بسم اللہ الرحمن الرحیم
20:درس نمبر
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
بیسواں سال
نبوت کے 23 سال23درس
سلسلہ مختصر سیرت النبی ﷺ / رمضان 2013
ہجرت کا ساتواں سال : 7 ھ
بادشاہوں کو خطوط :صلح حدیبیہ سے قریش سے مطمئن ہوجانے کے بعد نبیﷺ نے 6 ھ کے بالکل آخر اور 7 ھ کے ابتداء میں جزیرۂ عربیہ کے ارد گرد موجود حکام کو دعوتی خطوط لکھے سیرت کی کتابوں میں تقریبا 22 حاکموں کا ذکر ملتا ہے ، ان میں سے مشہور یہ ہیں :
[۱] نجاشی شاہ حبشہ : اس کا نام اصحمہ تھا ،اس کے پاس پیغام رسانی کا کام عمرو بن امیہ الضمری رضی اللہ عنہ نے کیا ، اس نے اپنے تخت سے اتر کر رسول اللہ ﷺ کے خط کو لیا ، آنکھوں سے لگایا اور مسلمان ہوگیا ، 9 ھ میں اس کا انتقال ہوا اور نبی کریم ﷺ نے اس کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی ۔ [۲] مقوقس شاہ مصر : اس کا نام جریج بن منی تھا ، یہ خط حاطب بن بلقہ لے کر گئے تھے ، اس نے یہ خط بڑے اہتمام سے پڑھا اور ہاتھی دانت سے بنے ایک ڈبیہ میں محفوظ کرلیا ، مسلمان تو نہیں ہوا البتہ نبی ﷺ کو تحفہ تحائف بھیجا ۔
[۳] ھرقل روم : یہ خط حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ لے کر گئے ، اس نے نبی ﷺ کا خط بڑے اہتمام سے پڑھا ، ابو سفیان کو بلا کر مزید تحقیق کی ، آپ ﷺ کے بارے میں تعریفی کلمات کہے ، البتہ ملک کی لالچ میں مسلمان نہ ہوا ۔ [۴] شاہ فارس : اس کا نام خسرو پرویز تھا ، یہ خط حضرت حذافہ سہمی رضی اللہ عنہ لے کر گئے تھے ، اس نے اس مبارک خط کو پھاڑ دیا ، اس کی اس حرکت پر نبی ﷺ نے بد دعا کی کہ اللہ اس کی امت کو پراگندہ کردے ۔ [۵] حاکم بحرین : اس کا نام منذر بن سادی تھا ، یہ خط حضرت ابو العلا الحضرمی لے کر گئے تھے ، خط پڑھ کر وہ بھی مسلمان ہوگیا ۔ 6 ھ کی طرح یہ سال بھی بہت سے غزوات و سرایا پر مشتمل ہے ، امام ذہبی وغیرہ نے بارہ سے زائد کا ذکر کیا ہے ، لیکن اختصار کے ساتھ ان میں سے بعض کا ذکر کیا جاتا ہے ، {تفصیل دیکھئے : المغازی : 403 تا 460 – المنتظم:3/293 تا 310 }
غزوہ غابہ یا ذی قرد : یہ غزوہ ، غزوہ خیبر کے لئے روانگی سے صرف تین دن قبل پیش آیا ، ہوا یہ کہ بنو فزارہ کے لوگوں نے مسلمانوں کی چراگاہ پر حملہ کردیا ، چرواہے کو قتل کردیا اور جانور ہنکا لے گئے ، جب نبی کریم ﷺ کو اس کی اطلاع ملی تو آپ نے اس کا پیچھا کیا ، لیکن آپ نے پہلے حضرت سلمہ بن الاکوع اور حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہما کو ان کے پیچھے دوڑایا اور تمام جانوروں کو ان سے چھین لیا ، حضرت سلمہ بن الاکوع نے اس غزوہ میں نمایا کردار ادا کیا ۔
غزوۂ خیبر ، محرم 7 ھ :اس سال کا یہ سب سے اہم غزوہ ہے ، چونکہ خیبر کے یہود مسلمانوں کے لئے مسلسل خطرہ بنے ہوئے تھے اور غزوۂ احزاب انہیں کی کوششوں کا نتیجہ تھا لہذا ان سے نپٹنا ضروری تھا ، چنانچہ صلح حدیبیہ کے بعد نبی ﷺ اس طرف متوجہ ہوئے اور 1400 یا 1600 مسلمانوں کو لے کر خیبر کی طرف نکلے ، کئی دن کی مسافت طے کرنے کے بعد ایک دن صبح سویرے ہی خیبر پر حملہ کردیا ، یہ شہر دو حصوں ۔۔۔۔۔ اور کتیبیہ پر مشتمل تھا اور دونوں علاقے میں متعدد مضبوط قلعے تھے ، نبی ﷺ نے پہلے پہل نطاہ کا قصد کیا کیونکہ یہیں خیبر کے بڑے پہلوان اور جنگجو موجود تھے ، بفضلہ تعالی قلعے پر قلعے فتح ہونے لگے ، ایک قلعہ فتح ہوتا تو اس سے نکل کر یہود ی جنگجو اس کے بعد والے قلعے میں پناہ لیتے ، بالآخر نطاہ کے سارے قلعے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قلعہ سعد بن معاذ اور قلعہ زبیر وغیرہ ، مسلمانوں کی اس عظیم کامیابی کو دیکھ اہل کتیبیہ مسلمانوں سے صلح پر مجبور ہوئے اور ہتھیار ڈال دئے ۔ نبی رحمت ﷺ نے ہر ایک کی جان بخشی کا مرسوم جاری کیا ، تمام یہودیوں کو خیبر سے نکل جانے کا حکم دیا ، سونے و چاندی ، ہتھیار اور جانور کے علاوہ سامان بھی لے جاسکیں لے جاسکتے ہیں ، لیکن یہود نے یہیں رہنے اور زمینوں کو بٹائی پر لینے کی خواہش ظاہر کی تو نبی ﷺ نے اسے قبول فرما لیا ، اور یہ بھی فرما دیا کہ جب ہم چاہیں گے تمہیں یہاں سے نکال دیں گے ۔
نبی رحمت کو زہر دینا : اس غزوہ میں یہودی سرداروں کے اشارے پر ایک یہودیہ عورت نے نبی ﷺ کو زہر دے کر قتل کرنے کی کوشش کی تھی ، لیکن آپ بچ گئے ، البتہ لقمہ منھ میں لے لیا تھا جس کا اثر ساری زندگی آپ پر رہا اور بقول امام زہری آپ کی وفات کا سبب یہی زہر تھا ۔
حضرت صفیہ سے شادی : صفیہ بنت حیی خیبر کے سردار سلام بن ابی الحقیق کی بیوی تھیں ، ایک خیانت کےجرم میں نبی ﷺ نے اسے قتل کردیا پھر خیبر سے واپسی کے موقعہ پر راستے میں نبی ﷺ نے ان سے شادی کرلی ، عمر میں یہ آپ کی سب سے چھوٹی بیوی تھیں ۔
غزوہ وادی القری : خیبر سے فارغ ہونے کے بعد نبی ﷺ وادی القری [ موجودہ العلا ] کی طرف متوجہ ہوئے ، کیونکہ وہاں بھی یہودی آباد تھے اور مسلمانوں کے لئے ایک خطرہ بنے ہوئے تھے ، یہود ابتدا میں لڑائی پر آمادہ ہوئے لیکن دوسرے ہی دن ہتھیار ڈال دیا ور خیبر کی طرح نبی ﷺ سے صلح کرلی ۔
تیما ء اور فدک : خیبر اور وادی القری کے فتح کے بعد فدک [ موجود ہ حائط ] اور تیماء کے یہود نے بلا کسی مخاصمت ہتھیار ڈال دیا اور نبی ﷺ سے صلح کرنے کے لئے تیار ہوگئے ۔ عمرۃ القضا ء ، ذی القعدہ 7 ھ : جب ذی القعدہ کا مہینہ آیا تو نبی ﷺ نے حسب اتفاق عمرہ کا ارادہ فرمایا ، چنانچہ اپنے دو ہزار سے زائد ساتھیوں کو لے کر عمرہ کے لئے نکلے ، مکہ پہنچ کر عمرہ کیا اور تین دن ٹھہر کر واپس ہوئے ۔
رمل کی مشروعیت : اس عمرے کے موقعہ پر طواف میں ” رمل ” [ کندھوں کو ہلاتے ہوئے ہلکی دوڑ لگانا ] مشروع ہوا کیونکہ اہل مکہ یہ سمجھتے تھے کہ یثرب کے بخار نے مسلمانوں کو کمزور کرکے رکھ دیا ہے ، چنانچہ نبی ﷺ نے صحابہ کو حکم دیا کہ اپنے طواف کے ابتدائی تین چکروں میں رمل کریں تاکہ کفار کا شبہ دور ہوجائے ۔
اس سال کے اہم حادثات : [۱] حبشہ کے مہاجرین کی واپسی : نبی ﷺ غزوہ خیبر سے ابھی فارغ ہی ہوئے تھے کہ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کےساتھ حبشہ میں مقیم مہاجرین مدینہ منورہ آئے اور خیبر میں جا کر نبی ﷺ سے ملے ۔ [۲] اشعر بین اور دوسین کی آمد : اسی سال یمن میں رہنے والے قبیلے اشعر کے لوگ حضرت ابو موسی اشعری کے ساتھ اور دوس کے لوگ جن میں حضرت ابو ہریرہ بھی شامل تھے مدینہ منورہ تشریف لائے ۔ [۳] پالتو گدھے اور نکاح متعہ کی حرمت : اسی سال غزوہ خیبر کے موقعہ پر پالتو گدھا اور نکاح متعہ حرام قرار دیا گیا ۔ [۴] ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے شادی : ابو سفیان کی بیٹی تھیں ، اپنے شوہر عبد اللہ بن جحش کے ساتھ حبشہ بغرض ہجرت گئی تھیں وہیں بیوہ ہوگئی تھیں ، نبی ﷺ 7 ھ میں نجاشی کو پیغام بھیجا کہ میرے ساتھ ان کا عقد کرکے انہیں میرے پاس بھیج دیا جائے ، ان کامہر بھی نجاشی نے ادا کیا ۔ [۵] حضرت میمونہ بنت حارث سے شادی : عمرۃ القضاء کے موقعہ پر مقام سرف [ مکہ مکرمہ سے 12 کیلو میٹر دور ] میں نبی ﷺ ان سے شادی کی ، یہ آپ کے عقد میں آنے والی سب سے آخری بیوی ہیں ۔ [۶] قریش کے بہادروں کا مسلمان ہونا : اسی سال حضرت خالد بن ولید اور عمرو بن العاص اور قریش کے دیگر سرکردہ حضرات مسلمان ہوکر مدینہ منورہ آئے ۔ [۷] ثوبیہ کا انتقال : اسی سال ابو لہب کی لونڈی ثوبیہ کا انتقال ہوا ، حلیمہ سعدیہ سے قبل حضرت ثوبیہ ہی نے نبی ﷺ کو دودھ پلایا تھا ۔ [۸] فجر کی نماز کا قضا ہونا : اسی سال جب نبی ﷺ غزوہ خیبر سے واپس ہورہے تھے تو رات کے آخری حصے میں کسی جگہ قیام فرمایا ، حضرت بلال نے یہ ذمہ داری قبول فرمائی کہ لوگوں کو نماز کے لئے بیدار کریں گے ، لیکن ان کی بھی آنکھ لگ گئی اور سارے مسلمان بھی سوگئے ، جب نبی ﷺ بیدار ہوئے تو سورج نکل چکا تھا ، اس جگہ سے ہٹ کر آپ نے لوگوں کو نماز فجر پڑھائِی ۔ [۹] خیانت کا انجام : اسی سال غزوۂ وادی قری کے موقعہ پر نبی ﷺ کے ایک غلام ” مدعم ” کو ایک تیر لگا جس سے وہ قتل ہوگیا ، یہ دیکھ کر صحابہ نے کہا : اسے جنت مبارک ہو ، لیکن نبی ﷺ نے فرمایا : ہرگز نہیں ! خیبر کے موقعہ پر اس نے جو چادر چرالی تھی وہ اس کے اوپر آگ بن کر دہک رہی ہے ۔