بیسواں پارہ(امن خلق)

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سلسلہ خلاصہ معانی قرآن مجید
از قلم : شیخ مقصود الحسن فیضی حفظہ اللہ
بیسواں پارہ(امن خلق

بیسواں پارہ تین سورتوں پر مشتمل ہے؛ سورہ النمل کا بقیہ حصہ، سورہ القصص مکمل اور سورہ العنکبوت کا ا بتدائی بڑا حصہ۔
o اس پارے کی ابتداء میں سورہ نمل کی تکمیل ہے۔ پچھلے پارے کا اختتام اللہ کی حمد ، نبیوں پر سلام اور اللہ تعالی سے شرک کی نفی پر ہوا تھا۔اب یہاں سے توحید کے دلائل کا ذکر ہے۔
o آیت 60سے 65تک سوالوں کی صورت میں مشرکین سے یہ اقرار کروایا گیا ہے کہ جب خلق و تدبیر یعنی مخلوقات کو پیدا کرنے اور نظامِ کائنات چلانےمیں اللہ کا کوئی شریک نہیں تو اس کی عبادت میں کیوں کسی کو شریک کرتے ہو؟
o اس سے معلوم ہوتا ہےکہ وہ لوگ توحید ربوبیت کے قائل تھے، البتہ توحیدِ الوہیت کے بارے میں شرک کرتے تھے۔
o ان آیتوں میں توحید ربوبیت سے متعلق پانچ سوالات کئے گئے ہیں اور ہر ایک کے بعد یہ سوال دہرایا گیا ہے کہ ’’کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے؟‘‘
o پہلا سوال ہے کہ آسمان وزمین کا خالق کون ہے ، کس نے آسمان سے بارش برسا کر خوشنما باغ اگائے ؟ وہ اللہ ہی ہے ، لیکن تم راہ راست سے بھٹکے ہوئے ہو۔
o دوسرا سوال ہے کہ وہ کون ذات ہے جس نے زمین کو سکونت کے لائق بنایا اور اس میں نہروں ، پہاڑوں کا سلسلہ رکھا ، حتی کہ دو میٹھے اور کھارے پانی کے سمندروں کے درمیان آڑ بنا دی؟ وہ اللہ ہی ہے لیکن تم نادانی کا ثبوت دے رہے ہو۔
o تیسرا سوال ہے کہ وہ کون ہے جو بے کس و بےقرار کی دعا قبول کرتا ہے اور اس کی پریشانی کو دور کر دیتا ہے؟ اور وہ کون ہے جس نے تمہیں اس زمین میں نظام چلانے والا خلیفہ بنایا ہے ؟، وہ اللہ ہی ہے لیکن تم اپنی عقل وسوچ سے کام نہیں لیتے۔
o چوتھا سوال ہے کہ وہ کون سی ذات ہے جو خشکی وتری میں تمہیں راستے دکھاتا ہے، اور بارش سے پہلے خوشخبری کے طور پر ہواؤں کو بھیجتا ہے؟ وہ اللہ ہی ہے لیکن تم اس کے باوجود اللہ کے ساتھ شرک کرتے ہو۔
o پانچواں سوال ہے کہ جس نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا، پھر دوبارہ بھی زندہ کرے گا ؟ اور وہ کون ہے جس نے تمہاری روزی روٹی کا انتظام کیا ہے؟ وہ اللہ ہی ہے ، لیکن تم نے جو غیروں کو روزی دینے والا مانا ہے کیا اس کی کوئی دلیل تمہارے پاس ہے؟ یقینا نہیں۔
o یعنی جب تم آسمان و زمین کی تخلیق وغیرہ میں اللہ کا شریک نہیں مانتے تو عبادت میں اپنے ولیوں کو اللہ کا شریک بنانا بے عقلی اور نا انصافی ہے۔
o آیت نمبر 66میں اللہ تعالی کے علاوہ ہر ایک مخلوق سے علم غیب کی مطلقانفی کی ہے ۔
o اسی آیت کے آخر میں اللہ تعالی نے فرمایا: وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ (65)کہ ان کے معبودوں کو تو یہ بھی شعور نہیں کہ انہیں کب زندہ کیا جائے گا ۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ مشرکین صرف پتھروں کی مورتیوں اور درختوں کو ہی نہیں پوجتے تھے بلکہ عقل و شعور رکھنے والے بزرگوں کو بھی پکارتے تھے ۔
o آیت 67سے آخر سورت تک آخرت کی زندگی کے دلائل کا اثبات ہے اور نبی ﷺ کو تسلی دینے سے متعلق گفتگو کی گئی ہے۔چنانچہ آیت 67سے69 تک ان مشرکین کا تردید اور انہیں خبر دار کیا ہے جو آخرت کے دن کو محال اور ان باتوں کو پچھلے لوگوں کی فرضی کہانیاں کہتے تھے ۔
o ان کو بتایا گیا کہ اگر ہمارا رسول جو کچھ کہہ رہا ہے وہ غلط ہے تو سوچو کہ پچھلی قومیں آخر ہلاک کیوں کی گئیں۔قُلْ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِينَ (69) "کہہ دیجئے کہ زمین میں چل پھر کر ذرا دیکھو تو سہی کہ گناہ گاروں کا کیسا انجام ہوا”۔
o آیت 70سے 81تک نبی ﷺ کو تسلی دی گئی ہے کہ ان باتوں سے آپ پریشان نہ ہوا کریں اور نہ ہی کوئی غم کیا کریں،اگر عذاب میں تاخیر ہے تویہ آپ کے رب کا ان پر فضل ہے۔وہ ان کافروں کی سب حرکتوں سے واقف ہے،آسمان و زمین کی کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ہے،وہ وقت دور نہیں جب وہ فیصلہ کر دے گا۔آپ اپنے رب پر توکل کیجئے اور حق کے مقابلے میں ان گونگوں اور بہروں کو ان کے حال پر چھوڑ دیں۔
o آیت نمبر 82میں قیامت کی ایک اہم نشانی کی طرف اشارہ ہے اور وہ ہے "دابۃ الأرض "[زمین کا جانور] کا خروج،جس کا ذکر متعدد حدیثوں میں ہے ،او ریہ قیامت کی دس بڑی نشانیوں میں سے ایک ہے ۔
o آیت 83- 86 میں ضمنا حشر کے میدان کے ایک منظر کا ذکر ہے کہ جس وقت اللہ تعالی ہر امت کے بڑے بڑے مجرموں کو جمع کرکے ، پھر جرم کے لحاظ سے ان کی گروہ بندی کرکے پوچھے گا کہ کیا تمہارا یہی کام رہ گیا تھا کہ ہماری آیات کو اچھی طرح سمجھے بغیر ہی اس کا انکار کردیتے تھے اور میری توحید کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی ؟ اس وقت ان کافروں مشرکوں سے کوئی جواب نہ بن پڑے گا اور وہ خاموشی سادھ لیں گے۔
o اس کے بعد قیامت کی بعض ہولناکیوں کا ذکر ہے۔جیسے صور کا پھونکا جانا جس کے اثر سے پہاڑ بدلیوں کی طرح چلنا شروع ہو جائیں گے ۔
o ان ہولناکیوں کا ذکر کرتے ہوئے اہل ایمان کو تسلی دی گئی ہے کہ اس موقع پر ان کو پریشانی نہ ہوگی، کیونکہ جو اس دن نیکی لے کر آئے گا تو اس کے لئے اس سے بہتر بدلہ دیا جائے گا اور وہ اس دن کی گھبراہٹ سے محفوظ رہیں گے۔
o جبکہ کافروں اور بدکاروں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ انہیں اوندھے منہ جہنم میں پھینکا جائے گا، یہ ان کے اوپر ظلم نہیں بلکہ ان کی بد اعمالی کا بدلہ ہوگا۔
o قرآن کی عظمت کے بیان سے اس سورت کیا ابتدا ہوئی تھی اور اسی پر سورت کا خاتمہ کیا جا رہا پر ہے۔ چنانچہ نبیﷺ کو حکم ہورہا ہے کہ لوگو! ہم نے تمہارے سامنے حجت قائم کردی ، ماننا یا نہ ماننا تمہارا کام ہے، مجھے تو حکم ہے کہ اس محترم گھر کے رب ہی کی عبادت کروں جو ہر چیز کا مالک ہے۔ نیز یہ کہ مجھے یہ ہدایت ہوئی ہے کہ یہ قرآن تم کو سناؤں تو جو اس کو سنے گا اور اس سے ہدایت حاصل کرے گا اس کا فائدہ اس کو حاصل ہوگااور جو اس سے منہ موڑے گا تو اسے میرا کوئی نقصان نہیں ہے، میرا کام تو صرف خبر دار کر دینا ہے۔
o آخری آیت میں نبیﷺ کی طرف یہ اعلان ہے کہ میں تو اس اللہ کا شکر گزار ہوں جس نے قرآن جیسی نعمت سے مجھے نوازا ہے، میں تمہیں اسے سنا دے رہا ہوں ، اس کی موجودگی میں تمہارا کسی اور نشانی کا مطالبہ کرنا خیر کی علامت نہیں ہے، یاد رکھو! اللہ تعالی تمہارے تمام اعمال سے خوب واقف ہے۔

سورت القصص
یہ سورت مکی ہے۔
بلکہ مکہ مکرمہ میں نازل ہونے والی سب سے آخر سورت مانی جاتی ہے، حتی کہ بعض علماء نے کہا کہ یہ سورت حضرت جبریل اس وقت لے کر آئے جب آپ ﷺ ہجرت کے لئے نکل چکے تھے۔
دیگر مکی سورتوں کی طرح اس سورت کا موضوع بھی عقیدہ ہے، خصوصا رسالت، مرنے کے بعد اٹھنا اور جزاء وسزا، اور حق و باطل میں ٹکراؤ کی مثالیں۔
اس سورت میں حضرت موسی علیہ السلام کا واقعہ بڑی تفصیل سے بیان ہوا ہے ، بلکہ موسی علیہ السلام کے واقعے کی بعض تفصیلات ایسی بیان ہوئی ہیں جو کسی دوسری سورت میں بیان نہیں ہوئی ہیں۔
o ابتدائی چھ آیتوں میں نبی ﷺ کی رسالت ،قرآن کی حقانیت اور موسی علیہ السلام کے واقعے کے بارے میں بعض ان تمہیدی باتوں کا ذکر ہے جن کی تفصیل آگے آرہی ہے۔نیز اس میں اللہ کے رسول ﷺ او ر مسلمانوں کے لئے بشارت بھی ہےکہ اب تم لوگ جو ہجرت کرکے مکہ مکرمہ چھوڑ رہے ہو تو یہ تمہاری ترقی و کامیابی کی راہ ہے اور خود مکہ کے فتح ہونے کی پہلی سیڑھی ہے ۔
o آیت 7سے 46تک حضرت موسی علیہ السلام کا واقعے کی تفصیل شروع ہے۔ یہاں پر اس واقعے کے وہ گوشے بیان ہوئے ہیں جو قرآن میں کسی دوسری جگہ بیان نہیں ہوئے اور اس واقعے ان پہلوؤں پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے جو کسی اور مقام پر مختصر ذکر ہوئے، یا صرف ان کی طرف اشارہ کیا گیا تھا ۔
o چنانچہ آیت 7سے 13تک حضرت موسی علیہ السلام کے بچپن او ر دودھ پلائی کا ذکر ہے کہ جب موسی علیہ السلام کی ولادت ہوئی اور ان کی ماں کو خوف لاحق ہوا تو اللہ تعالی نے ان کے دل میں یہ بات ڈالی(یا فرشتے کے ذریعے کہلوائی ) کہ تم اسے دودھ پلاتی رہو اور جب تمہیں خطرہ لاحق ہو کہ فرعون اس بچے کو چھیننا چاہتا ہے تو اسے دریا میں ڈال دینا، او ر ڈرنا مت اور نہ ہی غمگین ہونا، بلکہ یقین رکھنا کہ ہم اسے تمہارے پاس دوبارہ لے آئیں گے اوراسے رسول بنائیں گے ۔
o پھراس بات کا بیان ہے کہ موسی علیہ السلام کس طرح اعجازی طور پر فرعون کے گھر پہنچے،فرعون نے اسے اسرائیلی بچہ سمجھ کر قتل کرنا چاہا لیکن اس بیوی نے یہ کہکر روک دیا کہ” قُرَّتُ عَيْنٍ لِي وَلَكَ لَا تَقْتُلُوهُ عَسَى أَنْ يَنْفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَهُ وَلَدًا وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ (9)”یہ تو میری اور تیری آنکھوں کی ڈھنڈک ہے ، اسے قتل نہ کرو، بہت ممکن ہے کہ یہ ہمیں کوئی فائدہ پہنچائے یا ہم اسے اپنا ہی بیٹا بنا لیں، یہ لوگ اس کا شعور نہ رکھتے تھے( کہ یہ وہی بچہ ہے جس کے ہاتھ فرعون کی حکومت جائے گی)”۔
o آیت 10 – 13 میں موسی علیہ السلام کی ماں کی بے قراری، اللہ تعالی طرف سے تسلی دئے جانے اور پھر کس طرح موسی علیہ السلام اپنی ماں کی گود میں واپس آجاتے ہیں ، یہ تمام امور بیان ہوئے ہیں۔اس میں سب سے اہم کردار حضرت موسی علیہ السلام کی بہن کا بیان ہوا ہے ، جو ان کی دانائی اور سمجھ داری کی دلیل ہے ۔
o آیت نمبر 14سے 20تک حضرت موسی علیہ السلام کی زندگی کے دوسرے مرحلے کا ذکر ہے۔
o یعنی فرعون کے دربار میں ان کی پرورش اور جوانی کے مرحلے کو پہنچنا ، علم و حکمت عطا ہونا او رپھر آپ کے ہاتھوں غلطی سے ایک قبطی کا قتل ہو جانے کا ذکر ہے۔
o پھر اس بات کا ذکر ہے کس طرح یہ راز فاش ہوتا ہے کہ قبطی کے قاتل موسی علیہ السلام ہیں۔
o ہوا یہ کہ جب موسی علیہ السلام جوانی کو پہچ گئے تھے اور اللہ تعاکی نے انہیں علم وحکمت کے خزانوں سے نواز دیا تھا کہ ایک دن وہ قصر شاہی سے نکل کر شہر میں ایسے وقت میں آئے کہ شہر میں سناٹا تھا، دیکھتے ہیں کہ ان کے خاندان کا ایک(اسرائیلی) شخص کسی قبطی( فرعون کے خاندان کے ایک فرد) سےلڑ رہا ہے۔ موسی علیہ السلام کو دیکھ کر اسرائیلی نے موسی علیہ السلام سے مدد مانگی۔ موسی علیہ السلام اس کی مدد کو دوڑے اور قبطی کو ایک گھونسا مارا جس سے اس کی موت ہوگئی۔
o جب اچانک یہ حادثہ ہوگیا اور موسی علیہ السلام نے اس کے انجام پر غور کیا کہ اس کا انجام ان کے لئے اور خود ان کی قوم کے حق میں اچھا نہیں ہوگا،تو وہ سخت پریشان ہوئے اور کہنے لگے کہ یہ سب کچھ شیطان کی وجہ سے ہوا ، اسی نے غصہ دلاکر یہ کام کروایاہے۔
o پہلے دن کے قتل پر موسی علیہ السلام شرمندہ اور اللہ سے خائف بھی تھے اور دوسری طرف اس اندیشے وخطرےمیں بھی مبتلا تھے کہ کہیں کل کا راز فاش نہ ہوجائے۔
o اسی الجھن میں تھے کہ دوسرے دن پھر اسی اسرائیلی کو کسی قبطی سے جگھڑتے ہوئےدیکھا، موسی علیہ السلام کو دیکھ کر اس نے فریاد کی تو موسی علیہ السلام نے اس کو ڈانٹا کہ تو کل بھی لڑتا پایا گیا اور آج پھر کسی سے دست وگریبان ہے ۔ ادھر موسی علیہ السلام نے چاہا کہ اس قبطی کو پکڑ لیں ، لیکن اسرائیلی نے سمجھا کہ شاید آج میری شامت ہے لہذا وہ بول اٹھا :اے موسی کیا جس طرح تم نے کل ایک شخص کو قتل کیا ہے اسی طرح آج مجھے بھی قتل کرنا چاہتا ہے؟۔
o اس طرح یہ بات قبطی کے علم میں بھی آگئی کہ کل کے قبطی کا قاتل موسی ہیں۔ لہذا اس نے جاکر فرعون کا بتلا دیا۔
o آگے فرعون اور اس کے درباریوں کا حضرت موسی علیہ السلام کو گرفتار کرنے اور قتل کرنے کا مشورہ کرنے کا بیان ہے۔ اسی درمیان کہ موسی علیہ السلام کےخلاف مشورے ہو رہے تھے کہ ایک درباری نے جو موسی علیہ السلام کا خیر خواہ تھا ،اس نے موسی علیہ السلام کو صورت حال آگاہ کر دیا اور شہر چھوڑ دینے کا مشورہ دیا ۔ آیت:20
o آیت نمبر 21سے 28تک موسی علیہ السلام کے قصے کے تیسرے مرحلے کا ذکر ہوا ہےکہ کس طرح موسی علیہ السلام نے ڈرتے ہوئے مصر سے نکل کر مدین کی راہ لی ،او روہیں مدین کے ایک کنویں پر دو لڑکیوں کے جانوروں کو پانی پلانے کا واقعہ پیش آیا،پھر ان لڑکیوں کے والد نے موسی علیہ السلام کو بلوایا اور 8 یا 10 سال کی خدمت کے عوض اپنی ایک لڑکی کی شادی کر دینے کا وعدہ کیا۔
یہاں کئی چیزیں باعث عبرت ہیں ، ان میں تین زیادہ قابل غور ہیں:
1) حضرت موسی علیہ السلام اور دعا؛حضرت موسی علیہ السلام کے مصر سے نکلنے او رکنویں پر لڑکیوں کے جانوروں کو پانی پلانے کے دوران تین بار دعا کا ذکر ہے ،جس کا معنی یہ ہے کہ مشکل اوقات میں وسائل کے استعمال کے ساتھ دعا بڑی اہم چیز ہے۔
2) لڑکیوں کا موقف یہ ظاہر کرتا ہے کہ پردہ اور حیا عورتوں کی فطرت ہے ،اور آج کا ماحول اس پر ایک ڈاکہ ہے۔اسی طرح ان لڑکیوں کا بھیڑ سے الگ تھلگ کھڑا ہونا ،اس سے اختلاط کی مذمت ثابت ہوتی ہے۔ نیزلڑکیوں کا یہ کہنا کہ ” ہمارے والد بوڑھے ہیں ” اس کا معنی یہ ہے کہ باہر نکلنا او ر کام کرنا ان لڑکیوں کی مجبوری تھی، ورنہ عام حالات میں یہ صحیح نہیں۔ اسی طرح موسی علیہ السلام کو بلانے کے لئے اس لڑکی کا چہرہ چھپا کر آنا ،اس سے پہلی امتوں میں بھی پردے کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے ۔
3) موسی علیہ السلام او ر مدین کے مرد صالح کا معاملہ آٹھ یا دس سال کیلئے طے ہوا ،موسی علیہ السلام معاہدے کے مطابق طے شدہ مدت کو پورا کرنے کے بعد مصر کی طرف واپس ہوئے۔
اس سے گویا ہجرت کرنے والے مسلمانوں کو یہ اشارہ دینا مقصود تھا کہ آٹھ یا دس سال کے بعد تم دوبارہ مکہ میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہو گے ۔
o آیت نمبر 29سے 35تک موسی علیہ السلام کے واقعے کا چوتھا مرحلہ بیان ہوا ہے۔اس میں موسی علیہ السلام کی مدین سے واپسی کا ذکر ہے۔
o اسی واپسی کے دوران راستے میں نبوت سے سرفراز کئے گئے ، جس موقعے پر اللہ تعالی نے انہیں دو معجزے عطا فرمائے یعنی عصا اور ید بیضاء، یعنی چمکتا ہاتھ۔
o نیز ایک اور چیز بھی عطا فرمائی کہ جب تمہیں فرعون اور اس کے لاؤ لشکر سے خوف لاحق ہو تو اپنے بازو کو پہلو سے اچھی طرح ملالو،تمہارا خوف جاتا رہے گا ۔
o حضرت موسی علیہ السلام نے اس موقع پر اپنے لئے خطرہ محسوس کیا اور اپنے بھائی ہارون بھی نبوت عطا کرنے کی درخواست کی،تا کہ وہ مددگار بن سکین۔اللہ تعالی نے ان کی درخواست قبول کر لی او ر اس موقعے پر ان سےتین وعدے فرمائے :
1) بھائی کے ذریعے تمہیں قوت دیں گے۔
2) تم دونوں بھائیوں کو ایسا غلبہ دیں گے کہ فرعون اور اس کے ساتھی تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔
3) تمہیں اور تمہارے ماننے والوں کو بھی غلبہ ملے گا ۔
o آیت نمبر 36سے 42تک موسی علیہ السلام کے واقعے کا پانچواں مرحلہ بیان ہوا ہے،جس میں موسی علیہ السلام کے فرعون اور اس کی قوم کی طرف آنے کا ذکر ہے۔
o موسی علیہ السلام نے فرعون اور اس کی قوم کے سامنے توحید کی دعوت پیش کی تو قوم کےلوگوں نے انہیں جادوگر قرار دے دیا اور فرعون نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ موسی یہ کہتا ہے کہ اس کا رب آسمان میں ہے ، اور وہیں سے اس کو وحی آتی ہے، لہذا اے ہامان! میرے لئے ایک فلک بوس[بہت اونچی] عمارت تیار کرو تاکہ میں اوپر جاکر موسی کے معبود کو دیکھوں کہ وہ کہاں رہتا ہے؟
o موسی علیہ السلام کی دعوت کے مقابلے میں جب فرعون اور اس کی قوم نے ناحق ضد اور ناجائزتکبر سے کام لیا تو ان کا انجام یہ ہوا کہ ان سب کو سمندر میں غرق کر دیا گیا۔ وَاسْتَكْبَرَ هُوَ وَجُنُودُهُ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ إِلَيْنَا لَا يُرْجَعُونَ (39) فَأَخَذْنَاهُ وَجُنُودَهُ فَنَبَذْنَاهُمْ فِي الْيَمِّ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الظَّالِمِينَ (40) ” اس نے اور اس کے لشکروں نے ملک میں ناحق تکبر کیا اور یہ سمجھ رکھا کہ وہ ہماری جانب لوٹائے ہی نہیں جائیں گے، بالآخر ہم نے اسے اور اس کے لشکروں کو پکڑ لیا اور دریا میں پھینک دیا ، اب دیکھ لو کہ ان گنہگاروں کا انجام کیسا ہے”۔
o آیت نمبر 43سے 46تک فرعون اور اس کی قوم کی ہلاکت کے بعد موسی علیہ السلام کو کتابِ ہدایت دئیے جانے کا ذکر ہے اور یہ بیان کرکے اہل مکہ کے سامنے نبی ﷺ کی نبوت کو ثابت کیا گیا ہے کہ امی ہونے کے باوجود آج سے صدیوں پہلے گزرے ہوئے واقعے کو اتنی تفصیل سے بیان کر رہے ہیں جو اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے پاس اللہ تعالی کی طرف سے وحی آتی ہے ۔
o اس سلسلے میں آیت نمبر 44اور 45 بڑی معنی خیز ہیں۔ ان میں نبی ﷺ کے بارے میں رکھے گئے اس باطل عقیدے یعنی عقیدہ حاضر و ناظر کی تردید ہوتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام کی طرف وحی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ” وَمَا كُنْتَ بِجَانِبِ الْغَرْبِيِّ إِذْ قَضَيْنَا إِلَى مُوسَى الْأَمْرَ وَمَا كُنْتَ مِنَ الشَّاهِدِينَ (44)” اور طور کی مغربی کنارے جب کہ ہم نے موسی (علیہ السلام ) کو حکم احکام کی وحی پہنچائی تھی نہ تو تو موجود تھا اور نہ دیکھنے والا تھا۔
” وَمَا كُنْتَ بِجَانِبِ الْغَرْبِيِّ إِذْ قَضَيْنَا إِلَى مُوسَى الْأَمْرَ ” اے نبی ﷺ آپ مغربی جانب نہیں تھے جب ہم نے موسی کی طرف وحی کی،اس سے حاضر ہونے کی تردید ہوئی، اور پھر فرمایا ” وَمَا كُنْتَ مِنَ الشَّاهِدِينَ” آپ گواہوں یا حاضر ہونے والوں میں سے بھی نہیں تھے۔ اس سے حاضر کی تردید ہوتی ہے ۔
o آیت نمبر 47سے کلام کا رخ اہل مکہ کو خبر دار کرنے اور ان کے اعتراضات کے جواب میں ہے۔
o یعنی تمہیں سزا دینے سے پہلے اللہ تعالی یہ رسول تمہارے پاس بطور رحمت بھیج رہا ہے۔ لہذا عذاب سے پہلے اس کی اطاعت کر لو، اسی میں تمہارے لئے خیرہے۔ آیت :47
o لیکن اس کے جواب میں وہ ایمان لانے کی بجائے مزید معجزات کا مطالبہ کرنے لگے کہ جس طرح حضرت موسی علیہ السلام کو معجزے ملے تھے،جیسے عصا،بادلوں کا سایہ کرنا وغیرہ، ویسے ہی معجزے آپ ﷺ کو کیوں نہیں ملتے؟۔
o اس کا جواب یہ دیا گیا کہ کیا موسی علیہ السلام پر لوگ ایمان لائے ؟ہر گز نہیں،بلکہ انہوں نے تو ان معجزات کو جادو کہہ کر ٹھکرا دیا تھا۔آیت: 48
o یہاں نبی ﷺ کو حکم دیا گیا ہے کہ ان کے اس مطالبے پر آپ انہیں چیلنج کیجئے کہ اگرتم اس کتاب کو نہیں مانتے تو اس سے بہتر کوئی کتاب لاؤ تو میں اسے مان لوں گا۔آیت:49
o نبی کریمﷺ کو تسلی دی کہ حقیقت یہ ہے کہ وہ خواہشات کے پیروکار ہیں اورمعلوم ہے کہ انسان کے سب سے بڑی گمراہی یہ ہے کہ وہ اپنی خواہشات کا غلام بن جائے۔ ایسے لوگ ظالم ہیں اور ہدایت کو قبول کرنے کی ان سے امید نہیں کی جا سکتی ۔ آیت: 50
o آیت نمبر 51سے 55تک اہل مکہ کو عبرت دلائی گئی ہے کہ یہ جوتمہیں پے در پے نصیحتیں کی جارہی ہیں ان سے عبرت حاصل کرو اور توجہ دو کہ اس کتاب کی حقانیت کی ایک بہت بڑی دلیل یہ بھی ہے کہ تم سے پہلے جن لوگوں کو کتاب دی گئی ہے وہ کس جذبے سے اسے قبول کررہے ہیں ۔
o پھر ان کی چند صفات کا ذکر ہے جو کسی بھی مومن میں ضرور ہونی چاہئیں:
1) جب بھی کوئی حکم یا آیت نازل ہوتی ہے تو اس وہ پر فورا” آمنا” یعنی ہم ایمان لائے کہتے ہیں اور اس کی تصدیق کرتے ہیں ۔
2) برائی کا بدلہ بھلائی سے دیتے ہیں ۔
3) اللہ کے دئیے ہوئے مال میں سے خرچ کرتے ہیں ۔
او ربعض نے یہ تفسیر کی کہ کسی برائی کے بعد وہ نیک عمل او ر صدقہ کرتے ہیں۔
4) لغو یات سے مکمل پرہیز کرتے ہیں۔
o آیت نمبر 56کے بارے میں مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ آیت ابو طالب کے بارے میں نازل ہوئی ۔ إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ (56) "آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں دےسکتے بلکہ اللہ تعالی ہی جسے چاہے ہدایت دیتا ہے۔ ہدایت پانےوالوں سے وہی خوب واقف ہے”۔
یعنی اے ہمارے نبی ﷺ! آپ کا کام لوگوں کو ہدایت کا راستہ دکھانا ہے ،اس پر چلنے کی توفیق دینا یہ صرف ہمارا کام ہے۔
گویا اس طرح نبی ﷺ کو یہ تعلیم دی جارہی ہے کہ آپ اس فکر میں نہ رہا کریں کہ کون اسلام قبول کر رہا ہے او ر کون قبول نہیں کرتا۔ آپ کاکام صرف پہنچا دینا ہے۔جس کے اندر اللہ تعالی خیر دیکھے گا اسے آپ پر ایمان لانےکی توفیق بخش دے گا۔
o آیت نمبر 57سے 61تک کفار مکہ کے اس اندیشے کو دور کیا جا رہا ہے کہ اگر ہم مسلمان ہو گئے تو چاروں طرف سے لوگ ہم پر چڑھ دوڑیں گے اور ہماری معیشت تباہ کر دی جائے گی۔
o اس کا جواب اللہ تعالی نے یہ دیا کہ جب پورے جزیرہ عرب میں بد امنی کا دور دورہ تھا او ر ہر طرف قتل و غارتگری او ر زبردستی غلام بنا لینے کا نظام چل رہا تھا ۔اس وقت ہم نے تمہیں امن دیا او ر تمہیں روزیاں بہم پہنچائیں تو ایمان لانے کے بعدکیا تمہیں ایسے ہی چھوڑ دیا جائے گا؟ ہرگز نہیں ، یاد رکھو ! تیرے رب کے پاس ہر چیز کا خزانہ موجود ہے۔
o اور جہاں تک روزی میں فراوانی او ر کشادگی کا تعلق ہے تو یہ کسی کو اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکتی، کیونکہ اس سے پہلے ایسی کئی قومیں گزری ہیں جنہیں اپنی معیشت پر بڑا ناز تھا ، لیکن وہ اس طرح سے ہلاک ہوئے کہ ان کے مکان کبھی دوبارہ آباد نہ ہوسکے ۔
o آیت 60-61 میں اہل مکہ کو جواب دیتے ہوئے ان کی توجہ اس طرف مبذول کرائی گئی ہے کہ ایمان لانے کی صورت میں دنیا کے جس نقصان کا تمہیں خطرہ ہے ، اس دنیا کی رونقیں عارضی بھی ہیں اور بہت حقیر بھی ۔ جبکہ اللہ تعالی نے اہل ایمان کے لئے اپنے پاس جو نعمتیں ، آسائشیں اور سہولتیں تیار رکھی ہیں وہ بہت عظیم بھی ہیں اور دائمی بھی ۔
o آیت 62سے 70تک اللہ تعالی نے قیامت کےدن کو یاد دلایا ہے کہ وہاں تمہارے باطل معبود تمہارے کسی کام آنے والے نہیں ہیں، وہاں تو تم سے یہی سوال ہوگا کہ تم نے رسولوں کی دعوت کا کیا جواب دیا تھا۔اس وقت تمہارا حال یہ ہوگا کہ تم سے نہ کوئی جواب بن پڑے گا اور نہ کسی سے کوئی مدد مانگ سکو گے۔
o لہذا ایمان لاؤ ، کیونکہ کامیابی کے لئے شرک وکفر سے توبہ، ایمان اور عمل صالح شرط ہے ۔
o آیت 69سے 75تک ان آیات میں توحید اور اس کے دلائل کا ذکر ہے۔
o چنانچہ اللہ تعالی نے یہ واضح کیا کہ اپنے لئے شافع مونددگار متعین کرنا یہ مشرکین کی جہالت اور خام خیالی ہے، کیونکہ خلق وتدبیر میں اللہ تعالی مختارِ کل ہے، اسی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ اپنی مخلوقات میں سے رسالت ونبوت کے لئے کس کا انتخاب کرتا ہے۔
o اس کی سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ اللہ تعالی کی علم بہت وسیع کا ہے ،وہی ظاہر وپوشیدہ رازوں کو جانتا ہے ، ہر چیز پر اسی کا فیصلہ نافذ اور وہی عبادت کے لائق ہے۔ وَهُوَ اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ لَهُ الْحَمْدُ فِي الْأُولَى وَالْآخِرَةِ وَلَهُ الْحُكْمُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (70) ” وہی اللہ ہے ، اس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں، دنیا اور آخرت میں اسی کی تعریف ہے۔ اسی کے لئے فرمانروائی ہے اور اسی کی طرف تم سب پھیرے جاؤ گے”۔
o پھر اللہ تعالی نے اپنی قدرت کے اظہار کے طور پر رات ودن کی آمد ورفت کے فوائد کا ذکر فرمایاہے کہ بتلاؤ ! اگر اللہ تعالی دن اور رات کا یہ نظام ختم کر کے ہمیشہ کے لئے رات مسلط کر دیتا تو اللہ کے علاوہ کوئی معبود ایسا ہے جو تمہیں دن کی روشنی عطا کر دیتا؟ یا اگر وہ ہمیشہ کے لئے دن ہی دن رکھتا تو کیا کوئی دوسرا رب ہے جو تمہیں رات کی تاریکی سے بہرہ ور کرسکتا ہے ، جس میں تم آرام کرسکو، نہیں، یقینا نہیں، تو یہ صرف اللہ کی کمال مہربانی ہے کہ اس نے دن ورات کا ایسا نظام رکھا ہے۔ لہذا تمہیں اسی کا شکر گزار ہونا چاہئے۔
o آیت نمبر 76سے 84تک قارون اور اس کی ہلاکت کا ذکر ہے جو قرآن میں صرف اسی ایک جگہ پر بیان ہوا ہے۔قارون کو اللہ تعالی نے بے حساب مال دیا تھا جس پر اللہ کا شکر ادا کرنے کے بجائے وہ اپنے مال پر اترا رہا تھا ،اللہ کے دئے ہوئے مال کو اپنی کوشش اور صلاحیت کا چمرہ تصور کیا۔قوم کے لوگوں نے سمجھایا لیکن وہ ماننے کیلئے تیار نہ ہوا ، بلکہ کہنے لگا کہ یہ مال تومجھے میرے علم کی بنا پر ملا ہے ۔
o بالآخر اللہ تعالی نے اسے اس کے مال سمیت زمین میں دھنسا دیا۔
o مال کی کثرت کے زعم میں پڑ کر اللہ کی راہ سے فرار اختیار کرنے کی یہ ایک مثال ہے کہ اس قسم کے لوگ دنیا میں خواہ کچھ دن اپنے مال سے فائدہ اٹھا لیں لیکن آخرت میں انہیں کچھ ملنے والا نہیں۔
o اس قصے میں عبرت کا ایک بہت بڑا پہلو یہ ہے کہ جب وہ اپنے نوکروں چاکروں کے ساتھ باہر آیا تو کم علم اور دنیا پرست لوگوں نے اسے دیکھ کر کہا: یہ تو بڑا خوش نصیب ہے، اسے تو بہت کچھ ملا ہے” يَالَيْتَ لَنَا مِثْلَ مَا أُوتِيَ قَارُونُ إِنَّهُ لَذُو حَظٍّ عَظِيمٍ (79)” کاش کہ ہمیں بھی کسی طرح وه مل جاتا جو قارون کو دیا گیا ہے۔ یہ تو بڑا ہی قسمت کا دھنی ہے”۔
o لیکن اللہ تعالی نے جنہیں علم دیا تھا انہوں نے ان لوگوں کو سمجھاتے ہوئے کہا: ایسی بات نہیں ہے، بلکہ حقیقی خوش نصیب وہ شخص ہے جسے ایمان اور عمل صالح کی توفیق مل جائے ،لیکن اس کے لئے صبر کی ضرورت پڑتی ہے۔وَيْلَكُمْ ثَوَابُ اللَّهِ خَيْرٌ لِمَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا وَلَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الصَّابِرُونَ (80) ” تمہارے اوپر افسوس! بہتر چیز تو وہ ہے جو بطور ثواب انہیں ملے گی جو اللہ پر ایمان لائیں اور سنت کے مطابق عمل کریں۔ یہ بات انہیں کو سمجھ آئے گی جو صبر کرنے والے ہیں”۔
o دوسری بڑی عبرت اس قصے میں یہ ہےکہ جو مال اللہ کی رضا کے لئے خرچ نہ کیا جائے وہ جلد یا دیر صاحب مال کیلئے وبال جان بن جاتا ہے۔
o عبرت کا تیسرا پہلو اس قصے کے خاتمہ پر دنیا داروں کی علامت اور آخرت کے طالبین کی علامت کی طرف اشارہ ہے۔ دنیاداروں کی علامت یہ ہے کہ وہ دنیا میں علو (تکبر اور بڑا پن) اور فساد کے طلبگار ہوتے ہیں، جبکہ آخرت کا طالب علو وفساد فی الارض سے بچتا ہے اور تقوی یعنی اعمال صالحہ پر توجہ دیتا ہے۔
o آیت 85سے 88تک کلام کا رخ نبی ﷺ کی طرف ہے اور آپ ﷺ کوچند نصیحتیں کی گئی ہیں:
1) یہ خوشخبری ہے کہ آپ کا رب آپ کو جلد ہی مکہ کی طرف لوٹائے گا۔ آیت:85
2) یہ قرآن آپ کے پاس حق ہے ۔اس پر ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ آپ دین کے معاملے میں کافروں کا ساتھ نہ دیں۔ آیت: 86
3) لوگوں کی مخالفت و دشمنی آپ کو دعوت کےکام سے نہ روکے۔آیت :87
4) دعوت کے کام کو جاری رکھیں اور کسی کی پرواہ نہ کریں۔ کیونکہ لوگوں کے ڈر سے دعوت کا کام چھوڑنا ایک قسم کا شرک ہے۔آیت:87
5) اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود نہ بنائیں ۔ کیونکہ اس کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں۔
آخری آِت ایک جامع نصیحت پر ختم ہو رہی ہے کہ ہر ایک کو اللہ کی طرف جانا ہے جہاں نیکوں کو ان کی نیکیوں کا جزا اور بدوں کو ان کی بدیوں کی سزا ملے گی۔آیت:88

سورت العنکبوت
یہ سورت مکی ہے۔
مکی سورتوں کی طرح اس سورت کا مرکزی موضوع عقیدہ ہے ، اور یہ کہ صحیح عقیدہ کی راہ اپنانے کی صورت میں آزمائش کا آنا ضروری اور یقینی ہے۔
اسی سورت کی آیت نمبر 41 میں "العنکبوت "یعنی مکڑی اور اس کے جالے کا ذکر ہے ، اسی مناسبت سے اس سورت کا نام سورہ العنکبوت پڑا ہے۔
o آیت 1سے 7۔ بیان ہواکہ مکہ کے کچھ نیک سیرت بندوں نے اسلام قبول کرلیا تھاتو انہیں مختلف قسم کی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا ۔ اپنے پرائے سب ان کے دشمن بن گئے او رناقابل برداشت تکلیفیں دینے لگے۔ایسے موقعہ پر بعض مسلمان کبھی پریشان ہو جاتے۔ انہیں لوگوں کو تسلی دینے کے لئے یہ سورت نازل ہوئی ہے۔
o ابتدائی آیات میں یہ بتلایا گیا ہے کہ اللہ کی راہ میں آزمائش ضروری ہے، تاکہ یہ معلوم رہے کہ کون سچا مومن ہے او رکس کے ایمان میں کھوٹ کی ملاوٹ ہے۔
o نیز یہ بھی بتلایا گیا ہے کہ یہ معاملہ صرف تمہارے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ تم سے پہلے جتنے لوگ اس راہ پر چلے ہیں انہیں آزمایا گیا ہے۔
o آیت نمبر 4 میں ان لوگوں جو اللہ کے بندوں کو اذیت پہنچاتے ہیں ،خبر دار کیا گیا کہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ اللہ کی پکڑ سے دور ہیں ، جو کچھ وہ کر رہے ہیں بہت برا کر رہے ہیں اور ان کے اس فعل بد کا انجام بہت برا ہونے والا ہے۔
o پھر اہل ایمان کو تسلی دی گئی ہے کہ اللہ تعالی ان کے اعمال کو ضائع نہیں کرے گا ،بلکہ اللہ تعالی (آزمائش پر صبر کرنے کی وجہ سے)ان کے گناہوں کو معاف کر دے گا اور ان کی نیکیوں کا بہترین بدلہ دے گا۔
o آیت نمبر 8اور 9خاص طور پر حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئیں جب ان کی والدہ انہیں ایمان ترک کرنے پر مجبور کر رہی تھیں ۔
ان آیات میں گویا یہ واضح کیا گیا کہ والدین کا مقام اپنی جگہ مسلم لیکن اللہ کا حق توحید سب سے اوپر ہے ۔
o آیت10اور 11میں ان کمزور ایمان مسلمانوں کو خبر دار کیا گیا ہے جو ایمان تو لاتے تھے لیکن جب بھی کوئی دنیاوی مصیبت یا رکاوٹ آتی تو اس سے پیچھے ہٹنا شروع کر دیتے۔گویا ان کے نزدیک دنیا کے عذاب او رآخرت کے عذاب میں کوئی بڑا فرق نہیں تھا۔اس چیز کو اللہ تعالی نے ایک قسم کا نفاق قرار دیا۔ اللہ تعالی نے فرمایا: وَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْمُنَافِقِينَ (11)۔” جو لوگ ایمان لائے اللہ انہیں بھی جان کر رہے گا اور منافقوں کو بھی جان کر رہے گا” ۔
o آیت نمبر 12اور 13میں اللہ تعالی نے مسلمانوں کی ایک اور آزمائش کا ذکر فرمایا ہے کہ کچھ کا فر بعض مسلمانوں کو کہتے جن پر ان کا زور سزا دینے کے لئے نہیں چلتا تھا،انہیں بہلاتے اور پھسلاتے ہوئے کہتے تھے کہ تمہارا پہلا دین ہی صحیح ہے، اسی طرف واپس آ جاؤ ،ہم اس کا ذمہ لیتے ہیں کہ یہی حق ہے او ر یہی بات صحیح ہے۔اگر یہ بات غلط ثابت ہوئی تو اس کے ذمہ دار ہم ہیں۔
اس سے متعلق سب سے پہلےتو اللہ تعالی نے یہ فرمایا کہ آخرت میں کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا ،وہاں تو ہر شخص کو اپنی پڑی رہے گی، حتی کہ قریبی سے قریبی تعلق دار بھی ایک دوسرے کے بارے میں نہیں پوچھیں گے۔
اور دوسری بات یہ ہے کہ اس دن کوئی کسی دوسرے کا بوجھ تو ہلکا نہیں کر پائے گا، البتہ اس طرح اپنا بوجھ ضرور بھاری کر لے گا۔کیونکہ وہ لوگ انہیں کی وجہ سے گمراہ ہوتے ہیں لہذا انہیں اپنے ساتھ ساتھ ان کے گناہوں کا بوجھ بھی اٹھانا پڑے گا۔
o آیت نمبر 14سے انبیاء علیہم السلام اور انہیں اپنی قوموں کے حوالےسے ان کی آزمائش کا بیان ہے۔
o چنانچہ سب سے پہلے حضرت نوح علیہ السلام کا ذکر ہوا ہے جو اس دنیا میں سب سے پہلے رسول تھے،انہیں اپنی قوم کی طرف سے بہت سخت آزمائش کا سامنا کرنا پڑا ، وہ اپنی قوم کو ساڑھے نو سو سال تک اللہ پر ایمان لانےکی طرف بلاتے رہے، لیکن قوم کے لوگ ایمان لانے کے لئے تیار نہ ہوئے۔پھر جب لوگ ایمان نہ لائے تو اللہ تعالی نے انہیں ہلاک کر دیا۔ البتہ کچھ لوگ حضرت نوح علیہ السلام کے ساتھ کشتی پر سوار ہو کر بچ گئے۔
o اللہ تعالی نے اس کشتی کے بارے میں فرمایا کہ ہم نے اسے لوگوں کے لئے نشانی بنا یا ہے۔ یہ نشانی تین قسم کی ہو سکتی ہے:
1) یہ تمام جہانوں کے لئے نشانی ہے جو اسے سنے او ر پڑھے وہ عبرت حاصل کرے کہ اللہ تعالی اپنے نیک بندوں کی کس طرح حفاظت فرماتا ہے۔
2) شاید اس سے پہلے دنیا میں کشتی کا رواج نہ تھا اور نہ لوگ کشتی کی سواری جانتے تھے ۔تو یہ لوگوں کے لئے ایک نشانی بن گئی، کشتی پر بیٹھ کر پانی سے نجات پانے کیلئے۔
3) اس کشتی کو” جودی ” پہاڑ پر ایک مدت کے لئے باقی رکھا، تاکہ لوگ اسے دیکھ کر عبرت حاصل کرتے رہیں۔
o آیت 16سے 27تک حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر خیر ہے۔ انہیں بھی اپنی قوم کی طرف سے سخت آزمائش کا سامنا کرنا پڑا۔
o ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم کے سامنے ہر قسم کے دلائل پیش کئے لیکن وہ تکبر وضدکی وجہ سے نافرمانی پر اڑے رہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم دو بڑی خرابیوں کا شکا ر تھی۔ایک شرک او ردوسرا ا ٓخرت کی زندگی کا انکار۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف سے ان کے ان دونوں باطل نظریات کی تردید کی گئی ہے۔ إِنَّمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَوْثَانًا وَتَخْلُقُونَ إِفْكًا إِنَّ الَّذِينَ تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَا يَمْلِكُونَ لَكُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوا عِنْدَ اللَّهِ الرِّزْقَ وَاعْبُدُوهُ وَاشْكُرُوا لَهُ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (17) ” تم لوگ تو اللہ کے سوا بتوں کی پوجا پاٹ کر رہے ہواور جھوٹی باتیں دل سے گھڑ لیتے ہو، سنو! جن جن کی تم اللہ کے سوا پاجا پاٹ کر رہے ہو وہ تو تمہاری روزی کے مالک نہیں ، پس تمہیں چاہئے کہ تم اللہ ہی سے روزیاں طلب کرواور اسی کی عبادت کرواور اسی کی شکر گزاری کرو ، اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے”۔
o آیت 18 تا 23 حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس دلپذیر تقریر کا ذکر ہے جو انہوں اپنی قوم کے سامنے کی ،جس میں دوسری قوموں کا حوالہ دیا کہ انہوں نے اپنے نبی کو جھٹلایا تو ان کا انجام کیا ہوا؟ نیز خود ان کے وجود سے آخرت پر دلیل پیش کی۔ انہیں زمین میں چل پھر کر اللہ کی نشانیوں میں غور کی دعوت دی کہ جو رب اس قدر قدرت والا ہے وہ تمہیں بھی دوبارہ اٹھا کر کھڑ اکرسکتا ہے، یا درکھو: وَمَا أَنْتُمْ بِمُعْجِزِينَ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ (22) ” تم نہ تو زمین میں اللہ کو عاجز کرسکتے ہو نہ آسمان میں، اللہ کے سوا تمہارا نہ کوئی دوست ہے اور نہ مددگار”۔
o اس کے جواب میں قوم نے صرف یہی کہا کہ انہیں جلادو یا قتل کر دو۔
چنانچہ ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا گیا اور وہ بفضل الہی بخیریت واپس نکل آئے اور اپنی قوم کو آخری نصیحت کرکے وہاں سے ہجرت کر لئے۔
o ان کی آخری نصیحت یہ تھی کہ تم جو بتوں کی عبادت میں مبتلا ہو اس پر کوئی دلیل نہیں اور نہ ہی تمہارے ان معبودوں کے پاس کوئی قوت ہے۔یہ کام تم صرف ایک دوسرے کی دوستی اور تعلقات کی بنیاد پر کرتے ہو۔ لیکن یاد رکھو تمہاری یہ دوستی قیامت کے دن دشمنی میں بدل جائے گی۔
o ہجرت کی برکت سے اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر جو کرم کیا، اس کا ذکر ہے کہ انہوں نے جب اللہ کے لئے اپنی قوم کو چھوڑا تو اللہ تعالی نے ان کی نسل میں نبوت و رسالت کا سلسلہ جاری کردیا۔
o آیت 28 تا 35 حضرت لوط علیہ السلام اور ان کو پیش آمدہ آزمائش کا ذکر ہے ۔
o چنانچہ جب انہوں نے اپنی قوم کو بد فعلی ، رہزنی، سرِ عام محفلوں میں فواحش کے ارتکاب سے روکا تو قوم کے لوگوں نے شہر سے نکالنے کی دھمکی دی اور عذاب کا مطالبہ کیا ۔ لوط علیہ السلام نے مجبور ہوکر اللہ تعالی سے دعاکی ” قَالَ رَبِّ انْصُرْنِي عَلَى الْقَوْمِ الْمُفْسِدِينَ (30)”۔ ” عرض کیا: اے میرے رب! اس مفسد قوم کے مقابلے میں میری مدد فرما”۔
o ان کی بستی کو الٹنے کے لئے جب فرشتےخوبصورت نوجوانوں کی صورت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس سے ہوتے ہوئے حضرت لوط تک پہنچے تو وہ بہت غمگین ہوئے اور دل ہی دل میں بڑے رنجیدہ ہوئے ۔ کیونکہ وہ سمجھ رہے تھے کہ یہ کوئی مہمان ہیں۔ لیکن فرشتوں نے تسلی دی کہ آپ پریشان نہ ہوں ،ہم اللہ کے فرشتے ہیں۔ آپ تومحفوظ رہیں گے البتہ آپ کی قوم پر ہم آسمانی عذاب نازل کرنے کے لئے آئے ہیں۔
o آیت نمبر 36سے 40تک حضرت شعیب،ہود او رصالح علیہم السلام کی قوموں او رفرعون و ہامان و قارون کا ذکر ہے۔
o ان کے بارے میں دو باتیں خصوصی طور پر مذکور ہیں:
1) ” وَكَانُوا مُسْتَبْصِرِينَ” یہ لوگ عقل او رسمجھ رکھنے والے اور دور اندیش و ہوشیار لوگ تھے،جو باتیں ان کے سامنے رکھی جاتیں انہیں جانتے اور سمجھتے تھے۔
2) "فَكُلًّا أَخَذْنَا بِذَنْبِهِ”(ہر ایک کو اس کے گناہ کے وبال میں گرفتار کیا) اور فرمان الہی”وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ (40)” (اللہ تعالی ایسا نہ تھا کہ ان پر ظلم کرے بلکہ وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے تھے) اس سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے انہیں جو عذاب دیا وہ ان پر حجت پوری کرنے کے بعد ان کے گناہوں کی وجہ سے دیا ۔
o آیت نمبر 41سے 44تک ان قوموں کی ہلاکت کے بیان کے بعد دنیاوی اسباب کی کمزوری اور باطل معبودوں کی لاچاری کی اللہ تعالی نے ایک عظیم مثال دی ہے کہ ان کی مثال مکڑی کے جالے کی ہے جو کمزور ترین گھر ہوتا ہے۔اس سے شاید یہ واضح کرنا مقصود ہو کہ اس دنیا میں آزمائشیں او ر پریشانیاں آتی ہیں، لیکن اللہ کی قدرت کے مقابلے میں ان کی مثال مکڑی کے جالوں سے زیادہ نہیں ہے لیکن اس بات کو صرف صاحب علم ہی سمجھ سکتے ہیں ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں