بیوہ کے حقوق – سلسلہ حقوق: 16

بسم الله الرحمن الرحيم

خلاصہ درس : شیخ ابو کلیم فیضی الغاط

بتاریخ : 21 / رمضان المبارک 1429ھ م 21/ستمبر 2008م

بیوہ کے حقوق

عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : الساعي على الأرملة والمسكين كالمجاهد في سبيل الله و أحسبه قال : وكالقائم الذي لا يفتر و كالصائم الذي

لا يفطر .

( صحيح البخاري : 6007 ، الأدب /

صحيح مسلم : 2982 ، الزهد )

ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہیکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بیواوں اور مسکین کی خبر گیری کرنے والا ، اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے [ راوی حدیث کہتے ہیں ] میرا گمان ہیکہ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ وہ اس تہجد پڑھنے والے کی طرح ہے جو سست نہیں ہوتا اور اس روزہ دار کی طرح ہے جو ناغہ نہیں کرتا ۔ [ صحیح بخاری و مسلم ]تشریح : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دنیا میں بعثت سے قبل جنس لطیف پر طرح طرح کے ظلم ٹھائے جاتے تھے ، جاہل و بے غیرت لوگ انہیں اپنے ظلم کا تختہء مشق بنائے ہوئے تھے ، خاصکر اگر کسی عورت کا شوہر مرجاتا تو شوہر کے گھر والے اسکے مال کی طرح اسکی بیوی کے بھی زبردستی وارث بن بیٹھتے اور خود اپنی مرضی سے عورت کی رضا مندی کے بغیر نکاح کرلیتے ، یا اپنے بھائی ، بھتیجے سے اسکا نکاح کردیتے حتی کہ بسا اوقات سوتیلا بیٹا تک اپنے مرنے والے باپ کی بیوہ سے شادی کرلیتا ، اور اگر چاہتے تو کسی بھی جگہ اسے شادی کی اجازت نہ دیتے اور وہ ساری عمر یوں ہی گزارنے پر مجبور ہوتی اور یہ کب ؟ جب وہ ایک سال تک اپنے شوہر کی پر مشقت عدت کسی ویران جگہ میں بھیڑ اور بکریوں کے ساتھ رہکر گزار چکی ہوتی ۔

اسلام نے اس ظلم کو ختم کیا اور بیوہ کے حقوق اور اسے آزادی دینے کی سختی سے تاکید کی ، چنانچہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا : ایمان والو ! تمہیں حلال نہیں کہ زبردستی عورتوں کو ورثے میں لے بیٹھو ، انہیں اسلئے روک نہ رکھو کہ جو تم نے انہیں دے رکھا ہے اس میں سے کچھ لے لو ، ہاں یہ اور بات ہیکہ وہ کوئی کھلی برائی اور بے حیائی کریں ، انکے ساتھ اچھے طریقے سے بود و باش رکھو ، گو تم انہیں ناپسند کرو لیکن بہت ممکن ہیکہ تم کسی چیز کو برا جانو اور اللہ تعالی اس میں بہت بھلائی کردے ۔ [ النساء : 19 ] یہ آیت اور اس قسم کی دیگر آیتیں نازل فرماکر اللہ تعالی نے انکی حق تلفی سے سخت منع فرمایا

صفحہ : 2/1

اور ان پر سے ظلم کا خاتمہ کیا اور انکے کچھ واجبی حقوق متعین فرمائے جن میں سے بعض یہ ہیں ۔[ ۱ ] شادی : ارشاد باری تعالی ہے : وانکحوا الایامی منکم و الصالحین من عبادکم و اماتاکم ان یکونوا فقراء یغنھم اللہ من فضلہ ۔ [ سورۃ النور : ] ، تم میں سے جو مرد عورت بے نکاح کے ہوں انکا نکاح کردو اور اپنے نیک بخت غلام لونڈیوں کا بھی اگر وہ مفلس بھی ہونگے تو اللہ تعالی انہیں اپنے فضل سے غنی بنادے گا ۔

ارشاد نبوی ہے : اے علی تین چیزوں کا جب وقت ہوجائے تو اسے موخر نہ کرنا : ۱ – نماز کا جب وقت پہنچ جائے ۔ ۲- جنازہ جب حاضر ہوجائے ۔ ۳ – بے شوہر عورت کو جب مناسب مرد مل جائے ۔ [ سنن الترمذی ، مسند احمد بروایت علی ]

یہ بھی دیکھیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نےایک کے علاوہ تمام شادیاں بیوہ عورتوں سے کیں ۔

[ ۲ ] حق میراث : قرآن مجید میں تفصیل سے انکا حصہ متعین ہے یعنی چوتھا یا آٹھواں ۔

ارشاد باری تعالی : ولا تعضلوھن لتذھبوا ببعض ما آتیتموھن ۔ [ النساء ] ، انہیں اس لئے روک نہ رکھو کہ جو تم نے انہیں دے رکھا ہے اس میں سے کچھ لے لو ۔

ایک بار حضرت سعد بن الربیع رضی اللہ عنہ کی بیوہ خدمت نبوی میں حاضر ہوتی ہیں اور کہتی ہیں کہ یہ دونوں بیٹیاں سعد بن ربیع کی ہیں جو آپ کے ساتھ غزوہ احد میں شہید ہوگئے ہیں ، اب انکے چچا انکا حق لے لینا چاہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ جس پر آیت میراث نازل ہوئی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان بچیوں کے چچا کو بلا کر فرمایا کہ سعد کی دونوں بیٹیوں کو دو تہائی حصہ دو اور انکی بیوہ کو آٹھواں حصہ اور اسکے بعد جو بچے وہ تمہارا ہے ۔ [ احمد : 3/352 ، سنن ابو داود وغیرہ بروایت جابر ] ۔

[ ۳ ] اس پر کوئی زور نہیں : عدت وفات گزار لینے کے بعد بیوہ عورت کا حق ہیکہ وہ اپنی پسند سے جہاں چاہے شادی کرسکتی ہے ، ولی کی رضا مندی تو ضروری ہے البتہ اس پر ولی کا کوئی زور نہیں ہے ۔

مطلقہ عورت سے متعلق ارشاد باری تعالی ہے : فَلاَ تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ (سورة البقرة : 232 )

ان کو دوسرے شوہروں کے ساتھ جب وہ آپس میں جائز طور پر راضی ہوجائیں نکاح کرنے سے مت روکو

ارشاد نبوی ہے : کنواری لڑکی کا نکاح نہ کیا جائے جب تک کہ اس سے اجازت نہ لی جائے اور بیوہ کا نکاح نہ کیا جائے جب تک کہ اس سے حکم نہ لیا جائے ۔ [ صحیح بخاری و صحیح مسلم ، بروایت ابو ہریرہ ]

[ ۴ ] خرچ : ارشاد نبوی ہے : بیواوں اور مسکین کی خبر گیری کرنے والا ،اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے ۔ [ صحیح بخاری و صحیح مسلم ]

صفحہ : 2/2

[ ۵ ] اور اگر یہی بیوہ عورت کسی جائز مقصد کے تحت اپنی بیوگی پر صبر کرے اور اپنے بچوں کی تربیت میں لگی رہے تو اسلام نے اسکا بڑا اجر رکھا ہے ۔ ارشاد نبوی ہے : میں اور سوکھے گالوں والی وہ عورت قیامت کے دن ان دو انگلیوں کی طرح ہونگے وہ حسن و جمال اور جاہ و عزت والی بیوی جو شوہر کے بعد بیوہ ہوجائے لیکن اپنے ننھے یتیم بچوں کی خدمت کے خاطر رکی رہے ۔ [ ابوداود ، مسند احمد : 6/29 ، بروایت عوف بن مالک]

ختم شده

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں