برے سے برا وقت / حديث نمبر: 334

بسم اللہ الرحمن الرحیم

334:حديث نمبر

خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط

برے سے برا وقت

بتاریخ : 08/ ربیع الآخر 1439 ھ، م  26/، ڈسمبر  2017 م

 

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ الصَّابِرُ فِيهِمْ عَلَى دِينِهِ كَالقَابِضِ عَلَى الجَمْرِ. سنن الترمذي:2260الفتن

ترجمہ : حضرت انس بن مالک  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ  نے فرمایا : لوگوں میں ایک ایسا زمانہ آئے  گا کہ اپنے دین کو مضبوطی سے تھامے  رہنے والے  کی مثال  ایسی ہوگی  کہ گویا کوئی  چنگاری  کو پکڑے ہوئے  ہے ۔

تشریح : نبی کریم ﷺنے قیامت  سے قبل  پیش  آنے  والے  جن امور سے متعلق  خصوصی  پیشین گوئی  کی ہے  ، ان میں  سے ایک دینی اقدار کا ختم  ہونا ہے  اور دینی تعلیم پر عمل کرنے میں  رکاوٹوں  کا پیش  آنا بھی  ہے حتی کہ  صورت حال یہاں تک  پہنچ  جائے  گی کہ   اپنے دین  پر جمے  رہنا گویا  انگاروں پر چلنا ہے  ۔

جیساکہ زیر بحث  حدیث  سے واضح  ہے، نیز ایک  اور حدیث میں نبیﷺ کا ارشاد ہے کہ  "تباہی ہے  عرب کے لئے  اس شر  کی وجہ سے  جو بالکل  قریب ہے ، ایسے فتنے  ظاہر ہوں گے  جو اندھیری رات  کے ٹکڑوں کے مانند  ہوں گے  جن کے  اثر سے  ایک شخص  صبح کو مومن  رہے گا اور شام  کو  کافر  ہوجائے گا ، ان دنوں  میں کچھ لوگ   اپنے دین  کے  معمولی  فائدے  کے عوض   بیچ دیں گے  ، ان دنوں  میں اپنے دین کو مضبوطی  سے تھام رکھنے  والا شخص  ایسا ہوگا  گویا  وہ چنگاری  کو پکڑے  ہوئے ہے”  ۔ {مسند احمد  بروایت  ابو ہریرہ } ۔

زیر بحث حدیث  میں نبی  ﷺ نے اپنی امت کی توجہ تین بڑے اہم امور کی طرف متوجہ کرائی ہے، ایک  طرف  تودینی اعتبار سے بڑے ہی   ناساز گار  حالات  کے پیدا ہونے کی خبر  دی ہے  ، دوسرے ان  حالات  سے متنبہ  کیا ہے  اور تیسرے  ایسے حالات  سے بچنے  کے وسائل  اختیار  کرنے کی ترغیب  دی ہے ۔

جہاں تک  ایسے ناساز گار حالات  کے پیدا ہونے کی خبر  کا تعلق  ہے تو اس سے متعلق  ایک مومن  کو یقین  رکھنا چاہئے  کہ ایسا ضرور ہونے  والا ہے ، اور اس کی وجہ  یہ ہوگی اس زمین  میں  بگاڑ  عام ہوگا  ،فتنوں  کا دور  دورہ ہوگا ، گناہوں کی طرف  دعوت  دینے  والوں  کی کثرت ہوگی  ، گناہوں  پر ابھارنے  والی چیز یں عام  ہوں گی  اور دین  پر عمل  کرنے والوں کی قلت  ہوگی ، دین پر عمل  کرنے میں   معین و  مددگار بننے  والے لوگ  کم سے کم  تر ہوں گے  جس کی وجہ سے  سنتیں  مٹ جائیں گی،  بدعتیں  عام ہوں گی اور بے دینی کا دور دورہ ہوگا، ایسے وقت  میںایک مومن کے لئے اپنے  دین پر جمے رہنا  مشکل  ترین  کام ہوگا۔

یہ صورت  حال آج  دیکھی جاسکتی  ہے  معاشرتی  طور پر  ، اقتصادی  طور پر  اور سیاسی  طور پر  ایسے ایسے  فتنے ظاہر ہوچکے ہیں کہ ایک  مسلمان  کے لئے   اپنے دین کی حفاظت  ایک مشکل  ترین مسئلہ  بن چکا ہے   ، شبہات و شہوات  کے ایسے ایسے  فتنے  ظاہر ہوچکے  ہیں کہ ایک مومن  کے لئے  دنیا تنگ  ہوچکی ہے۔

دوسری  بات جو اس حدیث سے  معلوم ہوتی  ہے کہایک مومن کو چاہئے  کہ ان حالات  سے نپٹنے  کے لئے  تیاری کرے اور یہ یقین رکھے کہ  ان حالات  کا درپیش  آنا قدرتی  مسئلہ ہے  ہمارے اندرتو اس کے ٹالنے  کی طاقت تو نہیں  ہے البتہ  یہ توجہ یہ دینا  ہے  کہ ہم ان حالات سے  کس طرح  نپٹ  سکتے ہیں  ،اگر فتنوں سے متعلقہ حدیثوں پر غور کیا جائے اس کے لئے  ہمیں  دو طریقہ  اپنانا ہے :

ایک تو  یہ  کہ ایسے حالات  سے دوچار  ہونے سے قبل  اپنے آپ کو  دین پر  ثابت  قدمی کا عادی  بنائیں  ،جس قدر  ہوسکے  نیک  عمل کا  خزینہ   اپنے  دفتر میں جمع  کرلیں،  اس لئے کہ اس کا  دو فائدہ  ہوگا، ایک تو یہ کہ جو شخص  حالت فراغت و سہولت  میں نیک  عمل کا عادی  رہے گا  مشکل  و پریشانی  کے وقت  میں اس کے لئے نیک  عمل کرنا  آسان ہوگا  ۔

دوم  یہ کہ اگر  حالات  ایسے ہوں کہ  خواہش کے باوجود  کوئی نیک عمل نہیں  کرسکتا اور   اگر  پہلے سے عمل  کا پابند  رہا ہے تو اللہ تعالی  اسے  نیک عمل  کا اجر  برابر  دیتا  رہے گا ،  سچ فرمایا  اللہ تعالی نے  :  إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ (6)التین

بجز ان لوگوں  کے جو ایمان لائے اور عمل صالح  کئے ان کے لئے غیر منقطع  اجر ہے ۔

ارشاد  نبوی ہے  کہ جب بندہ  بیمار ہوجاتا ہے  یا سفر  پر چلا جاتا  ہے تو حالت  صحت  و اقامت  میں جو عمل  کرتا  رہا ہے  اس کے نامہ اعمال  میں لکھ  دیا جاتا ہے ۔ {صحیح بخاری و مسند احمد وغیرہ  بروایت  ابو موسی } ۔

اسی طرف  توجہ دلاتے ہوئے   نبی ﷺ نے فرمایا  ہے : اندھیری  رات کے ٹکڑوں  کی طرح فتنوں  کے ظہور  سے قبل جلدی  جلدی  عمل کرلو [ورنہ ان فتنوں  کے اثر سے ]  آدمی  صبح کو مومن  رہے گا  اور شام کو کافر  ہوجائے گا  ، شام کو  مومن رہے گا  اور صبح  کو کافر  ہوجائے گا ، ان فتنوں  کے موقعہ پر کچھ  لوگ اپنے  دین کو  دنیا  کی تھوڑی  پوجی  کے عوض   بیچ دیں گے  ۔ {صحیح مسلم  ، مسند احمد  بروایت  ابو ہریرہ } ۔

دوسرا طریقہ  انہیں  یہ  اپنانا ہے  کہ ان فتنوں  کی جگہ  ، موقعہ  اور حالت سے  اپنے آپ کو  بچانے  کی کوشش  کریں  ، خواہ  اس کے  لئے  انہیں  ہجرت  کرنا پڑے ،  اپنے بعض  حقوق  سے ہاتھ   دھونا پڑے  یا تنگی  و شدت کی زندگی  گزارنا  پڑے  کیونکہ  فتنوں  کے ایام  میں صبر  کی بڑی  ضرورت  اور اہمیت  ہوتی ہے ارشاد نبوی  ہے : بلا شبہ  انتہائی  خوش  بخت  وہ ہے  جو فتنوں  سے بچا رہا  ، بڑا خوش  بخت ہے وہ جو فتنوں سے بچا رہا بڑا خوش بخت  ہے وہ  جو فتنوں سے بچا  رہا اور جو ان میں مبتلا ہوگیا  پھر صبر کیا تو  اس کا کیا کہنا ۔ { سنن  ابو داود بروایت  ، المقداد } ۔

فوائد :
– فتنوں  کی ابتدا ہوگئی  توہرآنے  والا وقت  اپنے سے پہلے  وقت سے  برا ہوگا ، ارشاد نبوی  ہے بعد میں آنے والا دور  پہلے دور سے برا ہوگا ۔ {صحیح بخاری  }
– فتنوں کے وقت  میں عبادت  کی اہمیت  بڑھ  جاتی ہے ، ارشاد  نبوی ہے  : فتنوں  کے وقت  میں  عبادت  کرنا  میری  طرف  ہجرت  کے  ہم معنی ہے ۔ {صحیح مسلم }
– فتنوں اور فتنوں  کی جگہوں  سے دور رہنا  دین کا حصہ ہے ۔
– یہ حدیث  نبی ﷺ  کا معجزہ ہے کہ آپ نے  جیسا  فرمایا  ویسے  سامنے آرہا ہے ۔