*تیسرا پارہ(تلك الرسل)*

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سلسلہ خلاصہ معانی قرآن مجید
از قلم : شیخ مقصود الحسن فیضی حفظہ اللہ
*تیسرا پارہ(تلك الرسل)*

تیسرے پارے کی ابتداء نبی کریم ﷺ کو تسلی دینے کے ساتھ ہوئی ہے۔
چنانچہ پچھلے پارے کی آخری آیت میں آپ ﷺ کی رسالت کے اثبات کی گواہی تھی ،لیکن پھر بھی لوگوں نے آپ کی رسالت کو نہیں مانا، لہذا یہاں اللہ تعالی نے آپ ﷺ کوتسلی دی کہ آپ کے ساتھ یہ معاملہ کوئی نیا نہیں ہے ، بلکہ آپ سے قبل دیگر رسولوں کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہو تا رہا ہے۔
اس کے بعد اللہ تعالی نے کلام کا رخ احکام کی طرف پھیر دیا۔
پچھلے پارے میں ان احکام کا ذکر تھا جن کا تعلق انسان کے جسم سے ہے،اس پارے میں ان احکام کام ذکر ہے جن کا تعلق مال اور خرچ کرنے سے ہے۔
 آیت نمبر 254 میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے بارے میں عجیب تنبیہ ہے کہ قیامت قیامت کے دن سے پہلے پہل خرچ کرلو جس دن نہ کوئی خرید و فروخت ہوگی ،نہ ہی دوستی اور نہ ہی سفارش ۔یعنی مال ومددحاصل کرنے کاکو ئی بھی ذریعہ نہیں ہوگا۔ کیونکہ عموما مال مذکورہ تین طریقوں ہی سے حاصل ہوتا ہے۔ یعنی اس جگہ کسی کے پاس کسی کو دینے کیلئے کوئی مال نہ ہوگا، نہ کمائی کا کوئی ذریعہ ہوگا،نہ کوئی کسی کوتحفہ و ہدیہ دے سکےگا اور نہ ہی مانگنے پر کچھ ملے گا۔
 اس پارے کے پہلے صفحے پر آیت الکرسی ہے جو قرآن مجید کی سب سے عظیم آیت ہے، اس کا پڑھا بڑا ہی باعثِ برکت اور شیطان کی شر سے حفاظت ہے۔
اس کے عظیم ہونے کی وجہ شاید یہ ہے کہ یہ آیت مکمل طور پر صرف اللہ کی عظمت شان کے بیان پر مشتمل ہے، اس آیت میں دس جملے ہیں، دسوں جملوں میں صرف اللہ جل جلالہ کی عظمت کاکوئی نہ کوئی پہلو بیان ہوا ہے۔ بعض اہلِ علم نے کہا کہ اس آیت میں اللہ عز وجل کی بیس صفات کا ذکر ہے۔
 پھر یہ واضح کیا گیا ہے کہ اتنی عظمت اور قوت کے باوجود اللہ تعالی نے لوگوں کو اس حقیقت کے قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جو قرآن پیش کر رہا ہے،بلکہ اس معاملے میں وہ آزاد ہیں۔
 البتہ یہ بات ضرور ہے کہ ہر شخص کے سامنے حق وباطل کو واضح کردیا گیا ہے، پس جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے۔
"لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ” کہنے کی شاید یہی مناسبت ہے کہ وہ اللہ جو کرسی کا مالک ہےووہ اگر چاہتا تو لوگوں کو ایمان پر مجبور کر سکتا تھا ، لیکن یہ اس کی حکمتِ امتحان کے خلاف ہے۔
 آیت ۲۵۷ میں یہ واضح کیا گیا کہ ہدایت کا اصل مصدر اللہ تعالی ہے۔ لہذا جو شخص اس کا بندہ بننا چاہتا ہے وہ اس کی نگرانی وحفاظت کرتا ہے اور اسے کفر وشرک کی تاریکی سے نکال کر ایمان وتوحید کی روشنی عطا فرماتا ہے۔ البتہ جو اس سے اعراض کرکے شیطان وطاغوت کا بندہ بنتا چاہتا ہے ، اسے انہیں کے حوالے کر دیتا ہے جو اسے ہدایت کے بجائے کفر وشرک کی تاریکی کی طرف لے جاتے ہیں، یہی لوگ جہنم والے ہیں جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔
 پھر اس سورت میں تین عجیب وغریب واقعات بیان ہوئے ہیں:
1) حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ نمرود یا ایک ایسے بادشاہ کے ساتھ جو ربوبیت کا دعویدار تھا ۔
2) حضرت عزیر علیہ السلام کا واقعہ جب ایک ویران بستی کے پاس سے ان کاگزرے ۔
3) حضرت ابراہیم علیہ السلام اور چار چڑیوں کا قصہ ۔
ان واقعات کو بیان کرنے کا ایک مقصدجہاں ایک طرف اللہ کی توحید اور آخرت کا اثبات ہے، یعنی اللہ تعالی بعث بعد الموت پر قادر ہے، وہیں دوسری طرف یہ بتانا مقصود ہے کہ جواللہ تعالی مومنوں کا ولی سر پرست ہےوہ کسی بھی مشکل وقت میں اپنے مومن بندوں کو اکیلا نہیں چھوڑتا ،بلکہ ان کی بھر پور مدد فرماتا ہے۔
 اس کے بعد اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی فضیلت کا بیان ہے، اور اس کے آداب قدرے تفصیل سے بیان ہوئے ہیں۔
 خرچ کرنے کی فضیلت یہ بیان ہوئی کہ گویا اس کی مثا ل اس دانے کی طرح ہے جس سے سات ایسےخوشے نکلیں جن میں سے ہر خوشے میں سو دانے ہوں ۔
خرچ کرنے کے بعض آداب۔
1) خلوص نیت[البقرہ:265] ۔
2) احسان جتلانے اور تکلیف دینے سےبچا جائے[البقرہ:264] ۔
3) ریا کاری ونمائش کا معمولی شائبہ نہ ہو[البقرہ:264] ۔
4) گھٹیا مال میں سے خرچ نہ کیا جائے[البقرہ:267] ۔
5) دلی خوشی اور رضامندی سے دیا جائے[البقرہ:265] ۔
6) صدقے کا اظہار بھی جائز ہے لیکن چھپا کر دینا زیادہ بہتر ہے[البقرہ:271] ۔
7) صدقہ مانگنے والوں کو ہی نہیں بلکہ سفید پوش لوگوں کوبھی دیا جائے[البقرہ:273] ۔
8) اور یہ سب اس وقت ممکن ہے جب شیطان کی چالوں اور حیلوں سے بچا جائے ۔[البقرہ:268] ۔
 اس کے بعدسود کا حکم اور اس کا متبادل بیان ہوا ہے،اور سود کے بارے میں سخت تنبیہ ہے۔
1) سود خور کی مثال آسیب زدہ مجنون کی ہے[البقرہ:275] ۔
2) سود سے مال گھٹتا ہے ،بڑھتا نہیں [البقرہ:276] ۔
آج دنیا کی معیشت کی بربادی کا یہی سب سےبڑا سبب ہے ،کاش کہ لوگوں کو یہ بات سمجھ میں آجائے۔
3) سود اللہ کے ساتھ بغاوت ہے[البقرہ:279]۔
 اسی ضمن اور سلسلہ کلام میں سود کا متبادل ،صدقہ کا حکم دیا گیا اور اس بارے میں نرمی کا پہلو اختیار کرنے کی ترغیب دی گئی ۔
پھر اس کے فورا بعد فرمایا:”وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ تُوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ” ’’اور اس دن سے ڈر جاؤ جس دن تم اللہ کی طرف لوٹائے جاؤ گے پھر ہر جان کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا ‘‘۔
اس آیت سے اولا سود خوروں کو نصیحت کی جا رہی ہے کہ اس دنیائے فانی سے دھوکہ نہ کھاو بلکہ اس دن کو یاد کرو جب ہر ایک کو اپنے تمام اعمال کے ساتھ اللہ کے حضور پیش ہونا ہے۔
ثانیا- یہاں گویا اس طرف اشارہ ہے کہ سودی کاروبار جیسی حرام کمائی سے بچنے میں ایمان کی تکمیل اور اس کے حقوق جیسے نماز ، زکاۃ اور اعمال صالحہ کی تکمیل ہے۔
 آیات 182، 183 ۔ پھر اس کے بعدقرض کے لین دین کے احکام ہیں جو قرآن مجید کی سب سے طویل آیت میں بیان ہوئے ہیں جس سے اسلام میں معاملات کی اہمیت کا پتا چلتا ہے۔
نیز سودی نظام کی سختی سے ممانعت کے بعد قرض اور ادھار کی طرف رغبت دلائی گئی ہے تا کہ سود کا متبادل نظام قائم ہوسکے۔
لیکن اس سلسلے میں باہمی اختلاف سے بچنے کے لئے کچھ اصول وضوابط مقرر کئے ہیں۔ جیسے:
1- قرض کے مدت کی تعیین ہو، 2- قرض اور اس کی مدت کو لکھ لیا جائے ، 3- اس پر دو مسلمان مردوں کو گواہ بنا لیا جائے۔ 4- اگر دومرد میسر نہ ہوں تو ایک مرد اور دوعورتوں سے بھی کام چل جائےگا۔ 5- اگر سفر کا معاملہ ہو کہ گواہ یا لکھنے کی سہولت میسرنہ ہو تو قرض لینے والا قرض دینے والے کے پاس کوئی چیز بطور گروی رکھ دے۔ 6—یہیں سے گروی کی مشروعیت بھی ثابت ہوتی ہے۔ 7—نیز ایک حکم یہ دیاگیا کہ اگر قرض کے لین دین کرنے والوں میں ایک دوسرے پر اعتماد کا معاملہ ہو تو بغیر گروی رکھے بھی ادھار کا معاملہ کر سکتے ہیں۔
 مذکورہ آیتوں میں ایک اہم بات یہ بھی بیان ہوئی ہے کہ گواہی کا چھپانا کبیرہ گناہ ہے ۔
 ان احکام کے بیان کے دوران تین بار اللہ کا تقوی اختیار کرنے کا حکم ہے۔ جس سےایک طرف اسلام میں تقوی کی اہمیت کا پتا چلتا ہے وہیں یہ حقیقت بھی واضح ہوجاتی ہے کہ باہمی معاملات کی درستی کے لئے درمیان میں تقوی کا رہنا ضروری ہے۔
 آخر میں سورت کا خاتمہ انہیں تعلیمات یعنی ایمانیات پر ہوا جن سے سورت کی ابتدا ہوئی تھی ،اور عموما سورتوں میں قرآن مجید کا یہی اسلوب ہے۔
 اس سورت کی آخری آیات کی بڑی فضیلت واہمیت ہے جسے ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے ۔

سورت آل عمران
یہ سورت مدنی ہے۔ اس سورت کا زمانہ نزول غزوہ بدر اور غزوہ احد کے بعد کا ہے ۔
سورت بقرہ کے ساتھ اس کے کچھ فضائل صحیح احادیث میں موجود ہیں۔
مفسرین کہتے ہیں اس سورت کے دو حصے ہیں: پہلا حصہ تیسرے پارے کے اختتام تک اور دوسرا حصہ چوتھے پارے کی ابتدا سے آخر سورت تک ہے۔
اس سورت کا مرکزی موضوع دین پرثابت قدمی و استقامت ہے ۔اور اس کے ساتھ ساتھ عیسائیوں کی غلطیوں پر تنبیہ،ان کی بد اعتقادیوں کی اصلاح اور پھر انہیں نبی کریم ﷺ پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی۔
بعینہ اسی طرح جس طرح کہ سورہ بقرہ میں یہودیوں کو اصلاحِ حال اور نبی کریم ﷺ پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے ۔
نصاری میں خرابی پیدا ہونے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ شبہات اور شہوات کے فتنے میں مبتلا ہو گئے تھے ،ان دونوں فتنوں کے بارے میں سورت کے آغاز میں ہی تنبیہ کر دی گئی ہے۔
شبہات کے فتنے پر تنبیہ آیت 7 میں ہے اور آیت 14 میں شہوات کے فتنے سے آگاہ کیا گیا ہے۔
o اس سورت کی ابتداء اللہ کی توحید اور نبی کریم ﷺ کی رسالت کی حقانیت سے ہوتی ہے۔
o توحید پر تین عقلی دلائل پیش کئے گئے ہیں۔ ایک کتابوں کا نازل کرنا، دوم رحمِ مادر میں بچے کی تخلیق وتصویر سازی اور تیسرے علم غیب۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جن میں اللہ کا کوئی شریک نہیں ہے۔
o پھر عیسائیوں کو ان کی مذکورہ غلطیوں پر تنبیہ کی گئی او رانہیں اصلاح کی دعوت دی گئی ۔
هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ رَبِّنَا وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ (7)” وہی اللہ تعالیٰ ہے جس نے تجھ پر کتاب اتاری جس میں واضح مضبوط آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں اوربعض متشابہ آیتیں ہیں۔ پس جن کے دلوں میں کجی ہے وه تواس کی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں، فتنے کی طلب اور ان کی مراد کی جستجو کے لئے، حاﻻنکہ ان کے حقیقی مراد کو سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا اور پختہ ومضبوط علم والے یہی کہتے ہیں کہ ہم تو ان پر ایمان ﻻچکے، یہ ہمارے رب کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو صرف عقلمند حاصل کرتے ہیں”۔
o اس آیت میں راسخین فی العلم کی صفت یہ بیان ہوئی کہ وہ آیات متشابہات کی صحیح تاویل کرتے ہیں، یا پھر متشابہات کے بارے میں کجی و غلط تاویل سے بچے رہتے ہیں،لہذا اگلی دو آیتوں میں زیغ وکج فہمی سے بچنے اور دین پر استقامت کی دعا کا ذکر ہے۔
رَبَّنَا لَا تُزِغۡ قُلُوبَنَا بَعۡدَ إِذۡ هَدَيۡتَنَا وَهَبۡ لَنَا مِن لَّدُنكَ رَحۡمَةًۚ إِنَّكَ أَنتَ ٱلۡوَهَّابُ (٨) رَبَّنَآ إِنَّكَ جَامِعُ ٱلنَّاسِ لِيَوۡمٍ لَّا رَيۡبَ فِيهِۚ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يُخۡلِفُ ٱلۡمِيعَادَ (٩)” اے ہمارے رب! ہمیں ہدایت دینے کے بعد ہمارے دل ٹیڑھے نہ کردے اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما، یقیناً تو ہی بہت بڑی عطا دینے واﻻ ہے۔ اے ہمارے رب! تو یقیناً لوگوں کوایک دن جمع کرنے واﻻ ہے جس کے آنے میں کوئی شک نہیں، یقیناً اللہ تعالیٰ وعده خلافی نہیں کرتا”۔
o آیت ۱۰—۱۳ میں پڑے نصاری اور ان کے ساتھ یہود کو دھمکی دی گئی ہے کہ اپنے مال و اولاد کے غرور میں پڑ کر کفر پر اصرار اور نبی کے ساتھ بغاوت کا معاملہ نہ کرو ورنہ تمہارا حشر بھی وہی ہوگا جومشرکین کا بدر کے میدان میں دیکھا جا چکا ہے۔
o 14 شبہات کے فتنے کا ذکر ہے جس میں نصاری کی بڑی جماعت مبتلا تھی ، اور یہی سبب بن رہا تھااپنی آخرت کو بھول بیٹھنے اور نبی اکرمﷺ پر ایمان نہ لانے کا۔
اس آیت میں چھہ مرغوبات کا ذکر ہے جو انسان کے لئے فتنے کا سبب بنتی ہیں۔ ان غور لریں اور بچنے کی کوشش کریں ۔
o آیت 15 سے 32 میں آخرت پر ایمان لانے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ،اور بڑے پر زور انداز میں اللہ کی توحید کو بیان کیا گیا ہے ۔
o اس بات کی وضاحت ہے اس نبی کے آنے کے بعد اب صرف دینِ اسلام ہی قابلِ قبول ہے، یہی دین ِ حق ہے جو تمام انبیاء کا دین رہے ہے ، جسے محض ضد اور ہٹ دھرمی سے یہود ونصاری نے بدل دیا ہے۔19
o لہذا نبیِ کریمﷺ کو یہ توجیہ کہ اس دینِ حق کی بابت اگر یہود ونصاری آپ سے جھگڑیں تو اس کی پرواہ کئے بغیر صاف اعلان کردیں کہ ہم نے اور ہمارے ساتھیوں نے تواس دین یعنی اسلام کو اختیار کر لیا ہے ، اگر آپ لوگ بھی ہدایت پر آنا چاہیں تو ٹھیک، اور اگر گمراہی اختیار کرن اچاہیں تو اس کی ذمہ داری ہمارے اوپر نہیں ہے۔ آیت:۲۰
o نیز اہل کتاب کو خصوصی طور پر ایمان لانے اور نبی کریم ﷺ کی دعوت کو قبول کرنے کی دعوت دی گئی ہے ،پھر ایمان نہ لانے کی صورت میں انہیں دردناک عذاب کی دھمکی بھی دی گئی ہے۔21و 22
o اور اس کے ساتھ ساتھ یہود کے اس زعم باطل (غلط عقیدے)کی بھی تردید کی گئی ہے کہ وہ اللہ کی پسندیدہ قوم ہیں اور حکومت و سیادت انہیں کو حاصل رہے گی ۔
اس پر اللہ تعالی نے کئی اعتبار سے کاری ضرب لگائی ہے۔
1- ان کا یہ کہنا کہ "ہمیں تو آگ گنے چنے دن ہی جلائے گی) آیت:24
اللہ تعالی نے فرمایا کہ یہ ان کی خام خیالی اورانہیں شیطانی دھوکہ ہے ۔ بلکہ وہاں ہرایک کو اس کے سارے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔فَكَيْفَ إِذَا جَمَعْنَاهُمْ لِيَوْمٍ لَا رَيْبَ فِيهِ وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ (25) "پس کیا حال ہوگا جبکہ ہم انہیں اس دن جمع کریں گے جس کے آنے میں کوئی شبہہ نہیں اور ہر شخص کو اپنا اپنا کیا پورا پورا دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہ کیا جائے گا”۔
2- ان کے اس زعم کی تردید کی گئی ” چونکہ ہم اللہ کے چہیتے ہیں اسی لئے اللہ تعالی نے ہمیں حکومت وسیادت سے نوازا ہے۔
اس کا جواب اللہ تعالی نے یہ دیا کہ آج اگر ان کو حکومت حاصل ہے تو اس پر غرور نہ کریں۔ زمیں اللہ کی ہے اور وہی حکومت کا مالک ہے۔ جسے چاہتا ہے اسے دیتا ہے۔ قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (26) ” آپ کہہ دیجئے اے اللہ! اے تمام جہان کے مالک! تو جسے چاہے بادشاہی دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے اور تو جسے چاہے عزت دے اورجسے چاہے ذلت دے، تیرے ہی ہاتھ میں سب بھلائیاں ہیں، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے”۔
قدرت ورزق کی پر ملکیت کے بیان کے بعداور
3- ان کا ایک دعوی یہ بھی تھا کہ وہ اللہ کے چہیتے ہیں، تو اللہ تعالی نے اس کا جواب یہ دیا کہ اگر تم چاہتے ہو کہ واقعۃ اللہ تعالی تم سے محبت کرے تو اس نبی پر ایمان لاؤ۔
قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ (31)” کہہ دیجئے! اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو، خود اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناه معاف فرما دے گا اور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے واﻻ مہربان ہے۔
پھرآگے کی آیت میں انہیں یہ دعوتِ فکر دی گئی کہ اگر واقعی تم اس بات کےدعویدار ہو کہ تم اللہ کے محبوب ہو تو اللہ اور س کے رسول کی اطاعت وفرمابرداری کرو، یہی ایک راستہ ہو تمہیں اللہ کی محبوبیت پہنچائے گا ۔
o اسی ضمن میں جب اللہ تعالی کی ملکیت ، قدرت ، رزاقیت اور تصریفِ امور پر قدرت کے ذکر کے بعد مسلمانوں کو کچھ نصیحتیں کی گئی ہیں۔
1- جب ہر طرح کی قدرت کامالک اللہ تعالی ٹھہرا تو مسلمانوں کو یہ قطعا زیب نہیں دیتا کہ مسلمان اس کو چھوڑ کر کمزور انسانوں اور وہ بھی اللہ کے دشمنوں سے ولاء کا رشتہ رکھیں۔ پھر بڑے زور دار انداز میں اس پر تنبیہ بھی کی گئی۔آیت:۲۸
2- اللہ تعالی نےاپنے علمِ کامل حوالہ دے کر بندوں کواپنے سے سے ڈرنے کا حکم دیا۔ آیت:۲۹
3- آخرت کی یاد دلاکر اس دن کی تیاری کی طرف توجہ دلائی۔آیت:30
o عیسائیوں کے عقائد کی اصلاح کیلئے حضرت عیسی علیہ السلام کی والدہ حضرت مریم کی پیدائش کا تفصیلی تذکرہ کیا گیا ہے۔ جس کا مقصد یہ بتانا ہے کہ یہ دونوں الہ نہیں ہیں بلکہ بشر ہیں”ذُرِّيَّةً بَعْضُهَا مِنْ بَعْضٍ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (34) "کہ یہ سب آپس میں ایک دوسرے کی نسل سے ہیں اور اللہ تعالیٰ سنتا جانتا ہے”۔کیونکہ الہ پیدا نہیں ہوتا بلکہ پیدا کرتا ہے۔
پھر اس ضمن میں ذریت کے لئے حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا اوران کے یہاں حضرت یحی علیہ السلام کی پیدائش کا بھی ذکر موجود ہے، کیونکہ حضرتِ زکریا کے دل میں اولاد کی خواہش کا جذبہ حضرت مریم کی بعض کرامات کو دیکھ کر ہی پیدا ہوا تھا۔
ان تینوں واقعات سے مسلمانوں کو متعدد سبق ملتے ہیں:
1) اللہ تعالی کے نزدیک مقبولیت اور اللہ تعالی کا کسی کو چن لینا یہ محض اللہ کا فضل اور اس کی نوازش ہے۔ البتہ اس میں خود انسان کے اپنے کردار اور اللہ کے لئے دی گئی قربانیوں کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔
2) عمل خیر میں نیت کے درست ہونے کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ چنانچہ حضرت مریم کی والدہ کی نیت اچھی تھی اس لئے اللہ تعالی نے حضرت مریم کو مبارک بنا دیا۔
3) انسان کی نیت و فکر اللہ کے دین کی خدمت کیلئے ہونی چاہیے نہ کہ دنیا کے لئے۔
4) اللہ تعالی کی رحمت سے ناامید نہیں ہونا چاہیے۔
• حضرت یحیی کی ولادت جو ایک بوڑھے باپ اور ایک بوڑھی نیز بانجھ ماں کے یہاں ہوئی تھی ، اس کے بعد اس سے بھی زیادہ عجیب طریقے یعنی بغیر باپ حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش کا ذکر ہے، جس کی تفصیل سورہ مریم میں موجود ہے۔
• اس کے بعد حضرت عیسی علیہ السلام کے معجزات اور ان کی دعوت کا ذکر ہے۔
• حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش، ان کی نبوت اور دعوت کاذکر کرنے کے بعد یہودیوں کو حضرت عیسی علیہ السلام کو سچا رسول ماننے اور عیسائیوں کو ان کی بشریت ورسالت پرایمان کی دعوت دی گئی ہے۔
• عیسی علیہ السلام کے وصف میں اللہ تعالی نے فرمایا کہ : ۱-اللہ تعالی انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیا ہے۔ ۲- علم نافع سے نوازا ہے جس کے ذریعے وہ حق وباطل کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ۳-توریت کے علم سے نوازا ہے۔ ۴- اور توریت کی تکمیل کے لئے انہیں انجیل عطا کی ہے۔ ۵- مزید انہیں ایسے معجزات عطا فرمائے ہیں جو ان کی رسالت پر صداقت کی دلیل ہیں۔
• آیت ۵۱—۵۵ تک عیسی علیہ السلام کا اپنی قوم یعنی یہود کو دعوتِ توحید ورسالت کا ذکر ہے۔ جس کے نتیجے میں اس میں سے کچھ لوگ تو ایمان لائے، لیکن اکثریت آپ کی مخالف بن گئی، آپ کو ایذا پہنچانا شروع کیا، بلکہ آپ کو قتل کرنے تک کی کوشش کی۔
• پھر یہ وضاحت ہےکہ کس طرح اللہ تعالی نے ان کی حفاظت کہ اور زندہ اپنی طرف اٹھا لیا۔
• ایمان لانے کی صورت میں خوشخبری سنائی گئی۔ بصورت دیگر انہیں عذاب کی دھمکی بھی دی گئی [آل عمران:57،56] فَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا فَأُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمَا لَهُمْ مِنْ نَاصِرِينَ (56) وَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَيُوَفِّيهِمْ أُجُورَهُمْ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ (57)” پھر کافروں کو تو میں دنیا اور آخرت میں سخت تر عذاب دوں گا اور ان کا کوئی مددگار نہ ہوگا۔ لیکن ایمان والوں اور نیک اعمال والوں کو اللہ تعالیٰ ان کا ﺛواب پورا پورا دے گا اور اللہ تعالیٰ ﻇالموں سے محبت نہیں کرتا”۔
o اورپھر حق قبول نہ کرنے کی صورت میں انہیں مباہلے کی دعوت بھی دی گئی [آل عمران:61] ۔
o اس کے بعد سے پارے کے آخر تک تقریبا پچیس سے تیس آیات میں اہل کتاب یہود و نصاری کو اسلام کی دعوت دی گئی اور انہیں یہ بتایا گیا کہ اللہ کی توحید ایک ایسا مسئلہ ہے جو تمام انبیاء کے مابین مشترکہ رہاہے۔ لہذا کم از کم تم اسے قبول کرلو۔[آل عمران:64]
o اس درمیان اہلِ کتاب کے اس زعم کی بھی تردید فرمائی گئی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام یہودی یا عیسائی تھےبلکہ خالص مسلمان اور ہر قسم کے شرک ومشرکین سے کنارہ کشی اختیار کرنے والے تھے۔
o ادھرمسلمانوں کو ان کے مکر وفریب سے متنبہ کیا گیا ہے۔
o نیز اہل کتاب کو لطیف انداز میں ڈانٹ بھی پلائی او رواضح کیا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام یہودی اور عیسائی نہیں تھے، بلکہ وہ پکے موحد تھے اور شرک و مشرکین میں سے دور رہنے والے تھے۔[آل عمران:68] ۔
o
o اہلِ کتاب کو عار دکائی گئی ے کہ یہ جانتے ہوئے کہ یہ اللہ کے رسول ہیں ، تمہیں یہ کیسے زیب دیتا ہے کہ کفر کی روش اختیار کرو۔ نیز یہ جانتے ہوئے کہ حق فلاں چیز ہے، تمہیں یہ کیسے زیب دیتا ہے کے است باطل کے ساتھ گڈمڈ کرو۔
o اس کے بعد مسلمانوں کے ساتھ یہود کی عداوت اور نبی مکرم ﷺ کے ساتھ ان کے مکر کا ذکر بڑی تفصیل سے ہوا ہے، کہ وہ مسلمانوں کو ان کے دین سے پھیر نے اور ان میں شکوک وشبہات پھیلانے کیلئے کون کون سے حربے آزماتے تھے۔ اس سے بھی اللہ تعالی نے مسلمانوں کو آگاہ کیا۔
o ان کا ایک حیلہ یہ بھی تھا کہ ان میں سے کچھ لوگ صبح کے وقت مسلمان ہو جاتے اورشام کے وقت دین کو چھوڑ جاتے، تاکہ عام مسلمان دین کے بارے میں شکوک وشبہات کے اندر مبتلا ہو جائیں ۔
o ان کی ایک چال یہ بھی تھی کہ وہ اپنے ہم مذہب سے کہتے تھے کہ اہل ایمان کو دھوکہ دو اور ان کا مال دھوکہ دے کر کھاؤ ۔ اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ آیت نمبر:76۔
o آخر میں دو آیتیں [آل عمران:79 اور 81] بڑی قابل توجہ ہیں جن میں یہود ونصاری کو یہ تنبیہ کی گئی ہے ۔
o پہلی بات یہ کہ اس پیغمبر کی طرف سے تمہیں دعوت دینے کا یہ مقصد ہر گز نہیں ہے کہ یہ تمہیں اپنی عباد ت کی دعوت دے رہا ہو او راپنا بڑا پن ظاہر کرنا چاہتا ہے۔
o دوسری بات یہ ہے کہ یہ کوئی نیا نبی نہیں ، بلکہ اس سے پہلے بھی کئی نبی آئے ہیں، اور اس کے بارے میں تمہیں اچھی طرح سے معلوم ہے (لہذا تم ان پر ایمان لے آؤ) ۔
o اس پارے کے آخری صفحہ پر اللہ تعالی نے یہ واضح کیا کہ محمد ﷺ جو دین لے کر آئے ہیں وہ کوئی نیا دین نہیں ہے بلکہ حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر حضرت عیسی علیہ السلام تک تمام پیغمبر یہی دین لے کر آئے تھے [آل عمران:84]
لہذا اس سے اعراض کرنے کی کوئی وجہ نہیں بنتی۔ ساتھ ساتھ یہ بھی واضح کر دیا کہ اللہ کے نزدیک مقبول دین صرف اسلام ہے، اور جو شخص اسلام کے علاوہ کوئی دوسرا دین لے کر آئے گا تو اس کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ [آل عمران:85]
o جن آیات پر اس پارے کا اختتام ہو رہا ہے وہ وعظ وتبليغ اور ڈانٹ ڈپٹ کے لحاظ سے بڑی بليغ آیتیں ہیں۔ان آیات میں بڑے بلیغانہ انداز میں بطور وعظ و نصیحت اہل کتاب کے لوگوں کی تین قسمیں ذکر کی گئی ہیں:
1) جو یہود توبہ کرنے کے بعد اپنی مکمل طور پر اصلاح کرلیں تو اللہ تعالی انہیں بخشنے والا اور معاف کرنے والا ہے[آل عمران:89]
۔2) جو یہود ایمان قبول کرنے کے بعد مرتد ہو گئے اورپھر کفر میں مزید آگے بڑھتے چلے گئے توان کی توبہ ہرگز قبول نہ کی جائےگی[آل عمران:90]۔
3) وہ یہود جوحالت کفرمیں مر گئے ہیں وہ اگر قیامت کے دن زمین بھر سونا بھی بطور فدیہ دیں گے تو ان سے ہر گزقبول نہیں کیا جائے گا اور ان کیلئے دردناک ہے[آل عمران:91] ۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

[1] —  ﵟٱللَّهُ وَلِيُّ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ يُخۡرِجُهُم مِّنَ ٱلظُّلُمَٰتِ إِلَى ٱلنُّورِۖ وَٱلَّذِينَ كَفَرُوٓاْ أَوۡلِيَآؤُهُمُ ٱلطَّٰغُوتُ يُخۡرِجُونَهُم مِّنَ ٱلنُّورِ إِلَى ٱلظُّلُمَٰتِۗ أُوْلَٰٓئِكَ أَصۡحَٰبُ ٱلنَّارِۖ هُمۡ فِيهَا خَٰلِدُونَ (٢٥٧)” ایمان ﻻنے والوں کا کارساز اللہ تعالیٰ خود ہے، وه انہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف نکال لے جاتا ہے اور کافروں کے اولیاء شیاطین ہیں۔ وه انہیں روشنی سے نکال کر اندھیروں کی طرف لے جاتے ہیں، یہ لوگ جہنمی ہیں جو ہمیشہ اسی میں پڑے رہیں گے۔

اس آیت سے ایمان کا سب سے بڑی نعمت اور کفر کا سب سے بڑی مصیبت ہونا بھی معلوم ہوا اور یہ بھی کہ کافروں کی دوستی میں بھی ظلمت ہے۔ معارف القرآن ۱/۶۱۷

[1][1][1] —  مفسرین نے اس بادشاہ کا نام نمرود بتلایا ہےجو بابل کا بادشاہ تھا اور حضرت ابرہیم علیہ السلام کو اس کے سامنے بتوں کو توڑنے کے جرم میں بطور مجرم کے پیش کیا گیا تھا۔اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اس سے جو مناظرہ ہوا اسی کا ذکر اس آیت میں ہے۔

چنانچہ اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے سوال کیا کہ کون ہے تمہارا رب جس کی طرف ہمیں دعوت دیتے ہو؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بڑی سادگی سے جواب دیا کہ میرا رب وہ ہے جو مارتا اور جلاتا ہے۔  نمرود نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بات کا معارضہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ کام تو میں بھی کر سکتا ہوں۔ چنانچہ بقول ابنِ عباس رضی اللہ عنہمااس نے اسی مجلس میں دو قیدی منگائے، ان میں سے جو مجرم تھا اور اس پر قتل ہونے کا فیصلہ تھا  اسے چھوڑ دیا اور جو بری تھا اسے قتل کر دیا۔ حالانکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مقصد یہ تھا کہ میرا رب عدم سے وجود میں لاتا ہے اورپھر انہیں  وجود سے عدم کر دیتا ہے ۔ لیکن جب نمرود نے  کٹ حجتی سے کام لیا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: اچھا تو میرا رب آفتاب کو مشرق سے نکالتا ہے تو اسے مغرب سے نکال کر دکھا۔  یہ سن کر وہ مبہوت ہوگیا اور اس سے کوئی جواب نہیں بن پڑا۔ تفصیل  اور اس پر بہترین معلومات کے لئے دیکھئے قصص القرآن ۱/۱۸۹–۱۹۴

[1] —   ان آیات میں جس واقعہ کی ذکر ہے اس کی تفصیل  اس طرح ہے ” ایک برگزیدہ ہستی  کا اپنے گدہے پر سوار  ایک ایسی بستی سے گزر  ہو اجو بالکل تباہ و برباد اور کھنڈر  ہو چکی تھی،[1]  اور وہاں نہ کوئی مکین باقی رہا تھا اور نہ کوئی مکان۔ مٹےہوئے  چند نقوش باقی تھے، جو اس کی بربادی اور تباہی کے مرثیہ خواں تھے۔ ان بزرگ نے یہ دیکھا تو تعجب اور حیرت سے کہاکہ ایسا کھنڈر اور تباہ حال ویرانہ پھر کیسے آباد ہوگا؟  اور یہ مردہ بستی کس طرح  دوبارہ زندگی اختیار کرے گی؟ یہاں تو کوئی بھی ایسا سبب نظر نہیں آتا۔ یہ ابھی اسی فکر میں غرق تھے کہ اللہ تعالی نے اسی جگہ ان کی روح قبض کرلی۔ سو برس تک اسی حال میں رکھا۔یہ مدت گزر جانے کے بعد اللہ تعالی نے ان کو دوبارہ زندگی بخشی اور ان سے کہا: بتاو!  کتنے عرصہ اس حالت میں رہےہو؟ وہ جب تعجب کرنے پر موت کی آگوش میں سوئے تھے تو دن چڑھے کا وقت تھا، اور جب دوبارہ زندگی پائی تو آفتاب غروب ہونے کا وقت قریب تھا، اس لئے انہوں نے جواب دیا: ایک دن یا اس سے بھی کم۔ اللہ تعالی نے فرمایا: ایسا نہیں ہے، بلکہ تم سو برس تک  اسی حالت میں رہے ہو، اور اب تمہارے تعجب اور حیرت کا یہ جواب ہے کہ ایک طرف اپنے کھانے پینے کی چیزوں کو دیکھو کہ اس میں مطلق کوئی تغیر نہیں آیا، اور دوسری جانب اپنے گدہے کو دیکھو کہ اس کا جسم سڑ کر صرف ہڈیوں کا ڈھانچا رہ گیا ہے، بلکہ ہڈیاں بھی بوسیدہ ہوچکی ہیں۔ اور پھر ہماری قدرت کا اندازہ کرو کہ جس چیز کو چاہا محفوظ رہے تو سو برس کے اس طویل عرصہ میں کسی بھی موسمی تغیرات نے اثر نہ کیا اور محفوظ وسالم رہی، اور جس چیز کے متعلق ارادہ کیا کہ اس کا جسم گل سڑ جائے تو وہ گل سڑ گیا۔ اور اب تمہاری آنکھوں دیکھتے ہی ہم اس کو دوبارہ زندگی بخش دیتے ہیں۔

اور یہ سب کچھ اس لئے کیا تاکہ ہم تم کو اور تمہارے واقعہ کو لوگوں کے لئے نشان بنا دیں، اور تاکہ تم یقین کے ساتھ مشاہدہ کرلو کہ خدائے تعالی  اس طرح مردہ کو زندگی  بخش دیتا  اور تباہ شدہ  شئے کو دوبارہ آباد کر دیتا ہے۔

[چنانچہ  انہوں نے دیکھا کہ بقدرتِ الہی گل سڑ گئے  گدہے کی ہڈیاں ایک دوسرے سے جڑنے لگیں اور دیکھتے ہی دیکھتے گدہے کا ڈھانچا بن کر تیار ہوگیا، اس کے بعد ہڈیوں پر گوشت چڑھنا شرع ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے چند لمحوں میں ہڈیوں پر مکمل گوشت چڑھ گیا۔ پھر آخری مرحلے میں اس میں روح پھونک دی گئی اور آواز کرتے ہوئے وہی گدہا کھڑا ہوگیا۔]

چنانچہ جب اس برگزیدہ ہستی نے قدرتِ الہی  کےیہ نشانات دیکھنے کے بعد شہر کی جانب نظر کی تو اس کو پہلے سے زیادہ آباد  اور با رونق پایا۔ تب انہوں نے اظہارِ عبودیت کے بعد یہ اقرار کیا کہ بلا شبہہ تیری قدرت کا ملہ کے لئے یہ سب کچھ آسان ہے، اور مجھ کو علمِ یقین کے بعد عین الیقین کا درجہ حاصل ہوگیا۔                                                                                               قصص القرآن  ۲/۲۳۶، ۲۳۷

[1] –اس واقعے کا خلاصہ یہ ہے ایک بار حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بعث بعد الموت پرعین الیقین کے حصول کے لئے  اللہ تعالی کے سامنے  یہ خواپش ظاہر کی  کہ وہ یہ مشاہدہ کرلیں کہ آپ مردوں کو کس طرح زندہ کریں گے؟۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس سوال پر اللہ تعالی نے  ان سےپوچھا کہ کیا تجھے میری قدرتِ کاملہ پر یقین نہیں ہے؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: یقین تو ہے لیکن میں  صرف اپنے قلب کو اطمینان  دلانا چاہتا ہوں۔ چنانچہ اللہ تعالی نے ان کی یہ درخواست قبول فرمالی اور انہیں حکم دیا کہ  چار پرندوں کو پکڑیں اور انہیں  اپنے سے اس طرح ہلا ملا لیں کہ  ان میں سے ہر ایک کو اچھی طرح پہچان لیں اور وہ پرندے بھی ان کے بلانے پر ان کے پاس آجائیں۔ پھر ان چاروں پرندوں کو ذبح کریں اور انہیں ٹکڑے تکڑے کرکے اچھی طرح انہیں ایک دوسرے میں گڈ مڈ کردیں۔ پھر ان کی ہڈیوں اور گوشت پوست کو   الگ الگ پہاڑوں پر رکھ دیں، پھر ان کو آواز دیں۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایسا ہی کیا۔ اور جب ان چڑیوں کو بلانے کے لئےآواز دی تو ان کے دیکھتے ہی دیکھتے ہر چڑیے کی ہڈیاں جو اب تک الگ الگ تھیں ایک دوسرے سے جڑنے لگیں، پھر تھوڑی ہی دیر میں وہ زندہ ہوکر ابراہیم علیہ السلام کی طرف دوڑتی ہوئی چلی آئیں۔

[1] — مَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ وَاللَّهُ يُضَاعِفُ لِمَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (261)” جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راه میں خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سودانے ہوں، اور اللہ تعالیٰ جسے چاہے بڑھا چڑھا کر دے اور اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والا ہے۔

امام ابنِ کثیر رحمہ اللہ  لکھتے ہیں کہ یہ اضافہ اس عمل میں اخلاص کی بنیاد پر ہوگا۔

[1] — الشَّيْطَانُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَأْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَاءِ وَاللَّهُ يَعِدُكُمْ مَغْفِرَةً مِنْهُ وَفَضْلًا وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (268)” شیطان تمہیں فقیری سے دھمکاتا ہے اور بےحیائی کا حکم دیتا ہے، اور اللہ تعالیٰ تم سے اپنی بخشش اور فضل کا وعده کرتا ہے، اللہ تعالیٰ وسعت واﻻ اور علم والا ہے۔

آپ جب بھی صدقہ یا اللہ کی راہ می خرچ کا ارادہ کریں پھر محتاجی کے ڈر سے رک جائں تو سمجھ لیں کہ آپ پر شیطان کا دور چل گیا۔

[1] — ﵟيَمۡحَقُ ٱللَّهُ ٱلرِّبَوٰاْ وَيُرۡبِي ٱلصَّدَقَٰتِۗ وَٱللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ (٢٧٦)” اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور صدقہ کو بڑھاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کسی ناشکرے اور گنہگار سے محبت نہیں کرتا۔

اس آیت میں اس طرف صاف  اشارہ ہے کہ سود کا لین دین کرنا کسی مسلمان کا کام نہیں ، بلکہ کافروں کا کام ہے۔

[1] وَإِن كَانَ ذُو عُسۡرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَىٰ مَيۡسَرَةٍۚ وَأَن تَصَدَّقُواْ خَيۡرٌ لَّكُمۡ إِن كُنتُمۡ تَعۡلَمُونَ (٢٨٠)” اور اگر کوئی تنگی والا ہو تو اسے آسانی تک مہلت دینی چاہئے اور صدقہ کرو تو تمہارے لئے بہت ہی بہتر ہے، اگر تم میں علم ہو”۔

زمانہ جاہلیت میں قرض کی ادائیگی نہ ہونے کی صورت میں سود در سود ، اصل رقم میں اضافہ ہی ہوتا چلا جاتا تھا، جیسا آج بھی یہ  رسم رائج ہے۔ جس سے ایک ٹحوڑی رقم بھی ناقابلِ برداشت بوجھ بن جاتی تھی۔ اس کے اصلاح کے لئے قرآن نے یہ توجیہ دی کہ  اولا تو محتاج پر سے قرض کومعاف کر دینا چاہئے،جس سے صدقہ کا ثواب ملے گا، اور  اگر کوئی معاف نہیں کرتا تو اسے مہلت دینی چاہئے۔

یہ دونوں ایسی چیزیں ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ان کی بڑِ فضیلت بیان فرنائی ہے۔  چنانچہ ارشاد نبوی ہے: جس نے قرضدار کو مہلت دی تو  قرض کی میعاد آنے سے پہلے تک اسے ہر دن ایک صدقہ کا ثواب ملے گا، اور قرض کی میعاد  پہنچ گئی ، پھر اسے مزید مہلت دی تو ہر روز دو صدقے کا ثواب ملے گا ۔  الصحیحہ:۸۶ برویات بریدہ  نقلا عن مسند احمد

ایک دوسری حدیث میں ارشادِ نبیﷺ ہے: جس نے اپنے قرض دار کو مہلت دی، یا اس کا قرض معاف کر دیا تو اللہ تعالی قیامت کے دن اسے اپنے سایے میں جگہ دے گا۔ صحیح مسلم:۳۰۰۶ بروایت ابو یسر

[1] —                                                                                                                                                               حضرت ابو مسعود بدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے رات کے وقت سوری بقرہ کی یہ آخری دو آیتیں پڑھیں وہ اس کے لئے کافی ہوں گی۔                                              صحیح بخاری:5008،صحیح مسلم:808                                                                          یعنی  اس عمل کے بدولت اللہ تعالی اس کی حفاظت کرتا   رہے گا۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام نبی کریمﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک انہوں نے اپنا سر اوپر اٹھایا اور کہا : آسمان کا یہ دروازہ آج ہی کھولا گیا ہے ، آج سے قبل کبھی نہیں کھولا گیا ، اس سے ایک فرشتہ اترا  ہے،  یہ  فرشتہ زمین پر اترا ہے، یہ فرشتہ آج سے پہلے کبھی نہیں اترا۔  اس فرشتے نے سلام کیا اورکہا: آپ کو دو نور ملنے کی خوشخبری ہو جو آپ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دئے گئے : ایک فاتحۃ الکتاب (سورہ فاتحہ) ، اور دوسرا سورہ بقرہ کی آخری آیات، آپ ان دونوں میں سے کوئی جملہ بھی نہیں پڑھیں گے مگر وہ آپ کو عطا کردیا جائے گا۔                     صحیح مسلم:806

[1] —   حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سنا: "قرآن پڑھا کرو کیونکہ وہ قیامت کے دن اصحاب قرآن (حفظ وقراءت اور عمل کرنے والوں) کا سفارشی بن کر آئےگا۔دو روشن چمکتی ہوئی سورتیں: البقرہ اور آل عمران پڑھا کرو، کیونکہ وہ قیامت کے دن اس طرح آئیں گی جیسے وہ دو بادل یا دو سائبان ہوں، یا جیسے وہ ایک سیدھ میں اڑتے پرندوں کے دوجھنڈہوں، وہ اپنے ساتھیوں یعنی اہتمام کرنےوالوں کی طرف سے دفاع کریں گی۔  صحيح مسلم:804

حضرت نواس بن سمعان رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن قرآن اور قرآن والے ایسے لوگوں کو لایا جائے گا جو اس پر عمل کرتے تھے، سورہ بقرہ اورسورہ آل عمران اس کے آگے آگے ہوں گی۔”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سورتوں کے لئے تین مثالیں دیں جن کو (سننے کے بعد) میں (آج تک)نہیں بھولا، آپ نے فرمایا: "جیسے وہ دو بادل ہیں یا دو کالے سائبان ہیں جن کے درمیان روشنی ہے جیسے وہ ایک سیدھ میں اڑنے والے پرندوں کی دو ٹولیاں ہیں، وہ ا پنے صاحب (صحبت میں رہنے والے)کی طرف سے مدافعت کریں گی۔”  صحيح مسلم:805، سنن الترمذي:2883

[1] — یہ دو بڑے اہم فتنے ہیں جن سے لوگوں کو سابقہ پڑتا ہے،اور نصاری بھی اس میں مبتلا ہو گئے تھے ۔

شبہات کے فتنوں سے مراد دین کے بنیادی عقائد واحکام کے بارے میں شک وشبہہ میں مبتلا ہونا ہے۔ اور شہوات کے مراد یہ ہے  مادی  و دنیاوی چیزوں کی محبت میں پڑ کر انسان  دینی معاملات میں کوتاہی کرنا شروع کر دے۔

[1] — زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ذَلِكَ مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَاللَّهُ عِنْدَهُ حُسْنُ الْمَآبِ (14)” مرغوب چیزوں کی محبت لوگوں کے لئے مزین کر دی گئی ہے، جیسے(1) عورتیں ،(2)اور بیٹے، (3) اور سونے اور چاندی کے جمع کئے ہوئے خزانے ، (4) اور نشاندار گھوڑے، (5) اور چوپائے, (6) اور کھیتی، یہ دنیا کی زندگی کا سامان ہے اور لوٹنے کا اچھا ٹھکانا تو اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے”۔

[1] —  شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَائِكَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (18)” اللہ تعالیٰ، فرشتے اور اہل علم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور وه عدل کو قائم رکھنے واﻻ ہے، اس غالب اور حکمت والے کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں”۔

علمِ توحید اور اہلِ توحید کی یہ بڑی فضیلت کہ  خود اللہ تعالی اس پر گواہ بن رہا ہے،اور اپنے خاص بندوں کو بھی اس پرگواہ بنا رہا ہے۔ پھر ظاہر بات ہے کہ گواہی کے لئے علم ویقین کی ضرورت ہے، لہذا جو شخص  توحید میں اس مقام کو نہ پہنچ سکے وہ اہلِ میں شامل ہونے کے لائق نہیں ہے۔ المجالس القرآنیہ ص: ۷۶، ۷۷

 

[1] — ﵟقُلۡ أَطِيعُواْ ٱللَّهَ وَٱلرَّسُولَۖ فَإِن تَوَلَّوۡاْ فَإِنَّ ٱللَّهَ لَا يُحِبُّ ٱلۡكَٰفِرِينَ (٣٢)” کہہ دیجئے! کہ اللہ تعالیٰ اور رسول کی اطاعت کرو، اگر یہ منھ پھیر لیں تو بے شک اللہ تعالیٰ کافروں سے محبت نہیں کرتا”۔

[1] — یہ وہ پہلی اور آخری جگہ ہے جہاں حضرت مریم کی والدہ  کا ذکر آیا ہے،ان کی دعا اور مریم کو اللہ کے گھر کی خدمت کے لئے وقف کرنے کا ذکر ہے۔

ان آیات  کی روشنی میں واقعے کا خلاصہ یہ ہے کہ ” کہاجاتا  ہے کہ حضرت مریم کی والدہ جن کا نام   حنہ بتلایا جاتا ہے، لا ولد تھیں، انہیں کوئی اولاد نہیں ہوتی تھی۔ اتفاق سے ایک دن ان کی نگاہ ایک چڑیا پر پڑی جو اپنے بچے کے منہ میں چوگا دے رہی تھی۔ یہ منظر دیکھ کر ان کا دل بھر آیا، دل میں اولاد کی شدید خواہش  پیدا ہوئی اور فورا اللہ سے دعا کرنے لگیں کہ اے اللہ! مجھے بھی کوئی  اولاد عطا فرما۔ دل کی گہرائی سے نکلی یہ دعا قبول ہوئی اور چند ہی دن میں حمل کے آثار ظاہر ہوگئے،  توانہوں نے  یہ منت مان لی کہ میرا یہ بچہ  آزاد، اور  بیت المقدس کی خدمت کے لئے     وقف ہوگا۔ نیز اللہ تعالی سے یہ دعا بھی کی کہ اے اللہ ! میں نے اپنے پیٹ والے بچے کی  منت مان لی  ہے، میری نیت سے تو خوب واقف ہے ، لہذا اسے  قبول فرما۔

پھر جب ولادت ہوئی  اور معلوم ہوا کہ یہ نو مولود ایک بچی ہے تو  افسوس سے بولیں: پروردگار!   یہ تو لڑکی پیدا ہوئی ہے، اور بیت المقدس کی خدمت کے لئے تو لڑکا موزوں تھا۔ کیونکہ لڑکی میں نہ تو لڑکے جیسی طاقت ہوتی ہے اور نہ وہ تیزی ہوتی ہے جو لڑکوں میں ہوتی ہے۔پھر یہ کہتے ہوئے اپنے آپ کو تسلی دیتی ہیں کہ اللہ کو خوب معلوم ہے کہ میرے بچی پیدا ہوئی ہے۔ اے اللہ !  میں نے اس کا نام مریم رکھا ہے اور اس کو اور اس کی ذریت کو  شیطان کے شر سے میں تیری پناہ میں دیتی ہوں۔

اللہ تعالی   نے ان کے اخلاص کی قدر کی ، اس بچی کو بیت المقدس کی خدمت کے لئے قبول فرمالیا، اور اس خاندان کو اعزاز بخشا اور بڑی برکتوں  سے نوازا۔

پھرجب مریم اس عمر کو پہنچیں کہ اب وہ دوڑ دھوپ کرسکیں اور بیت المقدس میں رہ سکیں تو انہیں  بیت المقدس کے حوالے کر کے ان کی رعایت وحفاظت ان کے خالو، یا ان کے بہنوئی حضرت زکریا علیہ السلام کے  سپرد کر دی گئی۔ حضرت زکریا نے حضرت مریم کو بیت امقدس کے ایک کمرے میں رکھ دیا۔ نصاری اس قسم کے کمروں کو محراب کا نام دیتے تھے،جو عبادت کے لئے خاص ہوتا تھا۔ حضرت مریم اس میں مشغولِ عبادت رہنے لگیں۔ کبھی کبھار اطمینان اورنگرانی کے لئے حضرت مریم کے پاس جاتے تو دیکھتے کہ ان کے پاس کھانے کے لئے تازہ  پھل اور بے موسم میوے موجود ہیں۔ یہ دیکھ کر حضرتِ زکریا کو تعجب ہوتا  کہ آخر  مریم  کے پاس یہ پھل کہاں سے آتے ہیں؟ بالآخر ایک دن   دریافت کیا کہ اے مریم! یہ پھل تم کو کہاں  سے ملتے ہیں؟ حضرت مریم نے جواب دیا کہ یہ میرے رب کا دیا ہوا رزق ہے ۔ اور جسے چاہتا ہے اسی طرح غیب سے روزی دیاتا ہے۔

اسی وقت حضرت زکریا علیہ السلام کے دل میں یہ خیال آیا کہ جو اللہ اس بات پر قادر ہے کہ بے موسم پھل دے سکتا ہے۔  وہ میری بانجھ بیوی کو اولاد بھی دے سکتا ہے۔ چنانچہ اپنی جائے عبادت محراب میں تشریف لے گئے اور اللہ تعالی سے اپنی اولاد کے کے لئےدعا کی۔ اگلی آیات میں حضرت زکریا کی اسی دعا کا ذکر ہے۔  ل تمہیں کہاں سے ملتے ہیں؟

 

اس واقعہ سے  علماء نے بعض فقی مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ۱-کسی دینی مقصد کے لئے نذر مانی جا سکتی ہے۔      ۲- نو مولودبچے کا نام والدہ بھی رکھ سکتی ہے۔ ۳- اپنے بچے پر والدہ کو بھی حقِ ولایت حاصل ہے ، یہ الگ بات ہے کی باپ کی ولایت مقدم ہے۔          ۴- اپنے عملیِ صالح کا وسیلہ لینا مشروع ہے۔  ۵- اولاد کے لئے دعا کی مشروعیت۔ وغیرہ

[1] — حضرت عیسی علیہ السلام کے واقعے سے ہمیں یہ سبق بھی ملتا ہے کہ نبیوں کے معجزات اور ولیوں کی کرامات ان کی اپنی طاقت سے نہیں ہوئے،بلکہ اللہ کی عطا ہیں،کیونکہ حضرت عیسی علیہ السلام نے پرندوں میں پھونک مارنے ،مادر زاد  نابینا او رکوڑھی کو درست کرنے اور مردے کو زندہ  کرنے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ میں یہ سب کام اللہ کے حکم سے کرتا ہوں۔أَنِّي قَدْ جِئْتُكُمْ بِآيَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ أَنِّي أَخْلُقُ لَكُمْ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَأَنْفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللَّهِ وَأُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ وَأُحْيِ الْمَوْتَى بِإِذْنِ اللَّهِ وَأُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَأْكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِكُمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (49) "اور وه بنی اسرائیل کی طرف رسول ہوگا، کہ میں تمہارے پاس تمہارے رب کی نشانی ﻻیا ہوں، میں تمہارے لئے پرندے کی شکل کی طرح مٹی کا پرنده بناتا ہوں، پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وه اللہ تعالیٰ کے حکم سے پرنده بن جاتاہے اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے میں مادرزاد اندھے کو اور کوڑھی کو اچھا کر دیتا ہوں اور مرددوں کو زندہ کرتا ہوں اور جو کچھ تم کھاؤ اور جو اپنے گھروں میں ذخیره کرو میں تمہیں بتا دیتا ہوں، اس میں تمہارے لئے بڑی نشانی ہے، اگر تم ایمان ﻻنے والے ہو”۔

[1] — آیات۴۶ سے ۵۰ تک حضرت عیسی علیہ السلام کے متعدد معجزات کا ذکر ہوا ہے۔ ۱- بلا باپ کے ان کی پیدائش۔         ۲- ماں کی گود میں گفتگو۔

۳- چڑیوں کی شکل بنا کر اس میں پھونک مارنے سے چڑیاں بن جانا۔ ۴- کوڑھیوں کا اچھا کرنا اور مادر زاد نابینا کو بینا کر دینا۔     ۵- مردوں کو زندہ کرنا۔

۶- وہ لوگ اپنے گھروں میں کیا کھاتے ہیں اور کیا ذخیرہ کر کے رکھتے ہیں اس کی خبر دے دینا۔ ۷- تورات کے بعض مسخ شدہ تعلیم کا احیاء۔

[1] — اس کا ذکر صحیح بخاری کی اس حدیث میں بھی موجود ہے۔حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نجران کے  عاقب اور سید  خدمت نبوی میں حاضر ہوئے ۔ ان کا مقصد نبی کریمﷺ سے مباہلہ کرنا تھا ، لیکن جب آپﷺ اس کے لئے اس حکم الہی کے مطابق تیار ہوئے تو وہ باہم ایک دوسرے سے کہنے لگےکہ ایسا نہ کرو ، کیونکہ اگر وہ سچے نبی ہوئے  اور ہم نے ان سے مباہلہ کیا تو اللہ کی قسم  ! ہم اور ہماری ذریت کبھی بھی کامیاب نہ ہوں گے۔لہذا ان دونوں نے نبی کریمﷺ سے کہا: آپ ہم سےبطور جزیہ جن چیزوں  کا مطالبہ کر رہے ہیں ہم اسے مانتے ہیں اور دینے کے لئے تیار ہیں۔  لہذا آپ  ہمارے ساتھ کسی امانتدار کو بھیجئے، اور صرف اسی کو بھیجئے جو حقیقت میں امانتدار ہو۔ آپﷺ نے فرمایا: میں یقینا تمہارے ساتھ ایسے ہی امانتدار شخص کو بھیجوں گا جو واقعۃ امانتدار ہے۔ یہ سن کر تمام صحابہ  اس کے لئے خواہش مند رہے، لیکن آپﷺ نے فرمایا: اے ابو عبیدہ بن الجراح  ! اٹھو۔ جب وہ کھڑے ہوئے تو آپﷺ نے فرمایا: «هَذَا أَمِينُ هَذِهِ الأُمَّةِ»یہ اس امت کا امین ہے۔

صحیح بخاری:4380

نوٹ۔ قرآن اور حدیث میں جس مباہلے کا ذکر ہے اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ  فریقن کھلے میدان میں مل کر رب سے یہ دعا کرتے ہیں کہ جو سچا ہے اللہ تعالی اسے سرخرو کرے اور جو جھوٹا ہے اسے اسی دنیا میں رسوا اور ذلیل کرے۔

[1] — اگر دیکھیں تو آج بھی دشمنانِ اسلام یہ حربہ استعمال کر رہے ہیں، چنانچہ کچھ  لوگوں کو  اس کے لئے تیار کیا جاتا ہے ، پھر انہیں میڈیا کے سامنے  لا کر اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کیا جاتا ہے۔