بسم اللہ الرحمن الرحیم
333:حديث نمبر
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
جائز غصہ اور ہمارے اخلاق
بتاریخ : 01/ ربیع الآخر 1439 ھ، م 19/، ڈسمبر 2017 م
ترجمہ : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ایک وسق [ ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے اور ایک صاع تقریبا ڈھائی کلو وزن کے برابر کا پیمانہ ہے ] عجوہ کھجور کے عوض ایک اعرابی سے ایک اونٹ یا کچھ اونٹ خریدے ،اسے لے کر آپﷺگھر تشریف لائے، جب گھر میں داخل ہوئے اور تلاش کیا تو کھجور نہ ملی ، باہر نکلے اور اس سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ اے اللہ کے بندے ! ہم نے تم سے ایک وسق کھجور کے عوض اونٹ خریدے تھے لیکن جب کھجور تلاش کیا تو موجود نہیں ہے [ اب تمہیں اختیار ہے یا تو اپنے اونٹ واپس لے لو یا پھر انتظار کرو جب میرے پاس کھجور آئے گی تو ادا کردوں گا ]،یہ سن کر اعرابی ناراض ہوا اور چیخنے لگا کہ : یہ دغا بازی ، اتنا بڑا دھوکہ [ہمارے ساتھ ہورہا ہے ] مائی عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ یہ سن کر لوگوں نے اسے جھڑکا اور کہنے لگے کہ اللہ تیرا برا کرے ،کیااللہ کے رسول ﷺ دھوکہ دیں گے ؟ یہ سن کر اللہ کے رسول ﷺ نے لوگوں سے فرمایا : اسے چھوڑ دو اس لئے کہ حقدار کو بولنے کا حق ہے ۔
اللہ کے رسول ﷺ اس کی طرف دوبارہ متوجہ ہوئے اور فرمایا : اے اللہ کے بندے ہم نے تم سے اونٹ خریدا اور ہم یہ سمجھتے تھے کہ ہمارے پاس وہ چیز موجود ہے جس کا ذکر کیا تھا ، لیکن جب تلاش کیا تو موجود نہیں ہے ، یہ سن کر پھر اعرابی نے چیخ لگائی اور کہا : یہ دغابازی دیکھو ، صحابہ اس کی طرف پھر بڑھے، اسے جھڑکا اور کہنے لگے ، تیرا برا ہو ، کیا اللہ کے رسول بھی دھوکہ دے سکتے ہیں ؟ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ سے فرمایا اسے چھوڑ دو، کیونکہ حقدار کو بات کرنے کا حق حاصل ہے ، رسول اللہ ﷺ نے دو یا تین بار ایسا ہی کیا لیکن جب یہ دیکھا کہ وہ سمجھ نہیں رہا ہے تو اپنے ایک صحابی سے فرمایا : خویلہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا کے پاس جاو اور کہو کہ رسول اللہ ﷺ کہہ رہے ہیں کہ اگر تمہارے پاس ایک وسق عجوہ کھجور ہو تو ہمیں دے دو ،ملنے پر میں اس کا بدل دے دوں گا ، چنانچہ وہ شخص حضرت خویلہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا کے پاس گیا اور واپس آکر نبی ﷺسے بتلایا کہ حضرت خویلہ بنت حکیم کہہ رہی ہیں کہ میرے پاس کھجور موجود ہے ، کسی کو بھیج دیں کہ آئے اور لے جائے ، چنانچہ نبی ﷺ نے اس شخص سے فرمایا اپنے ساتھ اسے حضرت خویلہ کے یہاں لے جاو اور اس کا حق پورا پورا دے دو ، چنانچہ اس کا حق مکمل طور پر دے دیا ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی ﷺ ابھی اپنے صحابہ کے درمیان تشریف فرما تھے کہ وہ اعرابی آتا ہے اور کہتا ہے ” جزاک اللہ خیرا” آپ نے ہمارا حق اس قدر مکمل طور پر ادا کردیا کہ میرا دل خوش کردیا ، یہ سن کر نبی ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن اللہ کے نیک بندے ایسے ہی ہوں گے جو لوگوں کا حق مکمل طور پر دیتے ہیں اوردل کی خوشی کے ساتھ دیتے ہیں ۔
{مسند احمد ، ج:6، ص:269- مسند البزار ، زوائدہ : 131 – مسند عبد بن حمید : 1499 } ۔
نبی کریم ﷺ کو اللہ تعالی نے حلم و وقار ، تواضع و انکساری اور عدل و انصاف کا پیکر بنایا تھا، آپ کی یہ صفت تھی کہ آپ کے ساتھ جس قدر جہالت کا برتاو کیا جائے آپ اتنا ہی حلم کا پیکر بن جاتے تھے ، آپ کو جس قدر زیادہ تنگ کیا جاتا آپاتنا ہی صبر کا مظاہرہ کرتے ، بلکہ ہر قسم کے حسن اخلاق سے آپ کو پورا پورا حصہ ملا تھا اور آپ ﷺ نے اپنی امت کواسی پر ابھارا ہے حتی کہ آپ نے یہاں تک فرمایا کہ قیامت کے دن بندے کے نامہ اعمال میں سب سے وزنی چیز حسن اخلاق ہوگی ۔ {مسند احمد} نیز فرمایا قیامت کے دن سب سے زیادہ قریب میرے وہ شخص ہوگا جس کا اخلاق اچھا ہو ۔ {سنن ترمذی }
مذکورہ قصہ نبی ﷺ کے حسن اخلاق کا بین ثبوت ہے ، اس قصے پر غور کریں تو ہمیں درج ذیل فائدے حاصل ہوتے ہیں :
- نبی ﷺ کی بشریت کا ثبوت چنانچہ آپ خرید و فروخت کرتے تھے اور سودا سلف کے لئے بازار آتے جاتے تھے۔ اور معلوم ہے کہ یہ تمام چیزیں بشریت کی خاصہ ہیں، اسی لئے تو کفار کو آپ کی نبوت میں شک تھا کہ بشر بازار آتے جاتے ۔ وَقَالُوا مَالِ هَذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعَامَ وَيَمْشِي فِي الْأَسْوَاقِ لَوْلَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مَلَكٌ فَيَكُونَ مَعَهُ نَذِيرًا (7)اور انہوں نے کہا کہ یہ کیسا رسول ہے کہ کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے ،اس کے پاس کوئی فرشتہ کیوں نہیں بھیجا جاتا کہ وہ بھی اس کے ساتھ ہو کر ڈرانے والا بن جائے
- رسول اللہ ﷺ عالم الغیب نہیں تھے، بلکہ غیب دانی صرف اللہ کا خاصہ ہے چنانچہ اسی قصے میں ہے کہ آپ یہ سمجھ رہے تھے کہ میرے گھر میں ایک وسق عجوہ کھجور موجود ہے ،حالانکہ موجود نہ تھی ۔
- قرض دیتے ہوئے اگر زیادہ واپس کرنے کی شرط نہیں تھی بلکہ بغیر کسی طلب اور شرط کے اگر کوئی شخص اپنے اوپر کے حق سے زیادہ دے دیتا ہے تو یہ جائز بلکہ مستحب ہے، ایک اور حدیث میں ایک واقعہ اس طرح مذکور ہے کہنبی ﷺ کےپاس ایک شخص قرض کی ادائگی کا تقاضا کرنے آیا اور اس سلسلے میں اس نے کچھ سخت لہجہ اختیارکیا، صحابہ کرام نے چاہا کہ اسے دبوچ لیں لیکن رسول اللہ ﷺ مے فرمایا:” ایسا مت کرو اسے نظر انداز کر دو کیونکہ حقدار کو اس انداز سے بات کرنے کا حق حاصل ہے ، پھر آپﷺ نے فرمایا: اس کو اس کے اونٹ جیسا اونٹ دے دو”، صحابہ نے عرض کیا اللہ کے رسول ہمارے یہاں اس کے اونٹ جیسا اونٹ نہیں البتہ اس سے بہتر درجے کا اونٹ موجود ہے، آہﷺ نے فرمایا: وہی دےدو، تم میں سے اچھے وہی لوگ ہیں جو واجبات خوبی کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔ صحیح البخاری بروایت ابو ہریرہ ۔
- نبی ﷺ کا حسن خلق اس قصے سے واضح ہے کہ آپ کس قدر حلیم تھے ، کس قد ر متواضع تھے اور کس قدر انصاف پسند تھے ۔
- اگر کسی کے اوپر کسی کا قرض ہے اور صاحب قرض طلب کرنے میں کچھ سختی سے پیش آتا ہے تو اس کی یہ سختی برداشت کرنی چاہئے ۔
- اگر کوئی تبلیغ کرنے والا کسی غلطی پر ٹوکتے ہوئے کبھی سخت بات کہہ دے یا سخت لہجہ استعمال کر لے تو اسے برداشت کرنا چاہئے کیونکہ”ان لصاحب الحق مقالا۔
- گھر میں اگر بیوی کسی بات پر کبھی سخت الفاظ استعمال کرے تو اسے برداشت کرنا چاہئے کیونکہ وہ گھر کے کاموں بچوں کی نگرانی وغیرہ کی وجہ سے پریشان رہتی ہے ۔
- اس میں مرد کی بات کی بھی قیاس کرنا چاہئے ۔