بسم اللہ الرحمن الرحیم
23:درس نمبر
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
تئیسواں سال
نبوت کے 23 سال23درس
سلسلہ مختصر سیرت النبی ﷺ / رمضان 2013
ہجرت کا دسواں سال : 10 ھ
وفود کا سلسلہ : اس سال بھی 9 ھ کی طرح وفود کی آمد کا سلسلہ جاری رہا ، ان میں سے بعض اہم وفد یہ ہیں :
[۱] وفد بنی عامر بن صعصعہ : یہ لوگ مدینہ منورہ سے دور نجد کی جانب واقع تھے ان کا سردار عامر بن الطفیل ایک متکبر آدمی تھا ، 10 ھ میں اپنی قوم کا وفد لے کر آیا ، نبی ﷺ نے جب اسے اسلام کی دعوت دی تو اس نے شرط لگائی کہ شہروں پر آپ کی حکومت رہے گی اور اہل بادیہ پر میری حکومت ، نبی ﷺ نے اسے قبول نہیں کیا تو وہ مدینہ منورہ کو گھوڑوں سے روند دینے کی دھمکی دیکر رخصت ہوا ، نبی ﷺ نے اس کے لئے بد دعا کی اور راستے میں ہی ہلاک ہوگیا ۔ { صحیح بخاری :3864 – مسند احمد :2/104 } ۔ اس وفد کے لوگ جب مدینہ پہنچے تو نبی ﷺ سے کہا : ” انت خیر و ابن خیرنا ، انت سیدنا و ابن سیدنا " آپ نے فرمایا : قولوا بقولكم ولا يستهوينكم الشيطان ، أنا محمد عبد الله ورسوله ، ما أحب أن ترفعوني فوق منزلتي التي أنزلني الله عز وجل { احمد :3/249 – المغازی للذھبی :678 } ۔
[۲] وفد بنی حنیفہ : اسی سال یمامہ کے لوگ اپنا وفد لے کر آئے ، اس وفد میں مسیلمہ بن حبیب بھی تھا ، نبی ﷺ نے اسے اسلام کی دعوت دی تو اس نے یہ شرط لگائی کہ آپ کے بعد نبوت مجھے ملے ؟ نبی ﷺ کے دست مبارک میں ایک چھوٹی سی لکڑی تھی ، آپ نے فرمایا : اگر تو اس کے برابر بھی طلب کرے تو میں نہیں دے سکتا ۔ { صحیح بخاری : 3620 – صحیح مسلم : 2272 } چنانچہ وہ شخص واپس گیا اور یمامہ پہنچنے کے بعد نبوت کا دعوی کردیا نبیﷺ نے اس کا لقب کذاب رکھا ۔
[۳] وفد نجران : اسی سال نجران کے عیسائیوں کا وفد خدمت نبوی میں حاضر ہوا ،اس وفد میں ان کے سردار اور عالم السید اور عاقب بھی تھے ، نبی ﷺ نے انہیں اسلام کی دعوت دی لیکن وہ تیار نہ ہوئے تو نبی ﷺ نے انہیں مباہلہ کی دعوت دی جس پر ابتداء میں تو تیار ہوگئے لیکن بعد میں پیچھے ہٹ گئے اور جزیہ دینے پر رضا مند ہوگئے ، نبی ﷺ نے ان کے ساتھ ابو عبیدہ بن الجراح امین ھذہ الامہ کو جزیہ وصول کرنے کیلئے بھیجا ۔ { صحیح بخاری : 4380 }۔
دعاۃ و مبلغین کی روانگی : پچھلے سال کی طرح اس سال بھی نبی ﷺ اکناف و اطراف دعاۃ کو بھیجتے رہے ۔
۱- حضرت خالد بن ولید اور پھر علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما کو یمن کی طرف صدقات وصول کرنے کیلئے روانہ کیا ۔
۲- حضرت معاذ بن جبل اور حضرت ابو موسی الاشعری رضی اللہ عنہما کو یمن کے دو الگ الگ حصوں میں تبلیغ دین کیلئے روانہ کیا اور وصیت فرمائی ” باہم متفق رہنا ، اختلاف نہ کرنا ، نرمی کرنا اور سختی سے کام نہ لینا ” ۔ ۳- انہیں دنوں میں جریر بن عبد اللہ البجلی رضی اللہ عنہ اپنے علاقے کے وفد کے ساتھ آکر مسلمان ہوگئے ، نبی ﷺ نے ان کے لئے دعا کی اور انہیں قبیلہ دوس کے مشہور بت جسے ذی الخلصہ کہا جاتا تھا کو ڈھانے کیلئے بھیجا ، چنانچہ اپنے خاندان کے دو سو سواروں کو لے کر گئے اور اسے جلا کر راکھ کردیا ۔
حجۃ الوداع : اسی سال نبی کریم ﷺ 26 ذی القعدہ ہفتہ کے دن حج کیلئے نکلے ، ظہر کی نماز اپنی مسجد میں ادا فرمائی اور ایک خطبہ دیا جس میں احرام کے اہم احکام بیان فرمائے ، پھر احرام کا کپڑا پہن کر نکلے ، ذو الحلیفہ میں عصر کی نماز پڑھی اور دوسرے دن وہیں سے احرام باندھ کر مکہ مکرمہ کے لئے روانہ ہوئے ، 4 ذی الحجہ کو مکہ مکرمہ پہنچے ، طواف و سعی سے فارغ ہونے کے بعد ا علان فرمایا کہ جو لوگ اپنے ساتھ ھدی کا جانور نہیں لائے ہیں وہ اپنا احرام کھول کر حلال ہوجائیں اور اپنے حج کو حج تمتع میں بدل دیں ، البتہ جو لوگ اپنے ساتھ ھدی کا جانور لائے ہیں وہ اپنے احرام میں باقی رہیں ، نبی ﷺ بھی اپنے ساتھ ھدی کا جانور لے کر آئے تھے ، طواف وسعی سے فارغ ہونے کے بعد بنی ﷺ مکہ ہی میں ٹھہرے رہے ، 8 ذی الحجہ کو صبح کے وقت منی کے لئے روانہ ہوگئے ، منی میں 9 ذی الحجہ کی رات گزاری اور نویں ذی الحجہ کی صبح کو عرفات کیلئے روانہ ہوئے ، میدان عرفات میں نبی ﷺ نے نماز ظہر سے قبل ایک بلیغ و جامع خطبہ دیا ، پھر ظہر و عصر کی نماز جمع و قصر کے ساتھ پڑھی ، سورج ڈوبنے تک میدان عرفات میں قیام فرمائے اور اس دوران ذکر و دعا میں مشغول رہے ، اسی جگہ اور اس دن اللہ تعالی نے دین کی تکمیل کی ، سورج ڈوبنے کے بعدعرفات رخصت ہوئے اور مزدلفہ پہنچ کر مغرب و عشاء کی نماز جمع وقصر کے ساتھ پڑھائی ، 10 ذی الحجہ کی صبح کو فجر کی نماز پڑھنے کے بعد منی کیلئے روانہ ہوئے ، جمرہ عقبہ کو کنکریاں ماریں ، پھر قربان گاہ جاکر ھدی کے جانور ذبح کئے اور بال چھلا کر احرام کھول دیا ، پھر وہاں سے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے اور طواف افاضہ کیا ، ظہر کی نماز پڑھی اور پھر منی واپس آگئے ، منی میں تین دن قیام فرمایا اور روزآنا زوال کے بعد تینوں جمروں کو کنکریاں مارتے رہے ، منی میں پہلے دن آپ نے ایک جامع خطبہ دیا اور اسی میں فرمایا کہ مجھ سے حج کا طریقہ سیکھ لو شاید اس سال کے بعد میں حج نہ کرسکوں ، گویا لوگوں کو یہ الوداعی پیغام تھا ، اسی لئے اس حج کو حجۃ الوداع کہا جاتا ہے ، 13 ذی الحجہ کو کنکریاں مار کر آپ مکہ واپس ہوئے وادی المحصب میں رات گزاری ، 14 ذی الحجہ کو فجر کی نماز سے قبل مسجد حرام تشریف لے گئے ، طواف وداع کیا اور ہمیشہ کے لئے مکہ مکرمہ کو خیرباد کہا ، 24 ذی الحجہ یا اس سے قبل و بعد آپ مدینہ منورہ واپس تشریف لائے ۔
اس سال کے دیگر اہم حادثات : [۱] ابراہیم النبی ﷺ کی وفات : اسی سال ربیع الاول کے مہینے میں آپ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم کا دیڑھ سال کی عمر میں انتقال ہوا ،نبی ﷺ کو اس کا بڑا غم ہوا ،اس موقعہ پر آپ نے یہ الفاظ کہے تھے : ” آنکھیں اشک بار ہیں ، دل غمگین ہے لیکن ہم وہی کچھ کہیں گے جس سے ہمارا رب راضی رہے ، اللہ کی قسم اے ابراہیم تمہارا غم بہت بڑا ہے ” ۔
سیرت درس:23 |
[۲] ابو عامر راہب کی موت : یہ قبیلہ اوس کا ایک فرد تھا ، زمانہ جاہلیت میں زہد و تقوی کی زندگی اختیار کی اور نبی آخر الزماں کی آمد کا انتظار کرنے لگا ، جب آپ ﷺ کی بعثت ہوئی اور ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو حسد کرنے لگا اور غزوہ احد میں اہل مکہ کے ساتھ ہوکر اپنی قوم کو نبی ﷺ کے خلاف ورغلانا چاہا ، جب قوم نے اس کی بات نہ مانی تو قیصر روم کے پاس چلا گیا اور وہیں 10 ھ میں ایک روایت کے مطابق 9ھ میں ہلاک ہوا ۔ [۳] اسی سال عہد نبوی میں سورج گہن لگا ، جس کی وجہ سے آپ نے گہن کی نماز پڑھائی ، یہ وہی دن تھا جس دن آپ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم کی وفات ہوئی تھی ، لوگوں نے یہ تصور کیا کہ سورج گہن کاسبب ابراہیم کی وفات ہے ، لیکن نبی ﷺ نے اس غلط عقیدے کی تصحیح کی اور فرمایا : سورج اور چاند اللہ کی نشانیاں ہیں کسی کی ولادت و موت کا ان کے گہن سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ [۴] محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہما کی پیدائش : نبی ﷺ ذی القعدہ کے اخیر میں جب حج کے لئے روانہ ہوئے تو آپ کے ساتھ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیوی اسماء بنت عمیس بھی تھیں ، وہ ابھی ذو الحلیفہ ہی میں تھیں کہ حضرت محمد بن ابی بکر پیدا ہوئے ، نبی ﷺ نے انہیں نہا کر احرام باندھنے کا حکم دیا اور س