*تیسواں پارہ(عم یتسآءلون)* (30)

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سلسلہ خلاصہ معانی قرآن مجید
از قلم : شیخ مقصود الحسن فیضی حفظہ اللہ
*تیسواں پارہ(عم یتسآءلون)*

اس پارے میں کل ۳۷ سورتیں ہیں؛ پہلی سورت النبا او ر آخری سورت الناس ہے۔

سورت النبأ
یہ سورت مکی ہے۔
مکی سورتوں کی طرح اس کا موضوع بھی آخرت اور قیامت ہے۔
بلکہ اس میں قیامت کی ہولناکی اس انداز میں بیان کی گئی ہےکہ اس سے راتوں کی نیند اڑ جائےگی۔
o ابتدائی پانچ آیتوں میں قیامت کے منکرین کے اس سوال یا اُن کی باہمی چہ میگوئیوں کا جواب ہے۔ کہ جس بہت بڑی خبر سے متعلق یہ گفتگو کر رہے ہیں، وہ عنقریب ظاہر ہو جائے گی تو اس وقت وہ جان لیں گے۔
o آیت6تا16میں اللہ کی متعدد قدرتوں اور اس جہان میں صرف اسی کے انتظام کے حوالے سے یہ تنبیہ کی گئی ہے کہ اس عظیم دن کی آمد یقینی ہے۔
چنانچہ اپنی قدرت وتصرف کے ۹ اہم مظاہر کا ذکر کیا ہے جو سب کے سب اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ قیامت کی آمد کوئی بعید از امکان نہیں ہے۔
1) زمین کو فرش اور رہائش کے قابل بنایا۔
2) پہاڑوں کو زمین کے لئے میخیں بنا دینا۔
3) انسانوں کے لئے جوڑا بنایا، یا ہر چیز کی دو دو صنفیں رکھیں۔
4) نیند کو پیدا کیا جو راحت کا سبب بنتی ہے۔
5) رات کو پردہ بنایا۔
6) دن کو روشن بنایا تا کہ روزی کمانےکا کام آسانی سے ہوسکے۔
7) تہ بتہ سات آسمان بنائے۔
8) پھر اس میں سورج وچاند کو چلایا۔
9) غلہ وسبزہ اگانے کے لئے آسمان سے بارش نازل فرمائی۔
آیت ۱۶—۲۰ یہ چیزیں جہاں ایک طرف اللہ کی قدرت کاملہ پر دلیل ہیں ، وہیں یہ چیزیں اللہ کی شانِ ربوبیت کا مظہر بھی ہیں۔تو کیا یہ چیزیں اللہ کی ربوبیت اور دوبارہ پیدا کرنے پر اس کی قدرت کی دلیل نہیں ہیں؟یقینا ہیں۔ اس لئے اس کے فورا بعد فرمایا کہ ﵟإِنَّ يَوۡمَ ٱلۡفَصۡلِ كَانَ مِيقَٰتاً (١٧)”یقینا فیصلے کا دن مقرر ہے”۔
o پھر اس دن کی بعض ہولناکیوں کا ذکر کیا کہ جب صور پھونکا جائے گا تو آسمان کی توڑ پھوڑ کی یہ کیفیت ہوگی ہر طرف اس میں راستہ ہی راستہ دکھائی دے گا۔ پہاڑ جیسی بھاری مخلوق کی یہ کیفیت ہوگی کہ وہ ایک سراب نظر آئے گا۔
o آیت ۲۱تا30میں قیامت کی ہولناکیوں اور جہنم کے عذاب کا ذکر اس انداز سے ہوا ہے کہ شاید ہی کسی اور جگہ ہوا ہو۔جیسے وہ اس میں مدتوں (جس کی کوئی انتہا نہیں)پڑے رہیں گے۔ مزید ان سے کہا جائے گا تم اس عذاب کا مزہ چکھو،ہم تمہارے لئے عذاب میں مسلسل اضافہ کر تے رہیں گے۔
یعنی جس طرح تم دنیا میں اپنے کفر و انکار میں اضافہ کرتے چلے گئے اور اگر جبرا تمہیں موت نہ آتی تو اور بڑھتے ہی رہتے ۔لہذا آج اس کی جزا یہ ہے کہ تمہارا عذاب بڑھتا ہی رہے گا [معارف القرآن:ج:8،ص:658] ۔
o آیت31تا35میں جنت اور جنتیوں کی نعمتوں کا ذکر ہے ۔ان کے حسنِ عمل کے عوض انہیں کامیابی حاصل ہوگی جوباغات، حوروں اور چھلکتے جاموں کی شکل میں انہیں حاصل ہوگی۔ نیز وہاں کاماحول بھی بالکل سنجیدہ ہوگا، نہ شورو شرابا، گالی گلوچ اور نہ چھٹ اور دھوکہ بازی ۔
o آیت نمبر38سے سورت کے آخر تک کلام کا انداز ناصحانہ ہے۔ کہ وہ دن ایسا ہوگا کہ اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی زبان نہ کھولے گا حتی کہ حضرت جبریلِ امین تمام فرشتوں کے ساتھ دست بستہ کھڑے ہوں گے اور اس انتظار میں ہوں گے کہ انہیں اجازت ملے تو وہ کچھ بولیں۔ پھر اگر کسی کو اجازت ملی اور وہ بولا بھی تو کسی کی مجال نہ ہوگی کہ حق کے علاوہ کچھ بولے۔
o لہذا اس دن کی تیاری کرو، وہ دن بہت قریب ہے،اس کا عذاب بہت ہی سخت ہے،اس دن ہر شخص اپنا کارنامہ اپنے سامنے دیکھے گا۔
o اس دن ہولناکی کا یہ عالم ہوگا کہ کافر یہ تمنا کرے گا کہ کاشکہ میں مٹی ہوتا، یعنی پیدا ہی نہ کیا گیا ہوتا، تاکہ یہ برے دن نہ دیکھنے پڑتے ۔

سورت النازعات
یہ سورت مکی ہے۔
مکی سورتوں کی طرح اس کا موضوع بھی عقیدہ ہے ،خصوصا عقیدہ آخرت ۔ نیز اس میں عقیدہ توحید اورعقیدہ نبوت کا بھی ذکر آیا ہے ۔
o ابتدائی پانچ آیتوں میں اللہ تعالی نے ان فرشتوں کی پانچ صفتوں کی قسم کھائی ہے جن کا تعلق انسان کی موت او راس کی روح قبض کرنے سے ہے۔
پہلی صفت۔ کافروں کی روح قبض کرنے کی جس میں سختی زیادہ ہو تی ہے۔ آیت نمبر:۱
دوسری صفت۔ مومنوں کی روح قبض کرنے کی جس میں نرمی اور آسانی ہوتی ہے۔آیت نمبر:۲
تیسری صفت۔ مومنوں کی روح کو تیزی سے اوپر لے جانے کی ۔آیت نمبر:۳
چوتھی صفت۔ روحوں کو تیزی سے ان کی منزل تک پہنچانے کی۔آیت نمبر:۴
پانچویں صفت۔ معاملات کی تدبیر کرنے کی۔آیت نمبر: ۵
قسم اس بات پر کھائی گئی ہے کہ قیامت کی آمد برحق ہے، اور یقینا تم اٹھائے جاوگے۔
o آیت5تا۹میں قیامت اور اس دن کی ہولناکیاں یاد دلائی گئی ہیں، اور کفار کے عقیدے کی تردید ہے جو اسے ایک نا ممکن چیز تصور کرتے تھے۔ کہ یہ اس دن ہوگا جس دن پہلی بار صور پھونکا جائے گا تو اس سے ایک خوفناک زلزلہ آجائے گا۔ پھر جب دوسری بار صور پھونکا جائے گا(تو لوگ اس حال میں اٹھ کھڑے ہوں گے) کہ دل دہلے ہوئے ہونگےاورآنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی۔
o آیت نمبر ۱۰—۱۴ میں کافروں اور شک میں پڑے لوگوں کے اعتراض کو نقل کرکے اس کا جواب دیا گیا ہے۔
o ان کا کہنا تھا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ جب ہم بوسیدہ ہڈی بن جائیں گے تو ہم دوبارہ پہلی حالت کی طرف پلٹائے جائیں گے ؟ پھر مذاق اڑاتے ہوئے کہتے: یہ تو بڑے گھاٹے کا سودا ہوگا۔
اس کے جواب میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اس دن کی آمد کو تم لوگ خواہ کتنا ہی مشکل سمجھو، اسے ایک دن آنا ہی آنا ہے ۔ یہ تو میری طرف سے ایک چیخ آنے کی دیر ہے کہ سب لوگ ایک میدان میں جمع ہو جائیں گے ۔
o آیت15تا25میں ظالم فرعون اور کی ہلاکت کا ذکر آیاہے۔ جس کا مقصد منکرین بعث کو خبر دارکرنا تھا کہ فرعون نے اس دن کی آمد کو بعید سمجھا اور ہمارے نبی موسی علیہ السلام کی تکذیب کی۔ حضرت موسی علیہ السلام نے اسے توحید کی طرف بلایا، اللہ سے ڈرنے کی تاکید کی ،اور اسے بڑے بڑے معجزات دکھلائے ،لیکن اس نے اکڑ دکھلائی او ر اپنے جتھے کو جمع کرکے موسی علیہ السلام سے مقابلہ کرنا چاہا۔بلکہ یہاں تک دعوی کر بیٹھاکہ تمہارا سب سے بڑا رب تو میں خودہوں ۔نتیجۃ اللہ تعالی نے اسے دنیا کے عذاب یعنی سمندر میں ڈبو دیا اور آخرت کے عذاب میں گرفتار کر لیا ۔
o پھر دھمکی کے انداز میں متنبہ کیا گیا کہ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَعِبۡرَةً لِّمَن يَخۡشَىٰٓ (٢٦)” بیشک اس میں اس شخص کے لئے عبرت ہے جو ڈرے۔
o آیت26تا33 پھر وہی موضوع چھیڑا گیا ہے جس سے سورت کی ابتدا ہوئی تھی یعنی وقوع قیامت کے دلائل۔
o جو لوگ قیامت کے وقوع کوبعید تصور کرتے ہیں ان سے ایک لا جواب سوال کیا ہے کہ یہ بتلاو کہ کیا تمہیں دوبارہ وجود میں لانا ایک دشوار امر ہے یا آسمان کاپیدا کرنا؟ تم اس آسمان کی بلندی ، اس کی خوصورت بناوٹ ، اور پھر اسی آسمان میں چاندسورج رکھ کر اس کے ذریعے رات ودن کی آمد کا نظام رکھا۔ تمہارے آرام کے لئے رات کا معاملہ تاریک وڈھکا ہوا رکھا ،اور امورِ زندگی میں آسانی کے لئےدن کا معاملہ روشن اور کھلا ہوا رکھا ۔
o نیز یہ وسیع زمین جو تمہارے رہنے کے لئے بچھا دی گئی ، جس میں تمہاری معیشت وضرورت کا ہر سامان رکھا، پھر اس زمین پرپہاڑوں کو بطور میخ کے گاڑ دیا ،تا کہ اس میں تمہارے لئے زندگی گزارنا آسان ہوجائے۔
o آیت34تا42میں قیامت پر ایمان لانے والوں اور اس کے منکرین کا انجام بیان ہوا ہے۔ فرمایا:جس دن بڑا ہنگامہ برپا ہوگا تو اس دن ہر انسان اپنے اپنے کارنامے کو یاد کرے گا او رخوف کا عالم یہ ہوگا کہ جہنم کو حشر کے میدان میں لا کھڑا کیا جائے گا۔
o پھر جہنم کا حقدار کون اور اس سے نجات پانے والا کون ہے؟دونوں کی صفات بیان ہوئی ہیں۔ دو صفتیں اہل جنت کی او ر دوصفات اہل جہنم کی۔
اہل جہنم کی صفتیں یہ ہیں۔
1) اللہ اور اس کے رسول کے احکام کے بارے میں عناد سے کام لینا۔ یعنی اس کی پابندی نہ کرنا۔
2) دنیا کو آخرت پر ترجیح دینا۔ یعنی جہاں کسی ایسے کام کاموقع ہو جس میں دنیا او رآخرت کا تقابل ہو تو وہاں اس عمل کو ترجیح دیتا تھا جس میں دنیا کا فائدہ ہوتا ہو۔
اور اہل جنت کی دو صفتیں یہ بیان ہوئی ہیں۔
1) اللہ کے سامنے حاضری اور جوابدہی کا خوف ۔
2) اپنے نفس کو قابو میں رکھا او ر خواہشات سے پرہیز کیا۔ گویا جنت کا راستہ اللہ کا خوف اور خواہشات کی مخالفت میں ہے۔
o سورت کے آخر میں کفار کے اس معاندانہ سوال کا جواب ہے جوآپ ﷺ سے قیامت کی معین تاریخ اور وقت بتانے پر اصرار کرتے تھے۔
o حاصل جواب یہ ہے کہ حق تعالی نے اپنی حکمت بالغہ کے تحت اس کا علم اپنی ذات تک مخصوص رکھا ہے،اس کی اطلاع کسی فرشتے یا رسول کو نہیں دی گئی ہے۔اس لئے یہ مطالبہ ہی لغو ہے[معارف القرآن:ج:8،ص:668]۔لوگوں کو تو چاہئے کہ اس دن کا خوف رکھیں،اس کی تیاری کریں اور یاد رکھیں کہ جسے یہ بہت دور سمجھ رہے ہیں جب وہ آئے گا تو انہیں ایسا محسوس کہ ہم تو دنیا میں صرف اتنی ہی مدت رہ کر آئے ہیں جتنی مدت دن کے اگلے یا پچھلے حصے کی ہوتی ہے۔

سورت عبس
یہ سورت مکی ہے۔
سورت کا موضوع عقیدہ آخرت و رسالت ہے ۔
o ابتدائی دس آیتیں ایک جلیل القدرنابینا صحابی حضرت عبد اللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ سے متعلق ایک واقعہ کے بعد نازل ہوئی ہیں ۔
o اس موقعہ پر نبی ﷺ کو یہ تنبیہ اور محبت بھرا عتاب ہے کہ وہ لوگ اگرچہ غریب ہوں وہ آپ کی توجہ اور تربیت کے زیادہ حقدار ہیں جو دین کی رغبت رکھتے ہیں،البتہ وہ لوگ جو دین سے بیزار ہیں اور آپ کی بات پر لبیک کہنے کے لئے تیار نہیں ہیں انکے پیچھ پڑ کر ان کی ناز برداری کی ضرورت نہیں ہے۔
o آیت11تا15میں قرآن کی عظمت و فضیلت کا بیان ہے کہ یہ قرآن ایک نصیحت ہے ،جو اس سے نصیحت حاصل کرنا چاہتا ہے وہ کر لے۔
o یہ قرآن جن لوگوں کے پاس ہے وہ بڑے ہی عالی مقام اور بلند مرتبہ ہیں،اس پر کسی شک وشبہے کی گنجائش نہیں ،یہ ایسے لکھنے والوں یا حاملین کے ہاتھوں میں ہے جو معزز و مکرم ہیں ۔
o آیت16تا23میں جنس انسان کی ناشکری کا بیان ہے جو وہ اپنے خالق کے ساتھ کرتا ہے،حالانکہ اس کے خالق و مالک نے اسے ایک قطرے سے پیدا کیا،اس کی تقدیر بنائی ،اس کے لئے ماں کے پیٹ سے نکلنے او ردنیا میں رہنے کے راستے آسان کئے۔پھر وفات کے بعد اسے قبر میں دفن ہونے کی نعمت سے نوازا۔ پھر جب چاہے گا اسے دوبارہ اٹھالے گا۔
o جس انسان پر رب کی اتنی نعمتیں ہوں اسے تکبر و غرور زیب نہیں دیتا ، بلکہ وہ تو سخت عذاب کا مستحق ٹھہرتا ہے۔
o آیت24تا32میں ان نعمتوں کے ذکر کے بعد جن کا تعلق انسان کی ذات او ر جسم سے ہے، ان نعمتوں کا ذکر ہوا جن کا تعلق انسان کے لئےسامانِ زندگانی سے ہے ۔ یعنی بارش نازل کرنا، پھر زمین کو پھاڑ کر مختلف قسم کے پھل اور چاروں کو پیدا کرنا۔
o یہ چیزیں جہاں ایک طرف ہمارے اوپر اللہ کی بے شمار نعمتوں کی دلیل ہیں، وہیں دوسری طرف اس کے کمالِ قدرت کی نشانی اور دوبارہ پیدا کرکے اٹھانے پر بھی دلیل ہیں۔
o آیت نمبر33سے سورت کے آخر تک قیامت کی ہولناکی کا بیان ہے ۔ کہ اس دن انسان پر نفسا نفسی کا عالم طاری ہو گا حتی کہ بندہ اس دنیا میں جن کے اوپر سب سے زیادہ بھروسہ کرتا تھا، جیسے بھائی،باپ او ربیوی بچے وغیرہ ان سب سے بھاگے گا،کسی کو کسی کی فکر نہ ہو گی۔
o اس دن جس نے اللہ کی نعمتوں کی قدر کی ہوگی وہ خوش و خرم اور ہشاش بشاش دکھائی دے گا او رجس نے نعمتوں کا غلط استعمال کرکے کفر و فجور کا ارتکاب کیا ہوگا تو ان کے چہرے غبار آلود ہوں گے اور سیاہی چڑھی ہو گی۔

سورت التکویر
یہ سورت مکی ہے۔
اس سورت کا موضوع عقیدہ آخرت ا ور رسالت ہے۔
o ابتدائی تیرہ آیتوں میں قیامت کے بارے میں ان تبدیلیوں کا ذکر ہے جس کی وجہ سے کائنات کی ہر چیز متاثر ہو گی۔
o پہلی چھ آیتوں میں اس کائنات کی اس کیفیت کا ذکر ہے جو پہلی بار صور پھونکے جانے سے پیدا ہو گی ۔ سورج لپیٹ دیا جائے گا ،چاندکی روشنی چھن جائے گی ،پہاڑاڑا دئے جائیں گے اور سمندر بھرکا دئے جائیں گے۔وغیرہ
o انسانوں پر وہ کیفیت طاری ہو گی کہ وہ اپنی محبوب ترین چیز سے بھی بے اعتنائی برتے گا۔
o پھر آیت7تا13میں اس کیفیت کا بیان ہے جو دوسری بار صور پھونکنے کے ساتھ ظاہرہوگی ۔ جس دن نیکوں او ربروں کا گروہ الگ الگ ہو جائے گا،سب کا اعمال نامہ سامنے رکھ دیا جائے گا،جرائم کی باز پرس ہو گی۔حتی کہ نو مولود بچی جسے بچی ہونے کے جرم میں زمین میں گاڑ دیا گیا ہوگا اس سے بھی سوال ہوگا، سب کے نامہ اعمال سامنے کھول کر رکھ دئے جائیں گے۔ پھر اس دن ہر شخص کو اپنی حقیقت معلوم ہو جائے گی۔
o آیت15تا25میں پیچھے ہٹنے والے،جاری رہنے والے اور چھپ جانے والے مختلف قسم کے تاروں کی قسم کھا کر،رات کے رخصت ہونے اور صبح کے روشن ہونے کی قسم کھا کر اللہ تعالی نے یہ واضح کیا ہے کہ یہ قرآن جسے محمد ﷺ تمہارے پاس لے کر آئے ہیں یہ اسی طرح کی ایک حقیقت ہے جیسے رات کے بعد صبح کی روشنی حقیقت ہے۔یہ کسی مجنون کی بڑ نہیں ہے ،بلکہ ایک صاحبِ مقام فرشتے کے ذریعے ہمارے نبی پر نازل ہونے والا پیارا کلام ہے۔
o اس کے بعد آیت نمبر26سے سورت کے آخر تک رسول کے مخالفین کو دھمکی کے انداز میں تنبیہ کی گئی ہے اور اس کتاب پر ایمان لانے کی دعوت ہے کہ اتنی واضح حقیقت کے باوجود تم کدھر بھٹک رہے ہو؟یہ قرآن تمہارے اور ساری دنیا کے لئے نصیحت بن کر آیا ہے۔ لہذا جو نصیحت حاصل کرنا چاہے وہ نصیحت حاصل کر لے اور یاد رہے کہ اللہ تعالی اسی کو یہ نصیحت دیتا ہے جو اس سے مستفید ہونے کا جذبہ رکھتا ہے۔

سورت الانفطار
یہ سورت مکی ہے۔
اس سورت کا موضوع بھی عقیدہ خصوصا عقیدہ آخرت ہے۔
سورۃ التکویر کی طرح یہ سورت بھی قیامت کی ہولناکیوں اور اس سے متعلق انسانی غفلت کے بیان پر مشتمل ہے۔
o ابتدائی پانچ آیتوں میں پہلی بار صور پھونکے جانے کے بعد اس کائنات میں کیا ہلاکت خیز تبدیلیاں ہوں گی ،ان کا ذکر ہے۔
جیسے آسمان کا پھٹ پڑنا،تاروں کا جھڑ جانا،سمندورں کا بہہ پڑنا او راس میں آگ کا لگ جانا ، قبروں کا اڈھیڑ دیا جانا،وغیرہ۔
پھر جب ایسا ہوگا اور اس کے بعد حساب کی گھڑی آئے گی تو انسان اپنا اگلا پچھلا سارا کارنامہ دیکھ لے گا۔
o آیت6تا8میں انسان کی تخلیق میں جو اللہ کی نعمتیں ہیں ، ان کا ذکر ہے۔جیسے خوبصورت شکل ،ہر عضو ایک مناسب حساب سے اور ہر عضو کے مادے کو ایک اعتدال سے رکھنا وغیرہ۔
ان نعمتوں کو یاد دلا کر متنبہ کیا گیا کہ جو رب اس قدر کریم ہے اس کے بارے میں دھوکے میں کیوں پڑے ہو؟ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ان تمام نعمتوں سے متعلق باز پرس نہ ہو گی؟ ۔
o آیت9تا12میں بڑے زور دار انداز میں انسان کو غور کرنے کی دعوت دی ہے کہ تمہاری بھول کا بنیادی سبب یہ ہے کہ تم آخرت کو بھولے ہوئے ہو، جبکہ اس دن کی باز پرس کے لئے ہم تمہارے تمام اعمال اپنے فرشتوں کے ذریعے لکھ رہے ہیں۔وہ فرشتے ایسے ہیں کہ ان کے ریکارڈ پر کسی قسم کا شبہہ نہیں کیا جا سکتا۔وہ شریف ہیں جن سے خیانت کی توقع نہیں ہے،وہ ان تمام باتوں کا علم رکھتے ہیں جو تم کرتے ہو، لہذا اس میں کسی بھول کی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔
o آیت13تا16میں اس دن پر ایمان رکھنے والوں اور اسے بھولے ہوئے لوگوں کے انجام کا بیان ہے کہ نیک لوگ نعمتوں میں ہوں گے او ربد لوگ آگ کے شعلوں کے حوالے کئے جائیں گے،جس سے وہ کبھی نکل نہ پائیں گے۔
o آیت نمبر17سے سورت کے آخر تک اس دن کی ہولناکی کا بیان ہے کہ اس دن فیصلہ کا حق صرف او ر صرف اللہ کو ہوگا، حکومت صرف اسی کی ہو گی او ر ہر انسان ہر قسم کی قوت و صلاحیت سے محروم ہو گا۔

سورت المطففين
یہ سورت مکی ہے۔
اس سورت کا بنیادی موضوع عقیدہ آخرت کو ثابت کرنا ہے ۔
o سورت کی ابتدائی چھ آیتوں میں ایک اخلاقی برائی یعنی ناپ تول میں کمی کی اصلاح پر زور دیا ہے ۔کیونکہ اس سے بہت سی دیگر برائیاں جنم لیتی ہیں۔اس بڑائی کا اصل سبب یہ ہوتا ہے کہ ایسی حرکت کرنے والے لوگ آخرت کے دن پر ایمان نہیں رکھتے جس دن اللہ کے حضور پیش ہونا ہوگا۔
o آیت7تا17تک اس دن کی تکذیب کرنے والوں کی علامات اور ان کا انجام بیان ہوا ہے۔
ان کی علامات یہ ہیں کہ وہ ظالم اور گناہ گار ہوتے ہیں،قرآن اور وحی پر ایمان نہیں رکھتے، بلکہ اسے پہلے لوگوں کی کہانیاں بتاتے ہیں ۔ وہ لوگ سخت دل ہوتے ہیں۔ ان پر نصیحت کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔
o پھر ان کا انجام بیان ہوا ہے کہ ان کے نام سجین(قید خانے) میں درج کر دئے گئے ہیں۔قیامت کے دن یہ لوگ دیدار الہی سے محروم ہوں گے اور جہنم ان کا ٹھکانہ ہے۔
o آیت18تا28میں اس دن پر ایمان لانے والوں پر اللہ کی دائمی نعمتوں اور بڑے اجر کا بیان ہے ۔
ان کا نامہ اعمال علیین میں لکھا جائے گا جس کی نگرانی مقرب فرشتے کرتے ہیں۔ جہاں وہ مسہریوں پر بیٹھے نظارہ کر رہے ہوں گے۔ ان کے چہرے تروتازہ ہوں گے اور انہیں مہر بند شراب پینے کو ملی گی، وہ شراب جس میں تسنیم کی ملاوٹ ہوگی۔
تسنیم یہ وہ خالص شراب ہے جو اللہ کے مقرب بندوں کے لئے تیار کی گئی ہے ۔
o آیت نمبر29سے سورت کے آخر تک ان مجرموں کا بیان ہے جو دنیا میں اہل ایمان کا مذاق اڑاتے رہے ہیں ،ان کے پاس سے گزرتے تو ان پر پھبتیاں کستے تھے، انہیں پاگل بے وقوفی سے موسوم کرتے تھے۔ لہذا اللہ تعالی فرماتا ہے کہ آخرت میں معاملہ اس کے بالکل برعکس ہو گا،چنانچہ وہاں اہلِ ایمان ان کی بد حالی دیکھ کر ہنس رہے ہوں گے۔
o پھر آخر میں تسلی کے طور پر اہلِ ایمان کو ملنے والی مزید نعمتوں کے ذکر اور کافروں پر ایک لطیف ظنز پرسورت ختم کی گئی ۔
ﵟهَلۡ ثُوِّبَ ٱلۡكُفَّارُ مَا كَانُواْ يَفۡعَلُونَ (٣٦) کیا مل گیا کافروں کو ان حرکتوں کا ثواب جو وہ کیا کرتے تھے؟

سورت الانشقاق
یہ سورت مکی ہے۔
مکی سورتوں کی طرح اس سورت کا موضوع عقیدہ آخرت ہے ۔
o ابتدائی آیتوں میں صور پھونکنے کے بعد اس عالم میں جو انقلابات پیدا ہوں گے ان کا ذکر ہے ۔جیسے آسمان کا پھٹ جانا،زمین کا پھیلا دیا جانا ،تاکہ تمام مخلوقات کے لئے کافی ہو جائے۔ اور اس پر خوبی یہ کہ یہ آسمان وزمین اللہ کےحکم کے آگے سرِ تسلیم خم کردیں گے ۔
o آیت نمبر6میں اس حقیقت کا بیان ہے کہ اس دنیا میں ہر انسان کچھ نہ کچھ کر رہا ہے، بالآخر اس کا نتیجہ دیکھنے کے لئے اپنے رب کے سامنے حاضر ہوگا۔ جس سے انسان کو خبر دار کرنا اور ہشیار کرنا ہے۔
o آیت7تا15میں انسانوں کاان کےاپنے اپنے اعمال کے نتیجے میں نیک و بد کا کیا انجام ہوگا، اس کی وضاحت ہے۔
o نیکو کاروں کے نامہ اعمال سامنے سےان کے دائیں ہاتھ میں دئیے جائیں گے، ان کا حساب بھی آسان ہو گا او راپنے اہل و عیال سے خوشی سے ملیں گے ۔
o البتہ برے لوگوں کے نامہ اعمال پیچھے کی جانب سےان کے بائیں ہاتھ میں دئیے جائیں گے،ان کے لئے قدم قدم پر ہلاکت ہوگی۔ کیونکہ وہ دنیا کی زندگی میں مگن رہ کر آخرت کو بھولے رہے اور یہ دھیان میں بھی نہ رہا کہ اللہ تعالی ہمارے چھوٹے بڑے سارے اعمال کو تحریر کر رہا ہے۔
o آیت16تا19میں ایسی واضح تین چیزوں کی قسم کھا کر انسان کو اس کی زندگی کے مختلف مراحل کو یاد دلائے اورپھر آخرت کو یاد کرنے اور غور کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔
o آیت نمبر20سے آخر تک دھمکی بھرے انداز میں اس قرآن پر ایمان لانے کی دعوت او راس کے احکام قبول کرنے پر ابھارا گیا ہے۔
o پھر کفار کو عذاب الیم کی دھمکی دی ہے او ر اہل ایمان کو اجر عظیم کی بشارت پر سورت کا خاتمہ ہے۔

سورت البروج
یہ سورت مکی ہے۔
اس سورت کا موضوع خندق والوں کا قصہ اور اس پر تبصرہ ہے۔اس سے مقصود اس وقت بلکہ ہر وقت کے کمزور مسلمانوں کو تسلی دینا اور ظالموں کو دھمکی دینا ہے۔
یہ واقعہ قرآن مجید میں صرف اسی جگہ بیان ہوا ہے۔اس واقعہ کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی جگہ(راجح قول کے مطابق یہ نجران کا علاقہ ہے) کے کچھ لوگوں نے توحید کو قبول کر لیا اور شرک سے تائب ہو گئے تو وہاں کے ظالم حاکم نے خندقیں کھدوا کر ان میں آگ بھڑکائی پھر جو لوگ اپنی توحید پر قائم رہے انہیں زندہ خندقوں میں ڈال دیا۔
o ابتدائی چار آیتوں میں چار مختلف چیزوں کی قسم کھانے کے بعد خندق والوں پر لعنت بھیجی گئی ہے۔
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالی ان لوگوں پر کس قدر ناراض ہوتا ہے جو اس کے ولیوں کوتکلیف دیتے ہیں۔
o آیت5تا9میں اس واقعہ کی کچھ تفصیل ہے کہ وہ اہل ایمان جن کا جرم یہ تھا کہ غالب اور خوبیوں والے رب پر ایمان لائے تھے، اس جرم کےعوض ظالموں نے انہیں خندقوں میں ڈال دیا۔ اور اس پر مزید یہ کہ وہ خندق کے ارد گرد بیٹھ کر اپنی آنکھوں سے اہلِ ایمان پر اس ظلم کا تماشا دیکھ رہے تھے۔ حالانکہ وہ لوگ بھول گئے تھے یہ لوگ جس رب پر ایمان لائے ہیں وہ غالب اور زمین و آسمان کا مالک ہے اور ان کی ان تمام حرکتوں کو دیکھ رہا ہے۔
o آیت11اور 12میں ان مجرموں کو توبہ کی دعوت دی ہے کہ وہ اگر توبہ کر لیں تو ان کے گناہوں کی معافی اور اصل کامیابی سے ہمکنار ہونے کی بشارت ہے۔ نہیں تو جہنم اور آگ کی دھمکی ہے ۔
o آیت12تا16میں اللہ کی شان جمال و جلال کا بیان ہے او راس کے ذریعے ظالموں کو دھمکی دی ہے کہ وہ ظالموں سے انتقام لینے پر قادر ہے،وہی مارتا او ر زندہ کرتا ہے،البتہ جو توبہ کریں ان کے لئے غفور و رحیم بھی ہے۔
o آیت نمبر16اور اس کے بعد کی آیات میں فرعون و ثمود جیسے ظالم و جبار قوموں کی ہلاکت کا حوالہ دے کر اہل مکہ کو خبر دار کیا گیا ہے کہ جس طرح تم لوگ اہلِ ایمان کو اذیتیں پہنچا رہے ہو ویسے ہی فرعون و ثمود نے کیا تھا، جنہیں اللہ تعالی نے ہلاک کرکے رکھ دیا ۔
o آیت19تا22میں قرآن کی جھٹلانے والوں کو خبر دار کیا ہے کہ تمہارا کام صرف قرآن کی تکذیب ہی نہ رہ جائے۔یاد رکھو قرآن کسی مجنون کی بڑ اور کاہن کی بکواس نہیں بلکہ لوح محفوظ سے لیکر اتارا گیا ہے، ایک مقدس و مبارک کلام ہے،تم اللہ کی طرف سے دی گئی چھوٹ او راپنے اقتدار کے نشے سے فائدہ اٹھا کر اسے جھٹلاؤ نہیں۔ ورنہ یاد رکھو کہ تملوگ اللہ تعالی کی پکڑ سے باہر نہیں ہو۔

سورت الطارق
یہ سورت مکی ہے۔
اس سورت کا موضوع آخرت ورسالت ہے۔
o ابتدائی چار آیتوں میں آسمان اور چمکتے تاروں کی قسم کھا کر یہ شہادت پیش کی گئی ہے کہ اللہ تعالی نے اس انسان کو بے یار و مددگار اور شتر بے مہار نہیں چھوڑا ہے ، بلکہ خود انسان کی اور اس کے اعمال کی حفاظت کے لئے فرشتوں کو مقرر فرما دیا ہے،پھر آخرت میں اس کا حساب بھی لے گا۔
o آیت5تا8میں موت کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کے امکان پر دلیل پیش کی ہے ۔ چنانچہ انسان کو اپنی تخلیق پر غور کرنے کی دعوت دی ہے کہ جو رب اسے اسی سے نکلے ہوئے ایک پھدکتے ہوئے قطرے سے پیدا کرنے پر قادر ہے وہ اسے دوبارہ پیدا کرنے پر بھی قدرت رکھتا ہے۔
o آیت نمبر 9اور 10میں اس حقیقت کا بیان ہے کہ جس دن انسان کو اپنے رب کی طرف لوٹایا جائے گا تو اس دن وہ تنِ تنہا ہوگا،اس کی مدد کرنے والا او راس کی طرف سے دفاع کرنے والا کوئی نہ ہوگا ۔ او ر سب سے اہم یہ کہ اس دن صرف ظاہری اعمال کا نہیں بلکہ اصل یہ ہے کہ لوگوں کی نیتوں اور چھپے رازوں کو بھی جانچا جائے گا۔
o آیت11تا14میں بارش والے آسمان او ر سبزہ اگانے والی زمین کی قسم کھا کر یہ تاکید کی گئی ہے کہ اس فیصلے کے دن اور اس دن فیصلے کی خبر دینے والا قرآن حق ہے، اسے مذاق بنا کر چھوڑ نہ دیا جائے۔
o آیت15تا17میں نبی ﷺ کو تسلی دی ہےکہ آپ اپنے مشن میں لگے رہیں،مخالفین آپ کی تکذیب پر لگے ہیں اُنہیں لگے رہنے دیں،میں بھی انہیں ڈھیل دے رہا ہوں،وہ وقت دور نہیں جب انہیں اپنی بد کرداری کا سبق مل جائے گا۔

سورت الاعلی
یہ سورت مکی ہے۔
سورت کا موضوع توحید ،رسالت اور آخرت ہے۔ اس سورت کا مقصد بندے کے دل کو اللہِ اعلی سے جوڑنا، آخرت کی حرص وخواہش پیدا کرنا اور دنیا کی خوشنمائی اور زینت سے دور رکھنا ہے۔اسی وجہ سے نبیِ کریمﷺ اس سورت کی بکثرت تلاوت کرتے تھے۔
یہ سورت "المسبحات” میں سے ہے۔نبی ﷺ کی زندگی میں اس کی بڑی اہمیت رہی ہے۔ چنانچہ جمعہ، عیدین ، وتر کی نماز میں اور بعض پنج وقتہ نمازوں میں بھی اس کی تلاوت کیا کرتے تھے۔
o پہلی آیت میں اللہ تعالی کی توحید وعظمت کا بیان ہے۔ یعنی تسبیح و پاکی اسی اعلی و ارفع رب کے لئے لائق و زیبا ہے۔
o پھر پانچ آیتوں میں اللہ کی ان قدرتوں کا ذکر ہے جو اللہ کی توحید پر دلیل ہیں،جیسے اس نے پیدا کیا اور صحیح سالم بنایا،اعضاء میں تناسب رکھا،اس کی تقدیر بنائی اور دین و دنیا میں مفید کام کی رہنمائی کی ،وہی ہے جو نباتات کو پیدا کرتا ہے ،پھر انہیں خس و خاشاک میں تبدیل کر دیتا ہے۔ لہذااتنی قدرتوں والا رب ہی تسبیح و عبادت کے لائق ہے۔
o آیت6تا8میں نبی ﷺ کے اطمینانِ خاطر کے لئے دو بشارتیں دی گئی ہیں۔
1) اس قرآن کے بارے میں آپ پریشانی اور الجھن کا شکار نہ ہوں ۔اس کتاب کو پڑھانے، یاد کرانے اور اس کی حفاظت کرناہمارا کام ہے۔
2) اس پر عمل اور اس کی دعوت کو ہم آسان بنادیں گے۔
o آیت9تا13میں نبی ﷺ کو اس کتاب کی تبلیغ کا حکم ہے اور یہ ارشاد ہےکہ آپ اپنا کام کریں ، لوگوں تک یہ کلام پہنچاتے رہیں، اللہ تعالی نے جس کی قسمت میں ہدایت لکھی ہوگی وہ ہدایت قبول کرلے گا اور جو ہدایت قبول نہ کرے وہ اپنا ہی نقصان کرے گا۔ ایسا شخص اپنے لئے ایک ایسی آگ میں جلنے کا سامان کر رہا ہے جو بہت عظیم ہے،نہ اس میں موت آئے گی اور نہ ہی زندگی کا کوئی مزہ ملے گا۔ ۔
o آیت14تا17میں اصل کامیابی ،اس کے اصول اور اس میں رکاوٹ بننے والے امور کی طرف رہنمائی کی گئی ہے۔
o کامیاب شخص وہ ہے جس نے اپنے نفس،اپنےاعمال اور اخلاق کا تزکیہ کر لیا۔
اس کامیابی کا سب سے اہم اصول یہ ہے کہ بندہ کثرت سے اللہ کا ذکر کرتا رہے اور نماز کا اہتمام کرتا رہے ۔
o اور اس میں رکاوٹ بننے والی سب سے اہم چیز دنیا،دنیاوی زندگی میں مشغولیت، اور آخرت کو بھول جانا ہے۔ واضح رہے کہ سب سے بہتر اور باقی رہنے والی چیز آخرت ہے۔
o پھر آیت نمبر 18تا19میں اس حقیقت سے پردہ اٹھایا گیا ہے کہ یہ باتیں کوئی نئی نہیں ہیں ، بلکہ حضرت ابراہیم و موسی علیہما السلام کے صحیفوں میں بھی یہی تعلیمات موجود ہیں۔

سورت الغاشیہ
یہ سورت مکی ہے۔
اس سورت کا موضوع عقیدہ ، خصوصاعقیدہ آخرت ہے۔ اس سورت میں عقیدہ سے متعلق تین اہم امور بیان ہوئے ہیں۔
1- قیامت کی ہولناکی اور نیک وبد لوگوں کا انجام۔
2- بعض مخلوقات جن کی تخلیق اللہ کی عجیب صناعی کا مظہر ہیں، جیسےاونٹ، پہاڑ اور بلند آسمان وغیرہ۔ ان کے ذکر کے ذریعےتوحید کی دعوت ۔
3- آخرت میں حساب ومحاسبہ کا جو منظر سامنے آنے والا ہے اس کے لئے تیاری کی فکر کرنا۔ التفسیر المنیر
• پہلی آیت میں قیامت کی آمد کو سوالیہ انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ کیا تمہارے پاس ڈھانپ دینے والی کی خبر آئی ہے؟
• پھر سات آیتوں تک اس سے غفلت برتنے والوں کا انجام بیان ہوا ہے کہ اس دن ذلت و رسوائی کے آثار ان کے چہروں پر ظاہر ہوں گے،محنت و مشقت سے تھکے ہونگے،شدید گرم آگ پر جھلس رہے ہوں گے،کھولتا پانی پینے کو ملے گا اور بطور غذا سوکھی ہوئی کانٹے دار گھاس ان کے سامنے پیش کی جائے گی ۔
• آیت8تا16میں اس دن پر ایمان لانے اور اس کے لئے عمل کرنے والوں کے انعامات کا بیان ہوا ہے کہ وہاں انہیں بلند مقام کی جنتیں ملیں گی۔وہاں ہر قسم کی نعمتوں سے نوازے جائیں گے۔اونچی مسندیں،سلیقے سے سجائے ہوئے ساغر اور ہر طرف بچھے نفیس فرش ہوں گے۔
• آیت نمبر17سے کلام کا رخ توحید کی دلیل کی طرف ہے۔
اہل عرب خصوصا اہلِ مکہ کو اونٹ ، پہاڑ، بلند آسمان اور یہ وسیع زمین ، ان چار چیزوں پر غور و تدبر کرنے کی دعوت دی ہے ۔ کیونکہ یہ وہ چیزیں ہیں جن سے رات دن ان کا سابقہ رہتاتھا۔ لہذا چاہئے کہ وہ ان پرغور کریں کہ ان چیزوں کا کوئی خالق ضرور ہے،اور جس نے یہ سب کچھ پیدا کیا ہے اور یہ نعمتیں بخشی ہیں اس کے پیچھے اس کی کوئی بڑی حکمت ہوگی۔یہ عجیب الخلقت اونٹ ،یہ بلند و بالا خوبصورت آسمان ،یہ اونچے اونچے مختلف قسم اور رنگ کے پہاڑ اور یہ وسیع زمین، کیا بغیر خالق کے اور بے مقصد وجود میں آ گئی ہیں؟ حاشا للہ۔
• آیت نمبر21سے آخر تک کلام کا رخ نبی ﷺ کی طرف ہے کہ ان دلائل اور دھمکیوں کے بعد بھی اگر کوئی نہیں مانتا تو نہ مانے، آپ کا کام صرف میرا پیغام پہنچا دینا ہے۔
• البتہ جو منہ موڑتا او رکفر کرتا ہے تو اس کے لئے عذاب اکبر تیار ہے۔
• انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ سب کو میری طرف یقینا آنا ہے اور میں ہی ان کا حساب لوں گا ۔

سورت الفجر
یہ سورت مکی ہے۔
اس سورت کا موضوع بھی آخرت اور آخرت کی منکر قوموں کے انجام کا ذکر کے عبرت دلانی ہے۔
• ابتداء میں پانچ چیزوں کی(فجرکی، ذی الحجہ کی دس راتوں کی، جفت اور طاق کی اور رات کے آمد ورفت کی) قسمیں کھا کر قیامت کی آمد اور یوم حساب و کتاب پر دلیل پیش کی گئی ہے کہ اتنی چیزوں کا خالق اور کائنات میں اتنے بڑی تبدیلیاں لانے والا تمہیں دوبارہ زندہ کرنے پر بھی قادر ہے۔
• آیت6تا14میں اللہ کےرسولوں کو جھٹلانے او ر آخرت کی تیاری نہ کرنے والی قومیں، جیسے لمبے قدوں او ربڑی صلاحیتوں والے عاد،قومِ ثمود جو اپنی قدرتی صلاحیتوں سے پہاڑوں کو تراش کر محل تعمیر کرتے تھے،اسی طرح بڑی تعداد کی فوج رکھنے والے فرعون۔ ان کی ہلاکتوں کا حوالہ دے کر اہل مکہ کو یہ دھمکی دی گئی ہے کہ جو اللہ ان کو ہلاک کرنے پر قادر تھا وہ تمہیں بھی ہلاک کر دے گا۔یاد رکھو ! تمہارا رب تمہاری تمام حرکتوں پر نظر رکھے ہوئے ہے ۔
• آیت15اور 16میں اللہ کی ایک آزمائش کا ذکر ہے جو ہر انسان کے ساتھ ہے، جس میں مومن توکامیاب رہتا ہے جبکہ کافر و فاسق اس میں ناکام ہوتا ہے ۔جس کی سب سے بڑی وجہ یہ کہ وہ آخرت پر یقین نہیں رکھتا۔
یعنی اگر اسے آسائش حاصل ہوتی ہے تو اسے اپنی ہوشیاری اور اللہ کے نزدیک اپنی مقبولیت سمجھتا ہے، لیکن جب اس کی روزی میں تنگی آتی ہے تو اسے اللہ کی طرف سے اپنی توہین سمجھتا ہے۔ کیونکہ اس کے نزدیک شرف ومنزلت اور ناکامی نامرادی کا سارا معیار دنیا کا حصول یا اس میں ناکامی ہے۔
• آیت17تا20میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ تم نے اس دنیا کو سب کچھ سمجھ رکھا ہے اور مال کی محبت تمہارے دل میں اس قدر گھر کر گئی ہے کہ تم نے عقل و مروت کو بھی کنارے کر دیاہے۔ چنانچہ یتیموں کا مال دھڑلے سے کھاتے ہو،مسکینوں کو کھانا کھلانا تو دور کی بات ہےانہیں کھانا کھلانے پر کسی کوابھارتے بھی نہیں۔ نیز لوگوں کی میراث ہڑپ کر کھا جاتے ہو۔ تو کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ یہ سب کچھ ایسے ہی بے حساب رہ جائے گا ؟ہر گز نہیں۔
• آیت21تا26میں قیامت کی بعض ہولناکیوں کا ذکرہے اور ان لوگوں کی بد حالی کا تذکرہ ہے جو مال کی محبت میں پڑ کر اس دن کو بھولے ہوئے تھے ۔
فرمایا کہ جب یہ زمین کوٹ کوٹ کر برا بر کر دی جائے گی،آپ کے رب کی آمد اس حال میں ہوگی کہ فرشتے صف بصف کھڑے ہوں گے ،نیز ستر ہزار زنجیروں میں جکڑ کر جہنم کو لایا جائے گا ،تو اس وقت انسان کو عبرت ہو گی۔ لیکن یہ عبرت کا وقت نہ ہوگا۔ پھرتووہ افسوس کرے گا او ر کہے گا کہ کاش اپنی اصل زندگی کے لئے کچھ عمل کر لیا ہوتا۔
• آیت نمبر27سے آخر تک۔ اس دن مومنوں کی خوشحالی کا ذکر ہے، جنہوں نے اس دنیا کی سختی و آسانی ہر حال میں اللہ کے حکم پر رضامندی کی زندگی بسر کی تھی ۔انہیں وہاں یہ شرف حاصل ہو گا کہ اللہ تعالی انہیں اپنے خاص بندوں میں شامل کرکے اپنی جنت میں داخل کرے گا۔

سورت البلد
یہ سورت مکی ہے۔
اس سورت کا موضوع بھی عقیدہ ہے ،خصوصا عقیدہ آخرت ۔ نیز واضح کیا گیا ہے کہ انسان کی خوش قسمتی وبد بختی کا کیا معیار ہے؟
• ابتدائی آیتوں میں اللہ تعالی نے شہر مکہ او ر والد اور اولاد کی قسم کھا کر یہ واضح کیا کہ انسان کی پیدائش مشقت میں ہوئی ہے ۔
یعنی اس کی زندگی میں عیش و آرام کم اور سختیاں او ر پریشانیاں زیادہ ہیں۔رحم مادر میں پہنچنے سے لیکر مرتے دم تک مشقتیں ہی مشقتیں اس کا مقدر ہیں۔
اس طرح گویا نبی ﷺ کو تسلی دی ہے کہ مکہ میں جو حالات آپ کو درپیش ہیں یہ انسان کی زندگی کا لازمی حصہ ہیں، اس کا یہ مطلب قطعا نہیں کہ اللہ آپ سے ناراض ہے۔
• آیت5تا7میں انسان کو ، یا اہلِ مکہ کو تنبیہ کی گئی ہے کہ جب تمہاری زندگی مشقت و پریشانی میں گزر رہی ہے تو تم اپنی قوت اور مال پر اتراتے کیوں ہو؟کیا تم سمجھتےہو کہ تم پر کسی کو قدرت حاصل نہیں ہے؟ یاد رکھو وہ اللہ قدرت بھی رکھتا ہے اور تمہاری حرکتوں پر نظر بھی رکھے ہوئے ہے۔اس کے یہاں بے ایمانی سے مال خرچ کرنے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
• آیت8تا10میں اللہ تعالی نے انسان کو اپنی چند نعمتیں یاد دلا کر اسے ان با مشقت کاموں میں مشغول ہونے کی دعوت دی ہے جو اس کے لئے جنت میں جانے کی ضمانت ہوں گے۔جیسے یہ کہ اللہ تعالی نے تمہیں دیکھنے کے لئے دو آنکھیں دیں،اپنا ما فی الضمیر بیان کرنے کیلئے زبان اور دو ہونٹ دئیے ۔ پھرمزید یہ کہ خیر و شر کا راستہ دکھایا تاکہ تمہیں آزمائے کہ کون شکر گزار بنتا ہے یا ناشکری پر جما رہتا ہے۔
• آیت نمبر11سے سورت کے آخر تک ان نعمتوں کے بدلے ان با مشقت کاموں کی ترغیب دی ہے جو اسے اللہ کی نعمتوں کا مستحق بناتے ہیں، جیسے گردن آزاد کرنا،پریشان حال مسکین اور قرابت دار یتیم کو کھانا کھلانا۔ اور اس سے قبل اللہ پر ایمان لانا او رصبر و رحم کی وصیت کرنا۔
• اگر ایسا کیا تو وہ دائیں ہاتھ والا اور خوش بخت انسان شمار ہے ،لیکن اگر کوئی اللہ کی آیتوں کو جھٹلاتا ہے تو وہی بد بخت اور بائیں ہاتھ والا ہے، جو ایسی آگ میں ہو گا جو چاروں طرف سے بند ہوگی۔
سورت الشمس
یہ سورت مکی ہے۔
اس سورت کا موضوع نفس انسانی او راس کو پاک کرنا ہے۔
اس سورت کی خصوصیت یہ ہے کہ قسموں کا سب سے بڑا سلسلہ اس سورت میں پایا جاتا ہے۔ یعنی پے در پے گیارہ چیزوں کی قسم کھائی گئی ہے۔
• ابتدائی دس آیتوں میں اللہ تعالی نے سورج اور اس کی پھیلتی ہوئی دھوپ،چاند جبکہ وہ سورج کے بعد نکل جائے،دن جبکہ سورج نمایاں ہو جائے،رات جبکہ سورج کو ڈھانپ لے،پھر آسمان اور اس کے بنانے کی،زمین او راس کے بچھا دینے کی،نیز نفس انسانی اور اس کے کمالات اور فضائل کی قسم کھائی ہے۔
• ان تمام اہم امور کی قسم کھا کر اللہ تعالی فرماتا ہے کہ کامیاب وہ شخص ہے جس نے اپنے نفس کو برائی سے پاک کر لیا،اللہ کا تقوی اختیار کیا۔ اور ناکام ہوا وہ انسان جس نے اپنے نفس کو مٹی میں ملایا ،یعنی شرک و بدعت اور فسق و فجور میں مبتلا کر دیا۔
• آیت نمبر11سے سورت کے آخر تک ایک ایسی قوم کی مثال دی گئی ہےجس قوم کو، اس کی جگہ اور اس کے برے انجام کو قریش اچھی طرح سے جانتے تھے ۔
اس قوم نے اپنےرسول کی اتباع سے منہ موڑ کر خسارے کا سودا کیا تھا اور رسول کی پیروی کرکے توحید و تقوی کا راستہ اختیار کرتے ہوئے اپنے نفس کو کامیابی کا راستہ نہیں دکھلایا تھا۔ یعنی قومِ ثمود، جن کے معجزہ طلب کرنے پر انہیں ایک اونٹنی تو دی گئی اور پانی پینے کے لئے باری بھی مقرر کر دی گئی ۔ لیکن انہوں نے بغاوت و سرکشی سے کام لیا،اللہ کے رسول حضرت صالح علیہ السلام کی اس ہدایت کے باوجود کہ اونٹنی کے پانی پینے اور اس کی باری کا خیال رکھو ،ان میں سے چند شر پسند لوگوں نے ایک بد بخت کی قیادت میں اونٹنی کی کونچیں کاٹ دیں ۔ اس طرح رسول سے دشمنی کی وجہ سے وہ اپنے انجامِ بد کو پہنچ گئے۔ یعنی ان کے رب نے ان کے گناہوں کے باعث ان پر سخت اور ہلاکت خیز عذاب نازل کیا اور اس بستی کو برابر کر دیا ۔
آخری آیت میں اللہِ قادر وقہار کی بے نیازی کا ذکر ہے کہ اللہ کی ایسی شان ہے کہ وہ دنیا کے بادشاہوں کے بر خلاف ایسی قوموں کے تباہ کن انجام سے نہیں ڈرتا۔

سورت اللیل
یہ سورت مکی ہے۔
اس سورت کا عنوان خیر و شر ہےاور اس بنیاد پر آخرت میں کامیابی و ناکامی ہے۔
o ابتدائی چار آیتوں میں باہم متضاد چیزوں کی قسم کھا کر اللہ تعالی نے یہ واضح کیا کہ اس دنیا میں لوگوں کے عمل بھی متضاد ہیں۔
o قسم ہے رات کی جب وہ ڈھانپ لے،قسم ہے دن کی جب وہ روشن ہو جائے ۔ اور قسم ہے نر اور مادہ کے پیدا کرنے کی، کہ تمہاری کوششیں بھی مختلف نوعیت کی ہیں۔کوئی آخرت کے لئے تگ و دو کر رہا ہے اور کوئی دنیا سنوارنے میں مشغول ہے۔
o آیت5تا10میں کامیابی اور سعادت مندی اور دوسری طرف خسارے اور بد بختی کے اصول بتائے گئے ہیں۔اس طرح راہ نجات کے متلاشی کے لئے ایک منہج حیات مقرر کر دیا گیا ہے۔
o یعنی جو اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتا ہے اور اپنی صلاحیت کو اللہ کی راہ میں لگاتا ہے،اللہ کا خوف رکھتا ہے اور حق بات جس میں سب سے پہلے’’لا الہ الا اللہ ‘‘ہے اس کی تصدیق کرتا ہےتو اللہ تعالی اس کے عوض اس کے لئے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے۔
o آیت11تا13میں دنیا میں مغرور لوگوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ اللہ کے حضور کسی کا مال اس کے کام نہ آئے گا۔ نیز راہِ ہدایت دکھانا میرا ہی کام ہے اور وہ ہم نے کر دیا ہے۔ اور یہ بھی کہ عالم اولی اور اخری پر صرف میری ملکیت ہے، اور ان میں صرف ہمیں ہی تصرف کا حق حاصل ہے۔
o اب اگر کوئی ہدایت کا راستہ قبول کرتا ہے تو یہ اس کے لئے بہتر ہوگا اور نہیں کرتا تو میرا کوئی نقصان نہیں ہے۔
o آیت14تا16میں جہنم کی آگ سے ڈرایا گیا ہے کہ شعلوں والی آگ سے ہوشیار رہنا،اس میں وہی شخص داخل ہو گا جو بد بخت، حو سء منہ موڑنے والا اور اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب کرنے والا ہوگا۔
o آیت17تا21میں اس مومن کے لئے خوشخبری دی گئی ہے جس کا شعار تقوی رہا،جو اپنے محبوب مال کو خرچ کرتا رہا،اللہ کی رضامندی کی تلاش اس کی کوشش رہی ۔ یہی وہ شخص ہے جس سے اللہ راضی ہوگا۔
o مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ آیتیں صدیق اکبررضی اللہ عنہ کے حق میں نازل ہوئی ہیں۔

سورت الضحی
یہ سورت مکی ہے۔ بلکہ مکہ مکرمہ کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی ہے۔
اس سورت کا موضوع نبی ﷺ کی ذات مبارکہ ہے۔
o ابتدائی آیتوں میں چاشت کے وقت اور رات کی تاریکی کی قسم کھا کر نبی ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا کہ آپ کا رب نہ آپ سے ناراض ہے اور نہ ہی آپ کو چھوڑا ہے۔اتنا ہی نہیں بلکہ آپ کے رب کے نزدیک آپ کا ایک مقام ہے۔ آپ کو یہ بشارت ہے کہ ہر آنے والا دور آپ کے پہلےدور سے افضل ہو گا۔
o اسی طرح آپ کے لئے آخرت دنیا سے بہتر ہے۔
o نیز آپ دیکھیں گے کہ اللہ تعالی آپ کو وہ کچھ عطا فرمائے گا کہ آپ راضی ہو جائیں گے ۔
o آیت6تا8میں اللہ تعالی نے نبی ﷺ کو اپنی وہ خاص رعایت یاد دلائی ہے جو بچپن ہی سے آپ کے ساتھ رہی ہے۔عہد یتیمی میں ٹھکانا،ہدایت کی طرف راہنمائی او ر ناداری کے بعد مالداری اور بے نیازی سے نوازا۔
o آیت9تا11میں آپ ﷺ اور آپ کے ذریعے تمام امت کو تین بڑی اہم وصیتیں فرمائیں جو کسی بھی معاشرے کے لئے ضروری ہیں۔
1- یتیم کے ساتھ لطف و مہربانی کا معاملہ۔
2- نادار اور مجبور لوگوں کی مدد کرنا اور ان کے ساتھ نرمی کا سلوک اختیار کرنا۔
3- اور اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا۔

سورت الشرح یا الانشراح
یہ سورت مکی ہے ۔
اس سورت کا موضوع بھی نبی ﷺ کی ذات مبارکہ ہے،بلکہ سورت الضحی میں بیان کی گئی نعمتوں کی تکمیل ہے۔
چنانچہ سورت ” الضحی” میں دنیا کے طور پر تین انعامات کا ذکر تھا،اور اس سورت "الشرح” میں تین معنوی احسانات کا ذکر ہے؛ ۱- شرح صدر۔ ۲-رفع ذکر ۔ ۳-اور وضع وزر یعنی بوجھ کو اتار دینا۔
o ابتدائی آیتوں میں نبی ﷺ کو تسلی و اطمینان دلایا گیا ہے۔چونکہ آپ مشرکین کی اذیتوں او ر مخالفتوں کا سامنا کر رہے ہیں، تو جس طرح اللہ تعالی نے آپ کو شرح صدر اور حوصلے کی دولت سے نوازا ہے،آپ کے بوجھ کو ہلکا کر دیا ہے ، آپ کے ذکر کو بلند کیا ہے۔ اسی طرح آپ کے لئے آسانیاں بھی پیدا کرتا رہے گا۔
o آیت5اور 6میں یہی واضح کیا ہے کہ آپ اطمینان رکھیں اللہ تعالی نے ہر سختی کے بعد آسانیاں پیدا رکھی ہیں۔
o لہذا آپ کو اپنے دشمنوں پر کامیابیاں حاصل ہونے والی ہیں۔
o پھر آیت نمبر 7اور 8میں اللہ تعالی ان نعمتوں کے عوض رسول ﷺ سے یہ مطالبہ کر رہا ہے کہ آپ کو جب دنیاوی مصروفیات اور دعوتی کاموں سے فراغت ہو تو آپ کو محنت کے ساتھ اللہ کی عبادت میں لگ جانا چاہئے۔آپ کو چاہئے کہ لوگوں سے بے نیاز ہو کر ایک رب کی طرف راغب رہیں۔

سورت التین
یہ سورت مکی ہے۔
اس سورت کا موضوع عقیدہ ہے،خصوصا عقیدہ آخرت۔
o ابتدائی آیتوں میں اللہ تعالی نے تین مقدس مقامات کی قسم کھائی ہے:
1) بیت المقدس یا بلاد شام کی جہاں تین و زیتون کی کثرت ہے اور یہیں حضرت عیسی علیہ السلام کو نبوت ملی تھی۔
2) طور سینا کی جہاں حضرت موسی علیہ السلام کو نبوت ملی تھی۔
3) اور اس امن والے شہر، یعنی مکہ مکرمہ کی جہاں نبی ﷺ کو شرف نبوت سے سرفراز کیا ۔
o قسم اس بات پر کھائی ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کوظاہری و باطنی ہر اعتبار سے بہترین ساخت اور صورت میں بنایا ہے۔
o لہذا چاہئے تو یہ تھا کہ انسان اس کی قدر کرتا ۔
o لیکن جب اس نے ایسا نہ کیا اور اپنے ظاہر و باطن سے اس عظیم نعمت کا شکر ادا نہ کیا،واضح دلائل کے باوجود اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لایا تو اللہ تعالی نے اسے ذلیل سے ذلیل تر کرکے جہنم میں ڈال دیا۔
o آیت نمبر 6 میں ایمان اور عمل صالح کے پیکر انسان کو اس نچلے مقام سےمحفوظ کیا ہے کہ اللہ تعالی انہیں مسلسل اجر سے نوازے گا۔
o آیت نمبر 7 میں حضرت انسان کو ڈانٹ کر خطاب کیاہے کہ اللہ تعالی نے تجھے بہترین صورت میں پیدا کیا اور تجھے اس کے بر عکس ذلت کے آخری مقام میں گرانے کی طاقت بھی رکھتا ہے ،تو اس کا مطلب ہے کہ اس کے لئے تجھے دوبارہ پیدا کرنا مشکل نہیں ہے۔ یہ جان لینے کے بعد بھی تو قیامت اور روزِ جزا کا انکار کرتا ہے۔ تفسیر احسن البیان
o آخری آیت میں اللہ تعالی نے فرمایا:کیا اللہ تعالی سب حاکموں سے بہتر حکم کرنے والا نہیں ہے۔ جب وہ عادل ٹھہرا تو اس کے عدل کا تقاضا یہ ہے کہ کوئی ایسا دن رکھے جس میں ہر ایک کو اس کے عمل کا پورا پورا بدلہ دے ۔

سورت العلق
یہ سورت مکی ہے ۔
بلکہ اس کی ابتدائی پانچ آیتوں سے نزول وحی کی ابتداء ہوئی ہے۔
اس سورت کا موضوع اول تو نزول وحی اور اس بارے میں رسول اللہ ﷺ کی مدد و تائید ہے۔ البتہ اس میں انسانی تخلیق کی حکمت اور انسانیت کے فضائل بیان ہوئے ہیں۔
• چنانچہ اس سورت کی ابتدائی پانچ آیات سب سے پہلے نازل ہوئیں ،جن میں نبی ﷺ کو یہ تعلیم ہے کہ آپ اپنے رب کے نام سے پڑھئے،جس رب نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا ،وہی اسے پڑھنے لکھنے کی صلاحیت بھی دیتا ہے۔
• اگرچہ آپ قاری نہیں ہیں لیکن آپ کے رب کا کرم یہ ہے کہ وہ آپ کو پڑھا دے گا۔
• یہ اسی کرم کا ایک مظہر ہے کہ اس نے انسان کو قلم پکڑنا سکھایا اور اسے لکھنے پڑھنے کی نعمت سے نوازا۔
• آیت6تا8میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ اس تخلیق و تعلیم کی نعمت کے باوجود انسان اسے ماننے اوراس پر اپنے رب کا شکر کرنے کی بجائے سرکشی اختیار کرتا ہےاور مقابلے میں آ جاتا ہے۔
• اسے یاد رہنا چاہئے کہ وہ خواہ کتنی سرکشی کر لے ایک نہ ایک دن اسےہمارے پاس آنا ہے۔
o آیت نمبر9سے سورت کے آخر تک کی آیتیں ابو جہل کے اس برے رویے پر نازل ہوئیں جو اس کا آپ ﷺ کے ساتھ تھا، کہ آپﷺ کو نماز پڑھنے سے روکتا،دھمکیاں دیتا اور اپنے جتھے پر فخر کرتا۔
o اس کے جواب میں اللہ تعالی نے اسے دھمکی دی کہ اگر وہ اپنی اس حرکت سے باز نہ آیا تو یاد رکھے کہ وہ وقت دور نہیں کہ ہم اس کی پیشانی کے بالوں کو پکڑ کر گھسیٹیں گے۔اس وقت اس کا کوئی ساتھی اور اس کے جتھے کا کوئی بھی فرداس کے کام نہ آئے گا۔
o آخری آیت میں نبی ﷺ کو یہ حکم ہے کہ آپ اس کی باتوں پر توجہ دئیے بغیر اپنی دعوت جاری رکھئے،نماز کا اہتمام کیجئے اور اس کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کیجئے۔

سورت القدر
یہ سورت مکی ہے۔
اس سورت کا موضوع نزول قرآن ہے۔ جس میں قرآن کے نزول کی تاریخ اور جس رات میں قرآن نازل ہوا، یعنی لیلۃ القدر کی فضیلت کا بیان ہے۔
پچھلی سورت میں قرآن کےابتدائی نزول کا ذکر تھا۔اس سے پہلی سورت میں قرآن کے مکان نزول کا ذکر تھا۔l اور اب اس سورت میں قرآن کے نزول کے وقت کا ذکر ہے۔
o پہلی آیت میں یہ وضاحت ہے کہ یہ قرآن لیلۃ القدر میں نازل کیا گیا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی تفسیر ہے کہ یہ قرآن لوح محفوظ یعنی ساتویں آسمان سے "بیت العزۃ” جو پہلے آسمان پر ہے ایک ساتھ لیلۃ القدر میں اتارا گیا ہے۔
o باقی آیات میں لیلۃ القدر کے فضائل کا ذکر ہے، جس سے اس قرآن کی فضیلت اور قرآن کے حاملین کی فضیلت بیان کرنی مقصود ہو سکتی ہے۔ کہ ان کی عمریں اگر چہ کم ہیں ،لیکن وہ اجر میں بڑی عمر والی قوموں سے بڑھ سکتے ہیں۔
o اس سورت میں لیلۃ القدر کی متعدد فضیلتوں کا ذکر ہے۔
1- قرآن کا نزول ۔
2- اس ایک رات کا ہزار راتوں سے بہتر ہونا
3- اس رات فرشتوں او ر حضرت جبریل علیہ السلام کا زمین پر نازل ہونا
4- سراسر سلامتی کا مظہر ہونا۔
5- اس رات میں سال بھر کے معاملات کا فیصلہ کیا جانا ۔وغیرہ۔

سورت البینہ
یہ سورت مدنی ہے۔
اس سورت کا موضوع ’’اخلاص عبادت ‘‘ ہے۔ بلکہ اس میں تین مضمون بیان ہوئے ہیں اور تینوں کا مقصد اللہ کی عبادت ہے۔
1- قرآن کے نزول کا مقصد یہ ہےکہ مشرکین اور اہلِ کتاب کی ہدایت کا سبب بنے۔
2- دین وایمان کا مقصد توحیدِ خالص اور اللہ کی عبادت ہے۔
3- اس دین کو ماننے والوں اور نہ ماننے والوں کا انجام وآخرت میں مقام۔
o ابتدائی چار آیتوں میں کلام کا رخ یہود و نصاری کی طرف ہے ۔ کہ تعجب یہ ہے کہ وہ اس رسول ﷺ کی آمد سے قبل اس کا انتظار کررہے تھے، لیکن اب ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
o تین آیتوں میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ رسول کی بعثت کا مقصد یہی ہے کہ خواہ اہل کتاب ہوں یا مشرکین عرب، یہ لوگ اس قدر بگڑے ہوئے تھے کہ بغیر کسی رسولِ بر حق اور واضح دلیل کے وہ حق کے راستے پر آنے والے نہیں تھے اور وہ لوگ خود بھی اس کے متمنی تھے۔ لیکن جب یہ رسول آ گیا تو وہ لوگ اپنی بری خصلت پر اڑے رہے اور ایمان نہ لائے۔
o آیت نمبر پانچ میں یہ واضح کیا گیا کہ ان کا یہ کہنا کہ اللہ کا کوئی بیٹا ہے، یا اللہ کے نیک بندوں کو بطور وسیلہ کے پکارنا ،یہ ان کی کذب بیانی ہے۔انہیں تو صرف اخلاص عبادت،نماز قائم کرنے اور زکاۃ دینے کا ہی حکم تھا اور یہی تو درست اور سچا دین ہے۔
o آیت6تا8میں اس امر کی وضاحت ہے کہ اب اس قرآن و رسول جو واضح دلیل ہیں ان کی آمد کے بعد جو کوئی کفر کرتا ہے وہ سب سے بری مخلوق ہے اور اس کا ٹھکانا ابدی جہنم ہے ۔
o اور جو اس پر ایمان لا کر عمل صالح کرتا ہے اس کا شمار "خیر البریہ” ، یعنی افضل مخلوق کے طور پر ہے، جس کا ٹھکانا وہ جنت ہے جس میں نہریں جاری ہوں گی ۔
o آخر میں اللہ کی خشیت اپنانے والوں کی جزا اور مقام کا بیان ہے ۔ کہ انہیں اللہ کی رضا حاصل ہونے والی ہے۔

سورت الزلزلہ
یہ سورت مدنی ہے۔ البتہ اس کا اسلوب مکی سورتوں جیسا ہے کہ اس میں قیامت کی ہوکناکیوں کا ذکر ہے۔
اس سورت کا موضوع آخرت ہے۔اس اعتبار سے یہ عجیب سورت ہے ۔ اسی لئے بعض حدیثوں میں اسے "السورة الجامعة” یعنی ایک جامع سورت کہا گیا ہے۔
اس سورت میں قیامت کے وقوع،عرصہ قیامت او رآخری مرحلہ جنت و جہنم۔ یعنی قیامت کے دن کے تینوں مرحلوں کا ذکر ہے۔
• ابتدائی تین آیتوں میں وقوع قیامت یعنی پہلے مرحلے کا ذکر ہے کہ جب زمین کو پوری طرح جھنجھوڑ دیا جائے گا،اور زمین اپنا بوجھ باہر نکال پھینکے گی ،ان حالات کو دیکھ کر انسان پریشانی کی حالت میں کہے گا کہ اسے کیا ہو گیا ہے،یہ اس طرح کیوں ہل رہی ہے اور اس کے خزانے باہر کیسے آ رہے ہیں؟
• اس کا جواب یہ ہے کہ اس کے رب کا ایسا ہی حکم ہے۔
o آیت4تا6میں قیامت کے دوسرے مرحلے کا بیان ہے کہ جب لوگ حساب دینے کے لئے جمع ہوں گے،زمین بحکم الہی ہر نیک و بد کی گواہی دے گی اور اس کی بنیاد پر لوگ مختلف گروپ میں تقسیم ہو نگے،کوئی جنت کی راہ لے گا اور کوئی جہنم کی،یا کوئی گروہ مومنوں کا ہوگا اور کوئی کفار و فجار کا۔
o آخری دو آیتوں میں اس امر کی وضاحت ہے کہ اس دن کسی کی کوئی نیکی خواہ وہ کتنی ہی چھوٹی ہو ضائع نہ ہوگی۔ بلکہ اس کا اجر پائے گا۔اور اسی طرح کوئی بدی خواہ کتنی ہی حقیر ہو اس کا بھی حساب ہوگا۔

سورت العادیات
یہ سورت مکی ہے۔
اس سورت کا بنیادی موضوع آخرت سےانسان کی غفلت او راپنے رب کی ناشکری ہے۔
o ابتدائی چھ آیتوں میں اللہ تعالی نے جنگی گھوڑوں کی قسم کھائی ہے او ر ان کی پانچ صفات کا ذکر فرمایا ہے۔ یعنی:
1) دوڑتے ہوئے آواز کرنا۔
2) دوڑتے ہوئے پیروں سے چنگاری اڑانا۔
3) صبح کے وقت حملہ کرنا۔
4) تیز رفتاری کی وجہ سے گرد اڑانا۔
5) اور دشمنوں کے لشکر میں گھس جانا۔
o قسم اس بات پر کھائی گئی ہے کہ انسان یعنی جنسِ انسان ناشکرا ہے۔ وہ نعمتوں کو تو یاد رکھتا ہے ،لیکن منعم یعنی نعمت دینے والےکو بھول جاتا ہے۔وہ نعمتوں سے مالا مال تو ہے لیکن ان کا استعمال منعم کی نافرمانی میں کرتا ہے۔اسی طرح آسائش میں اپنی زبان سے نعمتیں یاد تو کرتا ہے لیکن مشکلات میں نعمتیں بھول جاتا ہے۔
o آیت7اور 8میں اس حقیقت کو واشگاف کیا گیا ہے کہ یہ ایسی حقیقت ہے کہ انسان کے اعمال و کردار خود اس کےگواہ ہیں، کہ وہ اپنے رب کا ناشکرا ہے۔ اور اس کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ وہ مال کی محبت میں بہت زیاد پڑا رہتا ہے۔
o آخری آیتوں میں انسان کو یہ نصیحت کی گئی ہے کہ اسےیاد رکھنا چاہئے کہ ایک دن ایسا آنے والا ہے کہ جس دن میں اس کا حساب لوں گا۔
o اس دن جب قبریں اکھیڑ دی جائیں گی،دلوں کے راز کھل جائیں گے تو سب کو معلوم ہو جائے گا کہ ان کا رب ان کے بارے میں ساری خبریں رکھتا تھا ۔

سورت القارعہ
یہ سورت مکی ہے۔
اس سورت کا موضوع آخرت ہے۔
اس چھوٹی سی سورت میں قیامت کے تینوں مرحلوں کا ذکر بڑے جامع انداز میں ہوا ہے۔اگر اس پر غور کر لیا جائے تو حشر کا پورا نقشہ سامنے آ جاتا ہے۔
o ابتدائی پانچ آیتوں میں قیامت کے پہلے مرحلے کا ذکر ہے۔
o پہلے سوالیہ انداز میں اس مشکل گھڑی کو یاد کرنے کی دعوت ہے۔کھڑکھڑا دینے والی ،کیا ہے کھڑکھڑا دینے والی،کسی کو کیا معلوم کہ کھڑکھڑانے والی کیا ہے۔
o پھر اس دن کا ہولناک منظر کھینچا گیا ہے جس دن لوگ بکھرے ہوئے پروانوں کی مانند ہوں گے اور پہاڑ دھنے ہوئے رنگ برنگے اون کی مانند ہو جائیں گے۔ پھر انسان سوچے گا کہ اس کی کیا حالت ہو گئی۔
o آیت6اور 11میں دوسرے اور تیسرے مرحلے کا ذکر ہے کہ جب حساب کا بازار گرم ہوگا اور بندوں پر حجت قائم کرنے کے لئے اللہ تعالی انصاف کاترازو رکھے گا، جس میں بندوں کے اعمال تولے جائیں گے، حتی کہ خود بندوں کو بھی تولا جائے گا، تو لوگوں کی دو قسمیں ہوں گی ۔ایک وہ لوگ جن کی نیکی کا پلہ بھاری ہوا، تو وہ آرام اور من پسند زندگی میں ہوں گے۔اور دوسرے وہ لوگ جن کی بدی کا پلہ بھاری ہوا ۔ ایسے لوگوں کا ٹھکانا گرم آگ ہے۔
سورت التکاثر
یہ سورت مکی ہے۔
مکی سورتوں کی طرح اس سورت کا موضوع عقیدہ آخرت اور انسان کو خواب غفلت سے بیدار کرناہے۔
o ابتدائی چار آیتوں میں انسان کو خبر دار کرنا اور دھمکی دیناہے کہ تم لوگ دنیا حاصل کرنے اور مال و دولت جمع کرنے میں اس قدر مشغول ہو کہ آخرت کو یکسر بھولے ہوئے ہو۔ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اس غفلت سے تمہیں موت ہی آگاہ کرے گی ۔
o یاد رکھو وہ وقت دور نہیں کہ تم جان جاؤ گے کہ جس حالت میں میں تھا وہ غلط اور غفلت کی کیفیت تھی ۔
o آیت نمبر 6 کے بعد سے آخر ت پر ایمان کی دعوت ہے۔ بلکہ قسم کھا کر زوردار انداز میں بیان ہے کہ وہ وقت آئے گا کہ جب تم اپنی آنکھوں سے جہنم کا مشاہدہ کرو گے۔پھر اس دن تم سے اس دنیا میں حاصل ہر چھوٹی بڑی نعمت کا سوال ہوگا۔ لہذا اس سے قبل خواب غفلت سے بیدار ہو جاؤ اور اس دن کے لئے تیاری کر لو۔

سورت العصر
یہ سورت مکی ہے۔
اس سورت کا موضوع انسان کو خسارے سے بچانا ہے، اسلام کے اصول ِ عظام کا بیان ہے۔
یہ قرآن مجید کی مختصر ترین سورت ہے ،لیکن معنی و مفہوم کے لحاظ سے جامع ترین سورت ہے۔
اس سورت میں واضح کیا گیا ہے کہ وہی انسان کامیاب ہے جس کے اندر چار صفات پائی جائیں۔
1) علم وایمان سے آراستہ ہو۔
2) اپنے علم کو عملی جامہ پہنائے۔
3) اپنے بھائی کو بھی علم و عمل کی دعوت دے۔
4) اور اس راستے یعنی علم حاصل کرنے،عمل کرنے او ر دعوت دینے میں جو اذیت و ضرر لاحق ہو اس پر صبر کرے۔

سورت الھمزہ:
یہ سورت مکی ہے ۔
اس سورت کا عنوان اصلاحِ اخلاق و عقیدہ ہے۔نیز اس میں عقیدہ پر گامزن مسلمانوں کی طرف سے دفاع کیا گیاہے۔
اس سورت میں ان کافروں کو سخت عذاب اور جہنم کی وعید سنائی گئی ہے جو مسلمانوں کو اپنی لعن طعن کا ہدف بناتے ہیں ۔
اور دوسری طرف وہ مال و متاع جمع کرنے میں اس قدر مشغول ہیں ۔گویا یہ مال ہمیشہ باقی رہنے والا ہے،او ر خود ان کے لئے اس دنیا میں بقاء و دوام کا سبب ہے۔
آیت نمبر 4 میں اللہ تعالی نے ایسے لوگوں کو ایک ایسی آگ میں ڈالنے کی دھمکی دی ہے کہ اس میں پڑتے ہی ان کی ہڈیاں ٹوٹ پھوٹ جائیں گی۔
پھر اس آگ کی وہ صفات بیان کی گئیں جو کسی بھی دل رکھنے والے انسان کو خوابِ غفلت سے بیدار کردینے کے لئے کافی ہیں۔
1) یہ اللہ کی آگ ہے ۔ جو ظاہر ہے کہ انسانوں کی آگ سے بہت زیادہ گرم ہوگی۔
2) وہ آگ بھڑکائی ہوئی ہے۔
3) اس آگ کی ایک صفت یہ ہے کہ صرف جسم ہی نہیں بلکہ دل تک کو بھی جلا دے گی۔
4) وہ جہنمیوں پر چاروں طرف سے بند ہو گی۔ یا اس کے راستے اور دروازے بند کر دئیے جائیں گے۔
5) مجرموں کو ہتھکڑیوں،بیڑیوں وغیرہ میں جکڑ کراس جہنم میں ڈال کر بڑے بڑے ستونوں کے ساتھ باندھ دیا جائے گا۔

سورت الفیل
یہ سورت مکی ہے۔
یہ مکمل سورت ہاتھی والوں کے واقعے پر مشتمل ہے، جو نبی ﷺ کی ولادت کے سال پیش آیا تھا۔ جب یمن کا بادشاہ ابرہہ خانہ کعبہ کو ڈھانے کے لئے ایک بڑے لشکر جس میں ہاتھی شامل تھے، لے کر مکہ مکرمہ پر چڑھائی کی غرض سے آیا تھا ۔ لیکن اللہ تعالی نے وہاں پہنچنے سے قبل ہی وادی محسر میں اسے آگے بڑھنے سے روک دیا ۔ ہوا یہ کہ جن ہاتھیوں پر وہ سوار ہو کر آیا تھا، وہ ہاتھی اس مقام سے آگے بڑھنے کے لئے تیار نہ تھے۔اسی درمیان سمندر کی طرف سے چھوٹی چھوٹی چڑیوں کا ایک جھنڈ ظاہر ہوا ، ابرہہ اور اس کے لشکروں پر پتھروں کی بارش کرنے لگا۔اللہ کے حکم سے وہ پتھر اس قدر تیز اور نوکیلے تھے کہ جس کے جسم پر لگتے اسے چھلنی کر دیتے ۔اس طرح ابرہہ کےلشکر میں بھگدڑ مچ گئی۔ اکثر لوگ مارے گئے اور بہت کم ہی لوگ بحکم الہی بچ پائے۔
اس واقعہ کو بیان کرکے اللہ تعالی اہل مکہ کو اپنی نعمتیں یاد دلا رہا ہےکہ چاہئے تو یہ تھا کہ تم لوگ اللہ کا شکر ادا کرتے ،اس کی توحید پر ایمان لاتے اور اس کے نبی پر ایمان لا کر اس کے مددگار بنتے۔
دوسری طرف یہ واقعہ نبیِ کریم ﷺ کی ولادت سے پہلے آپ کی آمد کا پیش خیمہ سمجھا جاتا ہے۔

سورت قریش
یہ سورت مکی ہے۔
یہ سورت سورت الفیل کا تکملہ ہے اور قریش کی فضیلت میں نازل ہوئی ہے۔
چونکہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد کے بعد بنو قضاعہ کے زمانے میں قریش ادھر ادھر بکھر گئے تھے۔ جنہیں نبی ﷺ کے جد اعلی قصی بن کلاب نے انہیں مکہ میں آباد کیا۔پھر ان پر اللہ کے احسانات کی بارشیں ہوئیں، جن میں سے چند کا ذکر اس سورت میں کیا گیا ہے۔
1) ان کا سفر کے لئے مانوس ہو جانا۔ کیونکہ حرم کے احترام کی وجہ سے ان کے گرمی و سردی کے سفر میں کوئی ان سے چھیڑ چھاڑ نہیں کرتا تھا، بلکہ وہ بڑے امن سے شام و یمن کا سفر کر لیتے تھے۔
2) سارے عرب میں بد امنی کا دور دورہ تھا، البتہ مکہ مکرمہ البلد الامین (پرامن شہر)تھا۔
3) ہر طرف بھوک ہی بھوک تھی۔ جبکہ مکہ کے لوگ خاصے مالدار تھے۔ کیونکہ ایک توحضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کی برکت تھی۔
4) اور دوسری بات یہ کہ ہر طرف سے حاجیوں کی آمد و رفت کی وجہ سے تجارت کی فراوانی تھی ۔
ان نعمتوں کا حوالہ دے کر اللہ تعالی قریش کو اس گھر کے رب کی عبادت کی دعوت دے رہا ہے۔

سورت الماعون
اس سورت کے مکی یامدنی ہونے میں اختلاف ہے ۔ بعض علماء کہتےنہیں کہ اس سورت کا پہلا نصف حصہ مکی ہے اور دوسرا نصف حصہ مدنی ہے۔ واللہ اعلم
اس سورت کا بنیادی موضوع آخرت پر ایمان لانا ہے۔ اور اسی عنوان کے تحت یہ واضح کیاگیا ہے کہ دینِ اسلام باہمی ہمدردی اور ایک دوسرے پر رحم کرنے کا دین ہے۔
ابتدا میں آخرت پر ایمان نہ لانے والوں کی مذمت ہے اور ایسے لوگوں کی تین صفات بیان ہوئی ہیں۔
1) آخرت کو جھٹلانا۔
2) یتیموں کے ساتھ برا سلوک کرنا۔
3) مسکینوں کو کھانا نہ کھلانا۔
4) نماز سے غفلت برتنا۔
5) ریاکاری کے لئے نماز پڑھنا۔
6) زکاۃ نہ دینا یا معمولی چیز بھی خرچ نہ کرنا۔
پہلی تین صفتیں کافروں کی ہیں، جبکہ باقی تین صفتیں منافقین کی ہیں۔
اسی ضمن میں انہیں آخرت میں ہلاکت وتباہی کی وعید سنائی گئی ہے۔

سورت الکوثر:
یہ سورت مکی ہے۔بعض علماء اسکے مدنی ہونے کے قائل ہیں۔۔
اس کا موضوع نبی ﷺ کی فضیلت کا بیان ہے ۔
چونکہ نبیِ کریم ﷺ کی کوئی نرینہ اولاد زندہ نہ رہی تھی ،اس لئے آپ کا مذاق اڑانے والے اور آپ کی دعوت سے گھبرائے ہوئے لوگ آپ کو ابترکہتے تھے کہ اب آپ کا کوئی نام لیوا نہ رہے گا۔
اس موقعہ پر آپ ﷺکو تسلی دیتے ہوئے اللہ تعالی نے یہ سورت نازل فرمائی۔
آپ کے اوپر اللہ کا بڑا فضل ہے کہ آپ کو آخرت میں کوثر جیسی نعمت سے نوازا ہے جو دنیا کی تمام نعمتوں سے بدرجہا بہتر ہے۔لہذا آپ اس کے عوض عبادت کا خصوصی اہتمام کیا کریں،نماز اور قربانی۔
آخری آیت میں نبیِ کریمﷺکوتسلی دینےکے ساتھ یہ بشارت بھی دی گئی ہے کہ آپ کا دشمن ذلیل،بے نام و نشان اور دنیا وآخرت میں ہر قسم کے خیر سے محروم ہوگا۔جبکہ دو نوں جہاں میں آپ کا بول بالا ہونے والا ہے۔
سورت الکافرون:
یہ سورت مکی ہے۔
اس سورت کا موضوع توحید کا اثبات اور شرک و مشرکین سے لا تعلقی ہے۔اس سورت کو سورۃ الاخلاص بھی کہتے ہیں۔ کیونکہ اس میں کفر و کافرین سے براءت کا اظہار اور اللہِ واحد کی عبادت کا اعلان ہے ۔
ان دنوں جب نبی ﷺ کی دعوت زور پر تھی،لوگ اپنی جان و عزت کی پرواہ کئے بغیر ایمان لا رہے تھے ،حتی کہ ایمان کی روشنی مکہ سے باہر بھی پہنچ چکی تھی، تو ایسے موقع پر مکہ کے مشرکین سودا بازی پر اتر آئے اور نبیِ کریمﷺ کے سامنے یہ پیشکش رکھی کہ ایک سال آپ ہمارے معبودوں کی عبادت کریں اور دوسرے سال ہم آپ کے معبود کو پوجیں گے۔اس طرح ہمارے اور آپ کے مابین ایک درمیانی راہ نکلے گی اور اختلافات دور ہو جائیں گے۔اس موقع پر یہ سورت نازل ہوئی اور آپﷺ کو حکم ہواکہ ان کے معبودوں سے مکمل اعلانِ لا تعلقی کر دیں، اور یہ واضح کریں کہ ان باتوں پر رحمن کے بندوں اورشیطان کے چیلوں سے کبھی صلح نہیں ہو سکتی۔
اس موقع پر نبی کریمﷺ کو اللہ تعالی کی طرف سے یہ حکم ہوا کہ آُ اعلان کردیں کہ اے کافروں کی جماعت! میں ان معبودوں کو عبادت ہرگز نہیں کر سکتا ، جن کو تم پوجتے ہو، اور نہ ہی تم میرے معبود یعنی اللہ واحد کی عبادت کی طرف آنے والے ہو۔
مقصد یہ ہے کہ یہ کبھی ممکن نہیں ہے کہ میں توحید کا راستہ چھوڑ کر شرک کا راستہ اختیار کرلوں، جیسا کہ تم چاہتے ہو۔ اور اگر اللہ تعالی نے تمہاری قسمت میں ہدایت نہیں لکھی تو تم بھی اس توحید اور عبادتِ الہی سے محروم رہو گے۔اور جہاں تک سودے بازی کا تعلق ہے تو اگر تم اپنے دین پر راضی ہو اور اسے چھوڑنے کے کے لئے تیار نہیں ہو، تو میں بھی اپنے دین پر راضی ہوں، میں سے کیوں چھوڑوں۔ تفسیر احسن البیان

سورت النصر
یہ سورت مدنی ہے۔ بلکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ نزول کے اعتبار سے یہ سب سے آخری سورت ہے۔
اس سورت کا موضوع نبی ﷺ کو دین کے انتشار اور غلبے کی بشارت دینا ہے۔یا پھر آپ کی وفات کی خبر ہے۔
اس سورت میں نبی ﷺ کو تین خوشخبریاں دی گئی ہیں، دو حکم دئے گئے ہیں ،اور ایک امر کی طرف اشارہ ہے۔
خوشخبریاں۔
پہلی خوشخبری یہ ہے آپ کو اللہ تعالی کی مدد حاصل رہے گی ، جس کے نتیجے میں اللہ تعالی آپ کو سارے عرب پر کامیابی دے گا، توحید عام ہوگی اور شرک وبت پرستی کا صفایا ہو جائیگا۔
دوسری بشارت فتح اعظم یعنی فتحِ مکہ کی دی گئی ہے۔
تیسری بشارت یہ کہ جب مکہ مکرمہ فتح ہوگا تو اس کے نتیجے میں لوگ دینِ اسلام میں فوج در فوج داخل ہوں گے، اور پورا جزیرہ عرب کفرستان سے بدل کر اسلامستان بن جا ئے گا۔
اللہ کے رسولﷺ کو حکم۔
پہلا حکم یہ ہے کہ جب یہ نعمتیں حاصل ہو جائیں تو اللہ کی تسبیح وتحمید میں مشغول ہو جائیں۔ تسبیح سے اللہ تعالی کی عظمت کا اظہار ہے اور تحمید سے مذکورہ نعمتوں پر اللہ تعالی کے شکر کی ادائیگی ہے۔
دوسرا حکم بکثرت استغفار کا ہے۔ کیوں کہ کسی بھی عبادت اور عملِ خیر کے اتمام پر استغفار کرنا شروعی حکم ہے، جس میں ایک طرف عجب و بڑائی سے نجات ہے اور دوسری طرف اپنی کوتاہی کا اظہار ہے ۔
اشارہ۔
اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ اب آپ یعنی نبیِ کریمﷺ کی وفات کا وقت قریب آچکا ہے۔جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہماکی حدیث سے واضح ہوتا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ مجھے بوڑھے بدری صحابہ کے ساتھ مجلس میں بٹھاتے تھے۔ بعض لوگوں کو اس پر اعتراض ہوا،چنانچہ انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ انہیں اپنی مجلس میں ہمارے ساتھ بٹھاتے ہیں، ان کے جیسے تو ہمارے بھی بچے ہیں؟ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس کی وجہ تمہیں معلوم نہیں ہے۔ پھر انہوں نے ایک دن ابن عباس رضی اللہ عنہما کو بلایا اور انہیں بوڑھے بدری صحابہ کے برابر بٹھایا (ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ) میں سمجھ گیا کہ آپ نے مجھے انہیں دکھانے کے لیے بلایا ہے۔ پھر ان سے پوچھا: اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے «إذا جاء نصر الله والفتح‏» الخ ؟ (یعنی ”جب اللہ کی مدد اور فتح آ پہنچی“) بعض لوگوں نے کہا کہ جب ہمیں مدد اور فتح حاصل ہوئی تو اللہ کی حمد اور اس سے استغفار کا اس آیت میں ہمیں حکم دیا گیا ہے۔ کچھ لوگ خاموش رہے اور کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر آپ نے مجھ سے پوچھا: ابن عباس! کیا تمہارا بھی یہی خیال ہے؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں۔ پوچھا پھر تمہاری کیا رائے ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی طرف اشارہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہی چیز بتائی ہے اور فرمایا «إذا جاء نصر الله والفتح‏» ۔پھر یہ آپ کی وفات کی علامت ہے۔ اس لئے آپ اپنے پروردگار کی پاکی و تعریف بیان کیجئے اور اس سے بخشش مانگا کیجئے۔ بیشک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے۔ یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا میں بھی یہی جانتا ہوں جو تم نے کہا”۔ صحيح البخاري:۴۹۷۰

سورت اللھب
یہ سورت مکی ہے۔بلکہ جہری دعوت کے بالکل ابتدائی مرحلے میں نازل ہوئی ہے۔
اس کا موضوع نبی ﷺ کی تائید اور آپ کے دشمن ابو لہب کی ہلاکت کی خبر ہے۔ جیسا کہ اس سورت کے شانِ نزول سے واضح ہے ۔
اپنی دعوت کے ابتدائی مرحلے میں جب نبی ﷺ نے اپنے اقرباء کو جمع کیا اور یہ کہتے ہوئے انہیں اسلام کی دعوت دی کہ میں ساری دنیا کے لئے عموما اور تمہاری طرف خصوصا رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں ،تو آپ کے چچا ابو لہب نے بڑی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئےکہا: تیرے لئے تباہی ہو—عیاذاً باللہ– کیا تو نے اسی لئے ہمیں جمع کیا تھا۔
اس سورت میں ابو لہب اور اس کی بیوی ام جمیل کی دنیا میں ہلاکت اور آخرت میں برے انجام یعنی جہنم میں داخلے کی پیشین گوئی کی گئی ہے اور اس بات کی صراحت کردی گئی کہ اس دنیا میں اس کے مال و اولاد کام آنے والی نہیں ہے ، جبکہ دنیا کی ذلت و رسوائی اور جہنم کی آگ ان کا نصیب ہے۔کیونکہ وہ دونوں نبی کریمﷺ کو ایذا دینے اور لوگوں کو آپ کی دعوت سے روکنے میں بڑا کردار ادا کر رہے تھے۔
چنانچہ ابو لہب بازاروں اور عام محفلوں میں جہاں آپ دعوت کا کام کرتے ، آپ کی تکذیب کرتا، آپ کو اذیتیں پہچاتا، حتی کہ آپ پر پتھر برساتا۔ اور اس کی بیوی لوگوں میں آپ کے خلاف دشمنی کی آگ بھڑکاتی اور آپﷺ کے راستے میں لا کر کانٹے اور خاردار لکڑیاں بچھاتی تھی۔
اس پر یہ سور نازل ہوئی ۔اس سورت میں ابو لہب کی ہلاکت اور اس کی بیوی کی تباہی کی خبر دی گئی ہے کہ اس وقت نہ ان کا مال کام آئے گا اور نہ ہی ان کی اولاد او رایسا ہی ہوا جیسا کہ اس سورت میں بتلایا گیا ۔

سورت الاخلاص
یہ سورت مکی ہے۔
یہ سورۃ الإخلاص اور سورۃ التوحید ہے۔اس میں مشرکین کے ایک غلط خیال کی تردید ہے، جو اللہ تعالی کو مخلوق پر قیاس کرتے ہوئے اس کے بارے میں وہی تصورات رکھتے تھے جو اپنے باطل معبودوں کے بارے میں رکھتے تھے۔ چنانچہ نبیﷺ سے اس اللہ کا نام ونسب پوچھتے تھے جس کی طرف آپ دعوت دے رہے تھے ۔
حدیثوں میں اس سورت کے فضائل بکثرت وارد ہیں، بلکہ اسے قرآن مجید کا ایک تہائی حصہ قرار دیا گیاہے ۔
اس کا موضوع خالص ذات باری تعالی ہے۔
اس سورت میں اللہ تعالی کی وحدانیت ہے کہ اللہ تعالی اپنی ذات ، اپنی صفات اور اپنے افعال کے لحاظ سے یکتا وتنہا ہے، اس بارے میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔
نیز اسے ہر اعتبار سے صمدیت یعنی بے نیازی حاصل ہے کہ وہ سارے عالم سے بے نیاز ہے، جبکہ ساری دنیا اس کی محتاج ہے۔ ساری دنیا کے لوگ اپنی حاجات و ضروریا ت میں اسی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ، جبکہ وہ کسی کا محتاج نہیں ہے۔
اسی طرح اللہ بیوی اور اولاد سے پاک ہے۔ کیونکہ بیوی اور اولاد کا ہونا نقص وکمی اور احتیاج کی دلیل ہے ، جبکہ وہ ہر عیب ونقص سے پاک اور کسی چیز کا محتاج نہیں ہے۔
آخری میں پوری سورت کا خلاصہ ان الفاظ میں بیان کر دیا کہ” اس کی طرح کاکوئی نہیں ،اس کی نظیر کوئی نہیں، بلکہ وہ یکتا اور بے نظیر ہے”۔
اس طرح اگر غور کریں تو اس سورت کی چار آیتوں میں اللہ تعالی کے لئے ہر کمال کا ثبوت ہے اور ہر قسم کے عیب ونقص کی نفی ہے۔چنانچہ پہلی آیت سے اللہ تعالی کی وحدانیتِ مطلقہ کا ثبوت اور ہر قسم تعددیت کی نفی ہوتی ہے۔ دوسری آیت سے اللہ تعالی کے کمالِ مطلق کا ثبوت اور ہر قسم کے نقص کی نفی ہے۔ تیسری آیت سے اللہ تعالی کی ازلیت کا اثبات اور اس کے لئے نسل کی نفی ہوتی ہے۔ اور چوتھی آیت میں اللہ تعالی کی عظمت کا اثبات اور ہرقسم کی مماثلت ومشابہت کی نفی ہوتی ہے۔ المجالس القرآنیہ ص: ۵۷۱

المعوذتان(سورت الفلق اور سورت الناس)
یہ سورتیں مدنی ہیں۔
ان کا موضوع تعویذ ہے یعنی پناہ مانگنا۔
احادیث میں ان دونوں سورتوں کی بڑی فضیلت وارد ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ نبیﷺ ان سورتوں کا بہت زیادہ اہتمام کرتے تھے۔ چنانچہ ان کی تلاوت سونے سے قبل کرتے، وتر کی نماز میں انہیں پڑھتے، نمازوں کے بعد بھی پڑھتے اور صبح وشام کے اذکار میں ان کے اہتمام کا حکم دیتے۔
ان دونوں سورتوں میں بندوں کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ بندے کو چاہئے کہ ہر خوفناک چیز جو ظاہر یا پوشیدہ، معلوم ہو یا مجہول ہر کے شر سے اس اللہ کی پناہ میں آیا جائے جو ان کا خالق ومالک ہے۔
سورۃ الفلق۔
اس میں ان چار چیزوں کا ذکر ہے جن سے اللہ تعالی یعنی مخلوق کے رب کی پناہ مانگی گئی ہے۔
1) ہر اس چیز سے جو شر ہے۔ جیسے شیطان،اس کی ذریت اور جہنم وغیرہ۔
2) اندھیری رات کی تاریکی سے۔ کیونکہ زہریلے جانور اور درندے وغیرہ اسی وقت نکلتے ہیں، چور اور ڈاکو اپنے برےمقصدکے لئےعموما رات ہی کو نکلتے ہیں، برائیوں کے دلدادہ اپنی بد کرداری کے لئےزیادہ تر رات ہی کا انتخاب کرتے ہیں۔
3) گرہوں میں پھونکنے والے۔ یعنی جادو گروں اور جادو گرنیوں سے۔
4) حسد کے شر سے۔
سورۃ الناس۔
اس سورت میں لوگوں کے رب، لوگوں کے معبود اور لوگوں کے بادشاہ کی پناہ طلب کی گئی ہے، ان تمام جن وانس کے شر سے جو لوگوں کو وسوسوں، غلط مشوروں اور ڈرا دھمکا کر گمراہ کرتے ہیں۔
ان دونوں سورتوں میں گویا بندوں کو یہ حکم دیا ہے کہ سب کی پناہ چھوڑ کر اللہ کی پناہ و حمایت میں آ جائیں۔اسی لئے جب یہ سورتیں نازل ہوئیں تو نبی ﷺ نے تمام دیگر تعویذات کو چھوڑ کر ان کا اہتمام کرنا شروع کر دیا۔ چنانچہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : «كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَعَوَّذُ مِنَ الجَانِّ وَعَيْنِ الإِنْسَانِ حَتَّى نَزَلَتِ المُعَوِّذَتَانِ فَلَمَّا نَزَلَتَا أَخَذَ بِهِمَا وَتَرَكَ مَا سِوَاهُمَا» یعنی رسول اللہﷺ جنوں اور انسانوں کی نظر سے پناہ مانگتے تھے، لیکن جب "المعوذتین” نازل ہوئیں تو سب چھوڑ کر ان کا اہتمام کرنے لگے۔ سنن الترمذی:۲۰۵۸

•┈┈┈••⊰✵✵⊱••┈┈┈•

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں