ بيدہ فن لم يستطع فبلسانہ فن لم يستطع فبقلبہ وذلک أضعف اليمان ۔

( صحيح مسلم : 49 ، اليمان ، سنن أبوداؤد : 1140 ، الصلاة )

ترجمہ : حضرت ابو سعيد خدري رضي اللہ عنہ سے روايت ہے ، وہ بيان کرتے ہيں کہ ميں نے اللہ کے رسول ﷺ سے سنا آپ فرمارہے تھے کہ تم ميں سے جو شخص کوئي منکر ( غيرشرعي کام ) ديکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے روکے اور اگر ہاتھ سے نہ روک سکے تو اپني زبان سے روکے اور اگر اپني زبان سے بھي نہ روک سکے تو ا پنے سے( برا سمجھے ) اور يہ ايمان کا سب سے کمزور درجہ ہے ۔

صحيح مسلم ، سنن ابوداود

تشريح : اللہ تبارک وتعالي نے شريعت اسلام پر عمل کو دنيا اور اہل دنيا کي سعادت وفلاح کا سبب قرار ديا ہے اور اسکي مخالفت وسرتابي کو زمين پر فساد کا ذريعہ بتلايا ہے، لہذا ہر بندے پر ضروري ہے کہ وہ سعادت وفلاح والے کا موں کو بجالائے اور فساد وہلاکت کے کاموں سے پرہيز کرے ، دنيا کي يہ اصلاح اس وقت ممکن ہے جب کہ ہر شخص اس کي اہميت کو محسوس کرے،اسطرح کہ أولا تو ايک مسلمان ہونے کي حيثيت سے وہ شريعت پر عمل پيرا رہے اور ثانيا وہ دوسروں کو بھي اس پر عمل کرنے کي دعوت دے ، اسي چيز کو قرآن وحديث ميں” أمر بالمعروف اور نہي عن المنکر” کا نام ديا گيا ہے جو دين کا ايک بڑا اہم فريضہ ہے ، اللہ تعالي کا ارشاد ہے:” کنتم خير أمة أخرجت للناس تأمرون بالمعروف وتنھون عن المنکر و تؤمنون باللہ "…. الآية … ( العمران : 104 ) ….. تم بہترين امت ہو جو لوگوں ( کي اصلاح وہدايت ) کيلئے پيدا کي گئي ہے کہ تم لوگوں کو معروف ( نيک باتوں ) کا حکم ديتے اور منکر ( بري باتوں يا خلاف شرع کاموں ) سے روکتے ہو اور اور اللہ تعالي پر ايمان رکھتے ہو …………

گويا مسلمانوں کے بہترين امت ، اچھي جماعت اور برگزيدہ گروہ بننے کيلئے يہبنيادي شرط ہے کہ انہيں صرف اپنے اصلاح کي فکر نہيں ہوني چاہئے بلکہ اوروں کے اصلاح وہدايت کي بھي فکر کرني چاہئے، اور صرف معروف پر عمل اور اس کا حکم دينا ہي انہيں اس عظيم ذمہ داري سے بري نہيں کريگا، بلکہ منکر سے پر ہيز اور اس سے روکنا بھي نہايت ضروري ہے کيونکہ ہم ديکھتے ہيں کہ بہت سے لوگ خود تو منکر سے پر ہيز کرليتے ہيں ليکن دوسروں کو اس سے نہيں روکتے ، اس طرح کچھ لوگ معروف کا حکم اور اسکي دعوت تو بڑے زور شور سے ديتے ہيں ليکن منکر سے منع نہيں کرتے ،

يہ دونوں فريق بھي بہتر ين امت ميں شامل ہونے کے حقدار نہيں ، زير بحث حديث ميں اسي أمر ونہي کي اہميت کو واضح کيا گيا اور اسکا طريقہ يا اسکے درجات کي طرف لوگوں کي رہنمائي کي گئي ہے .

چنانچہ نبي کريم ۖ کا فرمان ہے کہ جو شخص بھي کسي خلاف شرع کام کو ديکھے خواہ وہ اوامر کے ترک سے تعلق رکھتا ہو يا ممنوع چيزوں کے ارتکاب سے متعلق ہو تو أولا يہ چاہے کہ اسے اپنے ہاتھ سے روکنے کي کوشش کرے، اس طرح کہ منکر کے مرتکب کو پکڑلے يا منکر کو تباہ کردے يا جس جگہ منکر کا ارتکاب ہورہا ہو اس جگہ لوگوں کو جانے سے روک دے وغيرہ ، ليکن اگر ہاتھ سے روکنے پر فتنہ کا خطرہ ہو ، يا بدلنے والے کي جان ومال وغيرہ کے نقصان کا خطرہ ہوتو ايسي صورت ميں اس منکر کو زبان سے روکا جائے ، ترغيب وترہيب اور تہديد وتوبيخ کا اسلوب اختيار کيا جائے ،ليکن اگر کسي سے يہ بھي نہيں ہوسکتا ہے کيونکہ کمزور ايمان يا حالات کے لحاظ سے وہ زبان سے کسي کو روک نہيں سکتا تو اسکا فريضہ ہے کہ ا س منکر کو دل سے برا سمجھے ، اس ميں کسي بھي طرح کي شموليت اختيار نہ کرے، بلکہ اس جگہ سے اٹھکر چلا جائے اور اپنے قول وفعل کے ذريعہ يہ ظاہر کرے کہ وہ منکر سے خوش نہيں ہے ۔

اس طرح گويا اس حديث ميں برائي کو روکنے کے تين درجات بيان ہوئے ہيں :

(1) کوئي بھي خلاف شرع کام ديکھا جائے تواسے ہاتھ اور طاقت کے ذريعہ ختم کيا جائے ، يہ انکار کا سب سے اعلي درجہ ہے ، اپنے ايمان ، صلاحيت و امکانيت کے لحاظ سے ہر مسلمان اسکا مخاطب ہے البتہ اسکے خصوصي مخاطب حاکم وقت ، اسکے نائب اور گھر وخاندان کے ذمہ دار حضرات ہيں ۔

(2) کسي خلاف شرع کام کو ديکھنے اور علم ہوجانے پر زبان سے اسکا ارتکاب کيا جائے. ٹيلي فون ، وعظ ونصيحت اور پرچو ں اور اخبارات ميں اس منکر کے خلاف لکھنا بھي اسي ميں داخل ہے ۔

(3) دل سے برا سمجھنا ، يعني اگر کسي کا ايمان قدر کمزور ہے کہ وہ زبان سے بھي کسي برائي سے منع نہيں کرسکتا تو اپنے دل ميں اسے ناپسند کرے ، يہ ايسا درجہ ہے کہ اس سے کسي بھي شخص کو کسي بھي صورت ميں چھٹکارا نہيں ہے ، اب اگر کسي کے اندر يہ جذبہ بھي نہيں رہ گيا تو اسکا مطلب ہے کہ اسکے دل ميں اللہ کے لئے حب وبغض اور ولا ء وبراء کا عقيدہ مفقود ہے جسکي وجہ سے اسکا ايمان بھي يا تو اسکے دل سے نکل چکا ہے يا پھر سخت خطرے ميں ہے، اللہ کے رسول ﷺ کا فرمان ہے : دين کاسب سے مضبوط کڑا اللہ کيلئے محبت اور اسي کيلئے بغض ہے

(مسند احمد ، 4/ 286 )

فوائد :

(1) امر بالمعروف اور نہي عن المنکر ايک بڑا اہم فريضہ ہے ۔

(2) أمر بالمعروف اور نہي عن المنکر کبھي فرض کفايہ ہوگا اور کبھي فرض عين ۔

(3 ) بندے کے ايمان ميں کمي او ر زيادتي ہوتي رہتي ہے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں