تشہد / حديث نمبر: 272

بسم اللہ الرحمن الرحیم

272:حديث نمبر

خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط

تشہد

بتاریخ : 18/ شوال 1436 ھ، م  04، اگست 2015 م

ترجمہ  : حضرت عبد اللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ  مجھے رسول اللہ ﷺ نےتشہد سکھایا  جس طرح قرآن  کی کوئی  سورت سکھاتے تھے ، اس وقت میری ہتھیلی  آپ کے دونوں ہتھیلیوں  کے درمیان  میں تھی  { آپ نے سکھلایا  کہ پڑھو } «التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ، وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلاَمُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلاَمُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ»۔ تمام قسم کی  قولی عبادات  ، فعلی وبدنی عبادات اور تمام  قسم کی  مالی عبادات اللہ تعالی  کے لئے  خاص ہیں ، اے نبی آپ پر سلام ، اللہ کی رحمتیں  اور برکتیں ہوں ،  سلام ہو ہم پر اور اللہ تعالی کے  تمام صالح بندوں پر  ، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالی  کے سوا کوئی معبود  برحق نہیں  اور میں گواہی  دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں ، جب نبیﷺ کا انتقال ہوگیا تو ہم لوگ اس طرح پڑھتے تھے کہ "السلام علی النبی”۔  { صحیح بخاری } ۔

تشریح : نبی کریم ﷺ نماز اور اس سے متعلقہ امور کی تعلیم  کا خصوصی اہتمام  فرماتے تھے اور جو عمل  نماز میں جتنا اہم ہوتا اس کی تعلیم  کا اہتمام  اسی قدر زیادہ  فرماتےتھے ، چونکہ  تشہد  میں بیٹھنا  اور اس میں  تحیات  پڑھنا  نماز کا ایک اہم جزء ہے حتی کہ بعض علماء نے اسے نماز کا رکن قرار دیا ہے  ، اسی لئے  نبی ﷺ نے تشہد یعنی التحیات  کے سکھانے کا خصوصی  اہتمام فرمایا  ہے، جیسا کہ زیر بحث حدیث سے واضح  ہے کہ نبی ﷺ نے حضرت عبد اللہ بن مسعود  کو تشہد  کے سکھانے کا ویسا ہی اہتمام  فرمایا تھا جیسا اہتمام  قرآن  کی کسی  سورت کے سکھانے کا فرماتے تھے ، یہی بات حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  نے بھی  بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں  تشہد اس   اہتمام  سے سکھاتے  تھے جیسے ہمیں قرآن سکھا رہے ہوں ۔ {صحیح مسلم ، سنن ابو داو }

اسی اہتمام کا مظہر تھا کہ تشہد سکھاتے وقت نبی ﷺ نے حضرت عبد اللہ بن مسعود  کے ہتھیلی  کو اپنے دونوں ہاتھوں سے  پکڑ  کر رکھا   تا کہ ابن مسعود کی توجہ اسی طرف مبذول رہے  اور اس کے یاد  رکھنے  کا وہ اہتمام  کریں ، بعض لوگ حضرت ابن مسعود کے اس واقعہ کو دونوں  ہاتھوں سے مصافحہ  کی دلیل   میں پیش کرتے ہیں جب کہ  اس کا تعلق تعلیم سے ہے ملاقات سے نہیں ہے  ، اس میں بطور  شفقت  اور جس چیز کی تعلیم دی جارہی ہے  اس کی طرف  توجہ دلانے کے لئے  کسی کے ہاتھ کو پکڑنے  کا ذکر ہے مصافحہ کا نہیں ہے  ۔یہی وجہ ہے کہ حضرت  ابن مسعود  کا ایک ہی ہاتھ نبی ﷺ کے دونوں ہاتھوں کے درمیان تھا کیونکہ  پکڑنے والے نبی ﷺ تھے  نہ کہ ابن مسعود ۔ تشہد کے یہ الفاظ  کہ اپنے معانی کے لحاظ سے بھی بہت  جامع ہیں ، اس میں اللہ تعالی  کی حمد و ثنا اور اس کی توحید  کا بھی ذکر ہے ، نبی ﷺ کی عبدیت اور رسالت  کی بھی گواہی  ہے اور  نبی ﷺ کے حق کا بھی بیان ہوا ہے اور تمام نیک بندوں  کے حقوق  کا ذکر ہے ۔چنانچہ  جب بندہ ” التحیات للہ والصلوات  والطیبات  ” کہتا ہے  تو گویا  ہر قسم  کی ظاہری  و باطنی  عبادات کو اللہ تعالی  کے لئے خاص  کردیتا ہے، خواہ وہ عبادت زبان سے کی جاتی ہو یا دل و اعضاء سے ادا کی  جاتی ہو  ، یا مال  و دولت سے انجام دی جاتی ہو ، پھر چونکہ  اللہ تعالی  کی عبادت کا طریقہ  نبی ﷺ  سے ملا ہے  اسی لئے تمام  صالح بندوں  سے  علحدہ  نبی ﷺ پر سلام پڑھنے کا خصوصی  ذکر ہوا ، تشہد میں وارد  لفظ ”  السلام علیک ایھا النبی ” سے بعض لوگوں  نے یہ استدلال کیا ہے کہ  اللہ کے رسول ﷺ ہر نمازی کی دعا کو سنتے ہیں  اوراس  پر مطلع رہتے ہیں ، حالانکہ  یہ عقیدہ  صحابہ کرام اور سلف امت  کے عقیدے  کے خلاف ہے ، اسی لئے  تو بعض صحابہ  جیسے  حضرت عبد اللہ بن مسعود {جیسا کہ اس حدیث  کے آخر میں مذکور ہے } اور دیگر بعض صحابہ  {فتح الباری :11/56 } آپ ﷺ کی وفات کے بعد” السلام علی النبی” پڑھا کرتے تھے ، نیز یہاں  بظاہر خطاب کا صیغہ استعما ل  ہوا ہے لیکن  اس میں  نبی ﷺ سے خطاب کا عقیدہ  نہیں  ہوتا  بلکہ  اس جملے  کو حکایۃ  اور بطور ذکر  کے  پڑھا جاتا ہے  اس لئے آپ  کی زندگی  میں  وہ صحابہ  جو آپ کے قریب تھے  اور جو آپ سے دور رہتے تھے سبھی  یہی الفاظ  ادا کرتے تھے  حتی کہ خود اللہ کے رسول ﷺ  بھی تشہد  کو انہیں  الفاظ  میں پڑھا کرتے تھے  ، اب سوال  یہ ہے کہ آپ  ﷺ کس کو خطاب  کرتے تھے ، نیز اگر یہ  آپ ﷺ کو خطاب تھا تو آپ ﷺ اس کا جواب کیوں نہیں  دیتے تھے ۔

حضرت عبد اللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ  کی اس حدیث  سے ہمارے  بعض  بھائیوں  نے یہ استدلال کیا ہے کہ   تشہد  میں” السلام علیک  ایھا النبی”  کے بجائے  "السلام علی النبی”  پڑھنا چاہئے  ، اس استدلال  کی اپنی جگہ  ایک اہمیت ہے لیکن  عمومی طور پر صحابہ کرام  انہیں الفاظ پر باقی رہے  ہیں جنہیں  عہد نبوی میں  پڑھتے رہے ہیں ، چنانچہ  موطا امام مالک  میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ   منبر  پر کھڑے  ہوکر  لوگوں  کو ان الفاظ میں تشہد سکھاتے : التحیات للہ  الزاکیات للہ الطیبات الصلوات للہ السلام علیک ایہا النبی  ور حمۃ اللہ و برکاتہ ۔۔۔ الخ  {الموطا :213 } ۔ اسی طرح موطا میں  حضرت عبد اللہ بن عمر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما  کا نماز میں  پڑھنے کو جو تشہد مروی ہے  اس میں بھی” السلام علیک ایہا النبی” ہی کے الفاظ ہیں ۔ بہر حال  یہ سلام خطاب نہیں بلکہ  دعا ہے جس کا  مقصد نبی ﷺ کے لئے  دعا ہے اور دعا کا یہ طریقہ  بھی وہی ہے  جو خود نبی ﷺ نے ہمیں سکھایا  ہے لہذا  ہم اس کے پابند ہیں اور ہمیں  اپنی طرف سے  کسی بھی قسم کی  تبدیلی کا مجاز نہیں ہے ۔ و اللہ اعلم ۔

اس تشہد کا تیسرا رکن  اللہ تعالی  کے نیک بندوں کے لئے سلامتی  و حفاظت  کی دعا ہے جس میں آسمان و زمین  کے تمام  زندہ  ومردہ  نیک  بندے شامل ہیں جیسا کہ نبی ﷺ  نے فرمایا  کہ ” جب تم لوگ یہ دعا پڑھو گے  تو تمہاری  یہ دعا آسمان و زمین  اور ا ن کے درمیان  کے تمام نیک  و صالح بندوں کو پہنچے گی ۔ {صحیح بخاری و مسلم }

اس جملے سے بعض علماء نے چند فوائد  کا استنباط کیا ہے ۔

اولا : السلام علینا و علی ۔۔۔۔۔ سے یہ معلوم ہوا کہ اگر کسی کے لئے  دعا کرنی ہے تو مستحب  یہ ہے کہ بندہ اپنے لئے  پہلے دعا کرے ، قرآن مجید میں اللہ کے نیک بندوں  کی جو  دعائیں  مذکور ہی ا ن میں  یہ امر واضح ہے ۔ جیسے : رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ (41)ابراہیم،رَبِّ اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَيْتِيَ مُؤْمِنًا وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ. نوح.سنن ترمذی ہے کہ نبی ﷺ  جب کسی کے لئے دعا  کرنا چاہئے  تو دعا کی ابتدا اپنے سے کرتے ۔ {سنن ترمذی : 3385 } ۔ ثانیا : جو  شخص  اس فضیلت کو حاصل کرنا چاہتا ہے  کہ دنیا کے تمام  نمازیوں  کی دعا اسے پہنچے اسے نیک بننے کی کوشش کرنی چاہئے  ورنہ اس عظیم فضل سے محروم رہے گا ۔ ثالثا :  یہ دعا پڑھتے ہوئے  بندے کو چاہئے  کہ تمام  فرشتوں  ، نبیوں  اور مومنوں  کے لئے دعا کی نیت کرے تا کہ اسے ہر ایک فرد کے بدلے ایک ایک نیکی ملے ، ارشاد نبوی ہے : کہ جو شخص  مومن مردوں  اور عورتوں کے لئے استغفار کرتا ہے تو اللہ تعالی ہر مومن مرد و عورت کے عوض اسے ایک نیکی دیتا ہے ۔ { طبرانی کبیر عن عبادہ – صحیح الجامع : 6016}

رابعا : جو شخص نمازنہیں پڑھتا  وہ بہت بڑے جرم کا ارتکاب کررہا ہے  ، کیونکہ  اللہ تعالی  کے حقوق کو پامال کررہا ہے ، رسول اللہ ﷺ کے حقوق کو بھی پامال  کررہا ہے اور فرشتوں  ، اللہ کے ولیوں  اور تمام نیک بندوں کے حقوق  کو پامال کررہا ہے  ۔