تم اجازت دیتے ہو کہ میں ان بزرگوں کو یہ پیالہ دے دوں؟!

موضوع:
تم اجازت دیتے ہو کہ میں ان بزرگوں کو یہ پیالہ دے دوں؟!

پہلا خطبہ:
الحمدللهشهدتبوجودهآياتهالباهرة،ودلتعلىكرمجودهنعمهالباطنةوالظاهرة،وسبحتبحمدهالأفلاكالسائرة،والسحبالماطرةوأشهدإنلاالهإلاالله،وحدهلاشريكله،لهالملك،ولهالحمد،وهوعلىكلشيءقديروأشهدأنسيدناونبينامحمداعبداللهورسولهوصفيهمنخلقهوحبيبه.

ياخيرَمندفنتْبالقاعأعظمهُ
فطابمنطيبهنّالقاعوالأكمُ
أنتالنبيالذيترجىشفاعته
عندالصراطإذامازلتالقدمُ
أنتالبشيرالنذيرالمستضاءبه
وشافعالخلقإذيغشاهمالندمُ
ترجمہ: اے وہ جو اس روئے زمین میں دفن ہونے والا سب سے بہتر اور عظیم ترین شخص ہے، جس کی خوشبو سے سارا بقعہ اور گوشہ معطر ہوگیا، آپ ہی وہ نبی ہیں جن کی سفارش کی امید ہے، اس وقت جب پل صراط پر پاؤں پھسل جائیں گے، توہی بشارت دینے والا اور ڈرانے والا نبی ہے جس سے نور ہدایت حاصل کیا جاتا ہے، اور توہی مخلوق کے حق میں سفارش کرے گا اس وقت جب وہ حسرت وندامت سے سرشار ہوں گے۔
صلىاللهوسلمعليهوعلىآلهوأصحابهوالتابعينومنتبعهمبإحسانإلىيومالدين.
حمد وثنا کے بعد!
میں آپ کو اور اپنے آپ کو اللہ کا تقوی اختیار کرنے، نیکی اور اطاعت کے کام کرنے اور اللہ پاک کی نافرمانی سے بچنے کی وصیت کرتا ہوں، کیوں کہ گناہ جہنم تک لے جانے والے راستے ہیں، اللہ مجھے اورآپ کو اس سے محفوظ رکھے، اللہ کے بندو! آج ہمیں عمل کا موقع ہے اور حسا ب وکتاب نہیں، جبکہ کل حساب وکتاب ہوگا اور عمل کا موقع نہیں:
﴿ يَوْمَتَجِدُكُلُّنَفْسٍمَاعَمِلَتْمِنْخَيْرٍمُحْضَرًاوَمَاعَمِلَتْمِنْسُوءٍتَوَدُّلَوْأَنَّبَيْنَهَاوَبَيْنَهُأَمَدًابَعِيدًاوَيُحَذِّرُكُمُاللَّهُنَفْسَهُوَاللَّهُرَءُوفٌبِالْعِبَادِ ﴾ [آلعمران: 30].
ترجمہ: جس دن ہر نفس (شخص) اپنی کی ہوئی نوَي ں کو اور اپنی کی ہوئی برائوُں کو موجود پالے گا، آرزو کرے گا کہ کاش! اس کے اور برائوعں کے درماَن بہت ہی دوری ہوتی۔ اللہ تعالیٰ تمہںَ اپنی ذات سے ڈرا رہا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بڑا ہی مہربان ہے۔
ایمانی بھائیو! آپ کے سامنے ایک ایسا نبوی واقعہ پیش کررہاہوں جو ہے تو معمولی لیکن اس کے اندر بڑے بلند معانی اور عظیم اخلاق پوشیدہ ہیں، چنانچہ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: نبی کریمﷺ کی خدمت مںی ایک پاالہ پشا کا گاً اور آپ نے اس سے کچھ نوش فرمایا۔ آپ کی دائںع جانب ایک لڑکا تھا جو حاضرین مںا سب سے چھوٹا تھا جبکہ آپ کی بائں جانب بزرگ حضرات بٹھےن تھے۔ آپ نے فرمایا: ” برخوردار!تم اجازت دیتے ہو کہ مںم ان بزرگوں کو یہ پا لہ دے دوں؟” اس نے عرض کار: اللہ کے رسول ﷺ ! یہ ممکن نہںب کہ آپ کے پس خوردہ پر کسی کو ترجحخ دوں، چنانچہ آپ نے وہ پا لہ اسی کو دے دیا۔(بخاری ومسلم)
میرے معزز بھائی! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس واقعہ سے فوائد مستنبط کرنے سے قبل آپ تصور کیجیے کہ کوئی معتمد شخص آپ کو اگر یہ خبر دے کہ وہ بادشاہ کی مجلس میں حاضر ہوا جس میں تین وزراء اور ایک چھوٹا بچہ بھی تھا، بادشاہ نے بچہ سے یہ اجازت طلب کی کہ وہ اس سے قبل وزیروں کو مشروب پیش کرے تو اس بچہ نے انکار کردیا!
معزز حضرات! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس واقعہ سے یہ درس حاصل ہوتا ہے کہ دنیائے انسانیت کی سب سے عظیم ہستی کی مجلس ہر چھوٹے بڑے کے لیے کھلی ہوتی تھی، بلکہ بسا اوقات چھوٹا بچہ بڑے حضرات سے بھی زیادہ آپ سے قریب ہوتا ۔
اس واقعہ سے ایک درس یہ حاصل ہوتا ہے کہ: بچوں کے ساتھ بھی تواضع سے پیش آنا چاہئے ، بایں طور کہ ان کے ساتھ بیٹھا جائے، ان سے بات چیت کی جائے، اور اگر ان کا کوئی حق ہو تو اس بابت ان سے اجازت طلب کی جائے، آپ غور کریں کہ یہاں اجازت طلب کرنے والا کون ہے؟ آپ سب سے افضل انسان ہیں اور ایک چھوٹے بچے سے اجازت طلب کرر ہے ہیں! اے معلم ، اے مربی ! چھوٹے بچے سے اس کے حقوق کی بابت اگر اجازت طلب کریں توا س کا کتنا عمدہ اثر ہوگا؟ خواہ قلم یا کاغذ ہی کی بابت کیوں نہ ہو! ایک فائدہ یہ بھی اخذ ہوتا ہے کہ بچہ جب بڑے سے مطمئن ہوتا ہے اور کسی ناگوار چیز کا اندیشہ نہیں رہتا تو وہ اپنی رائے ظاہر کرنے میں بے باکی محسوس کرتا ہے، خوہ اس کا جواب پوچھنے والے کی مرضی کے خلاف ہی کیوں نہ ہو!
ایک فائدہ یہ حاصل ہوتا ہے کہ خداداد صلاحیت کے حامل بچوں کا خاص خیا ل رکھنا چاہئے، اس مجلس میں جو بچے حاضر ہوتے تھے، ان میں ابن عباس بھی ہیں جن کو آپ نے یہ دعا دی کہ: "اے اللہ! اسے دین کی فہم اور تفسیر کا علم عطا فرما” (صحیح ابن حبان) ۔ بچہ کے لطیف جواب سے اس کی ذہانت وفطانت ٹپک رہی ہے: "یہ ممکن نہیں کہ آپ کے پس خوردہ پر کسی اور کو ترجیح دوں” ۔ چنانچہ آپ نے اسے منع بھی نہیں کیا۔
إنّالهلالَإذارأيتنموَه
أيقنتأنسيكونبدراكاملا
ترجمہ: جب آپ چاند کو نمودار ہوتا ہوا دیکھتے ہیں تو آپ کو یقین ہوجاتا ہے کہ وہ ضرور بدر کامل بنے گا۔
ایک فائدہ یہ بھی حاصل ہوتا ہے کہ : صحابہ کرام پاک وصاف نفوس کے حامل تھے، چنانچہ کسی نے نہ اعتراض کیا، نہ تنقید کی اور نہ عیب نکالا۔ جو شخص اپنے اخلاق کا جائزہ لینا چاہے اسے چاہئے کہ وہ غور کرے کہ چھوٹے بچے اور نوکر چاکر کے ساتھ اس کا برتاؤ کیسا ہے۔
اللہ تعالی مجھے اور آپ کو قرآن وسنت سے فائدہ پہنچائے، ان میں جو آیتیں اور حکمت کی باتیں ہیں، انہیں ہمارے لیے مفید بنائے، آپ اللہ سے مغفرت طلب کریں ، یقینا وہ خوب معاف کرنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ:
الحمد للہ…….اما بعد:
ایک فائدہ یہ حاصل ہوتا ہے کہ: دوسروں کا احترام کرنا نبوی طریقہ ہے، اس واقعہ میں بچہ کا احترام نمایاں ہے، اللہ کی قسم! انسان کو اس بات سے تعجب ہوگا کہ مردہ کا احترام بھی مشروع ہے، جبکہ مردہ کی روح اس کے جسم سے جدا ہوچکی ہوتی ہے، لیکن اس کا احترام برقرار رہتا ہے، حدیث میں آیا ہے کہ: "مردوں کی ہڈی توڑنا ایسا ہی ہے جیسے زندہ کی توڑنا ہے” (ابوداود اور ابن حبان نے اسے روایت کیا ہے اور البانی نے اسے صحیح قراردیا ہے) اسے غسل دینے کے بعد اور دفن کرنے سے قبل یہ حکم ہے کہ جنازہ گزرے تو (اس کے احترام میں) کھڑے ہوجایا کرو : "جب تم جنازہ دیکھو تو کھڑے ہوجایا کرو” ۔ (بخاری ومسلم) ۔ دفن کے بعد یہ تعلیم دی گئی ہے جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے: "تم میں سے کوئی انگار ے پر ( اس طرح ) بیٹھے کہ وہ اس کے کپڑے کو جلاکر اس کی جلد تک پہنچ جائے ، اس کے حق میں اس سے بہتر ہے کہ وہ کسی قبر پر بیٹھے”۔
اس سے ایک فائدہ یہ حاصل ہوتا ہے کہ: حقداروں کے حقوق کی حفاظت کی جائے، گرچہ وہ کمزور ہی کیوں نہ ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انس رضی اللہ عنہ سے اس لئے اجازت طلب کی کہ آپ کا طریقہ یہ تھا کہ آپ اپنے دائیں جانب والے کو ہی پہلے پیش کیا کرتے تھے، جیسا کہ صحیحین میں انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، وہ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ ہمارے اس گھر مںہ تشریف لائے تو آپ نے پانی طلب فرمایا۔ ہم نے آپ کے لےو ایک بکری کادودھ نکالا، پھر مں نے اس مںی اپنے کنویں کاپانی ملایا۔ اسکے بعد اسے آپ کی خدمت مںا پشم کاہ جبکہ حضرت ابو بکر ؓ آپ کی بائںی جانب، حضرت عمرفاروق ؓ آپ کے سامنے اور ایک اعرابی آپ کی دائںن طرف تھا۔ جب آپ نوش فرماکر فارغ ہوئے تو حضرت عمر فاروق ؓ نے عرض کار: یہ حضرت ابوبکر ؓ ہں ، لکنع آپ نے اپنا بچا ہوا دودھ اعرابی کو دے دیا، پھر فرمایا: "دائںق جانب والے مقدم ہںہ۔ دائںب جانب والے مقدم ہںک۔ اچھی طرح سن لو!دائںو جانب سے شروع کارکرو۔”حضرت انس ؓ نے فرمایا: یہ سنت ہے۔ یہ سنت ہے تنک مرتبہ ایسا فرمایا۔
﴿ لَقَدْكَانَلَكُمْفِيرَسُولِاللَّهِأُسْوَةٌحَسَنَةٌلِمَنْكَانَيَرْجُواللَّهَوَالْيَوْمَالْآخِرَوَذَكَرَاللَّهَكَثِيرًا ﴾ [الأحزاب: 21].
ترجمہ: یناً تمہارے لئے رسول اللہ مںْ عمده نمونہ (موجود) ہے، ہر اس شخص کے لئے جو اللہ تعالیٰ کی اور قاامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کایلد کرتا ہے.
آپ پر درود وسلام بھیجتے رہیں۔
صلى اللہ علیہ وسلم
از قلم:
فضیلۃ الشیخ حسام بن عبد العزیز الجبرین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں