بسم اللہ الرحمن الرحیم
[ قسط نمبر : 2 ]
از : محمد عثمان خان [ برطانیہ ]
تکمیل رسالت
دینِ اسلام میں عقیدہ ختمِ نبوت
قرآن و احادیثِ نبویﷺ کی روشنی میں چند دلائل
یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ نبی r نے
خاتم النبیین اور لا نبی بعدی کی ایسی تشریح کردی ہے کہ کسی کو اسمیں تاویل کی گنجائش نہیں چھوڑی چنانچہ
4
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ان الرسالۃ والنبوۃ قدانقطعت فلا رسول بعدی ولا نبی
” اس میں کوئی شک نہیں کہ رسالت و نبوت منقطع ہو چکی ہے ، میرے بعد اب نہ کوئی نبی ہے اور نہ رسول ۔ “
( مسند الامام احمد : ج ۳3 ص : 267 ، ترمذی :2272 ، حاکم : ج : 1 ، ص : ۳۹۱ 391/4 ، ابن ابی شیبہ : ج : ۱۱ ، ص : ۵۳ 531 )
اس حدیث کو امام ترمذی نے ” حسن صحیح “ امام الضیاء ( 2645) نے ” صحیح “ کہا ہے اور امام حاکم نے اس کی سند کو بخاری و مسلم کی شرط پر ” صحیح “ کہا ہے ، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے یہ حدیث اس بارے میں نص صریح ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہو سکتا ۔
5
صحیح بخاری و مسلم میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ان مثلی ومثل الانبیاءمن قبلی کمثل رجل بنٰی بیتا فاحسنہ واجملہ الا موضع لبنۃ من زاویۃ فجعل الناس یطوفون بہ ویعجبون لہ ویقولون : ھلا وضعت ھذہ اللبنۃ ؟ قال : فانا اللبنۃ وانا خاتم النبیین
” میری اور مجھ سے پہلے انبیاءکرام کی مثال ایسی ہے ، جیسے کسی نے حسین و جمیل گھر بنایا ، البتہ ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی ، لوگ اس عمارت کے اردگرد گھومتے اور اس کی عمدگی پر اظہار حیرت کرتے رہے مگر یہ ضرور کہتے رہے کہ اس اینٹ کی جگہ کو پر کیوں نہ کردیا گیا ؟ تو وہ اینٹ میں ہوں ، اور میں خاتم النبیین ہوں ۔ “ ( صحیح بخاری : 3535 ، صحیح مسلم : 222862/228 )
6
جد3یہی حدیث حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ سےمروی ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
فانا موضع اللبنۃ ، جئت فختمت الانبیاءعلیہم السلام
” اس اینٹ کی جگہ میں ہی ہوں ،چنانچہ میں نے آکر انبیاء علیھم السلام کی آمد کے سلسلے کو بند کردیا “ ( صحیح مسلم : 2287 )
ایک روایت کے ایک اور الفاظ ہیں :
فانا موضع اللبنۃ ختم بی الانبیاء
” اس اینٹ کی جگہ میں ہی ہوں ، اب میری آمد پر انبیاء کا سلسلہ منقطع ہو گیا ہے ۔ “ ( مسند الطیالسی : 1894 ، منحۃ المعبود ، ج : ۲ ، ص : ۸۶ / اس حدیث کی سند غایت درجہ صحیح ہے )
سبحان اللہ ، کس وضاحت کے ساتھ آپ ﷺ نے اپنی امت کو خاتم النبیین کی تشریح بیان فرمائی کہ کوئی اِشکال باقی نہ رہا۔ آپ ﷺنے مزید فرمایا :
7
سیدنا ابوامامہ الباہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :
ایھا الناس انہ لا نبی بعدی ولا امۃ بعدکم
” اے لوگو ! میرے بعد کوئی نبی نہیں ، تمہارے بعد کوئی امت نہیں ۔ “
( المعجم الکبیر للطبرانی : ج : ۸ ، ص : ۱۶۱ 5 ، السنۃ لابن ابی عاصم : ج : ۲ ، ص : ۵۰۵1095 )
8
سیدنا ابوامامہ الباہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دجال کے بارے میں خطبہ دیا :
ایھا الناس ! انہ لم تکن فتنۃ علی الارض اعظم من فتنۃ الدجال وان اللہ لم یبعث نبیا الا حذرہ امتہ ، وانا آخر الانبیاء ، وانتم آخر الامم وھو خارج فیکم لا محالۃ فان یخرج وانا فیکم فانا حجیج کل مسلم ، وان یخرج بعدی ، فکل امری حجیج نفسہ ، واللہ خلیفتی علی کل مسلم ، وانہ یخرج من خلۃ بین الشام والعراق ، فیعیث یمینا ، ویمیث شمالا ، فیا عباداللہ ، اثبتوا ، فانہ یبدا فیقول : انا نبی ولا نبی بعدی ، ثم یثنی فیقول : انا ربکم ولن تروا ربکم حتی تموتوا ، وانہ اعور ، وان ربکم لیس باعور ، وانہ مکتوب بین عینیہ ” کافر “ یقروہ کل مؤمن ، فمن لقیہ منکم فلیتفل فی وجھہ….
” اے لوگو ! روئے زمین پر فتنہ دجال سے بڑھ کر کوئی فتنہ نہیں ، ہر نبی نے اپنی امت کو اس فتنہ سے ڈرایا ہے ، میں آخری نبی ہوں ، اور تم آخری امت ہو ، وہ لامحالہ اس امت میں آنے والا ہے ، اگر وہ میری زندگی میں آجائے ، تو میں ہر مسلمان کی طرف سے اس کا حریف ہوں ، وہ اگر میرے بعد آئے تو ہر آدمی اپنے طور پر اس کا حریف ہے ، اللہ تعالیٰ میری طرف سے ہر مسلمان پر نگہبان ہے ، وہ شام اور عراق کے درمیان سے نکلے گا ، چاروں سو فساد برپا کرے گا ، اے اللہ کا بندو ! ثابت قدم رہنا وہ اس بات سے ابتداءکرے گا کہ میں نبی ہوں ، ( یاد رکھو ) میرے بعد کوئی نبی نہیں ، دوسرے نمبر پر یہ بات کہے گا کہ میں تمہارا رب ہوں ، جبکہ تم مرنے سے پہلے اپنے رب کو نہ دیکھ سکو گے ، اس کی حالت یہ ہو گی کہ وہ کانا ہو گا ، جبکہ تمہارا رب کانا نہیں ، اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان ” کافر “ لکھا ہو گا ، جسے ہر مومن پڑھ لے گا ، تم میں سے جو بھی اس سے ملے ، تو اس کے منہ پر تھوک دے ۔ ( السنۃ لابن أبي عاصم : 390 ، ج : 1 ، ص : 171 ، سنن ابن ماجہ : 4077 ، اس حدیث پر تفصیلی کلام کیلئے دیکھئے : قصۃ المسیح الدجال ، ص : 47 )
تیسری دلیل
( نبی کریم ﷺ کی تعلیمات اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کا عقیدہ ختمِ نبوت )
اللہ کے نبی ﷺ نے جہاں اُمت کو قرآنِ کریم کی آیات کی جامعتعلیمات دیں وہیں آپ ﷺ نے اپنی احادیث مبارکہ کی روشنی میں مسلمانوں کے ان تمام بنیادی عقائد کو بھی بلکل واضح فرما دیا کہ جن کا تعلق ایمان کے ساتھ ہے، اور جنھیں غلط سمجھنے کی وجہ سے ایک مسلمان دائرہ اسلام سے خارج ہو سکتا ہے ۔ انھیں بنیادی عقائد میں سے عقیدہ ختم نبوت بھی ہے جسے ہم پچھلے صفحات میں قرآن و صحیح احادیث کے دلائل کے ساتھ واضح کر چکے ہیں ۔ بات کو مزید واضح کرنے کے لیے ہم چند اور احادیث پیش کر رہے ہیں جن سے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین اور سلف صالحین کا عقیدہ واضح ہو جائے گا۔ ان شاء اللہ
1
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
انا محمد ، وانا احمد ، وانا الماحی الذی یمحی بی الکفر ، وانا الحاشر الذی یحشر الناس علی عقبی ، وانا العاقب ، والعاقب الذی لیس بعدہ نبی
” میں محمد ہوں ، میں احمد ہوں ، میں ماحی ہوں کہ میرے ذریعہ سے کفر کو مٹایا جائے گا ، میں حاشر ہوں کہ میرے بعد حشر برپا ہوگا ۔ میں عاقب ہوں ، عاقب وہ ہے ، جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو ۔ “ ( صحیح بخاری : 3532 ، صحیح مسلم :2354 واللفظ لہ )
یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ آپ ﷺ ، اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں ، آپ ﷺ کے بعد قیامت قائم ہو جائے گی ، آپ کے اور قیامت کے درمیان کوئی نبی پیدا نہیں ہوگا ۔
2
سیدنا عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ابیتم فو اللہ انی لانا الحاشر ، وانا العاقب وانا النبی المصطفی آمنتم او کذبتم
” ( اے یہودیوں ! تم نے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ) کا انکار کیا ہے ، اللہ کی قسم ! میں حاشر ہوں ( یعنی میرے بعد حشر برپا ہو گا ) میں عاقب ہوں
( یعنی میرے بعد کوئی نبی نہیں آ سکتا ) میں نبی مصطفی ہوں خواہ تم ( مجھ پر ) ایمان لے آؤ یا ( میری ) تکذیب کر دو ۔ “ ( آپ ایمان لائیں یا نہ لائیں ہر صورت میں اللہ کا آخری نبی ہوں ) ( مسند الامام احمد : ج :۶ / ص : ۲۵ 6/ الطبرانی الکبیر ، ج : ۱۸ ، ص : ۴۶ ، صححہ محققوا السند ، ج : ۳۹ ، ص : ۴۱۰ )
3
سیدنا عرباض بن ساریہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
انی عنداللہ مکتوب لخاتم النبیین وان آدم لمنجدل فی طینۃ ، وساخبرکم باول ذلک : دعوۃ ابی ابراھیم ، وبشارۃ عیسی بی
” آدم علیہ السلام ابھی اپنی مٹی میں ہی تھے کہ مجھے اللہ کے ہاں آخری نبی لکھ دیا گیا تھا ، اور اسکی تاویل کب ظاہر ہوئی اسے میںبتاتا ہوں ، کہ میں ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہوں ، عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت ہوں ، اور اپنی ماں کا وہ خواب ہوں ، جو انہوں نے میری ولادت سے پہلے دیکھا تھا ، ۔ “ ( مسند الامام احمد : ج : ۴ ، ص : ۱۲۷ 127/4 ، تفسیر طبری : 556/1 ، 87/28 واللفظہ لہ ، تفسیر ابن ابی حاتم : 1264 ، طبقات ابن سعد : 148/1 ، 149 ، تاریخ المدینۃ لعمر بن شبہ : 236/2 ، المعرفۃ والتاریخ لیعقوب بن سفیان : 345/2 ، المعجم الکبیر للطبرانی : ۱۸ ، ص : ۲۵۲ 252/18 ، مسند الشامیین للطبرانی : 1939 ، مستدرک حاکم : 418/2 ، دلائل النبوۃ للبیہقی : ج: ۹ ، ص : ۱۶۵ 2 ، وسندہ حسن
اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ ( 2404 ) نے ” صحیح “ اور امام حاکم نے اس کی سند کو ” صحیح “ کہا ہے ، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی اس کو ” صحیح “ کہا ہے
علامہ البانی اور مسند احمد کے محققین نے اس حدیث کو صحیح بتلایا ہے ۔
4
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
فانی آخر الانبیاء ، وان مسجدی آخر المساجد ( صحیح مسلم : 507/1394 دارالسلام )
” میں آخری نبی ہوں ، اور میری مسجد آخری مسجد ( نبوی ) ہے ۔
انبیاء کرام کی یہ سنت ہے کہ وہ اللہ کی زمین پر مسجد ضرور بناتے ہیں جو عام مساجد کے مقابلے میں غیر معمولی حیثیت رکھتی ہے ، جیسے بیت اللہ مسجد حرام ، جسے ابراہیمؑ نے بنایا اور جس میں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے۔ بیت المقدس جو حضرت سلیمانؑ نے بنائی اور اسی طرح مسجد نبوی جو خاتم النبیین ﷺکی مسجد ہے اور جس میں ایک نماز کا ثواب ایک ہزار نمازوں کے برابر ہے۔
تو یہاں اللہ کے نبی ﷺ کا یہ فرمانا کہ میں آخری نبی ہوں اور میری یہ مسجد آخری مسجد ہے ، تکمیلِ نبوت اور رسالت کی بہت ہی واضح اور کھلی دلیل ہے۔ اب چونکہ قیامت تک کوئی نیا نبی نہیں پیدا ہو گا ، نبوت اور رسالت کا سلسلہ آپ ﷺ پر مکمل ہو گیا اس لیے اب کوئی نئی نبوی مسجد بھی نہیں بن سکتی بلکہ وہ آخری مسجد جو مسجد نبوی کہلائی وہ مدینہ منورہ میں ہے ۔
5
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :
خلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی بن ابی طالب ، فی غزوۃ تبوک ، فقال : یا رسول اللہ تخلفنی فی النساءوالصبیان ؟ فقال : اما ترضی ان تکون منی بمنزلۃ ھارون من موسی ؟ غیر انہ لا نبی بعدی
” غزوہ تبوک کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابی طالب کو ( مدینہ ) میں اپنا جانشین مقرر فرمایا ، علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ، اے اللہ کے رسول ! کیا آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں پیچھے چھوڑ کر جا رہے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ میرے سات