تعارف صحابہ / حديث نمبر: 279

بسم اللہ الرحمن الرحیم

279:حديث نمبر

خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط

تعارف صحابہ  

بتاریخ : 21/ محرم 1437 ھ، م  03، نومبر 2015 م

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ سَبَّ أَصْحَابِي فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللهِ وَالْمَلَائِكَةِ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ»                                                   

المعجم الكبير للطبراني:1209، ج12/142.

ترجمہ  : حضرت  عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے ارشاد  فرمایا : جس نے  میرے صحابہ کو برا بھلا کہا تو اس پر اللہ تعالی کی لعنت ہو ، اللہ تعالی  کے فرشتوں کی لعنت  ہو  اور  تمام لوگوں کی لعنت ہو ۔

{یہ حدیث متعدد صحابہ سے مروی ہے تفصیل کے لئے دیکھئے سلسلہ الاحادیث الصحیحہ: 2340 } ۔

تشریح : شریعت  کی اصطلاح میں  صحابی  اس شخص کوکہتے ہیں  جو ایمان اور حیات  و بیداری کی حالت  میں نبی ﷺ  سے ملا ہو ، یہ ملاقات  خواہ طویل ہو یا مختصر  حتی کہ  عہد نبوی میں اگر کسی  بچے کی ولاد ت ہوئی اور اسے  خدمت نبوی میں حاضر کردیا گیا اور نبی ﷺ نے اسے اٹھالیا  تو علماءنے  اس کا بھی شمار صحابہ میں کیا  ہے ، البتہ  نبی ﷺ کی صحبت کی مدت  اور نبی ﷺ سے اس کے تعلق کے  لحاظ سے مقام و مرتبہ میں فرق ہوگا ۔ان صحابہ کا قرآن و حدیث میں ایک مقام ہے اور وہ مقام  اس قدر محترم ہے کہ اس سے تعرض  کرنے  اور  اس پر  انگلی اٹھانے  کا کسی کو حق  حاصل نہیں ہے ، بلکہ  ان سے محبت  اور ان کا ذکر  خیر  دین  ایمان  اور ان سے بغض و نفرت  کفر و نفاق  میں شمار ہے،  جیسا کہ اس حدیث  میں بڑے صاف لفظوں  میں ایسے شخص کو اللہ تعالی ،  اس کے فرشتے اور تمام لوگوں جس میں تمام انبیاء  و صلحاء شامل ہیں کی لعنت  کا مستحق  ٹھہرایا  گیا ہے ۔ واضح رہے  کہ اس حدیث  میں صحابہ کے کسی  طبقے  یا جماعت  کو خاص نہیں کیا گیا ہے  بلکہ اسے عام  رکھا گیا ہے جس سے  معلوم ہوتا ہے کہ کوئی  بھی صحابی خواہ نبی ﷺ کی طویل صحبت  سے شرفیاب  ہوا ہو یا صرف  ایک بار  آپ سے شرف ملاقات حاصل کی ہو، اسی طرح اس حکم میں  وہ صحابہ بھی داخل ہیں  جو باہمی  قتل و قتال  میں شریک  رہے ہیں اور وہ بھی داخل ہیں  جو ان تمام فتنوں سے دور رہے ہیں ، ان کے بارے میں  کسی بھی   قسم کی گفتگو  جس سے اس کی  تنقیص  ہوتی ہو یا ان کے عیب کا پہلو  ظاہر ہوتا ہو  جائز نہیں ہے ، اور نہ  صرف نا جائز ہے بلکہ  ایسا شخص  لعنت یعنی  اللہ تعالی  کی رحمت  سے دوری جیسی  وعید میں داخل ہے ، اللہ کی پناہ ۔

ایسے  شخص کا  لعنت  کا مستحق  ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ کسی  صحابی کو گالی دینا  یا اس کی عیب  جوئی  کرنا  کبیرہ گناہ ہے ، اسی لئے  علماء  ایسے شخص  پر سخت   نکیر کرتےآئے ہیں جو کسی  صحابی  کی شان میں گستاخی  کرتا تھا ، چنانچہ  ایک بار  حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کو اطلاع ملی کہ  ان کے بیٹے  عبید اللہ  نے ایک  صحابی  رسول  حضرت مقدام کے لئے  کچھ نازیبا  الفاظ استعمال کردئے   ، حضرت عمر اس پر سخت  ناراض ہوئے اور لوگوں  سے کہا کہ لاو اس کی زبان کاٹ دوں  تاکہ لوگوں کے لئے عبرت بنے  اور کوئی دوسرا شخص  کسی صحابی  رسول  پر زبان درازی  کی جرءت  نہ کرے، لیکن درمین پڑ کر لوگوں نے معاملہ کو رفع دفع کیا ۔ {شرح اعتقاد اہل السنہ : 4/110}۔

امام اہل السنہ  حضرت  احمد بن  حنبل  رحمہ اللہ  سے ایک ایسے شخص  سے متعلق سوال کیا گیا  جس نے  کسی صحابی  کو برا بھلا کہا  تو امام  موصوف  نے فرمایا  کہ اسے  کوڑوں کی سزا  دی جائے ، پوچھا  گیا کہ  کیا یہ کوئی شرعی  حد ہے ؟  امام صاحب نے فرمایا : کوئی حد تو  متعین نہیں ہے لیکن تعزیرا ایسے  شخص پر کوڑے برسائے  جائیں  گے ، اور  میں نہیں سمجھتا کہ وہ شخص  مسلمان ہے ۔ { شرح اعتقاد اہل السنہ  : 4/115 } ۔

صحابہ سے متعلق  یہ حکم  اس لئے  ہے کہ اولا تو اللہ تعالی نے قرآن  مجید  میں ان کے ایمان  و اخلاص کی شہادت  دی ہے  اور ان  کی غلطیوں  سے تجاوز    فرما کر  انہیں جنت  میں داخل کرنے  کا وعدہ  کیا ہے ، چنانچہ  ارشاد باری تعالی  ہے  : لَا يَسْتَوِي مِنْكُمْ مَنْ أَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ أُولَئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِنَ الَّذِينَ أَنْفَقُوا مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلُوا وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَى وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ (10)الحدید

تم میں  سے جن  لوگوں  نے فتح   سے پہلے  فی سبیل اللہ دیا ہے  اور قتال  کیا ہے  وہ دوسروں کے برابر   نہیں بلکہ  ان سے  بہت بڑے درجے کے ہیں  جنہوں نے فتح کے بعد  خیراتیں دیں  اور جہاد کئے ، ہاں !  بھلائی  [ جنت ]  کا وعدہ  تو اللہ تعالی  کا  ان سب سے ہے ، جو کچھ  کررہے  ہو اس سے اللہ خبردار  ہے ۔

صحابہ سے متعلق  یہ خصوصی  رعایت  اسلام میں اس لئے  رکھی گئی ہے  کہ وہ دوسرے مسلمانوں  سے کئی اعتبار سے مختلف  ہیں چنانچہ  :

[۱] وہ ہمارے  نبی ﷺ  کے ساتھی  ہیں۔  اور کوئی  بھی  بڑی شخصیت  اپنے اعمال ، اصحاب اور شاگردوں  ہی  کی بنیاد پر دنیا میں  نیک نام یا بدنام ہوتی ہے ۔

[۲] ان کا زمانہ خیر القرون  ہے ۔  اور کسی  زمانے کی خیریت  کا دارو مدار   اس زمانے  میں بسنے  والے  لوگوں ہی کی بنیاد  پر ہے ، اسی لئے  سب سے بہتر زمانہ  ہمارے  نبی کا ہے  اور ان کے بعد آپ کا صحابہ  اور ان کے بعد تابعین  کا ۔ {صحیح بخاری  وصحیح مسلم } ۔

[۳] صحابہ  ہی نبی ﷺ اور آپ  کی امت  کے درمیان  واسطہ ہیں ۔ یعنی امت تک قرآن مجید اور نبیﷺ کی احادیث کے ناقل صحابہ ہی ہیں،  اب اگر صحابہ کی شخصیت  مجروح  ہوگئی تو سارا دین مجروح ہوجائے  گا اور قرآن  کی کسی  بھی آیت  ،نبی ﷺ کسی بھی حدیث پر اعتماد باقی نہ رہے گا ۔

[۴] دنیا میں  اسلام انہیں  کے ذریعہ پھیلا ہے اور اسلامی فتوحات  کے  ہیرو وہی  رہے ہیں ۔

[۵]  تاریخ  کی کتابیں  شاہد ہیں کہ وہ اعلی  درجہ  کے حسن اخلاق  و کردار  کے مالک تھے اور امانت  و دیانت  سے ان کو  بھر پور  حصہ ملا ہوا تھا ۔

لہذا  ہمارا ایمان ہے کہ  صحابہ  سے محبت  واجب اور ان  کا ذکر خیر لازم ، بلکہ ہمارے  ایمان و اسلام کا جزء ہے ، اور  ان کو برا بھلا کہنے  والے اور ان  سے بغض و نفرت  رکھنے  والوں  سے ہمارا  اعلان براءت ہے ۔

فوائد :

  • صحابہ کا وہ مقام  و مرتبہ  ہے جو  دنیا  میں کسی  اور جماعت  کو حاصل نہیں ہوسکا ۔
  • جس شخص نے  حالت  ایمان میں  چند لمحوں  کے لئے  بھی نبی ﷺ  کی صحبت  اختیار  کی اور  اس پر اس کا انتقال ہوا  تو اللہ تعالی  کے نزدیک  اس کے سارے گناہ  معاف ہیں  اور  یقینا  وہ جنتی ہے ۔

صحابہ  کو برا بھلا  کہنا  یا ان سے  بغض  رکھنا  اپنے آپ  کو عذاب الہی کی دعوت  دینا ہے ۔