تین بڑےمشکلات کا حل

بسم اللہ الرحمن الرحیم

تین بڑےمشکلات کا حل

از:شیخ ندیم اختر سلفی حفظہ اللہ

داعیہ جالیات حوطہ سدیر

{ناشر:مکتب توعیۃ الجالیات الغاط: www.islamidawah.com }

موجودہ زمانہ اور ماقبل کے دور میں اہل ِ اسلام جن مشکلات سے دوچار رہے ہیں قرآن کریم میں ان پر قابو پانے کا بہترین حل بتلایا گیا ہے:"إِنَّ هَـذَا الْقُرْآنَ يِهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ وَيُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْراً كَبِيراً" (الإسراء:9) (ترجمہ:یقیناً یہ قرآن وہ راستہ دکھاتا ہےجو بہت ہی سیدھا ہےاورایمان والوں کو جو نیک اعمال کرتے ہیں اس بات کی خوشخبری دیتا ہے کہ ان کے لئے بہت بڑا اجر ہے)،اگر مسلمانوں نے ان پر عمل کرلیا تو ان مسائل کے ساتھ ساتھ وقت کے دوسرے مسائل بھی حل ہوجائیں گے۔تو آئیےکتاب اللہ قرآن مجید سے ان مشکلات کا حل تلاش کرتے ہیں:

پہلا مسئلہ:

عوام کی زبان پر یہ بات گردش کرتی رہتی ہے کہ آج عالمی سطح پر مسلمان کافروں کے مقابلے میں تعداد،ٹیکنالوجی اور ہتھیار سازی ہر اعتبار سے کمزور نظرآتے ہیں نتیجۃً اہل ِ اسلام ہر جگہ مغلوب ہیں،صفحہٴ ہستی سے ان کو مٹانے کی کوشس کی جارہی ہے،اس طرح کے حالات میں قرآن کی روشنی میں سب سے بہتر حل یہ ہے کہ صدق ووفا کے جذبے کے ساتھ اللہ کی طرف توجہ کی جائے،اور ایمانی قوت کے ساتھ ساتھ اللہ پر مکمل بھروسہ کیا جائے کیونکہ اللہ زبردست قوت والا ہے ہر چیز اس کے زیر ِ نگیں ہے،جو اللہ کا حقیقی لشکر ہے نا ممکن ہےکہ کفار اس پر غالب آجائیں چاہے وہ جس قدر قوت کے مالک ہوں۔غزوۂاحزاب کا موقع ہےسامنے کفار کا لشکر عظیم ہے جو مسلمانوں کو کچلنے کے درپے ہے،قرآن نے اس کا منظر کچھ اس طرح پیش کیا ہے: "إِذْ جَاؤُوكُم مّن فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنكُمْ وَإِذْ زَاغَتْ الْأَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا هُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُونَ وَزُلْزِلُوا زِلْزَالاً شَدِيداً"(الأحزاب10،11) (ترجمہ:جب کہ (دشمن)تمہارے پاس اوپر سے اور نیچے سے چڑھ آئے اور جب کہ آنکھیں پتھرا گئیں اور کلیجے منہ کو آگئے اور تم اللہ تعالیٰ کی نسبت طرح طرح کے گمان کرنے لگے،یہیں مومن آزمائے گئے اور پوری طرح وہ جھنجھوڑدئے گئے)

غور کریں عسکری محاصرے کی یہ شدت اور مسلمانوں کے دلوں میں اس کا اثر،ہر چہار جانب سے ان کا سیاسی اور اقتصادی بائیکاٹ،اس مشکل ترین گھڑی میں مسلمانوں کاکیا موقف رہا یہ بھی قرآن نے بتلایا ہے: "وَلَمَّا رَأَى الْمُؤْمِنُونَ الْأَحْزَابَ قَالُوا هَذَا مَا وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا إِيمَاناً وَتَسْلِيماً" (الأحزاب22) (ترجمہ:اور ایمان داروں نے جب(کفارکے)لشکروں کو دیکھا(بےساختہ)کہہ اٹھے!کہ انہیں کا وعدہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول نےدیا تھا اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا،اور اس چیز نے ان کے ایمان میں اور شیوۂ فرماں برداری میں اور اضافہ کردیا)

ایمان کامل،اللہ کے لئے مکمل سپردگی اور اللہ ہی پر پورا اعتماد اور بھروسہ ہی مسلمانوں کے پاس اس عظیم مشکل سے نکلنے کا بہترین حل تھا، اور پھر اس اعتماد وبھروسہ کا جو نتیجہ سامنے آیا اللہ نے اس کی بھی صراحت کی ہے: "وَرَدَّ اللَّهُ الَّذِينَ كَفَرُوا بِغَيْظِهِمْ لَمْ يَنَالُوا خَيْراً وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتَالَ وَكَانَ اللَّهُ قَوِيّاً عَزِيزاً وَأَنزَلَ الَّذِينَ ظَاهَرُوهُم مّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مِن صَيَاصِيهِمْ وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ فَرِيقاً تَقْتُلُونَ وَتَأْسِرُونَ فَرِيقاً وَأَوْرَثَكُمْ أَرْضَهُمْ وَدِيَارَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ وَأَرْضاً لَّمْ تَطَؤُوهَا وَكَانَ اللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيراً" (الأحزاب 26،27،25) (ترجمہ:اور اللہ تعالیٰ نے کافروں کو غصّے میں بھرے ہوئے ہی (نامراد)لوٹادیا انہوں نے کوئی فائدہ نہیں پایا،اور اس جنگ میں اللہ تعالیٰ خود ہی مومنوں کو کافی ہوگیا اللہ تعالیٰ بڑی قوتوں والا اور غالب ہے،اور جن اہل ِ کتاب نے ان سے ساز باز کرلی تھی انہیں (بھی )اللہ تعالیٰ نے ان کے قلعوں سے نکال دیا اور ان کے دلوں میں (بھی ) رُعب بھر دیاکہ تم ان کے ایک گروہ کو قتل کررہے ہو اور ایک گروہ کو قیدی بنارہے ہو،اور اس نے تمہیں ان کی زمینوں کا اور ان کے گھر بار کااور ان کے مال کا وارث کردیا او راس زمین کا بھی جس کو تمہارے قدموں نے روندا نہیں،اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے)

اللہ نے بطور انعام تیز وتند آندھی بھیجی اور فرشتوں کے ذریعہ ان کی مدد کی، اس آسمانی نصرت کا ان مسلمانوں کو گمان بھی نہ تھا۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَاءتْكُمْ جُنودٌ فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحاً وَجُنوداً لَّمْ تَرَوْهَا وَكَانَ اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيراً" (الأحزاب:9) (ترجمہ:اےایمان والو!اللہ تعالیٰ نے جو تم پر احسان کیااسے یاد کروجب کہ تمہارے مقابلے کو فوجوں پر فوجیں آئیں پھر ہم نے ان پر تیز وتند آندھی اور ایسے لشکر بھیجے جنہیں تم نے دیکھا ہی نہیں،اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ سب کچھ دیکھتا ہے)۔

اسی طرح بیعت ِ رضوان کے موقعہ پر صحابہ کے دلوں میں صدق ووفا کے جو جذبات تھے اللہ تعالیٰ اس سے بھی واقف تھا-جس کی سورہ فتح میں تعریف بھی کی گئی ہے : "لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ" (الفتح:18) (ترجمہ:یقیناً اللہ تعالیٰ مومنوں سے خوش ہوگیاجب وہ درخت تلے تجھ سے بیعت کررہے تھے ان کے دلوں میں جو[کچھ] تھااسے اس نے معلوم کرلیا)-تو اس ایمان واخلاص کا نتیجہ کیا نکلا اللہ نےاسے بھی بتلادیا۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "وَأُخْرَى لَمْ تَقْدِرُوا عَلَيْهَا قَدْ أَحَاطَ اللَّهُ بِهَا وَكَانَ اللَّهُ عَلَى كُلّ شَيْءٍ قَدِيراً" (الفتح:21) (ترجمہ:اور تمہیں اور (غنیمتیں )بھی دےجن پر اب تک تم نے قابو نہیں پایا ، اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے قابو میں رکھا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے)۔یہ ایمانی قوت اور شدت ِ اخلاص کا ثمرہ تھا،یہ آیت ہمیں بتلارہی ہے کہ اخلاص اور ایمانی قوت ہی ایک کمزور کے طاقت ور پر غلبہ پانے کا سبب ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "كَم مّن فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللّهِ وَاللّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ"(البقرة:249) (ترجمہ:بسا اوقات چھوٹی اور تھوڑی سی جماعتیں بڑی اور بہت سی جماعتوں پر اللہ کے حکم سے غلبہ پالیتی ہیں ،اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے)

دوسرا مسئلہ:(کفار کا تسلط)

مسلمانوں پر کافروں کا تسلط،قتل اور دوسری قسم کی ایذاؤں سے مسلمانوں کا دوچار ہونا ہے جب کہ مسلمان حق پر ہیں اور کفار باطل پر پھر ایسا کیوں؟ اس مسئلے کا بھی حل قرآن مجید میں پیش کیا گیا ہے،چنانچہ غزوۂ احد میں جب ستر صحابہ کرام شہید ہوگئے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو زخمی کیا گیا،آپ کے مبارک دانت توڑدئےگئےتوبعض صحابہ کرام کے دل میں یہ خیال آیا کہ کافر کیسے مسلط ہوگئے جب کہ وہ باطل پر ہیں اور ہم حق پر؟ اس سوال کے جواب کے لئےاللہ نے آیتیں نازل کیں جو قیامت تکتلاوت کی جائیں گی،جن میں اللہ نے اس ہزیمت اور نقصان کے اسباب پر تبصرہ کیا ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "أَوَلَمَّا أَصَابَتْكُم مُّصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُم مّثْلَيْهَا قُلْتُمْ أَنَّى هَـذَا قُلْ هُوَ مِنْ عِندِ أَنْفُسِكُمْ(آل عمران165) (ترجمہ:(کیا بات ہے)کہ جب تمہیں ایک ایسی تکلیف پہنچی کہ تم اس جیسی دو چند پہنچاچکے تو یہ کہنے لگے کہ یہ کہاں سے آگئی ؟ آپ کہ دیجئے کہ یہ خود تمہاری طرف سے ہے) "قُلْ هُوَ مِنْ عِندِ أَنْفُسِكُمْ" میں جو اجمال ہے اس کی تفصیل دوسری آیت میں ہے۔ارشادہے: "وَلَقَدْ صَدَقَكُمُ اللّهُ وَعْدَهُ إِذْ تَحُسُّونَهُم بِإِذْنِهِ حَتَّى إِذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِي الأَمْرِ وَعَصَيْتُم مّن بَعْدِ مَا أَرَاكُم مَّا تُحِبُّونَ مِنكُم مَّن يُرِيدُ الدُّنْيَا وَمِنكُم مَّن يُرِيدُ الآخِرَةَ ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ لِيَبْتَلِيَكُمْ" (آل عمران:152) (ترجمہ:اللہ تعالیٰ نے تم سے اپنا وعدہ سچا کر دکھایاجب کہ تم اس کے حکم سے انہیں کاٹ رہے تھےیہاں تک کہ جب تم نے پست ہمتی اختیار کی اور کام میں جھگڑنے لگےاور نافرمانی کی،اس کے بعد کہ اس نے تمہاری چاہت کی چیز تمہیں دکھادی،تم میں سے بعض دنیا چاہتے تھےاور بعض کا ارادہ آخرت کا تھاتو پھر اس نے تمہیں ان سے پھیر دیا تاکہ تم کو آزمائے)۔

اس آسمانی فتوے میں واضح بیان ہے کہ مسلمانوں پر کافروں کے مسلط ہونے کا سبب خود مسلمانوں کا آپس میں جھگڑنا،رسول کی نافرمانی کرنا اور ان میں سے بعض کے دلوں میں اطاعت ِ رسول پر دنیا کی محبت(مال ِ غنیمت)کا غالب آنا ہے،اور یہی اصل بیماری ہےجو اس کو پہچان لے اس کےلئے دوا کا پہچاننا مشکل نہیں ۔

برادران ِ اسلام!سوچنے اور غور کرنے کی بات ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صرف ایک نافرمانی کی وجہ سے اس غزوہ میں مسلمانوں کا اس قدر جانی نقصان ہوا جب کہ یہاں تو آج اللہ اور اس کے رسول کی معصیت کا ایک سیلاب ہے جس میں دن بدن اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے،کیا اس حقیقت سے کوئی انکار کرسکتا ہے کہ یہ امت ِ مسلمہ جو اپنے آپ کو نصرت ِ الہی کا دعویدار سمجھتی ہے وہ جاہلیت کے بےشمار رسم ورواج میں مبتلا ہوتی جارہی ہے؟کیا آپ غور نہیں کرتے کہ اکثر اسلامی ملکوں میں شرک وبدعت نے کیسے ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور کس طرح اس کے جھنڈے بلند ہیں اور سرکاری سطح پر کس طرح اس کی تائید کی جاتی ہے؟کیا آپ دیکھتے نہیں کہ اسلام کا دعویٰ رکھنے والوں کی ایک بڑی تعدادکس طرح توحید وسنت اور حامیان ِ توحید وسنت کے خلاف برسرِ پیکار ہے؟جہاں شرک وبدعت کو پنپنے کی کھُلی آزادی،اللہ کو چھوڑ کر بے بس انسانوں سے مرُادیں مانگنا،انہیں مشکل کشا سمجھنا،مصیبتوں اور پریشانیوں میں ان کے نام کا وظیفہ پڑھنا،محتاج بن کر ان کے مزاروں پر جانا،ان کی قبروں کا سجدہ اور طواف کرنا،ان کے نام کی نذریں اور منتیں مانگنا،ان کے نام کے مُرغے اور بکرے قربان کرنا،چادر اور پھول مالاچڑھانا،اور ان کے بارے میں یہ اعتقاد رکھنا کہ وہ بگڑی بنادیں گےناؤپار لگادیں گے،مسلمانوں میں پائے جانے والے کیا یہ وہی عقیدے نہیں ہیں جو اسلام سے قبل مشرکین میں پائے جاتے تھے؟؟ نیز ان کے علاوہ جو دیگر معصیت ہیں وہ الگ ہیں جو بہت سارے اسلامی ملکوں میں ظاہر وباہر ہیں،اب ایسی صورت میں اللہ کی مدد اور اس کی نصرت وتائید کی ہم کیسے خواہش کریں؟ اگر دور ِ رسالت کے مشرکین میں یہ سب بد عقیدگی پائے جائےتو وہ غضب الہی کے مستحق ٹھہریں اور اگر یہی خرابیاں مسلمانوں میں پائی جائیں تو اللہ ان سے خوش ہوجائےآخر یہ دو پیمانے کیوں؟؟

معلوم ہونا چاہئے کہ وعدۂ الہی کا ظہور شرط کے ساتھ مشروط ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَنصُرُوا اللَّهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبّتْ أَقْدَامَكُمْ" (محمد:7) (ترجمہ:اے ایمان والو!اگر تم اللہ (کے دین )کی مدد کروگےتو وہ تمہاری مدد کرے گااور تمہیں ثابت قدم رکھےگا)قرون ِ اولیٰ کے مسلمانوں کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب وہ دین کے ہوگئے تھے تو اللہ بھی ان کا ہوگیا تھا،انہوں نے دین کو مقدم رکھا تو اللہ نے بھی انہیں دنیا پر غالب فرمادیا۔جیساکہ دوسرے مقام پر ارشاد ہے: "وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ" (الحج:40) (ترجمہ:اللہ اس کی ضرور مدد فرماتا ہے جو اس کی مدد کرتا ہےبے شک اللہ بڑی قوتوں والا بڑے غلبے والا ہے)۔

تیسرا مسئلہ:(باہمی اختلاف)

مسلمانوں کا آپسی اختلاف اور ایک دوسرے کے خلاف دل میں بغض وعداوت رکھنا۔یہ روگ اتنا خطرناک ہےجو ملت ِ اسلامیہ کی عمارت کو گرانے میں ایک اہم رول ادا کرتا ہے،اس اختلاف کا لازمی نتیجہ مسلمانوں میں بزدلی ،اس کی شان وشوکت کا خاتمہ او رزوالِ ملک کی صورت میں ظاہر ہورہا ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "وَلاَ تَنَازَعُواْ فَتَفْشَلُواْ وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ(الأنفال46) (ترجمہ:آپس میں اختلاف نہ کرو ورنہ بزدل ہوجاؤگےاور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی)۔

قرآن کی روشنی میں اس بیماری کا سبب عقل کی کمزوری ہے۔ارشاد ربانی ہے: "تَحْسَبُهُمْ جَمِيعاً وَقُلُوبُهُمْ شَتَّى(الحشر:14) (ترجمہ:گو آپ انہیں متحد سمجھ رہے ہیں لیکن ان کے دل دراصل ایک دوسرے سے جدا ہیں )اس اختلاف ِ قلب کی علت کیا ہے وہ اللہ کے اس قول میں ہے: "ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْقِلُونَ" (اس لئے کہ یہ بے عقل لوگ ہیں)،اور جس شخص کو یہ بیماری لگ جائے اس کے اندر حقیقتوں کا ادراک کمزور پڑجاتا ہے،حسن وقبح ،نفع ونقصان اور حق وباطل کے مابین تمیز کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے۔اس بیماری کا علاج یہی ہے کہ نورِ وحی (کتاب وسنت)سے دل کو منور کیا جائے،کیونکہ وحی کی روشنی دلوں کو زندہ کرتی ہے،حق کے متلاشی کو راستہ دکھاتی ہے،پھر جاکر ایسا شخص حق کو حق اور باطل کو باطل نفع کو نفع اور نقصان کو نقصان سمجھنے لگتاہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "أَوَ مَن كَانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْنَاهُ وَجَعَلْنَا لَهُ نُوراً يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَن مَّثَلُهُ فِي الظُّلُمَاتِ لَيْسَ بِخَارِجٍ مّنْهَا" (الأنعام:122) (ترجمہ:ایسا شخص جو پہلے مُردہ تھاپھر ہم نے اس کو زندہ کردیا اور ہم نے اس کو ایک ایسا نور دے دیاکہ وہ اس کو لئے ہوئے آدمیوں میں چلتا پھرتا ہے،کیا ایسا شخص اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے؟جو تاریکیوں سے نکل ہی نہیں پاتا)۔ایک اور جگہ ارشادہے: "اللّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُواْ يُخْرِجُهُم مّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّوُرِ" (البقرة:257) (ترجمہ:ایمان لانے والوں کا کارساز اللہ تعالیٰ خود ہے،وہ انہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف نکال لے جاتا ہے)۔اور جو تاریکیوں سے نکل کر روشنی کی طرف آئے حق اس کے سامنے واضح ہوجاتا ہے،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "أَفَمَن يَمْشِي مُكِبّاً عَلَى وَجْهِهِ أَهْدَى أَمَّن يَمْشِي سَوِيّاً عَلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ" (الملك:22) (ترجمہ:اچھا وہ شخص زیادہ ہدایت والا ہے جو اپنے منہ کے بل اوندھا ہو کر چلے یا وہ جو سیدھا (پیروں کے بل)راہ ِ راست پر چلا ہو ؟)۔ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "وَمَا يَسْتَوِي الْأَعْمَى وَالْبَصِيرُ وَلَا الظُّلُمَاتُ وَلَا النُّورُ وَلَا الظِّلُّ وَلَا الْحَرُورُ وَمَا يَسْتَوِي الْأَحْيَاء وَلَا الْأَمْوَاتُ" (فاطر22،21،20،19) (ترجمہ:اور اندھا اور آنکھوں والا برابر نہیں ،اور نہ تاریکی اور روشنی،اور نہ چھاؤں اور نہ دھوپ،اورزندے اور مُردے برابر نہیں ہوسکتے)،ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : "مَثَلُ الْفَرِيقَيْنِ كَالأَعْمَى وَالأَصَمّ وَالْبَصِيرِ وَالسَّمِيعِ هَلْ يَسْتَوِيَانِ مَثَلاً"(هود:24) (ترجمہ:ان دونوں فرقوں(مومنین اور کافرین)کی مثال اندھے،بہرے اور دیکھنے ،سننےوالے جیسی ہے،کیا یہ دونوں مثال میں برابر ہیں)،یہ اور ان کے علاوہ دوسری آیتوں میں واضح دلیل ہے کہ ایمان انسان کو موت کے بدلے زندگی بخشتا ہے،تاریکیوں کے بدلے روشنی عطا کرتا ہے۔

اس لئے موجودہ حالات میں مسلمانوں کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ خلوص و وفا کے جذبے سے اپنے دین کی طرف پلٹیں،تفرقہ بازی کا سدّ باب کریں اور یہ یاد رکھیں کہ اس دنیا میں اللہ کے کچھ قوانین ہیں جو بدلے نہیں جاتے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مّن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللّهِ إِنَّ اللّهَ لاَ يُغَيّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيّرُواْ مَا بِأَنْفُسِهِمْ وَإِذَا أَرَادَ اللّهُ بِقَوْمٍ سُوءاً فَلاَ مَرَدَّ لَهُ وَمَا لَهُم مّن دُونِهِ مِن وَالٍ" (الرعد:11) (ترجمہ:اس کے پہرے دار انسان کے آگے پیچھےمقرر ہیں ،جو اللہ کے حکم سے اس کی نگہبانی کرتے ہیں،کسی قوم کی حالت اللہ تعالیٰ نہیں بدلتاجب تک کہ وہ خود اسے نہ بدلیں جو ان کے دلوں میں ہے،اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کی سزا کا ارادہ کرلیتا ہےتو وہ بدلا نہیں کرتااور سوائے اس کے کوئی بھی ان کا کارساز نہیں)،نیز مسلمانوں کو چاہئے کہ ماضی میں جو واقعات ہوئےان سے سبق سیکھیں۔

اللہ مسلمانوں کے احوال درست کرے،توحید وسنت پر انہیں جمع کرےاور کفار ومنافقین کے شر کو ان سے دفع کرے آمین ۔

وصلى الله وسلم على نبينا محمد وآله وصحبه أجمعين.

ختم شدہ

{ناشر:مکتب توعیۃ الجالیات الغاط: www.islamidawah.com }

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں