موضوع:
مشعل نبوت (۷)
بچی اور نماز!
پہلا خطبہ:
إنالحمدلله،نحمدهونستعينهونستغفره،ونعوذباللهمنشرورأنفسناومنسيئاتأعمالنا،مَنيهدهاللهفلامضلله،ومَنيُضللفلاهاديله،وأشهدأنلاإلهإلااللهوحدهلاشريكله،وأشهدأنمحمدًاعبدهورسوله، ﴿ يَاأَيُّهَاالَّذِينَآمَنُوااتَّقُوااللَّهَحَقَّتُقَاتِهِوَلَاتَمُوتُنَّإِلَّاوَأَنْتُمْمُسْلِمُونَ ﴾ [آلعمران: 102]، ﴿ يَاأَيُّهَاالنَّاسُاتَّقُوارَبَّكُمُالَّذِيخَلَقَكُمْمِنْنَفْسٍوَاحِدَةٍوَخَلَقَمِنْهَازَوْجَهَاوَبَثَّمِنْهُمَارِجَالًاكَثِيرًاوَنِسَاءًوَاتَّقُوااللَّهَالَّذِيتَسَاءَلُونَبِهِوَالْأَرْحَامَإِنَّاللَّهَكَانَعَلَيْكُمْرَقِيبًا ﴾ [النساء: 1].﴿ يَاأَيُّهَاالَّذِينَآمَنُوااتَّقُوااللَّهَوَقُولُواقَوْلًاسَدِيدًا * يُصْلِحْلَكُمْأَعْمَالَكُمْوَيَغْفِرْلَكُمْذُنُوبَكُمْوَمَنْيُطِعِاللَّهَوَرَسُولَهُفَقَدْفَازَفَوْزًاعَظِيمًا ﴾ [الأحزاب: 70، 71]
حمد وثنا کے بعد!
سب سے بہترین بات اللہ کی کتاب ہے، سب سے بہترین طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے اور سب سے بدتیرن چیز (دین میں) ایجاد کردہ بدعتیں ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
رحمن کے بندو! سیرت نبوی ایک ایسا چشمہ ہے جو خشک نہیں ہوتا اور اس میں بے شمار فوائد اور بے انتہا عبرتیں پوشیدہ ہیں، آپ کے سامنے سیرت نبوی کا ایک واقعہ پیش کیا جا رہا ہے۔
ابوقتادہ انصاری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ حضرت امامہؓ کو اٹھائےہوئےنمازپڑھلیتے تھے جو آپ کی لخت جگر حضرت زینب ؓ اورحضرتابوالعاصبنربیعہ بن عبد شمسس کی بی ا تھی۔ جب آپ سجدہ کرتے تو اسے اتار دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو اسے اٹھا لتے۔ اسے بخاری ومسلم نے روایت کیا ہے۔ اس کی مزید تفصیل ابوداود کی روایت میں آئی ہے، چنانچہ ابوقتادہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہں کہ ایک بار ہم نماز کے لے رسول اللہ ﷺ کا انتظار کر رہے تھے، نماز ظہر کی تھییا عصر کی۔ اور سدہنا بلال ؓ نے آپ ﷺ کو نماز کے لےا بلایا۔ جب آپ ﷺ تشریف لائے تو امامہ بنت ابی العاص یینت آپ ﷺ کی صاحبزادی (سد ہ زینب ؓ) کی بی ا آپ ﷺ کی گردن پر تھی۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ اپنے مصلے پر کھڑے ہوئے اور ہم بھی آپ ﷺ کے پچھےب کھڑے ہو گئے جب کہ وہ بچی اپنی اسی جگہ پر تھی (یینھ آپ ﷺ کی گردن پر)۔ آپ ﷺ نے تکبرب کہی تو ہم نے بھی تکبرل کہی۔ حتیٰ کہ جب رسول اللہ ﷺ نے رکوع کرنا چاہا تو اسے پکڑ کر بٹھا دیا، پھر رکوع کاب اور سجدہ کاپ۔ جب آپ ﷺ اپنے سجدے سے فارغ ہوئے اور کھڑے ہوئے تو اسے پھر گردن (کندھے) پر بٹھا لا ۔ رسول اللہ ﷺ ہر رکعت مں ایسے ہی کرتے رہے، حتیٰ کہ اپنی نماز سے فارغ ہو گئے۔
آئیے سیرت نبوی کے اس واقعہ پر غور وفکر کرتے ہیں:
اس واقعہ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سادگی سے زندگی گزارتے تھے، اپنے گھر سے نماز کے لیے نکلتے ہیں، مسجد جاتے ہیں جہاں لوگوں کا مجمع ہوتا ہے، اور اپنے شانوں پر چھوٹی سی بچی جو آپ کی نواسی تھی، کو اٹھائے ہوتے ہیں، یہ منظر پر تکلف تعظیم وتوقیر اور مصنوعی رعب وہیبت سے انتہائی درجہ دور تھا، یہ انسانی زندگی کی سادگی اور انسانی جذبات کے تئیں فوری رد عمل کو بیان کرتا ہے، اس سادگی کے باوجود آپ کی ہیبت اور رعب ودبدبہ میں کوئی کمی نہیں آئی۔
رحمن کے بندو! اس بچی کا یہ منظر کہ وہ شانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر سوار تھی، گویا کہ وہ اپنے ننھے منھے ہاتھوں سے آپ کا سر پکڑ کر آپ سے چمٹی ہوئی تھی، یہ منظر بتاتا ہے کہ اس سے پہلے خانہ نبوی کے اندر کا منظر بھی ایسا ہی تھا کہ آپ اپنے گھر کے اندر اس بچی سے لاڈ پیار کرر ہے تھے، اور جب آپ نماز کے لیے نکلنا چاہے تو و ہ آپ کے ساتھ کھیل کود میں حد درجہ مگن تھی، اس لیے آپ نہ اسے چھوڑ کر باہر نکلے اور نہ اسے رونے دیا، بلکہ اسے اپنے کندھے پر اٹھایا اور ایسا منظر پیش کرتے ہوئے نکلے جس سے پدرانہ جذبات اور نبوی رحمت کی منہ بولتی تصویر سامنے آرہی تھی۔
غور کرنے کی بات یہ بھی ہے کہ جس (نبی ) نے نماز کی حالت میں اپنی نواسی کو شانے پر اٹھائے رکھا، سجدہ میں جاتے تو اسے نیچے اتارتے اور کھڑے ہوتے تو اسے اٹھا لیتے ، اسی نبی کا یہ فرمان بھی ہے: "میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے” ۔ اس سے شریعت میں آسانی کا ایک پہلو نمایاں ہوتا ہے۔
اللہ تعالی مجھے اور آپ کو قرآن وسنت کی برکت سے بہرہ ور فرمائے، ان میں جو آیت اور حکمت کی بات آئی ہے، اس سے ہمیں فائدہ پہنچائے، آپ اللہ سے مغفرت طلب کریں، یقینا وہ خوب معاف کرنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ:
الحمد لله …
حمد وصلاۃ کے بعد:
اس چھوٹی سی بچی کے ساتھ یہ شفقت ورحمت، نیکی اور حسن سلوک کا ایک کشادہ دائرہ ہے جس میں اس کی والدہ زینب بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی شامل ہیں جن کو دوہری خوشی حاصل ہوئی کہ ان کی صاحبزادی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک یہ مقام حاصل ہوا۔
بیٹیوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کے فوائد وثمرات ان کے بیٹیوں اور بیٹیوں کو بھی پہنچتے ہیں، اس کا دائرہ وسیع ہوتا جاتا اوراس کے فوائد بڑھتے جاتے ہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس منظر پر جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کندھے پر ایک بچی کو اٹھائے ہوئے باہر نکلتے ہیں، غور کرنے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ : اس سے لڑکی کی دوہری تعظیم ظاہر ہوتی ہے، کیوں کہ وہ لڑکی آپ کی صاحبزادی کی بیٹی تھی۔ آپ اسے اپنے کندھے پر اٹھائے ہوئے نمازیوں کے پاس تشریف لائے تاکہ لڑکیوں کی عزت وتکریم سے متعلق ایک عملی درس پیش کر سکیں اور دلوں میں جاہلیت کے جو باقی ماندہ اثرات رہ گئے تھے، ان کا خاتمہ کر سکیں، وہ جاہلیت جس میں لوگ بیٹوں کی طرف یک طرفہ میلان رکھتے اور بیٹیوں کو حقیر جانا کرتے تھے:
﴿ وَإِذَابُشِّرَأَحَدُهُمْبِالْأُنْثَىظَلَّوَجْهُهُمُسْوَدًّاوَهُوَكَظِيمٌ * يَتَوَارَىمِنَالْقَوْمِمِنْسُوءِمَابُشِّرَبِهِأَيُمْسِكُهُعَلَىهُونٍأَمْيَدُسُّهُفِيالتُّرَابِأَلَاسَاءَمَايَحْكُمُونَ ﴾ [النحل: 58، 59].
ترجمہ: ان میں سے جب کسی کو لڑکی ہونے کی خبر دی جائے تو اس کا چہرہ سیاہ ہوجاتا ہے، اور دل ہی دل میں گھٹنے لگتا ہے، اس بری خبر کی وجہ سے لوگوں سے چھپا چھپا پھرتا ہے ، سوچتا ہے کہ کیا اس کو ذلت کے ساتھ لیے ہوئے ہی رہے یا اسے مٹی میں دبا دے، آہ کیا ہی برے فیصلے کرتے ہیں۔
کتنا فرق ہے اس شخص میں جو بیٹی کی ولادت کی خبر سن کر لوگوں میں منہ چھپائے پھر تا ہے اور اس شخص میں جو اپنے کندھے پر نواسی کو اٹھائے ہوئے لوگوں کے پاس تشریف لاتا ہے۔
يامنتُحبمحمدًاوتريده
لكشافعًايومالخلائقِتحشرُ
صلِّعليهوآلِهفلربما
تحظىبسُقيامنيديهوتظفرُ
ترجمہ: اے وہ شخص جو محمد سے محبت رکھتا اور قیامت کے دن میدا ن محشر میں آپ کی سفارش سے فیض یاب ہونا چاہتا ہے۔ آپ پر درود وسلام بھیجو، ممکن ہے کہ تجھے آپ کے دست مبارک سے آب کوثر کا جام نصیب ہوجائے، اور تو کامیاب وکامران ہوجائے۔
صلى اللہ علیہ وسلم
از قلم:
فضیلۃ الشیخ حسام بن عبد العزیز الجبرین