بسم اللہ الرحمن الرحیم
حديث نمبر :12
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی حفظہ اللہ
بتاریخ :25/26/ جمادی الاول 1428 ھ، م 12/11، جون 2007م
تیز ہوا کی دعا
عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللّہ عَنْہَا قَالَت .کَانَ النَبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم ؛اِذَاعَصَفَتِ الرِّیْح قال ؛ اللھم انِّیْ اَسْاَلُکَ خَیْرَھَا وخَیْرَ مَا فِیْھَا وَ خَیْرَ مَا اُرْسِلَتْ بِِہ وَاَعُوْذُ بِِکَ مِنْ شَرِّ ھَا وَشَرِّ مَا فِیْھَا وَشَرِّ مَا اُرْسِلَتْ بِہ
(صحیح مسلم ٨٩٩ صلاة الاستسقاء .سنن الترمذی، ٣٤٤٩ الدعوات)
ترجمہ : حضرت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب کبھی تیز ہوا چلتی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم (یہ دعا)پڑھتے ۔۔
اللھم انِّیْ اَسْاَلُکَ خَیْرَھَا وخَیْرَ مَا فِیْھَا وَ خَیْرَ مَا اُرْسِلَتْ بِہ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ ھَا وَشَرِّ مَا فِیْھَا وَشَرِّ مَا اُرْسِلَتْ بِہ۔
اے اللہ میں آپ سے اس ہوا کی بھلائی کا سوال کرتا ہوں ، ہر اس بھلائی کا سوال کرتا ہوں جو اسمیں ہے او رہر اس بھلائی کا سوال کرتا ہوں جو دیکر یہ بھیجی گئی ہے، اور اے اللہ تعا لی میں اس ہو اکے شر سے آپ کی پنا ہ چاہتا ہوں اور ہر اس شر سے آپ کی پنا ہ چاہتا ہوں جو اس ہوا میں ہے اور ہر اس شر سے آپکی پناہ چاہتا ہوں جسے دیکر یہ بھیجی گئی ہے ۔
{ صحیح مسلم وسنن تر مذی }
تشریح : اللہ تعالی اپنی حکمت بالغہ اور ْ قدرت کاملہ سے ایک ہی چیز کو کبھی رحمت کے طور پر بھیجتا ہے اور کبھی اسی چیز کو لوگوں کے اوپر بطور عذاب کے نازل کرتا ہے ،بلکہ ایک ہی چیزایک ہی وقت میں کچھ لوگوں کیلئے رحمت اور بعینہ اسی وقت میں کچھ لوگو ں کیلئے باعث عذاب بن جاتی ہے ،جیسے بارش اللہ کی ایک رحمت ہے لیکن کبھی یہی بارش لوگوں کیلئے مصیبت وعذاب کی شکل میں نازل ہوتی ہے ، ہو الوگو ں کیلئے کبھی رحمت اور کبھی عذاب وپریشانی کی شکل میں آتی ہے حتی کہ یہی ہو ا غزوئے خندق کے موقعہ پر مسلمانوں کیلئے رحمت اور انکے دشمنوں کیلئے عذاب کی شکل میں ظاہر ہوئی ، اللہ تبارک تعا لی اسی ہو ا کوکبھی آہستہ آہستہ چلا تا ہے اور کبھی تیز ، کبھی یہی ہو ا پانی سے بھرے ہوئے بادلوں کو لیکر آتی ہے کبھی یہی ہو ا کھیتوں اور پھلوں کے پکنے اور انکے تیا رہونے میں معاون ثابت ہو تی ہے تو کبھی سخت ٹھنڈی کبھی سخت گرم اور کبھی کھیتی ونسل کی بربادی کا سبب بنتی ہے ، یہ ایسی باتیں ہیں جنکا مشاہدہ ہم برا بر کرتے رہتے ہیں، اور یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالی کے حکم اور اسکی قدرت سے ہو تا ہے ، ہوا اور پانی کی اپنی ذات کااس میں کوئی دخل نہیں ہے ، بلکہ یہ چیزیں خالص حکم الہی کے تابع اور غیر مختار ہیں، اسلئے کسی بھی موقعہ پر جہاں ان مخلوقات کی خطرناکیکا احساس ہو ایک مسلمان کو درج ذیل موقف اختیار کرنا چاہئے ۔
[١] خوف ورجاکا جذبہ ۔ اخلاص اور کامل اعتماد کے ساتھ اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہو اور پیش آمد ہ صورت حال میں پائے جانے والے خیر کا پہلو طلب کرے اور اسکے شر سے پناہ چاہے، کیونکہ اسکے اندر پائے جا نے والے خیر وشر کا مالک حقیقی صرف اللہ تعا لی ہی ہے ۔ اوپر ذکر کی گئی حدیث میں اسی توجیہ نبوی کا بیان ہے ، نیز اسی حدیث کے آخر میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ
جب بادل چھا جاتے اور محسوس ہوتا کہ اب بارش ہو گی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ بدل جا تا ، کبھی آپ باہر جا تے ، کبھی اندر آتے، کبھی آگے ہو تے ، کبھی پیچھے پلٹتے، اور جب بارش ہو جا تی تو آپ خوش ہو جا تے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ کی اس اضطرابی کیفیت کو محسوس کرتے ہوئے سوا ل کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوا ب دیا: اے عائشہ ممکن ہے کہ یہ بدلی و بارش ویسی ہو جیسا کہ قوم عاد نے کہا تھا : فَلَمَّا رَاَوْہُ عَارِضًا مُّسْتَقْبِلَ اَوْدِیَتِھِمْ قَالُوْ ا ھٰذَا عَا رِض مُّمْطِرُنَا ، بَلْ ھُوَ مَسْتَعْجَلْتُمْ بِہ رِیْح فِیْھَا عَذَاب اَلِیْم [ الاحقاف ٢٤] ” پھر جب انہوں نے (عذ اب کو بصورت) بادل دیکھا اپنی وادیوں کی طرف آتے ہوئے تو کہنے لگے ، یہ ا بر ہم پر بر سنے والا ہے (نہیں ) بلکہ دراصل یہ ابرو ہ(عذاب)ہے جس کی تم جلدی کررہے تھے ، ہوا ہے جس میں دردناک عذاب ہے "۔۔۔ایک اور حدیث میں حضرت عا ئشہ کا بیان ہے کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بدلی دیکھتے یا (تیز ) ہوا چلتی تو اسکے آثار آپکے چہرے پر دکھائی دیتے ۔
[صحیح بخاری ومسلم ]
[٢] اسے بر ا بھلا نہ کہا جائے ۔ کیونکہ ہوا ور بارش اپنے تئیں مختار نہیں ہیں بلکہ حکم الہی کے تابع ہیں ، باری تعا لی انکے ذریعہ کسی قوم پر اپنی رحمت برساتا ہے جو خاص اسکا فضل اور اسکی نعمت ہے اور کبھی کسی قوم پر وہ عذاب بن کر نازل ہو تی اور چلتی ہیں جو اللہ تعا لی کا عدل اور اسکی حکمت ہے ،اسلئے ایسے موقع پر بندوں سے مطالبہ ہے کہ وہ :
اولا : تو اپنے آپ کا محاسبہ کریں ، گناہوں سے تو بہ واستغفار کریں ،ظلم وزیادیتی سے رک جا ئیں اور حقوق الہی میں کو تہا ہیوں سے پرہیز کریں ۔
ثانیا : اس ہوا و بادل کے خالق ، اسکے مالک اور اسمیں تصرف کا حق رکھنے والے رب کریم غفور ورحیم کی طرف متوجہ ہوں ، دعا کریں اور اسمیں موجود خیر وبھلا ئی کے طالب اور شرو برائی سے اسکی پناہ میں آئیں ۔
ثالثا: اس ہوا اور بادل کو برا بھلاکہنے اسے ذمہ دار ٹھہرانے اور اس پر لعنت بھیجنے سے پر ہیز کریں ۔
چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ہوا اللہ کی طرف سے ہے جو رحمت وعذاب لیکر آتی ہے ، اسلئے اسے گالی نہ دو (بلکہ جب تیز ہوا چلے تو ) اللہ تعا لی سے اسکے خیر کا سوال کرو اور اسکے شر سے پناہ طلب کرو
(ابو داود ،ابن ماجہ )
ایک اور حدیث میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص نے ہوا پر لعنت بھیجی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :ہوا پر لعنت نہ بھیجو کیونکہ یہ حکم الہی کے تابع ہے ، اور جو شخص کسی چیز پر لعنت بھیجتا ہے اور اگر وہ چیز لعنت کی مستحق نہیں ہوتی تو یہ لعنت لعنت بھیجنے والے کی طرف پلٹ آتی ہے
(سنن ابوداود، الترمذی)
فائدے :
١- ہوا اور بارش وغیرہ اللہ کی مخلوق اور اسکے تابع فرمان ہیں ، لہذا اگر کسی کو ان سے نقصان لا حق ہو تو انھیں برا بھلا نہ کہے بلکہ اللہ تعا لی سے دعا کرے۔
٢- بندے کو چاہئے کہ ہر حال میں ا للہ تعالی سے اپنے تعلقات استوار رکھے ۔
٣- دنیا و آخرت کی مصیبت سے نجا ت کیلئے دعا بہترین وسیلہ ہے ۔
ختم شدہ