بسم اللہ الرحمن الرحیم
حج سے متعلق ایک سبق آموز واقعہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آج سے ہزار ہا سال قبل اللہ تعالی کے حضور یہ دعا کی تھی کہ ربنا انی اسکنت من ذریتی بواد غیرذی زرع عند بیتک المحرم ربنا لیقیمو الصلاۃ فاجعل افئدۃ من الناس تہوی الیہم ورزقھم من الثمرات لعلھم یشکرون {ابراہیم۳۷} پروردگار؟ میں نے ایک بے آب وگیاہ وادی میں اپنی اولاد کوتیرے محترم گھرکے پاس لابسایا ہے یہ میں نےاسلئے کیا ہے کہ یہ لوگ یہاں نمازقائم کریں ، لہذا تولوگوں کے دلوں کو انکا مشتاق بنااور انہیں کھانےکو پھل دے ، شاید کہ یہ شکرگزار بنیں ۔ ایک سچے مومن کے دل سے نکلی ہوئی اس دعا کو اللہ تعالی نے شرف قبولیت بخشا جسکا اثرآج ہر شخص دیکہ رہاہےکہ دنیا کےگوشےگوشے ، چپے چپے اور کونےکونےسےمسلمان اس گھرکارخ کررہے ہیں ؛ اورجو یہاں تک نہیں پہنچ پاتے وہ یہاں تک پہنچنےکیلئےکوشاں اورخواہش مند رہتے ہیں ۔ ایسےسچےایمان والےبھی آپکوملیں گےجویھاںتک پہنچنےاوراس گھرکوایک نظردیکھنے کیلئےاپنا سب کچہ قربان کردینا چاہتے ہیں ، ہمارے بزرگوں نےاسلسلےمیں عجیب وغریب مثالیں چھوڑی ہیں ۔ انہی میں سےایک مثال ذيل کا واقعہ بھی ہے// مغربی افریقہ کےآخری کنارے پرواقع ایک ملک ہےجسے جمہوریت جامبیا کہتے ہیں اسکا دارالحکومت بانجول ہے یہ سفرنامہ وہیں کےرہنے والےشیخ عثمان دابونامی ایک حاجی کا ہے ۔ آج سے تقریبا ستر{۷۰ }سال {قبل} اپنے دار الحکومت بانجول سے افریقہ کے براعظم کو مغرب سے مشرق تک طے کرتے ہوئے یہ پانچ ساتھی مکہ مکرمہ کیلئے روانہ ہوئے ۔ راستے میں زیادہ ترسفر پیدل طے کیا بہت معمولی مسافت ایسی ہو گی جو جانوروں پر سوار ہوکر طے کیا ہوگا ۔ یہاں تک کہ بحر احمر کے کنارے پہنچ کر وہاں سے کشتی پر سوار ہوۓ اور جدہ پہنچے ، حاجی عثمان کا بیان ہے کہ ہم لوگوں نے يہ مسافت دوسال سے زیادہ مدت میں طے کی ، اثنائے سفر کبھی کبھار کسی شہر میں رک کر زاد سفر کیلئے محنت ومزدوری بھی کرنی پڑی ، جب ضرورت بھر کا سامان حاصل ہو جا تا تو پھر سفر شروع کردیتے ، انکا یہ سفر اپنے اندر بہت سے عجیب واقعات اور درس وعبرت لئے ہوئے ہے ۔ یہ سفر کیوں ؟ اولا تو اس واقعہ کو پڑ ھنے والوں کے ذہن میں یہ سوال اٹہ سکتا ہے کہ آخر حج تو اسی شخص پر فرض ہے جسکے پاس زاد سفر اور دیگر خرچ کیلئے سامان موجود ہو ۔ ليکن ان ساتھيوں نے تنگ دستی کے باوجود اس قدر تکلیف وپریشانی کیوں برداشت کی ؟ پوچھنے پر حاجی عثمان نے {جو شایدآج مرحوم ہوچکے ہونگے} یہ جواب دیا کہ یہ بات سچ ہے لیکن ایک دن ہم اور ہمارے ساتھی آپس میں بیٹھکر حضرت ابراہیم خلیل علیہ الصلاۃ والسلام کا قصہ دہرارہئے تھے کہ وہ اپنے بیوی بچے کو لیکر بن کھیتی والی وادی میں اللہ کے محترم گھر کے پاس کسطرح پہنچے ۔ یہ سنکر ہمارے ایک ساتھی نے جذبات بھرے انداز میں کہا کہ ہم لوگ ابھی جوان ، صحت مند اور طاقت ور ہیں ،اگر اس گھر کی زیارت میں کوتاہی سے کام لیا تو اللہ تعالی کے نزدیک ہم کیا عذر پیش کریں گے خاص کر آنے والے ایام میں کمزوری کا ہی سامنا کر پڑے گا ، پھر تاخیر کیوں کریں ؟ چناچہ اس نے ہمارے جذبات کو بھڑکایا ، اور اللہ تعالی پر بھروسہ کرکے سفرپرابھارا ۔ سفر کی ابتدا: ہم پانچ آدمی گھرسے بیت اللہ کی زیارت کی غرض سے نکلے ، ہمارے ساتہ صرف اتنا توشہ تھا جوصرف ایک ہفتہ کیلئے کافی ہو سکتا تہا ، ہمارا اصل مقصد بیت اللہ کا حج اور حکم الہی کو پورا کرنا تھا ، راستے میں ہمیں ایسی پریشانی ، تنگی اور مصیبت کا سا منا کرنا پڑا کہ اسکا علم اللہ کے علاوہ کسی اور کو نہیں ہے ۔ کئی راتیں تو ہم اسقدر بھوک کی حالت میں گزارے کہ موت سامنے نظر آرہی تھی ، کتنی راتیں تو اس حال میں گزارے کہ درندوں کے خوف سے نید کیلئے پلک بھی نہ چھپکتی تھی اور کتنی راتیں ڈاکووں کے خوف سے اس طرح گزارنی پڑیں کہ خوف و ہراس ہر طرف سے ہمارے گرد گھیرا ڈالے ہوئے تھے۔ سفر کے بعض حادثات: {۱} شیخ عثمان بیان کرتے ہیں کہ دوران سفر ایک رات مجھے کسی زیریلے جانور نے ڈنگ ماردیاجسکی وجہ سے مجھے اسقدر تیز بخاراور سخت دردکا سامنا کرنا پڑا کہ نہ چلنا ممکن رہا اور نہ ہی سونا ، حتی کہ موت کے آثار میری رگوں میں دوڑنے لگے ۔ چنانچہ ہمیں ایک جگہ قیام کرنا پڑا ۔ قیام کے دوران ہمارے ساتھی مجھے چھوڑ کر کام پر چلے جاتے ، میں اکیلئے دن بھر ايک درخت کے نیچے لیٹا رہتا ایک دن تنھائی میں شیطان نے میرے دل میں یہ وسوسہ ڈالا کہ کیا تیرے لئے یہی بہتر نہ تھا کہ تواپنے گھر میں ہو تا ، تو اپنے آپ پر اتنا بوجہ کیوں ڈال رہا ہے جسکی تیرے پاس طاقت نہیں ہے ؟ کیا تجھے معلوم نہیں ہے کہ اللہ تعا لی نے حج صرف اسی شخص پر فرض کیا ہے جو صاحب استطاعت ہو ؟ وغیرہ چنانچہ ان خیالات سے متاثر ہوکر میرا نفس سست پڑنے لگا اور قريب تھا کہ میں اپنی ہمت کھو بیٹھتا ، میرے ساتھی شام کے وقت جب واپس ہوئے تو ان میں سے ایک نے میرے غمزدہ چہرے کی طرف دیکھا اور میری خیریت دریافت کی ، میں اسکی طرف متوجہ ہوا اور جلدی سے آنکھوں میں بھرے آنسوکو صاف کرلیا ، شاید اس نے میری داخلی کیفیت کو محسوس کرلیا ، چنانچہ اس نے مجہ سے کہا : اٹھو ، وضوکرو اور نماز پڑھو یقین رکھو کہ انشاءاللہ تمہیں خیر وبھلائی ہی حاصل ہوگی ، کیونکہ ارشاد باری تعالی ہے : واستعینوا بالصبری والصلاۃ وانھالکبیرۃالا علی الخاشعین ، الذین یظنون انہم ملاقواربہم وانہم الیہ راجعون { البقرۃ :٤٥/٤٦} ترجعہ : اور صبراور نماز کے ساتہ مدد طلب کرو يہ چيز شاق ہے ، مگرڈر رکھنے والوں پر ۔ جو جا نتے ہيں کہ بے شک وہ اپنے رب سے ملا قات کرنے والے اور يقينا وہ اسی کی طرف لوٹ کرجانے والے ہیں ۔ چنانچہ میں اٹھا وضوکیا اور نماز پڑھی جسکے بعد میرے دل کو اطمینان حاصل ہوا اور الحمد للہ وہ غم وحزن جو مجھے لاحق ہوا تھا جاتا رہا ۔ {۲} پانچ آدمیوں پر مشتمل اس قافلے کو شوق حرم دھکے دئے جارہاتھا جسکی وجہ سے سفر کی تھکان و پریشانی ہیچ معلوم ہوتی تھی ، راستے کی خطرناکی وسختی ایک معمولی سی چیز تھی ، حاجی عثمان کہتے ہیں کہ حرمین شریفین پہنچنے کے شوق میں چلتے چلتے اور تکلیفیں ومصیبتیں جھیلتے جھیلتے ہمارے تین ساتھی ہمارا ساتہ چھوڑ گئے اور اپنے رب کے محترم گھر تک پہنچنےسے پہلے ہی اس سے جا ملے ، ان میں تیسرے ساتھی کا انتقال سمندری سفر میں ہوا ، اسے جب یہ محسوس ہونے لگا کہ اب اسکی اجل قریب ہے تو اپنے دونوں ساتھیوں کو اس نے ایک عجیب وغریب وصیت کی ، اسنے کہا : جب مسجد حرام پہنچ جا نا تو اللہ تعالی سے عرض کردینا کہ میں اس سے ملاقات کا بڑا مشتاق تھا اور اللہ تعالی سے میرے لیئے یہ دعا کرنا کہ مجھے او رمیری والدہ کو جنت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نصیب فرمائے۔ قسمت کی خوبی دیکھئے ٹوٹی کہاں کمند ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوچارہاتہ جب کہ لب بام رہ گیا ، {3} شیخ عثمان بیان کرتے ہیں کہ جب میرا تیسرا ساتھی بھی ساتہ چھوڑ گیا تو مجھے سخت غم لاحق ہوا اور بڑی فکر دامن گیر ہوئی ، بلکہ یہ پریشانی میرے نزدیک راستے کی تمام پریشانیوں سے بڑی تھی کیونکہ وہ ہم میں سب سے زیادہ صبر والا اور طاقتورتھا ، اب مجھے یہ خوف لاحق ہوا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مسجد حرام پہنچنے سے قبل میری بھی موت واقع ہو جائے ، چنانچہ میں آنے والے دنوں اور گھنٹوں کا اسطرح شمار کررہاتھا گویا کہ میں چنگاریوں پر بیٹھا ہوا ہوں ۔ {٤} جب ہم باقی دوساتھی جدہ پہنچے تو میری طبیعت خراب ہو گئی اور اسقدر بگڑگئی کہ مجھے موت سامنے دکھائی دینے لگی ، اب مجھے یہ ڈرمحسوس ہوا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مکہ مکرمہ پہنچنے سے قبل میں بھی اس دنیا سے رخصت ہو جاوں ، چنانچہ میں نے اپنے ساتھی کو یہ وصیت کی کہ اگر میرا انتقال ہو جائے تو مجھےمیرے احرام ہی میں کفنانا اور جھاں تک ہوسکے مجھے مکہ مکرمہ کے قریب لے جاکر دفن کرنا ، شاید کہ اللہ تعالی مجھے بھی اپنے نیک بندوں میں داخل اور میرے اجر میں اضافہ کردے ۔ سفر کا خاتمہ : وعدۂ وصل چوں شود نزدیک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آتش شوق تیزمی گردد ۔ شیخ عثمان دابو بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ جدہ میں چند دن ٹھہرکر مکہ کے لئے روانہ ہوۓ ۔ ہماری نبض تیز چل رہی تھی ، چہرے سے خوشی کے آثار ظاہر تھے ، شوق و محبت ہمیں دھکے دے رہی تھی ، یہاں تک کہ ہم مسجد حرام پہنچ گئے ۔ قصہ بيان کر نے والے کہتے ہیں کہ یہ کہکر شیخ عثمان چند لمحے کیلئے خاموش ہو ئے ، انکی آواز بھرا گئی ، آنکھوں ميں آنسو آگئے اور کہنے لگے کہ اللہ کی قسم جس وقت ہماری نظر کعبہ مشرفہ پر پڑی ہے اس وقت ہمیں جو دلی سکون ، قلبی لذت اور خوشی حاصل ہوئی ہے وہ کبھی بھی حاصل نہیں ہوئی ، جیسے میری نظر کعبہ مشرفہ پر پڑی میں فورا اللہ تعالی کیلئے سجدہ میں گر گیا اور شدت جذبات میں پھوٹ پھوٹ کر اسطرح رونے لگا کہ جسطرح بچے روتے ہیں ،{چوآتاہےخوشی کی انتہاپر ۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت روئے تھے اس آنسو کی خاطر} پھر میں نے اپنے ان ساتھیوں کو یاد کیا جنہیں مسجد حرام تک پہنچنا نصیب نہ ہو سگا ۔ ہم نے اللہ تعا لی کی اس نعمت پر اسکا شکریہ اداکیا اور دعا کی کہ انکے اس سفر کو قبول فرمائے ۔ اجروثواب سے محروم نہ کرے ، انہیں اور ہمیں راستی اور عزت کی بیٹھک میں قدرت والے بادشاہ کے پاس جگہ دے ۔ { فی البناء الدعوی للشیخ احمد العویان ص١٤٦ ۔ ١٤٩ } فوائد وعبر: 1 / حضرت ابرہیم علیہ السلام کی دعا کی قبولیت’ {فاجعل أفئدۃ من الناس تہوي الیہم} پس تو کچہ لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کردے ، چناچہ آج کوئی مومن بندہ ايسا نہیں ہے جسکا دل خانہ کعبہ کی طرف مائل نہ ہواور وہاں حاضر ہونے کا شوق نہ رکھتا ہو۔ 2 / جولوگ حج کو دنیاوی ضرورت کا بہانہ کر کے مؤ خرکرتے رہتے ہیں انکیلئے درس وعبرت۔ من اراد الحج فلیتعجل فانہ قد یمرض المریض وتضل الضالۃ وتعرض الحاجۃ ، { ابن ماجہ 3883۔ احمد33 ٢١٤ عن ابن عباس } جوحج کرنا چا ہتا ہے وہ جلدی کرے کيونکہ ہوسکتا ہے کہ آدمی بيمار ہوجاۓ ، سواری گم ہوجاۓ يا کوئی ضرورت درپيش آجاۓ۔ 3 / حج تو فرض صاحب استطاعت پر ہے لیکن عدم استطاعت کے باوجود اگر کوئی شخص حج کرلیتا ہے اور اسکے حج کرنے سے کسی بڑی ذمہ داری پر فرق نہیں پڑتا تو اسکا حج صحیح اور قابل قدر ہے ، فأولئک کان سعیہم مشکورا{الاسراء١٩}پس يہی لوگ ہيں جن کی کوشش کی اللہ کے ہاں پوری قدر دانی کی جاۓ گی ۔ وسارعوا الی مغفرۃ من ربکم وجنۃ عرضہا السماوات والارض اعدت للمتقین{آل عمران ١٣٣} اور اپنے رب کی بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف دوڑو جس کا عرض آسمانوں اور زمين کے برابر ہے ، جوپرہيز گاروں کے ليے تيار کی گئی ہے ۔ ٤ / دین کے راستے میں تکلیفیں اور آزمائشیں آتی ہیں جن سے نپٹنا ہر مومن کا فرض ہے ۔ 5 / نفس اور شیطان مومن بندہ کو راہ حق سے روکنا اور بھٹکانا چاہتے ہیں ۔ ومن اضل ممن اتبع ہواہ بغیر ھدی من اللہ {القصص٥٠} اور اس سے بڑھ کر بہکا ہوا کون ہے؟ جواپنی خواہش کے پيچھےپڑا ہوا ہو بغير اللہ کی رہنمائی کے ۔ الشیطان یعد کم الفقر ویامرکم بالفحشاء واللہ یعد کم مغفرۃ منھ وفضلا { البقرۃ 2٦8} شيطان تمہيں فقيری سے دھمکا تا ہے اور بے حيائی کاحکم ديتا ہے ، اور اللہ تعالی تم سے اپنی بخشش اور فضل کا وعدہ کرتا ہے ۔ ٦ / نماز ایک مومن کیلئے مصائب میں بہترین معاون ہے ۔ کان اذاحزبہ امر صلی{ سنن ابوداود عن حذیفہ}جب کسی کام کی فکر لاحق ہوتی تو نمازکا سہارا ليتے ۔ واستعینوابالصبروالصلاۃ وانہالکبیرۃ الاعلی الخاشعین{البقرة ٤٥} اور صبر اور نماز کے ساتہ مدد طلب کرو يہ چيز شاق ہے ، مگر ڈر رکھنے والوں پر ۔ 7 / اچھے اور سچے ایمان والے ساتھیوں کی اہمیت کہ وہ مشکل وقت میں ساتہ دينے اور دین پر ثابت قدم رہنے کی تلقین کرتے ہیں ، وتواصوابالحق وتواصوابالصبر{العصر٣} اور{جنہوں نے} آپس ميں حق کی وصيت کی اور ايک دوسرے کو صبر کی نصيحت کی ۔ 8 / کسی چیز کی سچھی محبت اس راستے کی ہر مصیبت و پریشانی کو آسان بنادیتی ہے۔ 9 / ہمارے بزرگوں نے حج کیلئے کس قدر تکلیفیں پرداشت کیں لیکن آج ہر قسم کی سہولت فراہم ہونے کے باوجود ہم کس قدر کوتاہ ہیں ۔ 10 / کسی بھی نعمت کے حاصل ہونے پر سجدۂ شکر ۔ کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذاجاءہ امر سرورا او بشربہ خرساجدا شاکرا للہ تعالی ۔ { ابوداود، الترمذی عن ابی بکرۃ} جب اللہ کے رسول صلی اللہ عليہ وسلم کو کسی چيز کی خوشخبری دی جاتی تو اللہ تعالی کے شکريہ کے طور پر آپ فورا سجدے ميں گر پڑتے۔ |