حج میں تأخير كيوں/حديث نمبر : 56

حديث نمبر : 56

خلاصه درس : شيخ أبو كليم فيضي

بتاريخ :19/20 ذي القعدة 1429هـ 17/18 أكتوبر 2008م

حج میں تأخير كيوں

عن ابن عباس او الفضل بن عباس رضِی اللہ عنہ : قال قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم: من اراد الحج فلیتعجل فانہ قد تضل الضالۃ ویمرض المریض وتکون الحاجۃ

{ مسند احمد 217 / سنن ابن ماجہ: 2883 المناسک}

ترجمه: حضرت عبد اللہ بن عباس یا انکے بھائی فضل بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو حج کرنا چاہے اسے چاہئے کہ جلدی کرے کیونکہ نہ معلوم ہوسکتاہے کہ سواری غائب ہوجائے ، بیماری کا عارضہ یا کوئی اور ضرورت پیش آجائے سنن احمد ، سنن ابن ماجہ ۔

تشریح: ارشاد باری تعالی ہے {وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلاً وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ}

[آلِ عِمْرَانَ: 97 ] اور اللہ تعالی نے ان لوگوںپرجواسکی طرف راہ پاسکتے ہوں اس گھرکا حج فرض کردیا ہے ؛ اور جو کوئی کفرکرے تو اللہ تعالی {اس سے بلکہ }تمام دنیا سے بے پرواہ ہے،حج بیت اللہ اسلام کا ایک اہم رکن اور اللہ تعالی کا بندوں پر حق ہے،اور یہ صرف اس شخص پر زندگی میں ایک بار فرض ہے جواسکی استطاعت رکھتا ہو۔ استطاعت سے مراد یہ ہےکہ بیت اللہ شریف جانے اور واپس آنے کا خرچ اسکے پاس موجود ہو ، اس سفر میں اپنے گھر سے غیر موجود گی کے دوران اہل خانہ کا معمول کے مطابق خرچ دیکر جائے، نیز راستہ بھی پر امن ہو ، اگر کسی کے پاس حج کا اور اہل خانہ کا خرچ موجود ہے اور راستہ بھی پر امن ہے، جسمانی طور پر بھی وہ صحت مند ہے اور پھر بھی جان بوجہ کر حج کا ارادہ نھیں کرتا اوراس سے غافل رہتا ہے تو ایسے شخص کیلئےاسی آیت میں سخت وعید ہے ،اس شخص کا ایسا کرنا کفرہے ، بعض دوسری احادیث وآثار سے بھی اس وعید کی تایید ہوتی ہے۔

زیر بحث حدیث میں بھی اسی بات پر ابھارا گیا ہے کہ جس شخص کو حج کرنے کی استطاعت حاصل ہوجائے تو اسے اس فریضہ کی آدایگی میں تا خیر سے کام نھیں لینا چاہئے ، دنیاوی تمام ذمہ داریوں سے فارغ ہونے ،بچوں کے بڑے ہونے اورلڑکیوں کی شادی کرنے اور

نوکری سے پنشن لینے کابہانہ کرکے حج کو ٹالنا مناسب وجائز نہیں ہے کیونکہ بہت ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں مادے کی وہ فراوانی نہ رہ جائے جو آج ہے ، اسلئے کہ عمر کا حصہ جسقدر بڑھتا جاتا ہے مال کی ضرورت اور حرص اتنا ہی اضافھ ہوتا ہے، اور اگر مادہ کی فراوانی باقی بھی رہ جائے تو جسقدر عمربڑھتی جائے گی جسمانی قوت اسی قدر ساتہ چھوڑتی جا ئے گی جبکہ فریضہ حج دوسرے ارکان اسلام سے اس ناحیے سے مختلف ہے کہ اس میں صحت وطاقت کی بھی ضرورت پڑتی ہے،نیز حج کو تاخیر کرنے کا ایک نقصان یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آج تو اسے فرصت ہے لیکن کل مشغولیت بڑھ جائے، آج بچے کم ہیں اورچھوٹے ہیں اسلئے ذمہ داریاں تھوڑی ہیں کل جب بچے بڑے ہو جائیں گے ان سے متعلق ذمہ داریاں بڑھ جائیں گی تو مشغولیت میں اضافہ ہوجائے گا۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اپنی طبعی عمرکو پہنچنےسے پہلے ہی انسان پر موت کا حملہ ہوجائے اور یہ فریضہ جس پر دین کی تکمیل کا انحصار ہے وہ اسکے ذمہ باقی رہ جائے اور اللہ رب العالمین کے نزدیک پیش کرنے کے لیئےکوئی عذر باقی نہ رھے گا ۔اسلئے ضروری ہے کہ حج کی ادائیگی میں تاخیر سے کام نہ لیا جائے ۔ اور ھمیشہ درج ذیل حدیث نبوی کو سامنے رکھا جائے

دین کے آٹہ حصے ہیں اسلام ایک حصہ ہے ۔ نماز ایک حصہ ہے ۔ زکاۃ ایک حصہ ہے ۔ روزہ ایک حصہ ہے ۔ بیت اللہ کا حج ایک حصہ ہے ۔ امر بالمعروف ایک حصہ ہے ۔ نہی عن المنکر ایک حصہ ہے ۔ جھاد فی سبیل اللہ ایک حصہ ہے ۔ اور وہ شخص بڑے خسارے میں ہےجسکا{اس میں سے } کوئی حصہ نہیں ہے ۔ مسند البزار {صیح الترغیب والترھیب 1/457} بروایت حذیفہ

فوائد:

1 : حج کی ادایگی میں جلدی کرنی چاہئے کیونکہ راجح قول کے مطابق حج فوری طور پر فرض ہے ۔

2 : انسان ہروقت مختلف قسم کے خطرات سے کھرا ہوا ہے ۔ اسے نہیں معلوم کہ کب کس خطرے کا حملہ ہوجائے

3 : ہر نیک عمل پہلی فرصت میں انجام دے لینا چاھئے ۔

ختم شدہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں