جمعہ کا قدم/حديث نمبر :27

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حديث نمبر :27

خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی حفظہ اللہ

بتاریخ :16/17/ربیع الاول 1429 ھ، م 25/24، مارچ 2008م

جمعہ کا قدم

عن أَوْسُ بْنُ أَوْسٍ الثَّقَفِىُّ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَقُولُ « مَنْ غَسَّلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَاغْتَسَلَ ثُمَّ بَكَّرَ وَابْتَكَرَ وَمَشَى وَلَمْ يَرْكَبْ وَدَنَا مِنَ الإِمَامِ فَاسْتَمَعَ وَلَمْ يَلْغُ كَانَ لَهُ بِكُلِّ خُطْوَةٍ عَمَلُ سَنَةٍ أَجْرُ صِيَامِهَا وَقِيَامِهَا ».

( أحمد ، ج : ٤ ، ص: ١٠ ، السن الأربعة / صحیح الترغیب ، ج : ١ ، ص: ٤٣٣ )

ترجمہ : حضرت أوس بن أبی أوس ثقفی رضی اللہ سے روایت ہے کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرمارہے تھے : جو شخص جمعہ کے دن غسل کرے اور سروغیرہ دھوکر اچھی طرح غسل کرے ، مسجد کی طرف جانے میں جلدی کرے اور خوب جلدی کرے ( صبح سویرے جائے ) پید ل چل کر جائے اور سوار نہ ہو ، امام کے قریب ہوکر بیٹھے ، اور امام کے خطبہ کو غور سے سنے اور دوران خطبہ کوئی لغو کام نہ کرے تو ہرہر قدم پر اسے سال بھر روزہ رکھنے اور قیام اللیل کرنے کا ثواب ملتا ہے ۔

( مسند أحمد اور سنن أربعہ )

تشریح : جمعہ کے دن کو اللہ تعالی نے بڑے فضائل سے نوازا ہے ، اسے تمام دنوں کا سردار قراردیا ہے ، حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش جمعہ کے دن ہے ، اسی دن انہیں جنت میں داخل کیا گیا اور اسی دن زمین پر بحیثیت خلیفہ بھیجا گیا ، قیامت جمعہ کے دن قائم ہوگی اور میدان حشر اور جنت میں جمعہ کے دن کی نرالی شان ہوگی ، نیز دنیا میں بھی اللہ تعالی نے اس دن کو بعض ایسی خصوصیات سے نوازا ہے جو کسی اور دن کو حاصل نہیں ہے ، اسے تمام دنوں سے افضل قرار دیا ہے ، اس دن کو مسلمانوں کیلئے عید کادن بنایا ہے، اس دن مسلمانوں پر جمعہ کی نماز کو فرض قرار دیاہے ، جمعہ کی نماز کی ادائیگی پر بہت بڑے اجر کا وعدہ اور جمعہ کی نماز چھوڑنے پر سخت عذاب کی دھمکی دی ہے ، زیر بحث حدیث میں جمعہ اوریوم جمعہ کی ایک بڑی فضیلت یہ بیان ہوئی ہے کہ جمعہ کیلئے جانے والوں کو ہر ہر قدم پرسال بھر روزہ رکھنے اور قیام کرنے کا ثواب ملتا ہے، لیکن اس اجر عظیم کے حصول کو زیر بحث حدیث میں کچھ شرطوں کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے :

(١) غسل کرنا : جمعہ کے دن غسل کو خاص اہمیت حاصل ہے حتی کہ بعض حدیثوں میں صراحت کے ساتھ غسل جمعہ کو واجب قراردیا گیا ہے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جمعہ کا غسل ہر بالغ پر واجب ہے

( بخاری ومسلم )

اس لئے چاہئے کہ جمعہ کے دن غسل کا خصوصی اہتمام کیا جائے ،عام دن کے غسل سے ہٹ کر اس دن صابون ، شیمپواور سرمہ وغیرہ کا خصوصی لحاظ رکھا جائے اور حتی الامکان صاف ستھرے کپڑے پہنے جائیں اور جو خوشبو میسر آئے استعمال کی جائے

( صحیح البخاری )

(٢) مسجد کی طرف جلدی سے جانا : ایک مؤمن بندہ کوچائیے کہ جمعہ کیلئے جمعہ کا وقت ہونے کا انتظار نہ کرے بلکہ جس قدر ممکن ہو جلدی جانے کی کوشش کرے حتی کہ بعض سلف کے بارے میں آتاہے کہ وہ فجر سے پہلے ہی جامع مسجد کیلئے روانہ ہوجاتے تھے ، لیکن افسوس کہ آج یہ سنت مردہ ہوتی جارہی ہے ۔

(٣) جمعہ کیلئے پیدل جانا : اس حدیث میں مذکوره فضیلت کے حصول کیلئے تیسری شرط یہ لگائی گئی ہے کہ جمعہ کیلئے جانے والا شخص جامع مسجد پیدل چل کر جائے سواری پر نہ سوار ہو ،ا لا یہ کہ جامع مسجد اس قدر دور ہوکہ وہاں پیدل پہنچنا مشکل ترین کام ہو یا جانے والا چلنے سے معذور ہو توایسا شخص اللہ تعالی کے نزدیک معذور سمجھا جائے گا اور اس حدیث میں مذکوراجر کا مستحق ہوگا ۔

(٤) امام کے قریب ہوکر بیٹھنا : یعنی مسجد میں پہنچ جائے تو کوشش رہے کہ امام کے قریب ترین جو جگہ بھی خالی ہے سنتوں سے فارغ ہوکر وہاں بیٹھ جائے ، لیکن اسکے لئے لوگوں کی گردنیں نہ پھلانگے ،کیونکہ جمعہ کے دن تاخیر سے آنا اور پھر لوگوں کی گردنیں پھلانگتے ہوئے آگے بیٹھنے کی کوشش کرنا ناجائز ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ایک شخص کو دیکھا توفرمایا : جہاں ہو وہیں بیٹھ جاؤ، ایک تو تم دیر سے آئے اور اب اس گردنیں پھلانگ کر طرح لوگوں کو تکلیف دے رہے ہو ۔

( سنن ابوداؤد ،سنن النسائی ، بروایت عبد اللہ بن بسر )

(٥) خطبہ کو غور سے سنے : خطبہ کا معنی حاضرین کو مخاطب کرنا ہے ، اس لئے جمعہ کیلئے حاضر شخص کا ایک ادب یہ بھی ہے کہ وہ خطبہ کو کان لگا کر سنے ، دوران خطبہ ادھر ادھر دیکھنا یا کسی اور چیز میں مشغو ل رہنا خطبہ کے آداب کے خلاف ہے، اس لئے اب اگر کوئی شخص جمعہ کیلئے تو آتا ہے لیکن کان لگا کر خطبہ نہیں سنتا بلکہ ادھر ادھر کے خیالات میں مگن رہتا ہے توایسا شخص اس اجر عظیم کا مستحق نہ ہوگا ۔

(٦) خطبہ کے دوران لغو کام نہ کرے : لغو کام سے مراد ہر وہ کام ہے جس سے معلوم ہو کہ یہ شخص خطیب کی طرف متوجہ نہیں ہے ، جیسے اپنے کپڑے ، بال اور مسجد کے فرش وغیرہ سے کھیلنا ، اپنے پڑوس میں بیٹھے شخص سے بات کرنا یا کوئی چیز پوچھنا ، حتی کہ کسی سے یہ کہنا بھی جائز نہیں ہے کہ "تم خاموش رہو” ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : دوران خطبہ جس نے اپنے بھائی سے کہا : خاموش رہو تو اس نے لغو کیا اور جس نے لغو کام کیا اسکا جمعہ نہیں ہوا ۔

( مسند احمد ، أبودائود ، بروایت علی )

اب ہر شخص یہ فیصلہ کرسکتا ہے کہ وہ اتنے عظیم اجر کا مستحق کب اور کس وقت ہوسکتا ہے ؟

ختم شدہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں